نظام شوریٰ (قسط نمبر 3)
از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ
شوریٰ کے فوائد
’’(۱) کئی نئی تجاویز سوجھ جاتی ہیں۔
(۲) مقابلہ کا خیال نہیں ہوتا اس لئے لوگ صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(۳) یہ بھی فائدہ ہے کہ باتوں باتوں میں کئی باتیں اور طریق معلوم ہو جاتے ہیں۔
(۴) یہ بھی فائدہ ہے کہ باہر کے لوگوں کو کام کرنے کی مشکلات معلوم ہوتی ہیں۔
(۵) یہ بھی فائدہ ہے کہ خلیفہ کے کام میں سہولت ہو جاتی ہے۔ وہ بھی انسان ہوتا ہے اس کو بھی دھوکا دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ لوگوں کا رجحان کدھر ہے۔ یوں تو بہت نگرانی کرنی پڑتی ہے کہ غلط رستہ پر نہ پڑ جائیں مگر جب شوریٰ ہو تو جب تک اعلیٰ درجہ کے دلائل عام رائے کے خلاف نہ ہوں لوگ ڈرتے ہیں کہ اس پر عمل کریں اور اس طرح خلیفہ کو نگرانی میں سہولت حاصل ہو جاتی ہے۔‘‘(خطاب15؍اپریل 1922ءخطابات شوریٰ جلد اول صفحہ16)
مجلس شوریٰ کا طریق
’’(۱) خلیفہ عام ہدایات پیش کرے گا کہ کن باتوں پر مشورہ لینا ہے اور کن باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ (۲) اس کے بعد ہر محکمہ کے لئے سب کمیٹیاں مقرر ہو جائیں گی کیونکہ فوراً رائے نہیں دینی چاہئے بلکہ تجربہ کار بیٹھ کر سکیم تجویز کریں اور پھر اس پر بحث ہو۔ پہلے کمیٹی ضرور ہونی چاہئے۔ جیسے معاملات ہوں ان کے مطابق وہ غور کریں، سکیم بنائیں پھر اس پر غور کیا جائے۔ کمیٹی پوری تفاصیل پر بحث کرے اور پھر رپورٹ کرے۔ وہ تجاویز مجلس عام میں پیش کی جائیں اور ان پر گفتگو ہو۔
جب تجاویز پیش ہوں تو موقع دیا جائے کہ لوگ اپنے خیالات پیش کریں کہ اس میں یہ زیادتی کرنی چاہئے یا یہ کمی کرنی چاہئے یا اس کو یوں ہونا چاہئے۔ تینوں میں سے جو کہنا چاہے کھڑے ہو کر پیش کر دے۔ ان تینوں باتوں کے متعلق جس قدر تجاویز ہوں ایک شخص یا بہت سے لکھتے جائیں۔ پھر ایک طریق یا ایک طرز کی باتوں کو لے کر پیش کیا جائے کہ فلاں یہ کمی چاہتا ہے اور فلاں یہ زیادتی۔ اس پر بحث ہو مگر ذاتیات کا ذکر نہ آئے۔ اس بحث کو بھی لکھتے جائیں۔
جب بحث ختم ہو چکے تو اس وقت یا بعد میں خلیفہ بیان کر دے کہ یہ بات یوں ہو۔ بولنے کے وقت بولنے والا کھڑا ہو کر بولے۔ اور جو پہلے کھڑا ہو اسے پہلے بولنے کا موقع دیا جائے۔ یہ دیکھنے کے لئے ایک آدمی مقرر ہوگا کہ کون پہلے کھڑا ہوا ہے اور کون بعد میں۔ اگر بہت سے کھڑے ہوں تو باری باری انہیں بولنے کے لئے کہنا چاہئے۔ جب سارے بول چکیں تو پھر پوچھنا چاہئے۔ پھر کھڑا ہو تو پہلے نئے بولنے والے کو موقع دینا چاہئے سوائے اس صورت کے کہ کوئی سوال یا اعتراض اس کی تقریر پر کیا گیا ہو اس کے حل کرنے کے لئے کھڑا ہو۔ اور دو دفعہ سے زیادہ بولنے نہ دیا جائے کیونکہ بات کو حل کرنا ہے بحث نہیں کرنی۔ وہ شخص جس کو بولنے کا موقع دینے کے لئے مقرر کیا جائے وہ خلیفہ یا اس کے قائمقام کا مددگار ہوگا کیونکہ وہ دوسرے کاموں کی طرف توجہ کرے گا ادھر توجہ نہ کر سکے گا اس لئے وہ بطور نائب کام کرے گا۔‘‘(خطاب15؍اپریل 1922ءخطابات شوریٰ جلد اول صفحہ16، 17)
خلافت اورمشورہ کی ضرورت و اہمیت
’’جیسا کہ احباب کو معلوم ہے کہ میں نے پچھلے سال اس مجلس کے انعقاد کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کی غرض اس سنت کا احیاء ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمانوں کی بہتری کے لئے قائم کی گئی تھی۔ آپؐ کا طریق تھاکہ اہم امور کے متعلق امرائے قوم سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ مشورہ کے بعد اللہ تعالیٰ جس بات پر آپؐ کو قائم کرتا مسلمانوں کے لئے اس کے متعلق احکام جاری کرتے تھے۔ اس زمانہ میں سفر کی آسانی نہ تھی اس لئے آپؐ کی مجلس میں مدینہ والے ہی اہم امور کے مشورہ میں شامل ہوسکتے تھے۔ اب سفر کی سہولت ہے بیرونی جماعتوں کے لوگ بھی سال میں ایک دفعہ شامل مجلس مشورہ ہو سکتے ہیں۔ چونکہ ابتداء میں نئی بات پر عمل کرنا بوجھ ہوتا ہے اس لئے فی الحال یہی مناسب سمجھا گیا ہے کہ سال میں ایک دفعہ تمام جماعتوں کے نمائندوں کو جمع کیا جائے اور ایسے کام جن کا اثر سب پر ہوتا ہو ان کے متعلق تجاویز پر غور کیا جائے اور جو بات مفید اور بہتر معلوم ہو اس پر عمل کیا جائے۔ اس سے مل کر کام کرنے کی روح پیدا ہوتی ہے اور بہتر تجاویز سامنے آتی ہیں اور بہتر اختیار کر لی جاتی ہیں۔
ابھی تک میں سمجھتا ہوں جماعت میں اس کے متعلق احساس پیدا نہیں ہوا کہ خلافت کی موجودگی میں مشورہ کی کیا ضرورت ہے۔ مگر پھر بھی پچھلے سال کی نسبت اب کی دفعہ زیادہ نمائندے آئے ہیں لیکن ابھی کم ہیں۔ یہ بات کسی سستی کی وجہ سے نہیں کیونکہ مشورے کے علاوہ دوسرے وقت میں شامل ہوتے ہیں۔ اب بھی نمائندوں کی نسبت ایسے لوگ زیادہ ہیں جو سننے آئے ہیں۔ جب بھی کوئی تقریر ہو تو سب لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر عام لوگ جلسہ پر زیادہ ہوتے ہیں اور اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ رات کے 12 بجے تک مصافحہ کرتا ہوں اور پھر بھی مصافحہ ختم نہیں ہوتا۔ چنانچہ آج ایک صاحب ملے انہوں نے کہا چار سال ملنے کی کوشش کرتا رہا ہوں مگر نہیں مل سکا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ ہماری جماعت کے لوگ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور مشورہ میں شامل ہونا ضروری نہیں سمجھتے۔ پس مشورہ میں زیادہ تعداد میں نہ آنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ خلیفہ کی موجودگی میں مشورہ کی ضرورت نہیں سمجھتے لیکن خلیفہ کے باوجود مشورہ کی ضرورت ہے۔ اور بہت لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک خلیفہ کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ مگر ان کو معلوم نہیں کہ یہ تحریک خلیفہ کے خلاف بغاوت نہیں بلکہ اس کی تحریک مجھ سے ہوئی اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے ہوئی اور باوجود خلافت کی موجودگی کے مشورہ کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ میں نے پچھلے سال کہا تھا کہ کوئی خلافت مشورہ کے بغیر نہیں اب بھی یہی کہتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو کلمہ پڑھتاہے اس پر ایک دفعہ ذمہ واری عائد ہو جاتی ہے اور وہ اسلام کی ذمہ واری ہے۔ اس کو اس سے غرض نہیں کہ اس کام کو اور بھی کرنے والے ہیں بلکہ وہ یہی سمجھے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی ذمہ وار ہے اور اس لئے ہر ایک مسلمان خلیفہ ہے۔ جو مسلمان اپنے آپ کو خلیفہ نہیں سمجھتا وہ مسلمان نہیں۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ دس لاکھ میں سے ایک ہے اور اس کو دس لاکھواں حصہ ادا کرنا چاہئے بلکہ وہ سمجھے کہ وہ دس لاکھ ہی کا قائم مقام ہے اور یہ کام سارا اسی کا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ پورا کام کرے اور اس میں سے جس قدرکام کی اس میں طاقت نہیں اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرے گا اور اس سے اس کی باز پرس نہیں ہو گی۔
خلافت کے قیام کی ضرورت انتظام کے لئے ہے کیونکہ تقسیم عمل نہیں ہو سکتی جب تک ایک انتظام نہ ہو۔ ممکن ہے کہ سب زور دیں مگر ان کا زور ایک ہی کام پر خرچ ہو رہا ہو اور باقی کام یونہی بے توجہی کی حالت میں پڑے رہیں۔ پس جب تک ایک مرکز نہ ہو اس وقت تک تمام متفرق جماعتوں کی طاقتیں صحیح مصرف پر صرف نہیں ہو سکتیں اس لئے ضرورت ہے کہ تمام متفرق جماعت کی طاقتوں کو جمع کرنے کے لئے ایک مرکزی طاقت ہو جو سب کے کاموں کی نگران ہو اور اس سے تمام جماعتوں کا تعلق ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ کوئی جماعت اپنا مرکز قائم کرے اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ خلیفہ ہو جو اپنی رائے میں آزاد ہو لیکن وہ سب سے مشورہ طلب کرے۔ جو رائے اس کو پسند آئے وہ اس کو قبول کرے اور جو رائے اس کو دین کے لئے اچھی نہ معلوم ہو خواہ وہ ساری جماعت کی ہو اس کو رد کر دے اور اس کے مقابلہ میں جو بات اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈالے اور جس پر اس کو قائم کرے وہ اس کو پیش کرے اور لوگ اس کو قبول کر کے اس پر عمل کریں۔ جن لوگوں سے خلیفہ مشورہ طلب کرے ان کا فرض ہے کہ دیانت سے صحیح مشورہ دیں۔ اور جب مشورہ طلب کیا جائے تو خواہ کسی کے بھی خلاف ان کی رائے ہو بیان کر دیں لیکن یہ دل میں خیال نہ کریں کہ اگر ہماری بات نہ مانی گئی تو یہ غلطی ہو گی۔
پس خلیفہ کے یہ معنے نہیں کہ وہی اسلام کا بوجھ اٹھانے والا ہے بلکہ اس کے معنے ہیں کہ وہ تمام جماعت کو انتظام کے ماتحت رکھنے والا ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی انسان بھی مشورہ سے آزاد نہیں۔
یہ خیال باطل ہے کہ مشورہ کی ضرورت نہیں یا یہ کہ مشورہ یونہی ہے اس کا فائدہ نہیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ مجلس مشاورت خلافت کے خلاف بغاوت ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی خلافت مستحکم نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ساتھ مشورہ نہ ہو۔ کئی دفعہ بعض باتیں مشورہ سے ایسی معلوم ہو جاتی ہیں جو انسان کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشورہ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ جنگ احزاب کے موقع پر جب تمام کفار مل کر مدینہ پر چڑھ آئے اور یہود بھی کفار کے ساتھ مل گئے تو حضورؐ نے اپنے اصحاب سے مشورہ طلب کیا۔ حضرت سلمانؓ نے ایک مشورہ دیا کہ مدینہ کے اردگرد خندق کھودی جائے کیونکہ ایران میں یہی طریق رائج ہے اس سے ایک وقت تک دشمن اپنے حملے میں ناکام رہتا ہے۔ یہ رائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئی اس کے مطابق عمل کیا گیا اوراس سے مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ اس مجلس میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی موجود تھے حضرت سلمانؓ کا ان سے رتبہ اور درجہ کم تھا مگرایک بات میں وہ ان سے بڑھا ہوا تھا یعنی اس نے غیر ممالک کو دیکھا ہوا تھا اس لئے فن کی واقفیت تھی۔ پس جو لوگ فن سے واقف ہوں ان کی رائے سے بہت سے کام درست ہو جاتے ہیں۔ ایسے اوقات میں اخلاص کام نہیں آتا بلکہ فن سے واقفیت کام دیتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ مجلس مشاورت میں ہر مذاق اور ہر ایک فن کے لوگ داخل ہوں۔
علاوہ اس کے لوگوں میں یہ بات داخل کر دی جائے کہ اخلاص کے ساتھ فن کی واقفیت بھی پیدا کریں اس لئے ضرورت ہے کہ مجلس مشاورت میں ماہرین فن بھی آئیں۔ ان میں ایسے بھی ہوں جو اپنے دستخط بھی کرنا نہیں جانتے لیکن وہ اپنے علاقہ میں ایسا اثر اور رسوخ رکھتے ہوں کہ اپنے علاقہ میں کام کے متعلق جوش پیدا کر سکیں اور لوگوں میں جوش نہیں پھیل سکتا جب تک علاقہ کے ذی اثر لوگ اس مجلس میں داخل نہ ہوں۔
لیکن چونکہ مشورہ عام ہوتا ہے اس میں داخل ہونے والے بعض بطور مشغلہ کے بھی آتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ نمائندے الگ ہوں اور دوسرے الگ۔ پس جو نمائندہ ہے وہ مشورہ دے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے ثابت ہے کہ آپؐ مجالس مشورہ میں سب کی بات نہیں مانا کرتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ اپنے امیر سے کہو کیونکہ اگر امراء اور نمائندوں کی رائے نہ لی جائے تو مشورہ کی غرض باطل ہو جاتی ہے۔ مشورہ کی اہمیت بتانے کے بعد وہ نصائح سناتا ہوں جو میں نے پچھلے سال بھی مجلس مشاورت کے وقت بیان کی تھیں۔ میں ان کو رپورٹ سے پڑھ کر سناتا ہوں کہ مشورہ میں یاد رہیں اور مشورہ دینے والوں کا قدم جادۂ اعتدال سے باہر نہ ہو۔‘‘
(خطاب 31مارچ 1923ء، خطابات شوریٰ جلد اول صفحہ45تا48)
٭…٭…٭