از افاضاتِ خلفائے احمدیتسیرت خلفائے کرام

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی کوشش اور قربانی کا ایک نظارہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی روشنی میں نظام خلافت کو بچانےکے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی کوشش اور قربانی کا ایک نظارہ

غیر مبائعین نے نظام خلافت کو ختم کرنے کے لئے بعد میں بھی بڑی فتنہ پردازیاں جاری رکھیں۔ لیکن ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ خلافت کے نظام کو جاری رکھنے کا تھا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’نظام خلافت کا دینی ترقی کے ساتھ ایک اہم تعلق ہے اور شریعت اسلامیہ کا یہ ایک اہم حصہ ہے۔ دینی ترقی بغیر خلافت کے ہو ہی نہیں سکتی۔ جماعت کی وحدت خلافت کے بغیر قائم رہ ہی نہیں سکتی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے ہر ایک جو خلافت سے وابستہ ہے اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ خلافت کا جماعت میں جاری رہنا ایمان کا حصہ ہے اور اس بات کو وہ لوگ بھی جانتے تھے جو جماعت میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر فتنہ اٹھانے والوں کی باتوں کو رد کر کے خلافت سے وابستہ رہنا چاہتے تھے۔ ان کو پتا تھا کہ ہمارا ایمان قائم رہ ہی نہیں سکتا اگر ہم میں نظام خلافت نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان لوگوں کی قربانیوں کی وجہ سے ان لوگوں کے ایمان میں پختگی کی وجہ سے آج ہم میں سے بہت سے جو اُن بزرگوں کی نسلوں میں سے ہیں نظام خلافت کے فیض سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ کوشش اور قربانی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ پر الزام لگانے والوں نے بڑے بڑے الزام لگائے لیکن جو آپ کے دل کی کیفیت نظام خلافت کو بچانے کے لئے تھی اس کی ایک جھلک مَیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے الفاظ میں ہی آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے اور فتنوں سے بچنے کے لئے ہمیں تاریخ پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ اسی طرح ایمان میں مضبوطی کے لئے بھی یہ ضروری ہے۔ یہ مضبوطی کا ذریعہ بنتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے وفات پائی تھی یعنی اس گھر میں جس گھر میں اس کے ایک کمرے میں مَیں نے مولوی محمد علی صاحب کو بلا کر کہا کہ خلافت کے متعلق کوئی جھگڑا پیش نہ کریں کہ ہونی چاہئے یا نہ ہونی چاہئے اور اپنے خیالات کو صرف اس حد تک محدود رکھیں کہ ایسا خلیفہ منتخب ہو جس کے ہاتھ میں جماعت کے مفاد محفوظ ہوں اور جو اسلام کی ترقی کی کوشش کر سکے۔ چونکہ صلح ایسے ہی امور میں ہو سکتی ہے جن میں قربانی ممکن ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مولوی صاحب سے کہا جہاں تک ذاتیات کا سوال ہے میں اپنے جذبات کو آپ کی خاطر قربان کر سکتا ہوں لیکن اگر اصول کا سوال آیا تو مجبوری ہو گی کیونکہ اصول کا ترک کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان یہی فرق ہے کہ ہم خلافت کو ایک مذہبی مسئلہ سمجھتے ہیں اور خلافت کے وجود کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ مگر آپ خلافت کے وجود کو ناجائز قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ابھی ابھی ایک خلیفہ کی بیعت سے آپ کو آزادی ملی ہے۔ یعنی مراد تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیعت تو آپ لوگوں نے کی تھی اور اب ان کی وفات ہوئی ہے۔ آپ کو اس سے آزادی ملی ہے یعنی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے بعد اب آپ کہتے ہیں کہ ہمیں خلافت نہیں چاہئے اور ہم خلافت سے آزاد ہو گئے۔ حضرت مصلح موعوؓدنے انہیں کہا کہ چھ سال تک آپ نے بیعت کئے رکھی اور جو چیز چھ سال تک جائز تھی وہ آئندہ بھی حرام نہیں ہو سکتی اور وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ کا حکم ہو وہ تو بالکل بھی نہیں ہو سکتی۔ آپ کی اور ہماری پوزیشن میں یہ ایک فرق ہے کہ آپ اگر اپنی بات کو چھوڑ دیں تو آپ کو وہی چیز اختیار کرنی پڑے گی جسے آپ نے اب تک اختیار کئے رکھا۔ یعنی خلیفۃ المسیح الاول کی بیعت کئے رکھی۔ لیکن ہم اگر اپنی بات چھوڑیں تو وہ چھوڑنی پڑے گی جسے چھوڑنا ہمارے عقیدہ اور مذہب کے خلاف ہے اور جس کے خلاف ہم نے کبھی عمل نہیں کیا۔ پس انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ آپ وہ راہ اختیار کر لیں جو آپ نے آج تک اختیار کئے رکھی تھی اور ہمیں ہمارے مذہب اور اصول کے خلاف مجبور نہ کریں۔ باقی رہا یہ سوال کہ جماعت کی ترقی اور اسلام کے قیام کے لئے کون مفید ہو سکتا ہے سو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ جس شخص پر آپ متفق ہوں گے اسے ہم خلیفہ مان لیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی اکثریت یہ چاہتی تھی کہ نظام خلافت قائم ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واضح ارشاد جماعت کے سامنے تھا۔ جب یہ میٹنگ زیادہ لمبی ہو گئی۔ مولوی محمد علی صاحب ضد کرتے چلے گئے تو لوگوں نے دروازے پیٹنے شروع کر دیئے اور شور مچایا کہ جلدی فیصلہ کریں اور ہماری بیعت لیں۔ بہرحال حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو میں نے کہا کہ آپ کے خدشات میں نے دُور کر دئیے ہیں اس لئے آپ کے سامنے اب یہ سوال ہونا چاہئے کہ خلیفہ کون ہو۔ یہ نہیں کہ خلیفہ ہونا نہیں چاہئے۔ اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ میں جانتا ہوں اس لئے آپ زور دے رہے ہیں کہ آپ کو پتا ہے کہ خلیفہ کون ہوگا۔ حضرت مصلح موعوؓدنے کہا لیکن میں نے ان سے کہا کہ مجھے تو نہیں پتا کہ کون ہو گا۔ خلیفہ ثانی نے فرمایا کہ میں اس کی بیعت کر لوں گا جسے آپ یعنی مولوی محمد علی صاحب چنیں گے جب میں آپ کے منتخب کردہ کی بیعت کر لوں گا تو پھر کیونکہ خلافت کے مؤید یعنی خلافت کی تائید کرنے والے میری بات مانتے ہیں مخالفت کا خدشہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ لیکن مولوی صاحب نے نہ ماننا تھا نہ مانے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ جو بدظنیاں کرتے رہتے ہیں میرے پہ۔ میں اپنا دل چیر کر آپ کو کس طرح دکھاؤں۔ میں تو جو قربانی میرے امکان میں ہے کرنے کو تیار ہوں اور پھر تھوڑی دیر بعد جب یہ دروازہ کھولا گیا باہر نکلے تو مولوی محمد احسن امروہی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام پیش کیا اور جماعت نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ بیعت لیں۔ آپ نے بڑا کہا کہ مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یادنہیں۔ مولوی سرور شاہ صاحب نے غالباً کہا کہ میں پڑھتا جاتا ہوں اور یوں اس دوسری قدرت کے قائم ہونے میں یہ جو فتنہ پردازوں نے فتنہ ڈالنے کی کوشش کی تھی اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو پورا کرتے ہوئے ناکام و نامراد کر دیا اور خلافت علی منہاج نبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد دوسری مرتبہ پھر قائم فرما دی۔ اور جو خلافت سے دور ہٹے ہوئے تھے وہ بڑے دینی عالم بھی تھے، دنیاوی عالم بھی تھے، پڑھے لکھے بھی تھے، تجربہ کار بھی تھے، صاحب ثروت و حیثیت بھی تھے، انجمن کے تمام خزانے کو بھی اپنے قبضے میں کئے ہوئے تھے لیکن وہ لوگ ناکام و نامراد ہی ہو تے گئے۔ مولوی صاحب خلافت ثانیہ کے انتخاب کے بعدنہ صرف وہاں سے، قادیان سے چلے گئے بلکہ ان غیر مبائعین نے نظام خلافت کو ختم کرنے کے لئے بعد میں بھی بڑی فتنہ پردازیاں جاری رکھیں۔ لیکن ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ خلافت کے نظام کو جاری رکھنے کا تھا۔ جب یہ لوگ ہر طرح سے ناکام ہو کر قادیان چھوڑ کر جا رہے تھے اور خزانہ بھی بالکل خالی کر گئے تھے۔ جاتے ہوئے تعلیم الاسلام سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہے تھے کہ دس سال نہیں گزریں گے کہ ان عمارتوں پر آریوں اور عیسائیوں کا قبضہ ہو گا۔(ماخوذ ازخطبات محمود جلد18صفحہ72تا75)

لیکن دیکھیں اللہ تعالیٰ کس شان سے اپنے وعدے پورے فرماتا ہے۔ کس طرح اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کرتا ہے۔ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دی گئی خوشخبری کو نہ صرف پورا فرماتا ہے بلکہ آج تک ہر روز ایک نئی شان سے پورا فرماتا چلا جا رہا ہے۔ وہ دس سال کی بات کرتے تھے کہ اس سے پہلے ہی آریہ اور عیسائی یہاں قبضہ کر لیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے کاموں کی اپنی شان ہے۔ وہ دس سال بھی گزر گئے اور اس کے بعد بھی کئی دہائیاں گزر گئیں اور آج اس بات کو 101سال ہو گئے ہیں لیکن نہ صرف انتہائی نامساعد حالات کے باوجود قادیان ترقی کر رہا ہے جس میں پارٹیشن کا واقعہ بھی شامل ہے جب جماعت کو وہاں سے نکلنا پڑا اور صرف چند سو درویشوں کو وہاں درویشی کی زندگی گزارنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ اور اب تو قادیان میں نئی سے نئی جدید عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ ایک سکول پر قبضہ کرنے کی بات کرتے تھے۔ کئی کروڑ روپے کی لاگت سے نئے سکول بن رہے ہیں۔ تبلیغ کے کام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں بہت وسعت اختیار کر چکے ہیں اور پھر قادیان ہی نہیں دنیا کے بہت سے ممالک میں خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ جماعت کی کئی کئی منزلہ عمارتیں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ثبوت دے رہی ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب کے افراد تک اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچ رہی ہے۔ پس یہ تائید ہے اللہ تعالیٰ کی خلافت احمدیہ کے ساتھ جس کے نظارے ہم روز دیکھ رہے ہیں۔ …

جو خلافت سے علیحدہ ہوئے ان کا مرکزی نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔ ان کے نیک فطرت اس وقت بھی جب ان کو احساس ہوا اور آج بھی جب ان کو یا ان کی نسلوں کو احساس ہوتا ہے تو ان میں سے بھی جماعت احمدیہ مبائعین میں شامل ہو رہے ہیں اور خلافت کے جھنڈے تلے آ رہے ہیں۔

پھر آج دنیا میں تبلیغ اسلام کا کام خلافت احمدیہ کے نظام کے تحت ہی ہو رہا ہے۔ جب دنیا میں اسلام کا نام بدنام کیا جا رہا ہے تواسلام کی خوبصورت تصویر جماعت احمدیہ ہی دکھا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ خود بھی خلافت احمدیہ کی سچائی دنیا پر ثابت کر رہا ہے۔ بعض واقعات حیرت انگیز ہوتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو جماعت کی سچائی کے ساتھ خلافت کے ساتھ اپنی تائید و نصرت کے بارے میں بھی بتاتا ہے۔ صرف جماعت احمدیہ کی سچائی ہی نہیں بلکہ خلافت کے ساتھ بھی جو تائید و نصرت اللہ تعالیٰ دکھا رہا ہے وہ بھی غیروں کو دکھاتا ہے اور یوں سعید فطرتوں کے سینے کھولتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی2015ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل19؍جون2015ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button