احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
جیسے اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کے ہاں عکرمہؓ جیسا بزرگ بیٹا پیدا کر دیا تھا۔ اسی طرح مرزا امام دین صاحب کی لڑکی خورشید بیگم جو ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب سے بیاہی ہوئی تھیں۔ بڑی نیک اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سلسلہ احمدیہ کی سچی عاشق تھیں انہوں نے اپنی وفات تک ایسا اخلاص دکھایا کہ حیرت آتی ہے
دیگرجدّی رشتہ دار
(حصہ سوم)
مرزا امام الدین صاحب
مرزا غلام محی الدین صاحب کے لڑکوں میں سب سے بڑے مرزا امام الدین تھے جو بہت لانبے اور وجیہ شکل تھے۔ (ماخوذ از سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر831)یہ دہلی کے محاصرہ کے وقت ہاڈسن ہارس میں رسالدار تھے اور 1904ء میں فوت ہوئے۔ (بحوالہ کتاب تذکرۂ رؤسائے پنجاب مترجم سیدنوازش علی جلد دوم صفحہ69، سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر134)
مرزا امام الدین صاحب حضرت اقدسؑ کے جدی مخالفین میں سے اول نمبر پر تھے۔ دیکھا جائے تو ان کی سرشت میں یہ مخالفت ابتدا سے ہی تھی۔ انہوں نے اپنے تایا یعنی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے والد ماجد حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کو قتل کرنے کے لیے ایک سازش بھی کی تھی۔ اور اس کے لیے سوچیت سنگھ نام کاایک کرائے کا قاتل بھی حاصل کیا۔ لیکن اس مذموم ارادے میں انہیں کامیابی نہ ہوسکی۔ اس کدوکینہ کااندازہ اس امرسے کیاجاسکتاہے کہ جونہی حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کی وفات ہوئی اور ان کے بعد جب گھر کے امورکی باگ ڈور صاحبزادہ مرزا غلام قادرصاحب کے ہاتھ میں آئی تو مرزا امام الدین صاحب نے ان کے خلاف مقدمات دائر کردیے۔ اور ساتھ ساتھ حضرت اقدسؑ کے خلاف مخالفت اور سب وشتم کا ایسامحاذ قائم کرلیا کہ آپؑ کی مخالفت میں وہ ہراس شخص کاساتھ دیتے نظرآتے جوحضرت اقدسؑ کی مخالفت پرتیارہوتا۔ ہم احمدیت کی تاریخ کےاس باب میں کبھی انہیں مسلم مخالف مولویوں کےساتھ دیکھتے ہیں تو کبھی عیسائیوں کے ساتھ اورکبھی یہ مخالفانہ جوش یوں ظاہرہوتاہے کہ مشہوردشنام طراز آریہ لیڈر پنڈت لیکھ رام جس کا کام ہی نبی اکرمﷺ کے خلاف بدزبانی کرنا تھا اس کو یہ لوگ خود قادیان لائے اور اس کی مہمان نوازی کی اور حضرت اقدسؑ کے خلاف اس کی حمایت میں کھڑے ہوئے یہاں تک کہ امام الدین صاحب اس دشمنی میں اتنے بڑھ گئے کہ وہ خود آریہ سماج میں داخل ہوگئے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ اس کےمتعلق فرماتے ہیں کہ’’مرزا امام الدین جو ہماری برادری میں سے ہے اور دین اسلام سے مرتد ہے اوراب آریہ سماج میں داخل ہوگیاہے…۔‘‘(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن 2صفحہ238)
مصنف ’’مجدداعظم‘‘ مرزاامام الدین صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’مرزاامام الدین صاحب حضرت اقدس کے ایک چچازادبھائی تھے۔ ان کی طبیعت پردہریت والحادکاغلبہ تھا۔ اورشریکہ کے طورپرحضرت اقدس کی مخالفت ان کادن رات کامشغلہ تھا۔ ان کی مجلس میں بھنگڑاور چرس پینے والے لوگ جمع ہوتے اور دینی باتوں کی ہنسی اڑانا اور لغو اعتراضات کرناجیساکہ اباحتی فقیروں کاشیوہ ہے اس مجلس کا کام ہوتاتھا۔ ا ورحقیقت یہ تھی کہ مرزاامام الدین صاحب خوددہریہ تھے۔ انہوں نے جوسنا کہ لیکھرام اس قسم کی خط وکتابت کررہاہے انہوں نے اسے اپناآلۂ کاربناکراپنی حاسدانہ مخالفت کے کام کو سرانجام دیناچاہا۔ چنانچہ وہ خود گئے اورلیکھرام کواپنے ساتھ قادیان لے آئے۔ یہ نومبر1885ء کاواقعہ ہے۔ لیکھرام کی طبیعت میں بیہودہ گوئی استہزا اورتمسخربہت تھا اوریہی رنگ مرزا امام الدین صاحب کی طبیعت میں بھی تھا۔ اس لئے دونوںکی جوڑی اچھی مل گئی۔ قادیان کے آریہ سماج کی تجدیدہوئی۔ مرزا امام الدین، منشی مرادعلی، ملاحسیناں وغیرہ بھی عملی طورپرآریہ سماج قادیان کے ممبربنے۔‘‘(مجدداعظم جلداول صفحہ 128)
ان صاحب کے دین مذہب کا تو کوئی حال ہی نہ تھا خدا اور اس کے رسولوں کو گالیاں دینا اور شعائراسلام کی ہتک وتوہین کرنا ان لوگوں کا کام تھا۔ بے دینی یہاں تک بڑھی کہ بھنگیوں اور چوڑھوں کے پیر اور پیشوا ’’لعل بیگ‘‘ کہلانا شروع کردیا۔ اورقادیان میں بالمیک کے نام کامندربناکرسنکھ اورگھڑیال بجاناشروع کردیا۔ یہ مندر لنگرخانہ اور بہشتی مقبرہ کے پل کے درمیان مرزامحمداشرف صاحب کے مکان کی جگہ پرتھا۔ (ماخوذازمضامین شاکر: جلد اول صفحہ 28، 280، 281)
چوڑھوں کی پیری کا تذکرہ تو اتنا عام ہواکہ ایک انگریز پروفیسر نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی سوانح اور عقائد پر ایک مختصر سی کتاب لکھی تو اس میں اس کا بھی ذکر کیا۔ وہ لکھتاہے:
“Mirza Imam-ud-Din, a first cousin of Mirza Ghulam Ahmad, became the Guru of the chuhra or Sweeper community and claims to be the successor of Lal Beg.” (“Mirza Ghulam Ahmad The Mehdi-Messiah of Qadian” Page 01)
ترجمہ: مرزا امام الدین، جو مرزا غلام احمد (علیہ السلام) کا فرسٹ کزن ہے، چوڑھوں یا صفائی کرنے والوں کا گرو بن گیا اور وہ لعل بیگ کے جانشین ہونے کا دعوےدار ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب /ہندوستان میں مختلف ذاتوں اور اقوام کے مختلف گرواور پیر ہیں۔ مثلاً شاہ مدار؛مداریوں کا پیر، بھگت کبیر؛جولاہوں کا پیر، شمس؛سناروں کا پیر، لقمان: لوہاروں ترکھانوں کا پیر، نام دیو: دھوبیوں کا پیر، لعل بیگ: بھنگیوں اورچوڑھوں کا پیر…
پنجاب کی مشہورپنجابی منظوم لوک داستان ’’ہیروارث شاہ‘‘ کے بند نمبر350 میں ان تمام مختلف پیروں اور گوروؤں کونظم کیاگیا ہے چنانچہ شاعر کہتاہے:
نام دیو ہے گورو جیوں چھینبیاں دا لقمان لوہار ترکھاسِیاں دا
خواجہ خِضر ہے میاں مُہانیاں دا نقشبند مغلاں چغتاسیاں دا
سَرور سخی بھرائیاں سِیّوکاں دا لعل بیگ ہے چُوہڑیاں خاصیاں دا
نَل راجہ ہے گورُوجَواریاں دا شاہ شمس سُنیاریاں ہاسیِاں دا
( ہیروارث شاہ متن و اردو ترجمہ پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی صفحہ 234بندنمبر350)
مرزا امام دین اور سول اینڈملٹری گزٹ کی شرارت
ایک بار سول اینڈملٹری گزٹ نے نادانستہ یا شرارت سے کچھ ریمارکس دیے چونکہ اس کا تعلق مرزا امام دین سے بھی ہے اس لیے وہ خبراور اس پر حضرت اقدسؑ کے ریمارکس درج کیے جاتے ہیں۔ بحوالہ ’’البدر‘‘ جو تفصیل شائع ہوئی وہ کچھ اس طرح سے ہے:
’’مردم شماری میں خلا ف وا قعہ رپورٹ
مولوی عبدالکریم صاحب(رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ سول ملٹری گزٹ میں چونکہ حسب دستور مردم شماری پر ریمارک لکھا جا رہا ہے انہوں نے اس غلطی کو شائع کر دیا ہے کہ احمدیہ فرقہ کا بانی مرزا غلام احمد ہے۔ اس نے اول ابتدا چوڑھوں سے کی۔ پھر ترقی کرتے کرتے اعلیٰ طبقہ کے آدمی اس کے پیرو ہو گئے۔ حضر ت اقدس نے فرمایا: اس کی بہت جلد تردیدہونی چاہیے یہ تو ہماری عزت پر سخت حملہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ اسی وقت حکم صادر ہوا کہ ایک خط جلد تر انگریزی زبان میں چھاپ کر گورنمنٹ اور مردم شماری کے سپرنٹنڈنٹ کے پاس بھیجا جاوے تاکہ اس غلطی کا ازالہ ہو اور لکھا جاوے کہ گورنمنٹ کو معلوم ہو گاکہ چوڑھے ایک جرائم پیشہ قوم ہے ان سے ہمارا کبھی بھی تعلق نہیں ہوا۔ ایک شخص نامی مرزا امام دین قادیان میں ہے جس سے ہماری تیس برس سے عداوت چلی آتی ہے اور کوئی میل ملاپ اس کا اور ہمارا نہیں ہے۔ اس کا تعلق چوڑھوں سے رہا اور اب بھی ہے۔ اس کی عادات اور چال چلن کو ہم پر تھاپ دینا سخت درجہ کی دلآزاری ہماری اور ہماری جماعت کی ہے اور یہ عزت پر سخت حملہ ہے اور بڑی مکروہ کارروائی ہے جو کہ سرزد ہوئی ہے اور چوڑھے تو درکنارہمیں تو ایسے لوگوں سے بھی تعلق نہیں ہے جو کہ ادنیٰ درجہ کے مسلمان اور رذیل صفات رکھتے ہیں۔ ہماری جماعت میں عمدہ اور اعلیٰ درجہ کے نیک چال چلن کے لوگ ہیں اور وہ سب حسنہ صفات سے متصف ہیں اور ایسے ہی لوگوں کو ہم ساتھ رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ کو چاہیے کہ صاحب ضلع گورداسپور سے اس امر کی تحقیقات کرے اور عدل سے کام لے کر اس آلودگی کو ہم سے دور کرے۔ ہم خود امام دین کو اسی لیے نفرت سے دیکھتے ہیں کہ اس کا ایسی قوم سے تعلق ہے۔ پنجاب میں یہ مسلم امر ہے کہ جس شخص کے زیادہ تر تعلقات چوڑھوں سے ہوں اس کا چال چلن اچھا نہیں ہوا کرتا۔ اس گورنمنٹ کا فرض ہے کہ اس غلطی کا ازالہ کر ے۔‘‘(ملفوظات جلد 5 صفحہ 48، 49، البدر جلد2نمبر 5 صفحہ 36۔ 37 مو رخہ 20؍ فروری1903ء)
مرزا امام الدین صاحب نے کچھ کتابیں بھی لکھی تھیں مثلاً: دیدۂ حق، گل شگفت، ہدایت نامہ اور ’’دوکافروں کی کہانی‘‘ وغیرہ
وفات: مرزا امام الدین کی وفات سیرت المہدی کی ایک روایت کے مطابق جو اس قسط کے آغاز میں مذکور ہے 1904ءمیں جبکہ دیگر روایات کے مطابق 6؍جولائی 1903ء کو ہوئی۔ (بحوالہ الحکم جلد7نمبر26صفحہ 10، 17؍جولائی 1903ء، ملفوظات جلد6صفحہ 44)
مرزا امام الدین صاحب کی ایک بیٹی خورشید بیگم صاحبہ کی شادی حضرت اقدسؑ کے سب سے بڑے بیٹے صاحبزادہ حضرت مرزا سلطان احمدصاحب کے ساتھ ہوئی۔ (ماخوذ از سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر212) صاحبزادہ مرزا رشیداحمدصاحب ان کے بطن سے تھے۔ (ماخوذ از سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 864، حضرت مرزا سلطان احمد مرتبہ میر انجم پرویز صاحب صفحہ10)
صاحبزادہ مرزا رشیداحمدصاحب کی شادی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ کی بیٹی صاحبزادی امۃ السلام صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔ صاحبزادہ مرزا رشیداحمدصاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے سسر تھے۔
حضرت مصلح موعوؓد محترمہ خورشید بیگم صاحبہ کاذکرخیرکرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں: ’’میں نے بتایا ہے کہ مرزا امام دین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سخت مخالف تھے لیکن جیسے اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کے ہاں عکرمہؓ جیسا بزرگ بیٹا پیدا کر دیا تھا۔ اسی طرح مرزا امام دین صاحب کی لڑکی خورشید بیگم جو ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب سے بیاہی ہوئی تھیں۔ بڑی نیک اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سلسلہ احمدیہ کی سچی عاشق تھیں۔ انہوں نے اپنی وفات تک ایسا اخلاص دکھایا کہ حیرت آتی ہے۔‘‘ (الفضل 30مئی1959ء صفحہ 3 کالم 3)
مرزاامام الدین اورمرزانظام الدین صاحبان کی تصاویر ’’لائف آف احمد‘‘ میں شائع ہوئی تھیں۔ لیکن ان کی طباعت اتنی عمدہ نہیں کہ دوبارہ شائع کی جاسکیں۔
(باقی آئندہ)