حضرت مصلح موعودؓ کی عظیم الشان اور دائمی اثرات والی پیشگوئیاں (قسط اول)
ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا
وحی و الہام کا آغاز حضورؓ کی 17سال کی عمر میں ہو گیا تھا جب ایک فرشتہ نے آپ کو سورت الفاتحہ کی تفسیر سکھائی۔
پیشگوئی مصلح موعود میں بیان کردہ 52 علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔یہ دو مختصر جملے اپنی ذات میں معانی کا جہان ہیں۔اوررسول کریم ﷺ اور مسیح موعودؑ کی صداقت کے عظیم نشان ہیں۔ صرف ان کی مدد سے بھی مصلح موعود کو پہچانا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ایسا امتیازی نشان ہے جو حق و باطل میں فرق کر دیتا ہے اور کوئی پردہ باقی نہیں چھوڑتا۔
روحانی دنیا کی اصطلاح میں اللہ کی روح سے مراد اس کا کلام ہوتا ہے اور قرآن کریم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی روح سے مراد اس کا کلام اور اس کے فرشتے ہیں۔چند آیات ملاحظہ ہوں۔فرمایا:
1۔یُلۡقِی الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ (المومن :16) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنے امر سے روح کو اتارتا ہے۔
2۔فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَنَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ(الحجر:30) پس جب میں(آدم) کو ٹھیک ٹھاک کر لوں اور اس میں اپنا کلام پھونکوں تو (اے فرشتو) اس کی اطاعت میں سجدہ ریز ہو جاؤ۔
3۔وَکَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا (شوریٰ:53) اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک زندگی بخش کلام وحی کیا ہے۔
4۔فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا (مریم:18) تب ہم نے(مریم) کی طرف اپنا ایک فرشتہ بھیجا اور اس نے اس کے لئے ایک متناسب بشر کا تمثل اختیار کیا۔
5۔یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ (النحل:3)وہ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے فرشتوں کو روح القدس کے ساتھ اتارتا ہے۔
6۔یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَالۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا(النبا:39)جس دن روح القدس اور فرشتے صف بہ صف کھڑے ہوں گے۔
7۔تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ(القدر :5) لیلۃ القدر میں بکثرت نازل ہوتے ہیں فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے حکم سے۔ ہر معاملے میں۔
پس اللہ کی روح سے مراد اس کا کلام اور اس کے فرشتے خصوصاً جبریل ؑمراد ہیں جنہیں قرآن میں روح القدس اور روح الامین بھی کہا گیا ہے۔سو مصلح موعود میں خدائی روح ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر خدا کے فرشتے اتریں گے اس کو وحی و الہام نصیب کیا جائے گا۔ جبریلؑ کے ذریعہ اس پر علم غیب کھولا جائے گا اور خوش خبریاں دی جائیں گی۔ اور واقعات نے یہ شہادت دی کہ یہ پیشگوئی لفظاً لفظاً پوری ہو گئی۔ حضرت مصلح موعود ؓکی وفات کے بعد جب آپ کے الہامات اور رؤیا و کشوف کو جمع کیا گیا تو 617صفحات کی ضخیم کتاب بن گئی جو ’’ رؤیا و کشوف سیدنا محمود‘‘کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ جس میں 655؍ الہامات اور رؤیا کشوف ہیں۔ان میں قرآن کی تفسیر بھی ہے، علوم دینیہ کے حقائق و معارف بھی ہیں اور بہت سی غیبی خبریں بھی ہیں۔آپ کی زندگی میں 1960ء کے قریب ایک ایسی کتاب مرتب کی گئی جس میں اس وقت تک پوری ہونے والی بعض خبروں کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ اکٹھا کیا گیا اور’’المبشرات ‘‘کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس کے بعد بھی بہت سی خبریں پوری ہو چکی ہیں۔بہت سی پیشگوئیاں انفرادی،وقتی اور ہنگامی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں اور بہت سی اجتماعی، عالمی اور جاودانی امور سے متعلق ہیں۔ اس مضمون میں چند دائمی اور دیرپا اثر رکھنے والی پیشگوئیوں کا ذکر ہو گا۔
پیشگوئیوں کے متعلق یہ الٰہی سنت یاد رہے کہ پیشگوئی کے معنوں کا حقیقی علم اس کے پورا ہونے کے بعد ہوتا ہے۔اس سے پہلے انسان اس کی جو بھی تاویل کرے اللہ تعالیٰ اس کا پابند نہیں۔کبھی پیشگوئی ظاہرمیں پوری ہوتی ہے کبھی معنوی طور پر۔کبھی ایک ہی پیشگوئی کے کچھ حصے ظاہری رنگ رکھتے ہیں اور کچھ معنوی۔مقصد اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے عالم الغیب ہونے کا ثبوت ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے بچپن کے رؤیا
حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچپن سے ہی مجھے رؤیا صادقہ ہوا کرتے تھے۔(الفضل 5؍ اگست 1934ء صفحہ 7) آپ کو بچپن میں یعنی حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں جو اہم رؤیا دکھائے گے اور پیشگوئیاں پوری ہو گئیں ان میں سے 3 یہ ہیں:
1۔ مقدمہ مارٹن کلارک کے دوران آپ کو خبر د ی گئی کہ’’خدا کے بندوں کو کوئی جلا نہیں سکتا‘‘۔(الفضل۔3؍جنوری 1925ء)
2۔ مقدمہ دیوار کے دوران آپ کو دیوار کے گرائے جانے کی خبر دی گئی۔(الفضل۔5؍اگست 1934ء)
3۔آپ کو مسیح موعود کے انتقال کی خبر اسی دن دی گئی۔ آپ پر سخت افسردگی چھائی اور زبان پر یہ مصرع جاری ہوا۔ راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو۔(تقدیر الٰہی،انوار العلوم جلد 4صفحہ 618)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے زمانہ خلافت (1908۔1914ء) کے دوران آپ کو خلیفہ اوّل کی وفات اور آپ کے جماعت کا لیڈر بننے کی ملفوف خبر بھی دی گئی جس کا مفہوم آپ کے خلیفہ بننے کے بعد سمجھ آیا۔(برکات خلافت،انوار العلوم جلد دوم صفحہ 189)
اس کے بعد وہ پیشگوئیاں ہیں جو ایک لمبے عرصہ پر پھیلی ہوئی ہیں اور عظیم اثرات کی حامل ہیں۔
1۔علم قرآن کی پیشگوئی اور چیلنج
وحی و الہام کا آغاز حضورؓ کی 17سال کی عمر میں ہو گیا تھا جب ایک فرشتہ نے آپ کو سورت الفاتحہ کی تفسیر سکھائی۔اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ آپ کے سینے میں قرآنی علوم کا ایسا بیج رکھ دیا گیا ہے کہ ہر موقع پر آپ کو حسب حالات قرآنی علوم سکھائے جائیں گے اسی لیے آپؓ ساری عمر تفسیر قرآنی میں مقابلے کا چیلنج دیتے رہے۔ فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کے ذریعہ مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اور میرے اندر اس نے ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے جس طرح کسی کو خزانہ کی کنجی مل جاتی ہے اسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے۔ دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن کریم کی افضلیت اس پر ظاہر نہ کر سکوں۔‘‘(مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں،انوار العلوم جلد 17صفحہ217)
پھرفرمایا:’’مجھے بھی ایسے قرآن کریم کے معارف عطا کیے گئے ہیں کہ کوئی شخص خواہ وہ کسی علم کا جاننے والا ہو اور کسی مذہب کا پیرو ہو قرآن کریم پر جو چاہے اعتراض کرے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قرآن سے ہی اس کا جواب دوں گا۔‘‘(الفضل 24؍اپریل 1934ء)
آپ کی تفاسیر اور خطابات اس دعویٰ کی دلیل ہیں۔آج مخالفین بھی مصلح موعود کے علم قرآن کے معترف ہیں جس پر بیسیوں حوالے بیان کیے جا سکتے ہیں۔
2۔ عالَمی درس القرآن
مسجد اقصیٰ قادیان میں پہلی دفعہ 7؍جنوری 1938ء کو لاؤڈ سپیکر لگا۔ حضرت مصلح موعود ؓنے اس دن خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’اب وہ دن دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ساری دنیامیں درس وتدریس پرقادر ہوسکےگا۔ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اورابھی عملی دقتیں بھی ہمارے راستہ میں حائل ہیں۔ لیکن اگریہ تمام دقتیں دورہو جائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہاہے اورجس سرعت سے ترقی دے رہاہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی یہ تمام دقتیں دورہوجائیں گی توبالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جارہاہو۔اورجاوا کے لوگ اورامریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمن کے لوگ اور آسٹریلیا کے لوگ اور ہنگری کے لوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اور اسی طرح تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس کے سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں۔ یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا اور کتنے ہی عالیشان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کرکے بھی آج ہمارے دل مسرت و انبساط سے لبریز ہو جاتے ہیں۔‘‘(روزنامہ الفضل قادیان 13؍جنوری 1938ء)
یہ پیشگوئی احمدیہ مسلم ٹی وی کے قیام کے بعد حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے درس قرآن اور قرآن کلاسز سے پوری ہوئی جو ٹی وی کے ذریعہ پورے عالم میں نشر ہوتے رہے۔1995ء کے عالمی درس قرآن کے ایام میں الفضل کے مطالعہ کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کا یہ ارشاد خاکسار کے علم میں آیا تو اسے حضور کی خدمت میں بھجوانے کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے 19؍فروری 1995ء کو عالمی درس قرآن میں خلافت احمدیہ کی آسمانی نصرت اور تائید کے ضمن میں یہ پیشگوئی بیان کرتے ہوئے فرمایا:’حضرت مصلح موعود ؓکی پیشگوئی یہ اس موقعے کے لئے استعمال ہوسکتی تھی۔بہت عمدہ بات تھی مجھے تو خیال نہیں گیا مگر عبدالسمیع خان صاحب ربوہ نے اس عالمی درس سے متاثر ہو کر ایک پیشگوئی بھجوائی ہے جو اس بات کی مؤید ہے بڑی کھلی کھلی مؤید ہے جو میں بیان کررہا ہوں کہ اگر آپ نے ایک خلیفہ کی بیعت کی ہے تو درست کی ہے…یہ سنئےمسجد اقصیٰ قادیان میں پہلی دفعہ 7؍جنوری 1938ء کو لاؤڈ سپیکر لگا۔ 1938ء کو سات جنوری کو لاؤڈ سپیکر لگتا ہے اور یہ اتنا بڑا واقعہ ہے اس زمانے کے لحاظ سے کہ حضرت مصلح موعود ؓ اس پہ خطبہ دیتے ہیں اور اس وقت مَیں دس سال کا تھا۔ 1928ء میں پیدا ہوا ہوں آخر پر۔ تو اس وقت وہ خطبے میں فرمارہے ہیں۔ ’’اب وہ دن دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہوسکے گا۔‘‘اب بتائیں کہ میرے جیسے جاہل نادان بچے کا وہاں موجود ہونا کوئی تصور بھی کرسکتا تھا کہ یہ وہ لڑکا ہوگا جو اٹھے گا اور اس پیشگوئی کا مصداق بنے گا۔‘
اس کے بعد حضور نے پیشگوئی پڑھ کر سنائی اور پھر فرمایا:’اور ایک اور لطیف بات جو عبدالسمیع خان صاحب نے اس میں بیان کی ہے یہ بیان ہے کہ عجیب اللہ کی شان ہے کہ 7؍ جنوری 1938ء کو حضرت مصلح موعودؓ یہ پیشگوئی کررہے ہیں اور ماریشس سے اس عالمی پروگرام کے آغاز کا آپ نے اعلان کیا ہے۔ 7؍جنوری کے متعلق بتایا تھا کہ 7؍جنوری سے یہ عالمی پروگرام جو ٹیلی ویژن کے ذریعے تمام عالم کو مربوط کرنے کا انتظام ہے یہ شروع ہو جائے گا۔ تو عین اسی دن یہ پیشگوئی پوری ہوتی ہے۔‘(الفضل 7؍جنوری 1999ء)
حضورؒ نے قرآن کریم کا مکمل ترجمہ اور کسی قدر تفسیر بھی ریکارڈ کروائی جو ایم ٹی اے پر نشر ہوتی رہتی ہے۔
زمین سے دیکھ لو جاتی ہے یہ کیسے ستاروں تک
امامِ وقت کی آواز دنیا کے کناروں تک
ادھر بولے اُدھر پہنچے کروڑوں جاں نثاروں تک
حصاروں سے نکل کے مرغزاروں،ریگزاروں تک
3۔ سلسلہ سوال و جواب
سیدنا حضرت مصلح موعود ؓکی ایک رؤیا میں ایم ٹی اے پر ٹیلی فون کالوں اور اعتراضوں کا جواب دینے کا ذکر بھی موجود ہے۔ فرماتے ہیں: ’’اس رؤیا کے شروع میں مَیں نے دیکھا کہ کسی سرکاری افسر نے کوئی تقریر ایسی کی ہے جس میں احمدیت پر کچھ اعتراضات ہیں۔ اس کو سن کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک پبلک فون کی جگہ پر چلے گئے ہیں۔ اور فون پر اس کی تردید شروع کی ہے۔ مگر بجائے آپ کی آواز فون میں جانے کے ساری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ اس فون میں آپ نے سب اعتراضوں کو رد کیا ہے جو اس افسر کی طرف سے کئے گئے تھے۔‘‘(الفضل 5؍اکتوبر 1954ء صفحہ3)
ایم ٹی اے پر Live سوال و جواب کے پروگرام کئی زبانوں میں نشر ہورہے ہیں۔جو دشمنوں کے ہر اعتراض کو رد کر رہے ہیں۔ ٹیلی فون پر وہ سوال آتا ہے اور پھر ساری دنیا میں وہ آواز پھیل جاتی ہے۔ ان میں راہ ہدیٰ خصوصیت سے ذکر کے قابل ہے۔
بٹتا رہتا ہے ڈشوں میں مائدہ سب کی
بھرتا جھولیاں ہے ایم ٹی اے
جلوہ فرما جس پہ ہے مہدی مرا
اب وہ تختِ قادیاں ہے ایم ٹی اے
برستی آسماں سے ہے مئے عرفان ایم ٹی اے
4۔علوم دینیہ کی پیشگوئی
آپؓ نے خلافت سے تین سال پہلے بیماری کے عالم میں ایک کشف دیکھا اور اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہوا نور اوپر سے نیچے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں دودھ تھا جو آپ کو پلایا گیا۔ اور پھر آپ نے کہا اب میری امت بھی کبھی گمراہ نہیں ہو گی۔(الفضل 21؍مارچ 1914ء) اس رؤیا میں آپ کو یہ بشارت دی گئی کہ جس طرح رسول کریم ﷺ نے اپنا دودھ کا پیالا پی کر حضرت عمرؓ کو عطا فرمایا اور اس کی تعبیر دین اور علم سے کی اسی طرح مصلح موعود کو غیر معمولی دینی علم عطا کیا جائے گا اور آپ کے متبعین ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود ؓکو اللہ تعالیٰ نے جس وسعت کے ساتھ علم دین عطا کیا آپ کی کتب پر مشتمل انوار العلوم کی 26اور خطبات محمود کی 39 جلدیں اس پر گواہ ہیں۔ کون سا دینی علم ہے جس کے متعلق مصلح موعود ؓنے نہیں لکھا؟ حضورؓ نے دودھ کے جام بھر بھر کر اس طرح پلائے ہیں کہ احمدی ہر دوسری چیز سے بےنیاز ہو جاتے ہیں۔
5۔جماعت کی تعمیر نو
آپؓ نے فروری 1911ء میں ایک خواب دیکھا کہ ایک بڑا محل ہے اور اس کا ایک حصہ گرایا جا رہا ہے اور کچھ نئے حصہ تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ خواب میں ہی ایک شخص اس کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ یہ محل جماعت احمدیہ ہے اور فرشتے اس کی پرانی اینٹیں نکالنے کے لیے اور کچی اینٹوں کو پکا کر کے وسعت دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔(بدر 23؍فروری1911ء)
اس میں آپؓ کو یہ بتایا گیا تھا کہ جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب سلسلے کے کچھ پرانے لوگ الگ ہو جائیں گے اور نئے لوگ داخل ہوں گے اور نئی وسعتیں پیدا ہوں گی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق آپ کی خلافت کے موقعہ پر وہ فتنہ برپا ہوا جسے لاہوری یا پیغامی فتنہ کہا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں کچھ پرانے جماعت سے الگ ہو گئے لیکن فرشتوں کی مدد سے جماعت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گئی اور ہر ایک پہلو سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو وسعتیں عطا کر دیں جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام وَسِّعْ مَکَانَکَ میں بھی ہے۔ اس الگ ہونے والی جماعت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بشارت بھی دی کہ لیمزقنھم یعنی اللہ تعالیٰ ضرور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں جماعت جس کی کثرت کا وہ دعویٰ کرتے تھے ٹوٹ کر حضرت مصلح موعود ؓکی طرف آنے لگی۔ وہ ریزہ ریزہ ہو گئے اور مصلح موعودؓ کی جماعت پر آج سورج غروب نہیں ہوتا۔
6۔عالمی تبلیغ کی بشارت
بچپن میں آپ کے استاد حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ نے ایک دفعہ آپ سے پوچھا کہ کیا آپ کو بھی کوئی الہام ہوتا ہے یاخوابیں آتی ہیں؟تو فرمایا خوابیں تو بہت آتی ہیں اور میں ایک خواب تو قریباً ہر روز ہی دیکھتا ہوں۔اس وقت سے لے کر صبح اٹھنے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے جس کی میں کمان کررہا ہوں اور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جا کر حریف کا مقابلہ کررہے ہیں اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اگر میں نے پار گزرنے کے لیے کوئی چیز نہیں پائی تو سرکنڈے وغیرہ سے کشتی بنا کر اور اس کے ذریعہ پار ہو کر حملہ آور ہو گیا ہوں۔(انصار اللہ،فروری 1986ءصفحہ 11)
1914ء میں جب اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو منصب خلافت پر فائز کیا تو آپؓ نے جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’آپ وہ قوم ہیں جس کو خدا نے چن لیا اور یہ میری دعاؤں کا ایک ثمرہ ہے…اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذریعہ ہو گی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ گزرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہوں گے۔آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ میں ہر قوم اور ہر زبان میں تبلیغ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔(منصب خلافت صفحہ 16تا 17)
یہ کیسا حیرت انگیز اعلان ہے جو ایک بظاہر امی،کمزور،بےبس،مال و دولت اور جتھے سے عاری شخص کر رہا ہے مگر خدا اس کی خواہش اور پیشگوئی کو تمام نامساعد حالات میں پورا کرنا شروع کر دیتا ہے آپ کی خلافت میں 46 ملکوں میں احمدیہ مشن قائم ہوئے اوراب یہ سلسلہ 213؍ممالک میں پھیل گیا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا:’’وہ دن دور نہیں جبکہ افواج در افواج لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے۔مختلف ملکوں سے جماعتوں کی جماعتیں داخل ہوں گی اور وہ زمانہ آتا ہے کہ گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر احمدی ہوں گے۔‘‘(انوارخلافت،انوارالعلوم جلد3صفحہ165)
7۔انگلستان کی روحانی فتح
آپؓ کو انگلستان میں عظیم روحانی فتوحات کی بشارت دی گئی۔چنانچہ آپؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپ انگلستان میں ہیں اور انگلستان کو فتح کرنے والا ایک عظیم بادشاہ ولیم دی کانکرر اور آپ ایک ہی وجود ہیں۔(الفضل 24؍جون 1924ء) یعنی اس بادشاہ نے ظاہری طور پر اس ملک کو فتح کیا تھا اور آپ روحانی طور پر کریں گے۔
1924ء میں جب حضورؓ انگلستان تشریف لے گئے تو رؤیا میں دکھائے جانے والے مقام پر بھی تشریف لے گئے اور اسی طرح ایک شہتیر پر پاؤں رکھ کر کھڑے ہوئے۔ ایک اور خواب میں دیکھا کہ لائڈ جارج وزیر اعظم انگلستان کہتے ہیں کہ مرزا محمود احمد کی فوجیں عیسائی لشکر کو دباتی چلی آرہی ہیں اور مسیحی لشکر شکست کھا رہا ہے۔(الفضل 24؍جون 1924ء)یہ اس وقت کی بات ہے جب برطانیہ میں جماعت کی پہلی مسجد بھی تعمیر نہیں ہوئی تھی اور اکیلا معمولی سا مشن تھا ۔آج لندن میں جماعت کی متعدد مساجد ہیں اور ایک عظیم مرکز خلافت ہے جہاں سے ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی نگرانی ہو رہی ہے اور عیسائیت مسلسل شکست کھاتی چلی جا رہی ہے۔
آپؓ کو دوسرے سفر انگلستان میں ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کی خبر بھی دی گئی۔(الفضل 21؍ستمبر 1945ء)نیز یہ بھی کہ اس سفر سے کئی سعید روحوں کو ہدایت نصیب ہو گی (الفضل 16؍جون 1939ء ) چنانچہ یوگو سلاویا، جرمنی ، مالٹا اور سوئٹزرلینڈکی چار اہم شخصیات کو آپ کے ہاتھ پر قبول اسلام کی توفیق ملی۔(المبشرات صفحہ 113)
8۔امریکہ کی روحانی فتح
مصلح موعودؓ کے مبلغ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓشمع ایمان جلانے کے لیے 1920ء میں امریکہ کی بندرگاہ فلاڈلفیا پہنچے تو شہر میں داخلےکی اجازت نہ ملی اور ایک مکان میں نظر بند کر دیے گئے جہاں کئی انگریز بھی تھے آپ کی دعوت الی اللہ سے دو ماہ کے اندر 15 افراد احمدی ہو گئے۔ اور متعلقہ افسر نے خوفزدہ ہو کر آپ کو ملک میں داخلہ کی اجازت دے دی۔(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ250) یہی وہ وقت تھا جب حضرت مصلح موعودؓنے ہندوستان میں امریکہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’امریکہ میں ایک دن لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونجے گی اور ضرور گونجے گی۔‘‘(الفضل 15؍اپریل 1920ء)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ میں مضبوط جماعتیں قائم ہیں اور مسلسل ترقی پذیر ہیں 2018ءکی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اس وقت جماعتوں کی تعداد74ہے جس کی کل تجنید20394ہے۔جماعت کی مساجد56؍ہیں۔19؍ باقاعدہ مساجد تعمیر کی گئی ہیں اور37؍چرچزاوردیگر عمارات کومساجد میں تبدیل کیاگیاہے۔کل جماعتی پراپر ٹیز کارقبہ ایک ہزار ایکڑ سے زائدہے۔نماز سنٹرز کی تعداد250؍کے قریب ہے۔کل 26؍مشن ہاؤسز ہیں۔
9۔روس کی روحانی فتح
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’میں نے دیکھا کہ ہمارے ملک میں حالات خطرناک ہوچکے ہیں۔ اس قسم کے ہوگئے ہیں کہ مجھے وہاں سے کہیں اور جانا پڑا ہے اور اس کے دوران میری گود میں میرا ایک بچہ ہے جس کانام طاہر احمد ہے اور اس کے علاوہ اورکوئی بچہ ساتھ نہیں۔اس ہجرت کے دوران میں ایک نئے ملک میں پہنچتا ہوں اور اس ملک میں داخل ہوکرمیں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون سا ملک ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ روس ہے اور جب میں ان لوگوں سے گفتگو کرتا ہوں اور ان کے متعلق پوچھتا ہوں کہ وہ کون لوگ ہیں تو ایک آدمی ہلکی آواز میں احتیاط کی طرف متوجہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اونچا نہ بولیں۔ہم احمدی ہیں اور یہ سارا گاؤں اور اس علاقے میں جو ہم لوگ ہیں، یہ سب احمدی ہیں لیکن ہم حالات کی مجبوری سے اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہیں یہ رؤیا اسی بات پر ختم ہوگیا۔‘‘(الفضل 8؍مئی 1990ء)
یہ رؤیا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے زمانے میں پوری ہوئی۔حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:’’یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی کہ روس کا تعلق دوبارہ جماعت احمدیہ سے قائم ہونا میرے زمانے میں ہو۔ یہ سارے مقدر کے فیصلے تھے جن کے آپس میں ڈانڈے ملے ہوئے ہیں اور پھر مجھے فرائیڈے دی ٹینتھ Friday The 10th دکھایا اور فرائیڈے دی ٹینتھ کو وہ حیرت انگیز انقلاب برپا ہوئے جن کی روشنی میں روس میں اسلام کے داخل ہونے یا جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلام کے داخل ہونے کے نئے دروازے کھلیں اور نئے امکانات روشن ہوں اور یہ بھی عجیب بات ہے اور کوئی اتفاق نہیں بلکہ مقدر تھا کہ جماعت احمدیہ کے خلفاء میں سے صرف میں ہوں جس کے ساتھ متعدد روسی مسلمان علماء اور صاحب دانش لوگوں نے ذاتی رابطہ کیا ہے اور اس کے علاوہ ایک بھی امام اس سے پہلے نہیں گزرا جس کا کسی روسی راہنما سے ذاتی رابطہ ہوا ہو۔ ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، متعدد رابطے ہوئے اور ایسے رابطے ہوئے جن میں ہماری طرف سے کسی کوشش کا دخل نہیں۔ خداتعالیٰ نے خود اس کے سامان پیدا فرمادیئے اور جس طرح وہ سامان پیدا ہوئے ہیں، ان میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، نہ ہماری کوشش کا دخل تھا نہ اتفاقات تھے بلکہ خدا کی واضح تقدیر ان میں کارفرما دکھائی دیتی ہے …
حضرت مصلح موعودؓ کا یہ رؤیا جس کی تعبیر ظاہر ہے کہ ہجرت کا مجھے موقعہ ملے گا اور اس ہجرت کے دوران روس سے رابطہ ہوگا اور پھر ساری خلافت احمدیہ کی تاریخ میں ایک ہی خلیفہ کا روس کے ساتھ رابطہ ہونا۔ اگر یہ سارے اتفاقات ہیں تو پھر نظم و ضبط کے ذریعے واقعات کا ترتیب پانا کچھ اور ہی معنی رکھتا ہوگا۔ درحقیقت یہ ظاہر طور پر تقدیر ہے جس نے باقاعدہ ان واقعات کو منضبط کیا ہے اور ایک باقاعدہ ترتیب دی ہے اور تعلق جوڑے ہیں۔‘‘(الفضل 8؍مئی 1990ء۔مزید دیکھئےسوونیئر طاہر نمبر برطانیہ صفحہ95،خطبہ جمعہ فرمودہ15؍جون1990ء)
10۔بلاد عرب میں قبولیت
حضرت مصلح موعود ؓکی ایک رؤیا میں خلافت خامسہ میں بلاد عربیہ میں احمدیت پھیلنے کی طرف خاص اشارہ معلوم ہوتا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ خطبہ جمعہ فرمودہ23؍نومبر1945ء میں ایک طویل رؤیا بیان فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہےکہ حضورؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ وہ عربی بلاد میں ہیں اور ایک موٹر میں سوار ہیں۔ساتھ ہی ایک اور موٹر ہے جو غالباً میاں شریف احمد صاحبؓ کی ہے۔پہاڑی علاقہ ہے اور اس میں کچھ ٹیلے سے ہیں ایک جگہ جا کر میاں شریف احمد صاحب ؓکی موٹر کسی اور طرف چلی گئی ہے۔جب حضور ؓموٹر سے اترے تو دیکھا کہ بہت سے عرب جن میں کچھ سیاہ رنگ کے ہیں اور کچھ سفید رنگ کے، آپ کے پاس آئے اور ان سے عربی میں گفتگو ہوئی۔حضور ؓفرماتے ہیں میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟وہ جواب دیتے ہیں ہم عربی بلاد سے آئے ہیں اور ہم قادیان گئے اور وہاں معلوم ہوا کہ آپ باہر گئے ہیں اور ہم آپ کے پیچھے چلے یہاں تک کہ ہمیں معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں۔ اس پر میں نے ان سے پوچھا۔کس غرض سے آپ تشریف لائے ہو؟ تو ان میں سے لیڈر نے جواب دیا ہم اقتصادی اور تعلیمی اور غالباً سیاسی معاملات میں مشورہ کرنے آئے ہیں۔ اس پر میں ڈاک بنگلہ کی طرف مڑا اور ان سے کہا کہ مکان میں آجایئے، وہاں مشورہ کریں گے۔ جب میں کمرہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میز پر کھانا چنا ہوا ہے اور کرسیاں لگی ہیں اور میں نے خیال کیا کہ شاید کوئی انگریز مسافر ہوں۔ ان کے لئے یہ انتظام ہو اور میں آگے دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔ وہاں فرش پر کچھ پھل اور مٹھائیاں رکھی ہیں اور اردگرد اس طرح بیٹھنے کی جگہ ہے جیسے کہ عرب گھروں میں ہوتی ہے۔ میں نے ان کو وہاں بیٹھنے کو کہا اور دل میں سمجھا کہ یہ انتظام ہمارے لئے ہے۔ ان لوگوں نے وہاں بیٹھ کر پھلوں کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ اس رؤیا سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے بلاد عرب میں احمدیت کی ترقی کے دروازے کھلنے والے ہیں۔(مطبوعہ الفضل 17؍دسمبر 1945ء) واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ
٭…حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ سے حضور انور خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مراد ہیں۔
٭…ان کی موٹر حضرت مصلح موعودؓ کی موٹر سے دوسری طرف جانے سے مراد الگ الگ حکمت عملی ہے جو پہلے اور تھی یعنی کتب اور اخبارات کے ذریعہ تبلیغ ہو رہی تھی اور اب ایم ٹی اے کے ذریعہ نیا رخ اختیا ر کر گئی ہے۔ اور عربوں میں تبلیغ کے لیے باقاعدہ ایم ٹی اے العربیہ کا اجرا کیا گیا ہے۔ اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عربوں سے عربی زبان میں لائیو خطاب بھی فرمایا۔
٭…عرب حضورؓ سے قادیان میں نہیں ملے بلکہ سفر کے دوران باہر ملے ہیں۔ اس سے مراد حضور کا مستقر لندن ہے۔ اسی لیے رؤیا میں انگریزوں کا ذکر بھی ہے۔
٭…پھلوں سے مراد بیعتیں ہیں۔چنانچہ پیشگوئیوں کے مطابق عربوں میں دعوت الیٰ اللہ کا جو وسیع کام ہورہا ہے اس کی تفاصیل حضور انور ایدہ اللہ جلسہ سالانہ کے خطابات اور خطبات جمعہ میں ارشاد فرماتے رہتے ہیں۔ یہاں اس کو دہرانے کی گنجائش نہیں۔
11۔ابراہیمی مشابہتیں
فرمایاکہ ایک دفعہ رؤیا میں فرشتے نے مجھے بہت سے ابراہیم صفت لوگوں کی خبر دی اور مجھے بتایا کہ ابراہیم تم بھی ہو۔(الفضل 7؍مارچ 1944ء، رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 13)اسی مشابہت کی وجہ سے حضورؓ نے قادیان سے ہجرت کر کے نئے مرکز اسلام ربوہ کی بنیاد ڈالی۔
فرمایا:’’میں نے دیکھا کہ میں بیت الدعا میں بیٹھا تشہد کی حالت میں دعا کر رہا ہوں کہ الٰہی میرا انجام ایسا ہو جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کا ہؤا۔پھر جوش میں آکر کھڑا ہو گیا ہوں اور یہی دعا کر رہا ہوں کہ دروازہ کھلا ہے اور میر محمد اسماعیل صاحب اس میں کھڑے روشنی کر رہے ہیں۔ اسماعیل کے معنی ہیں کہ خدا نے سن لی۔ اور ابراہیمی انجام سے مراد حضرت ابراہیم کا انجام ہے کہ ان کے فوت ہونے پر خدا تعالیٰ نے حضرت اسحاقؑ اور حضرت اسماعیلؑ دو قائم مقام کھڑے کر دیے۔ یہ ایک طرح کی بشارت ہے۔ جس سے آپ لوگوں کو خوش ہو جانا چاہیے۔‘‘(عرفان الٰہی،انوار العلوم جلد4صفحہ350)
اس رؤیا میں حضور کو اپنے بعد دو قائم مقام خلیفوں کی بشارت دی گئی مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ رؤیا میں پہلے اسحاق کا نام لیا اور اسماعیل کا بعد میں۔ حالانکہ اسماعیل بڑے تھے۔ اس میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ آپ کے بعد پہلے آپ کا وہ بیٹا خلیفہ ہونا تھا جس نے اسحاق کی طرح ابراہیم کے ساتھ اس کی جگہ پر ہی رہنا تھا یعنی حضرت مرزا ناصر احمدؒ اور پھر اس کے بعد وہ خلیفہ ہونا تھا جس نے اسماعیل کی طرح ایک دور کی سرزمین میں مرکز اسلام کو دوبارہ نئے سرے سے پرانی بنیادوں پر اٹھانا تھا۔ یعنی حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ جن کو اسماعیل کی طرح بچپن کی عمر میں یعنی خلیفہ بننے کے دو سال کے اندر شیر خوار بچے کی طرح ہجرت کرنی پڑی اور اس نے ایک دور کی سر زمین میں پرانی بنیادوں پر موجود مسجد فضل کو نئے سرے سے آباد کیا اور اسلام آباد کے نام سے ایک نیا مرکز جماعت کو عطا کیا۔دیگر رؤیا میں ان بیٹوں کے نام بھی بتائے گئے۔
1909ء میں فرمایا کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمربستہ ہو گا۔(رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 19)اسی سال حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ پیدا ہوئے۔
حضور نے فرمایاکہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے اپنے سامنے ایک Revolving Light نظر آئی۔ مَیں نے خواب میں خیال کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے۔ پھر میرے سامنے ایک دروازہ ظاہر ہوا اور میرے دل میں خیال گزرا کہ جو شخص اس دروازہ میں کھڑا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کا نور اس پر گھومتا ہوا پڑے تو خدا کا نور اس کے جسم کےذرہ ذرہ میں سرایت کر جاتا ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ میرا لڑکا ناصر احمد اس دروازہ کی دہلیز پر کھڑا ہو گیا ہے اور تیز روشنی ناصر احمد کے جسم میں گھس گئی۔(الفضل 8؍اکتوبر1955ء)
حضرت مصلح موعود ؓنے ایک بار حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی والدہ حضرت ام طاہر صاحبہ سے فرمایا ایک دن تیرا بیٹا طاہر خلیفہ ہو گا۔(ایک مردخدا صفحہ207)
حضور ؓنے اکتوبر 1944ء میں ایک رؤیا میں اپنی مرحومہ بیوی ام طاہر کو دیکھا جن کی سفید داڑھی ہے اور حضورؓ نے ان سے خواب میں کہا کہ 38 سال کی عمر میں ہی تمہاری داڑھی سفید ہو گئی ہے۔(الفضل 5؍نومبر 1944ء رؤیا کشوف سیدنا محمود صفحہ 258)تعبیر الرؤیا کے مطابق عورت کے داڑھی دیکھنے سے مراد اس کا لڑکا ہوتا ہے اور اس کے شوہر کو شرف عطا ہوتا ہے۔ یہ حیرت انگیز رؤیا اس طرح پوری ہوئی کہ 1944ء میں 38 جمع کریں تو 1982ء بنتا ہے۔ یہ وہی سال ہے جب اللہ تعالیٰ نے ام طاہر کے بیٹے مرزا طاہر احمد صاحبؒ کو منصب خلافت پر فائز کیا جن کی داڑھی اس وقت سفید ہو چکی تھی مگر خضاب لگاتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ وہ داڑھی بڑی ہو گئی اور پوری طرح سفید ہو گئی۔
(جاری ہے)