متفرق مضامین

رسالہ سبز اشتہار اور ’مُوَسْوِسِین پیشگوئی مصلح موعود‘ کو انتباہی پیغام

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

’’پس اس صورت میں خوش قسمت انسان وہ ہے کہ جو اپنے تئیں بصدق و صفا اِس ربّانی کارخانے کے حوالہ کر کے آسمانی فیوض سے اپنے نفس کو متمتع کرے اورنہایت بد قسمت وہ شخص ہے کہ جو اپنے تئیں ان انوار و برکات کے حصول سے لاپروا رکھ کر بے بنیاد نکتہ چینیاں اور جاہلانہ رائے ظاہر کرنا اپنا شیوہ کر لیوے۔‘‘

صاحبزادہ بشیر اوّل کی وفات (4؍نومبر 1888ء) پر ایک طرف مخالفین کی طرف سے پیشگوئی مصلح موعود کے متعلق ایک ہنگامہ برپا کیا گیا اور سخت طنز و استہزا اور سخت کلامی سے پیش گوئی کے متعلق غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف بعض نے ناصحانہ طور پر ایسی پیشگوئی کی اشاعت نہ کرنے کا مشورہ دیا ۔ان باتوں کا جواب دیتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مختصر رسالہ تصنیف فرمایا جس کا اصل نام ’’حقّانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر‘‘ ہے۔ چونکہ اس رسالہ کے کاغذ کا رنگ سبز تھا اس وجہ سے یہ رسالہ ’’سبز اشتہار‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ یہ رسالہ یکم دسمبر 1888ء کو ریاض ہند پریس امرتسر سے شائع ہوا۔ حضور علیہ السلام اس رسالے کی وجہ تصنیف بیان کرتے ہوئے خود فرماتے ہیں: ’’واضح ہو کہ اس عاجز کے لڑکے بشیر احمد کی وفات سے جو …. عجیب طور کا شور و غوغا خام خیال لوگوں میں اٹھا اور رنگا رنگ کی باتیں خویشوں وغیرہ نے کیں …. جب یہ شور و غوغا انتہا کو پہنچ گیا اور کچے اور ابلہ مزاج مسلمانوں کے دلوں پر بھی اس کا مضر اثر پڑتا ہوا نظر آیا تو ہم نے محض للہ یہ تقریر شائع کرنا مناسب سمجھا۔‘‘ (سبز اشتہار،روحانی خزائن جلد2صفحہ 447)

اس مختصر رسالے میں جہاں اُس زمانے میں پیشگوئی مصلح موعود کے متعلق پروپیگنڈا کرنے والوں کے لیے مخلصانہ پیغام ہے وہاں آئندہ کے لیے بھی اس پیشگوئی کے متعلق وسوسہ پیدا کرنے والوں کے لیے سبق ہے۔ اس رسالے کے بعض اقتباسات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔ یہ رسالہ روحانی خزائن کی جلد نمبر 2 میں شامل ہے اور اُسی جلد کے لحاظ سے حوالے دیے گئے ہیں۔

’’ابتلاء…اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچاوے‘‘

’’ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلّت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کرکے اُن کو دکھاتا ہے یہ ابتلاء اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحۂ عالم سے ان کا نام و نشان مٹا دیوے کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزوجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنےسچے اور وفادار عاشقوں کو ذلّت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے بلکہ حقیقت میں وہ ابتلاء کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچادے۔ اور الٰہی معارف کے باریک دقیقے اُن کو سکھادے۔یہی سنت اللہ ہے۔ جو قدیم سے خدائے تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے زبور میں حضرت داؤد کی ابتلائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تضرّعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قُدرت کی تصریح کرتے ہیں اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء اُن مدارج عالیہ کو ہرگزنہ پا سکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے اُنہوں نے پالئے۔ ابتلاء نے اُن کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں اور کیسے سچّے وفادار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے اُن پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکّاروں اور بے عزّتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربّانی مددوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک منہ چھپالیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربیانہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت مورد غضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا وہ اُن پر ذرا مہربان نہیں بلکہ اُن کے دشمنوں پر مہربان ہے اور اُن کے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طول کھینچ گیا ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلاء نازل ہوا غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدّت و سختی سے نازل ہوتی ہے ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں اُن پر ہوئیں پر وہ اپنے پکے اور مضبوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سُست اور دل شکستہ نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا بار اُن پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا اور جس قدر وہ توڑے گئے اُسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر اُنہیں مشکلات راہ کا خوف دلایا گیا اُسی قدر اُن کی ہمت بلند اور ان کی شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی بالآخر وہ ان تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہوکر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہوگئے اور عزّت اور حُرمت کا تاج اُن کے سر پر رکھا گیااور تمام اعتراضات نادانوں کے ایسے حباب کی طرح معدوم ہوگئے کہ گویا وہ کچھ بھی نہیں تھے…‘‘(صفحہ 457تا 460)

’’اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ لوگ ہم سے اتفاق رکھتے ہیں یا نفاق …‘‘

’’بالآخر یہ بھی اس جگہ واضح رہے کہ ہمارا اپنے کام کے لئے تمام و کمال بھروسہ اپنے مولیٰ کریم پر ہے، اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ لوگ ہم سے اتفاق رکھتے ہیں یا نفاق اور ہمارے دعویٰ کو قبول کرتے ہیں یا ردّ اور ہمیں تحسین کرتے ہیں یا نفرین بلکہ ہم سب سے اعراض کر کے اور غیر اللہ کو مردہ کی طرح سمجھ کر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں گو بعض ہم میں سے اور ہماری ہی قوم میں سے ایسے بھی ہیں کہ وہ ہمارے اس طریق کو نظر تحقیر سے دیکھتے ہیں مگر ہم ان کو معذور رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جو ہم پر ظاہر کیا گیا ہے وہ اُن پر ظاہر نہیں اور جو ہمیں پیاس لگا دی گئی ہے وہ انہیں نہیں۔ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰی شَاكِلَتِهٖ۔‘‘

(بنی اسرائیل:85) (صفحہ 464)

’’ابتلاء …ربّانی سپاہیوں کی ایک روحانی وردی ہے‘‘

’’عوام کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ جلّ شانہٗ جس پودے کو اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے اُس کی شاخ تراشی اس غرض سے نہیں کرتا کہ اس کو نابود کردیوے بلکہ اِس غرض سے کرتا ہے کہ تا وہ پودا پھول اور پھل زیادہ لاوے اور اُس کے برگ اور بار میں برکت ہو۔ پس خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء اور اولیاء کی تربیت باطنی اور تکمیل روحانی کے لئے ابتلاء کا ان پر وارد ہونا ضروریات سے ہے اور ابتلاء اس قوم کے لئے ایسا لازم حال ہے کہ گویا ان ربّانی سپاہیوں کی ایک روحانی وردی ہے جس سے یہ شناخت کئے جاتے ہیں اور جس شخص کو اس سنت کے برخلاف کوئی کامیابی ہو وہ استدراج ہے نہ کامیابی۔‘‘ (صفحہ 460)

’’خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ اِس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آجائیں‘‘

’’خدا تعالیٰ کی انزال رحمت اور روحانی برکت کے بخشنے کے لئے بڑے عظیم الشان دو طریقے ہیں۔

(۱) اول یہ کہ کوئی مصیبت اور غم و اندوہ نازل کرکے صبر کرنے والوں پر بخشش اور رحمت کے دروازے کھولے جیسا کہ

اُس نے خود فرمایا ہے وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ۔ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَرَحۡمَۃٌ ۟ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ۔(البقرۃ:156تا158) یعنی ہمارا یہی قانون قُدرت ہے کہ ہم مومنوں پر طرح طرح کی مصیبتیں ڈالا کرتے ہیں اور صبر کرنے والوں پر ہماری رحمت نازل ہوتی ہے اور کامیابی کی راہیں انہیں پر کھولی جاتی ہیں جو صبر کرتے ہیں۔

(۲) دوسرا طریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و نبیّین وائمہ و اولیاء و خلفاء ہے۔ تا اُن کی اقتداء و ہدایت سے لوگ راہ راست پر آجائیں اور اُن کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا کر نجات پاجائیں سو خدا ئے تعالیٰ نے چاہا کہ اِس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آجائیں۔ پس اول اُس نے قسم اول کے انزال رحمت کے لئے بشیر کو بھیجا تا بَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ کا سامان مومنوں کے لئے طیار کرکے اپنی بشیریت کا مفہوم پورا کرے …اور دوسری قسم رحمت کی جو ابھی ہم نے بیان کی ہے اس کی تکمیل کے لئے خدا تعالیٰ دوسرا بشیر بھیجے گا جیسا کہ بشیر اول کی موت سے پہلے ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں اس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا۔ یخلق اللّٰہ ما یشاء اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کی پیش گوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے پہلے بشیر کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو روحانی طور پر نزول رحمت کا موجب ہوا اور اِس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیر کی نسبت ہے۔‘‘ (صفحہ461تا463حاشیہ)

’’جس شخص کو کسی ولی کے وجود پر مشاہدہ کے طور پر معرفت حاصل نہیں اُس کی نظر نبی کی معرفت سے بھی قاصر ہے‘‘

’’سو اے سچائی کے ساتھ بجان و دل پیار کرنے والو! اور صداقت کے بھوکو اور پیاسو! یقیناً سمجھو کہ ایمان کو اس آشوب خانہ سے سلامت لے جانے کےلئے ولایت اور اس کے لوازم کا یقین نہایت ضروریات سے ہے۔ ولایت نبوّت کے اعتقاد کی پناہ ہے اور نبوت اقرار وجود باری تعالیٰ کےلئے پناہ۔ پس اولیاء انبیاء کے وجود کےلئے سیخوں کی مانند ہیں اور انبیاء خدا تعالیٰ کا وجود قائم کرنے کےلئے نہایت مستحکم کِیلوں کے مشابہ ہیں سو جس شخص کو کسی ولی کے وجود پر مشاہدہ کے طور پر معرفت حاصل نہیں اُس کی نظر نبی کی معرفت سے بھی قاصر ہے اور جس کو نبی کی کامل معرفت نہیں وہ خدائے تعالیٰ کی کامل معرفت سے بھی بے بہرہ ہے اور ایک دن ضرور ٹھوکر کھائے گا اور سخت ٹھوکر کھائے گا اور مجرد دلائل عقلیہ اور علوم رسمیہ کسی کام نہیں آئیںگی۔‘‘ (صفحہ461)

’’اگر یہی حالت رہی تو ان کا نبوّت پر ایمان قائم رہنا بھی کچھ معرض خطر میں ہی نظر آتا ہے‘‘

’’اس محل میں یہ بھی لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ مجھے بعض اہلِ علم احباب کی ناصحانہ تحریروں سے معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی اس عاجز کی یہ کارروائی پسند نہیں کرتے کہ برکات روحانیہ و آیات سماویہ کے سلسلہ کو جو بذریعہ قبولیت ادعیہ و الہامات و مکاشفات تکمیل پذیر ہوتا ہے لوگوں پر ظاہر کیا جائے۔ بعض کی ان میں سے اس بارہ میں یہ بحث ہے۔ کہ یہ باتیں ظنّی و شکّی ہیں اور ان کے ضرر کی امید ان کے فائدہ سے زیادہ تر ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حقیقت میں یہ باتیں تمام بنی آدم میں مُشترک و متساوی ہیں۔ شاید کسی قدر ادنیٰ کم و بیشی ہو بلکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قریباً یکساں ہی ہیں۔ ان کا یہ بھی بیان ہے کہ ان امور میں مذہب اور اتّقا اور تعلق باللہ کو کچھ دخل نہیں بلکہ یہ فطرتی خواص ہیں جو انسان کی فطرت کو لگے ہوئے ہیں اور ہریک بشر سے مومن ہو یا کافر صالح ہو یا فاسق کچھ تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ صادر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ تو اُن کی قیل و قال ہے جس سے ان کی موٹی سمجھ اور سطحی خیالات اور مبلغ علم کا اندازہ ہوسکتا ہے مگر فراست صحیحہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غفلت اور حُبِ دُنیا کا کیڑا ان کی ایمانی فراست کو بالکل کھا گیا ہے اُن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جیسے مجذوم کا جذام انتہا کے درجہ تک پہنچ کر سقوط اعضاء تک نوبت پہنچاتا ہے اور ہاتھوں پیروں کا گلنا سڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی ان کے روحانی اعضاء جو روحانی قوّتوں سے مراد ہیں بباعث غلو محبّت دنیا کے گلنے سڑنے شروع ہوگئے ہیں اور اُن کا شیوہ فقط ہنسی اور ٹھٹھا اور بدظنّی اور بدگمانی ہے دینی معارف اور حقائق پر غور کرنے سے بکلّی آزادی ہے بلکہ یہ لوگ حقیقت اور معرفت سے کچھ سروکار نہیں رکھتے اور کبھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے کہ ہم دُنیا میں کیوں آئے اور ہمارا اصلی کمال کیا ہے بلکہ جیفہ دُنیا میں دن رات غرق ہورہے ہیں ان میں یہ حس ہی باقی نہیں رہی کہ اپنی حالت کو ٹٹولیں کہ وہ کیسی سچائی کے طریق سے گری ہوئی ہے اور بڑی بدقسمتی ان کی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی اس نہایت خطرناک بیماری کو پوری پوری صحت خیال کرتے ہیں اور جو حقیقی صحت و تندرستی ہے اس کو بہ نظر توہین و استخفاف دیکھتے ہیں اور کمالات ولایت اور قرب الٰہی کی عظمت بالکل ان کے دلوں پر سے اُٹھ گئی ہے اور نومیدی اور حرمان کی سی صورت پیدا ہوگئی ہے بلکہ اگر یہی حالت رہی تو ان کا نبوّت پر ایمان قائم رہنا بھی کچھ معرض خطر میں ہی نظر آتا ہے۔‘‘ (صفحہ464تا465)

’’مَیں ایسے لوگوں کو محض للہ متنبہ کرتا ہوں‘‘

’’پس اس صورت میں خوش قسمت انسان وہ ہے کہ جو اپنے تئیں بصدق و صفا اِس ربّانی کارخانے کے حوالہ کر کے آسمانی فیوض سے اپنے نفس کو متمتع کرے اور نہایت بد قسمت وہ شخص ہے کہ جو اپنے تئیں ان انوار و برکات کے حصول سے لاپروا رکھ کر بے بنیاد نکتہ چینیاں اور جاہلانہ رائے ظاہر کرنا اپنا شیوہ کر لیوے۔ میں ایسے لوگوں کو محض للہ متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ایسے خیالات کو دل میں جگہ دینے سے حق اور حق بینی سے بہت دور جا پڑے ہیں۔‘‘ (صفحہ 467)

’’علماء کو اسلام کی فتح صوری کی طرف تو

ضرور خیال ہے مگر…‘‘

’’میں خوب جانتا ہوں کہ آج کل کے عقلی خیالات کے پُرزور بخارات نے ہمارے علماء کے دلوں کو بھی کسی قدر دبا لیا ہے کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ انہیں خیالات پر زور دے رہے ہیں اور تکمیل دین و ایمان کے لئے انہیں کو کافی وافی خیال کرتے ہیں اور ناجائز اور ناگوار پیرائیوں میں روحانی برکات کی تحقیر کررہے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تحقیر تکلف سے نہیں کرتے بلکہ فی الواقع اُن کے دلوں میں ایسا ہی جم گیا ہے اور اُن کی فطرتی کمزوری اس زلزلہ کو قبول کر گئی ہے کیونکہ اُن کے اندر حقانی روشنی کی چمک نہایت ہی کم اور خشک لفاظی بہت سی بھری ہوئی ہے اور اپنی رائے کو اِس قدر صائب خیال کرتے اور اس کی تائید میں زور دیتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو روشنی حاصل کرنے والوں کو بھی اُس تاریکی کی طرف کھینچ لاویں۔ ان علماء کو اسلام کی فتح صوری کی طرف تو ضرور خیال ہے مگر جن باتوں میں اسلام کی فتح حقیقی ہے ان سے بے خبر ہیں۔

…میں یقین رکھتا ہوں کہ اِس فتح کے دن نزدیک ہیں خدا تعالیٰ اپنی طرف سے یہ روشنی پیدا کرے گا ۔اور اپنے ضعیف بندوں کا آمرزگار ہوگا۔‘‘(صفحہ 469تا470)

’’غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں‘‘

’’میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدّارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے۔ اذا عزمت فتوکل علی اللّٰہ واصنع الفلک باعینناو وحینا۔ الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ یداللّٰہ فوق ایدیھم۔ والسلام علٰی من اتبع الھدٰی۔المبلّغ خاکسار غلام احمد عفی عنہ‘‘ (صفحہ 470)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button