امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ (Los Angeles) امریکہ کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 06؍مارچ 2022ء کو ممبران مجلس خدام الاحمدیہ (Los Angeles) امریکہ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ ممبران مجلس خدام الاحمدیہ نے بیت الحمید مسجد کیلیفورنیا (امریکہ) سے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد ممبران مجلس خدام الاحمدیہ کو حضور انور سے اپنے عقائد اور عصر حاضر کی بابت سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ ایک خادم مغربی کلچر (جس میں وہ پیدا ہوا ہے) اور مشرقی کلچر (جو اس کے والدین کا ہے) کے تضاد میں جو دقت محسوس کرتا ہے، ان دونوں سے کس طرح مضبوط تعلق رکھ سکتا ہے اور وہ کس طرح ایک اچھا ا حمدی مسلمان رہ سکتا ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ اگر اسلام ایک عالمگیر مذہب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے توپھر وہاں ثقافت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے۔ لوگ مختلف ثقافتوں سے اسلام میں داخل ہوں گے۔ اگر آپ امریکہ میں تمام لوگوں کو یا اکثریت کو مسلمان بنا دیں اور انہیں احمدیت کی آغوش میں لے آئیں تو کیا وہ آپ کا ایشین کلچر اپنائیں گے؟ نہیں وہ صرف اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں گے۔ اور اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ انسان کو اپنے خالق یعنی اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے چاہئیں۔ وہ حقوق یہ ہیں کہ اس کی عبادت کرو جیساکہ قرآن کریم میں حکم فرمایا گیا ہے۔ یا جیساکہ آنحضورﷺ نے ہمیں بتایا ہے اور اپنے عمل سے ظاہر کیا۔ دوسرا یہ کہ قرآن کریم کے احکامات و ارشادات پر عمل کرو۔ تو یہ کلچر کی بات نہیں ہے۔ اپنا کلچر دوسروں پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں۔ اس لیے نو مبائع بے چین یاپریشان ہوتے ہیں جب وہ آپ کی صحبت میں آتے ہیں یا آپ کے اجلاسات میں آتے ہیں۔ آپ اپنا ایشین کلچر ان پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ آپ صرف انہیں اسلام کی تعلیمات کے متعلق بتانے کی کوشش کریں اور سمجھائیں کہ یہ مذہب ہے اور یہ کلچر ہے۔ آپ کی اپنی روایات ہیں۔ کئی ایسی ایشین روایات ہیں جو اسلام کی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ اسلام یہ باتیں سکھاتا ہے۔ بہت سی بدعات ہیں جو اسلام کی تعلیمات میں داخل ہوگئی ہیں اور جن کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں ہے، یہ کلچرہے۔ تو اگر آپ پانچ وقت نمازیں ادا کرتے ہیں، اگر آپ اخلاقی طور پر اچھے ہیں، اگر آپ قرآن کریم کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔ قرآن کریم میں 700یا 700 سے زائد احکامات دیے گئے ہیں،اگر آپ ان پر عمل کر رہے ہیں تو وہ کافی ہے۔ ورنہ آپ اسلام کا پیغام نہیں پھیلا سکتے اور تبلیغ نہیں کر سکتے۔ عرب لوگوں کی اپنی ثقافت ہے، افریقن لوگوں کی اپنی ثقافت ہے، امریکن لوگوں کی اپنی ثفاقت ہے، یورپین لوگوں کی اپنی ثقافت ہے اور ایشین لوگوں کی اپنی ثقافت ہے۔ ایشیا میں کئی ثقافتیں اور مذاہب پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہندو ہیں۔ ہندو ثقافت نے پاکستانی ثقافت کو متاثر کیا ہے کیونکہ پرانے زمانے میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ آباد تھے۔ تو انسان کو ہمیشہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے۔ اسلامی کلچر ہی اصل کلچر ہے۔ وہ کوئی ایشین کلچر نہیں ہے۔ اور اسلامی کلچر اصل میں اسلامی تعلیمات ہی ہیں۔ یعنی قرآن کریم کے تمام احکامات پر عمل کرنا۔ اس کے علاوہ اَور کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ اپنی پنجوقتہ نمازیں ادا کر رہےہیں، اگر آپ قرآن کریم پڑھ رہے ہیں، اگر آپ اخلاقی طور پر اچھے ہیں، اگر آپ قرآن کریم کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں، اگر آپ بگڑے ہوئے یا رشوت خور نہیں ہیں، اگر آپ اپنے والدین اور اپنے بڑوں کی عزت کرتے ہیں جیساکہ ان کا حق ہے اگر آپ اپنی قوم کے ساتھ سچے اور وفا دار ہیں، اگر آپ جہاں کہیں پر بھی ہوں بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں مثلاً اگر آپ طالب علم ہیں اور آپ ایک اچھے طالب علم بننے کے لیے بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں، پھر یہی آپ کا کلچر ہے اور یہی تعلیم ہے اس کے علاوہ اَور کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ احمد ی ہیں اور آپ خلیفہ وقت کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور خلیفہ وقت کے کامل فرمانبردار ہیں۔ اگر آپ اپنی بیعت کی شرائط پر پوری طرح عمل کر رہے ہیں، اگر آپ اپنی بیعت کی عزت و تکریم کر رہے ہیں تو پھر آپ ایک اچھے احمدی مسلمان ہیں اور یہی آپ کی روایت، کلچر اور تعلیم ہے۔
پھر ایک خادم نے سوال کیا کہ بعض سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کا نظریہ ہے کہ ہومیوپیتھک اور ہربل ادویہ صرف پلاسیبو (placebo)کا کام دیتی ہیں۔ اور ان کا بیماریوں کے علاج میں کوئی کردار نہیں۔ بطور احمدی ہمیں اس کا کیسے جواب دینا چاہیے؟نیز ہومیوپیتھک کے جسم پر اثرات کے بارے میں مزید جاننے کے لیے کون سے ذرائع میسر ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ یہ عہد جدید کے ڈاکٹرز اور ریسرچرز کا پروپیگنڈا ہے جو ایلوپیتھی کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہومیوپیتھی کا نفسیاتی اثر ہے اور اس کا علاج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عہد قدیم میں ان دیسی اور ہربل ادویہ کو مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور اس علاج کے اچھے اور امید افزا نتائج نکلتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہومیوپیتھک میں تو میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ دوائی کے معاملہ میں مَیں یہ نہیں مانتا کہ اس کا مجھ پر کوئی معجزانہ اثر ہے یا اس کا مجھ پر کوئی معجزانہ اثر ہو سکتا ہے۔ میں اس کو بس دوائی کے طور پر لیتا ہوں اور میری بیماری کا علاج ہو جاتا ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ کوئی تحقیق نہیں ہو رہی۔ ہومیوپیتھی میں ڈاکٹرز اور ریسرچرز کی فرانس اور جرمنی میں ایک خاصی تعداد ہے جو اس پر تحقیق کر رہے ہیں بلکہ انڈیا میں بھی وہ نئی ادویہ متعارف کر وا رہے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کونسی دوائی ہمارے لیے مفید ہے۔ اگر آپ کا ایمان ہے کہ شفا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے تو اللہ تعالیٰ تو کسی بھی دوائی کے ساتھ شفا دے سکتا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ کونسی دوائی مفید ہے۔ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ دوائی لے رہے تھے تو آپ نے ہومیو پیتھی دوائی لی، پھر دیسی ہربل دوائی لی اور پھر ایلو پیتھی دوائی لی، کسی بیماری کے لیے جو بیماری بھی تھی۔ کوئی شخص ساتھ بیٹھا ہوا تھااس نے پوچھا آپ نے تینوں نسخے لیے ہیں۔ آپ کو کیا علم کہ کون سی دوائی مؤثر ہوگی۔ آپؓ نے فرمایا کہ مجھے ان میں سے کسی ایک پر بھی اعتبار نہیں ہے۔ میں صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ وہ شفا دینے والا ہے۔ اور مجھے صرف اتنا علم ہے کہ مجھے پتا نہیں۔ میں وہ نہیں جسے غیب کا علم ہو۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور مجھے علم نہیں کہ کونسی دوائی میرے لیے مؤثر ہے۔ اسی وجہ سے میں نے تمام دوائیاں لے لی ہیں۔ چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہومیوپیتھی میں شفا رکھی ہے تو وہ کار آمد ہوگی۔ اگر ایلوپیتھی میں شفا رکھی ہے تو وہ کارآمد ہوگی۔ اور اگر اللہ تعالیٰ نے دیسی دوائیوں میں شفا رکھی ہے تو وہ کار آمد ہوں گی۔ اس بات کا ہمارے ایمان کے ساتھ تعلق نہیں ہے کہ ہومیو پیتھی ہی وہ واحد دوائی ہے جو کار آمد ہوگی۔ مگرایمان کا یہ تقاضاہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھیں اور ہمارا یہ ایمان ہونا چاہیے کہ وہ شفا دینے والاہے۔ گو مریضوں کی ایک خاصی تعداد ایسی ہے جن کا ڈاکٹرز ہسپتالوں میں طبی علاج کرتے ہیں اور وہ مجھے ہومیوپیتھی نسخہ کے لیےلکھتے ہیں۔ اگر کوئی ہومیوپیتھی نسخہ ہو تو ہمارے ڈاکٹرز کےمشورہ کے ساتھ میں انہیں دوائی بھجواتا ہوں اور بعض اوقات وہ مؤثر ہوتی ہے۔ بعض اوقات ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہمارے علاج معالجہ کے مطابق اس بیماری نے لمبا عرصہ رہنا تھا مگر اس کا علاج قلیل وقت میں ہوگیا ہے اور یہ تو ایک معجز ہ ہے۔ سو ہمیں علم نہیں کہ آیا ایلوپیتھی دوائی دعاؤں کے ساتھ کارآمد ہوئی۔ اور وہ معجزہ اس کے نتیجہ میں رونما ہوا یا پھر ہو میو پیتھی دوائی کے نتیجہ میں۔ سوا س بات کو پیش نظر رکھیں کہ ہم کسی بھی دوائی پر بھروسہ نہیں رکھتے۔ ہمارا یہ پختہ ایمان ہے کہ اللہ شفا دینے والا ہے اور وہ شافی ہے۔ اسی وجہ سے میں ہمیشہ احمدی ڈاکٹرز کو کہتا ہوں کہ جب کبھی وہ مریضوں کے لیے کوئی نسخہ لکھ رہے ہوں تو انہیں ھو الشافیلکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ شفا دینے والا ہے نہ کہ وہ اور نہ ہی ان کی دوائی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس دوائی کو مریضوں کے لیے شفا کا موجب بنائے۔
ایک خادم نے سوال کیاکہ حال ہی میں سوشل میڈیا پر بعض احمدیوں نے خلیفہ وقت کی اطاعت کا بہترین نمونہ نہیں دکھایا۔ پیارے حضور ایسے خدام کو کیسے سمجھایا جا سکتا ہے کہ کامل اطاعت خلافت ایک لازمی امر ہے اور بہت سی برکتوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ بہت ہی مفید ہوگا اگر حضور انور صحابہ رضوان اللہ علیہم کا نمونہ پیش کر سکیں کہ کس طرح انہوں نے خلفاء کی اطاعت کی۔
حضور انور نے فرمایا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں اس پر ایک پورا خطبہ دوں جو کہ میں دے چکاہوں۔ میں ہمیشہ سے دیتا چلا آیا ہوں۔ اگر آپ شرائط بیعت والی کتاب کا مطالعہ کر لیں جو میرے خطبات اور خطابات پر مشتمل ہے تو اس میں اس سوال کا بڑی تفصیل کے ساتھ جواب دیا گیاہے۔ بہر حال بات یہ ہے کہ ان کو مذہب کی کوئی پروا نہیں۔ اگر آپ تفصیلی جائزہ لیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ان میں سے اکثر پنجوقتہ نماز ادا نہیں کر رہےبلکہ جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتے۔ وہ ان فرائض کو ادا نہیں کرتے جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کو سونپا ہے۔ پس جو لوگ اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کر تے وہ خلافت کے فرمانبردار کس طرح ہو سکتے ہیں؟ بلکہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو نماز ادا کرتے ہیں لیکن ان میں دین اوراطاعت کا فہم نہیں پایا جاتا۔ آپ خدام الاحمدیہ کے عہد میں ہمیشہ دہراتے ہیں ،بلکہ یہ بیعت کی بھی ایک شرط ہے کہ آپ خلیفہ وقت کے معروف فیصلوں کی اطاعت کریں گے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت ایسے فیصلے بھی کر سکتا ہے جو معروف نہ ہوں۔ لیکن وہ اس بات میں غلطی پر ہیں۔ کیا ان کے پاس کوئی ایسی فہرست ہے جو معروف اور غیر معروف میں امتیاز کرے کہ یہ ٹھیک ہے اور یہ غلط ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں آنحضورﷺ کے لیے استعمال ہوا ہےکہ میں آنحضورﷺ کے معروف فیصلوں کی اطاعت کروں گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا کہ کیا انہوں نے ایک فہرست تیار کی تھی کہ آنحضورﷺ کا فلاں فیصلہ معروف اور فلاں فیصلہ غیر معروف تھا؟ پس آپؓ نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی حکم دیا ہے اس کی وہ پابندی کریں گے۔ ابھی میں نے پچھلے خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ حضرت ابو بکرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں فرمایا کہ اگر آپ دیکھیں کہ میں قرآنی حکموں یا سنت سے ہٹ رہاہوں تو میری راہنمائی کرنا اور میری اطاعت مت کرنا۔ لیکن اس کے علاوہ آپ کو (نافرمانی کا) کوئی حق نہیں۔ پس اس کا یہ مطلب ہے کہ خلیفہ وقت ہمیشہ قرآن کریم کے احکام اور سنت کے مطابق آپ کو ہدایات دیتا ہے۔ اور جب اس نے قرآن اور سنت کے موافق ہدایت دے دی تو آپ کے پاس نا فرمانی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ یا تو آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کے احکام اور ہدایات قرآن کریم اور آنحضورﷺ کی سنت کے خلاف ہیں یا آپ کو اطاعت کرنی ہوگی۔ اگر آپ یہ کہیں کہ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا اور آنحضورﷺ نے اس پر کبھی عمل نہیں کیا تو آ پ کو اس کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ آپ کو یہ بات خلیفہ وقت کو لکھنی ہوگی۔ بجائے اس کے کہ آپ باتیں پھیلائیں اور سوشل میڈیا پر لغو تبصرے کریں، یہ صحیح طریقہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے پہلے یا دوسرے خطبہ میں یہ کہا تھا کہ اگر آپ کو مجھ میں کبھی کوئی غلطی نظر آئے تو مجھ سے سوال کریں اور میری تصحیح کی کوشش کریں۔ اگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ ٹھیک ہے تو میں آپ کو اس کا ثبوت دے دوں گا کہ میں صحیح ہوں اور اگر آپ کی بات درست ہوگی تو میں اپنی تصحیح کرلوں گا۔ لیکن آپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ آپ ادھر ادھر باتیں پھیلائیں۔ یہ بات میں نے خلافت کے بعد پہلے یا دوسرے خطبہ میں بیان کی تھی۔ پس میں خود یہ بات کہہ چکا ہوں۔ پس معروف کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ بات جو قرآن کریم کے مطابق ہو وہ معروف کے زمرہ میں آتی ہے۔ ایک حدیث میں ہےکہ ایک دفعہ صحابہ کا ایک گروہ ایک مہم پر بھیجا گیا، راستہ میں انہوں نے ایک آگ جلائی تو امیر قافلہ نے کہا کہ اس آگ میں کود جاؤ۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ ٹھیک ہے، کیونکہ یہ امیر کا حکم ہے اس لیے اس کی اطاعت کرنی ہوگی۔ باقیوں نے کہا کہ نہیں، یہ خود کشی ہے، ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر بھی کچھ ایسے تھے جو کودنے کےلیے تیار تھے۔ تب امیر نے انہیں روکا اور کہا کہ نہیں نہیں میں تو صرف مذاق کر رہا تھا۔ جب وہ واپس لوٹےاور آنحضورﷺ کو یہ واقعہ سنایا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر آپ لوگ ایسا کر گزرتے تو یہ غلط ہوتا۔ یہ خود کشی ہوتی۔ امیر کا یہ فیصلہ معروف نہیں تھا اور اسلام کی تعلیم اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نہیں تھا۔ اور جنہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا انہوں نے ٹھیک کیا۔ اور جو آگ میں کودنے کے لیے تیار تھے وہ غلطی پر تھے۔ اور امیر کا یہ حکم دینا بھی غلط تھا۔ یہ اصل بات ہے کہ جو فیصلہ قرآن کریم کی تعلیم اور سنت کے برخلاف ہو وہ معروف نہیں۔ اور ایسے فیصلے سے انکار کرنا آپ کا حق ہے۔ لیکن جو فیصلہ قرآن اور سنت کے مطابق ہو اس کی اطاعت کرنا آپ پر لازم ہے۔ اگر آپ کہیں کہ فلاں بات اچھی نہیں ہے اور فلاں بات درست نہیں ہے تو آپ خلیفہ وقت کو لکھیں۔ آپ ان سے دریافت کریں کہ آپ ہمیں حکم کیوں دے رہے ہیں؟ آپ ہمیں اس ارشاد یا ہدایت کی تعمیل کرنے کا کیوں حکم دے رہے ہیں جبکہ وہ غلط ہے اور قرآن اورسنت کے مخالف ہے۔ پھر خلیفہ وقت یہ ثابت کرے گا کہ اس کا فیصلہ صحیح تھا۔ یا وہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ تم صحیح ہو اور پھر وہ اس فیصلہ کو واپس لے لے گا۔ لیکن آپ کو سوشل میڈیا پر غلط باتیں کرنے یا لوگوں کو گمراہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ایک خادم نے سوال کیاکہ کچھ خدام اور اطفال مسجد سے دور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے والدین ان کو مسجد نہیں لے کر آتے۔ ایسے خدام اور اطفال سے بمشکل تعلق پیدا ہوتا ہے۔ اس معاملے کے متعلق حضور انور کی کیا راہنمائی ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ اگر وہ اپنے والدین کی وجہ سے جماعت سے دور ہو چکے ہیں تو پھر جماعتی نظام کے تحت اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ایک مشترکہ اور مربوط کوشش ہونی چاہیے تاکہ ان والدین یا بزرگوں کی تربیت کرسکیں۔ ان کو ان کی شکایات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ عمومی طور پر والدین میں جماعت سے اس وجہ سے دوری ہو جاتی ہے کیونکہ عہدیداران سے ان کی ذاتی رنجش پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر عہدیدار اچھے بھی ہوں تو بھی وہ بدل جائیں گے۔ تو عہدیداران کا کام ہے کہ وہ ان لوگوں کے شبہات اور رنجشوں کو دور کرنے والے ہوں۔ جب ان کی اصلاح ہوجائے گی تو بچوں کی بھی اصلاح ہوجائے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کو منصوبہ بندی بھی کرنی چاہیے کہ ان کا اطفال اور خدام کے ساتھ ایک ذاتی تعلق ہو۔ صرف ان کو مسجد یا میٹنگز یا اجتماعات پر آنے کے لیے نہیں کہنابلکہ اگر آپ کی کھیلنے کی جگہیں ہوں اور آپ وہاں فٹ بال یا کسی اور کھیل کھیلنے کے لیے جمع ہوں تو آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ادھر کھیلنے آجاؤ۔ تو جب وہ آپ کے پاس کھیلنے کے لیے آنا شروع ہوجائیں گے تو وہ آپ سے ایک حد تک جڑ جائیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کا جماعت سے اور آپ سے تعلق بہتر ہوجائے گا۔ تو خدام الاحمدیہ کے تمام عہدیداروں کو ایک ٹیم تشکیل دینی چاہیے تاکہ وہ لوگ جو جماعت سے اتنا زیادہ جڑے نہیں ہیں ان سے ذاتی روابط قائم کرنے کی کوشش کریں اور اس طریقے سے وہ آپ کے زیادہ قریب آجائیں گے۔ لیکن اس سے پہلے جماعت کی مکمل انتظامیہ کے تحت ایک مربوط کوشش ہونی چاہیے۔ یعنی جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کے تحت جس کے ذریعہ سےوہ ان کے والدین کے شبہات اور رنجش کو دور کر سکیں۔ اور لجنہ بھی یہ کرے۔ اگر ان کی اصلاح ہو جاتی ہے تو وہ جماعت سے جڑ جائیں گے اور بچے بھی مسجد آنا شروع ہو جا ئیں گے۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ آپ بچوں کو جماعت سے جوڑنے میں کامیا ب ہوجائیں لیکن کچھ عرصہ کے بعد ان کے والدین ان کو کہیں کہ نہیں تم مسجد نہیں جاسکتے، اگر وہ 15سال یا اس سے کم عمر کے ہوں گے۔ اگر وہ اس سے اوپر ہوں تو وہ اپنا خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن جیساکہ میں نے کہا کہ ہمیں پوری فیملی کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں پر عزم طریقہ سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ کس طرح وہ اپنے دوستوں کو مذہب پر یقین اور ہر فرد کی زندگی میں مذہب کی اہمیت کا بتا سکتے ہیں ؟
حضور انور نے فرمایا کہ اگر آپ عملی احمدی مسلمان ہیں اور آپ کے دوست آپ میں کوئی خاص بات محسوس کرتے ہیں تو وہ خود اس کو محسوس کریں گے۔ اگر آپ اچھے اخلاق کے مالک ہیں اور ہر کسی سے ہمیشہ اچھے طریق سے پیش آتے ہیں اور آپ کے طور طریقے باقی طلبہ سے الگ ہیں تو پھر وہ آپ سے خود پوچھیں گے کہ ایساکیوں ہے۔ پھر آپ انہیں بتا سکتے ہیں کہ یہ اس لیے ہے کہ میں ایک احمدی مسلمان ہوں اور ہم مذہب میں یقین رکھتے ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ جب ہم کچھ اچھا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں یا آخرت میں اس کا اجر دیتا ہے۔ اور پھر کیونکہ ہم حیات بعد الموت کے قائل ہیں اس لیے اپنے اللہ کو راضی رکھنے کے لیے اور اچھے اجر کے حصول کے لیے ہم اچھے کام کرتے ہیں۔ اور ہم معاشرے میں پیار، امن اور رواداری بڑھانے کے لیے اچھے کام کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے حقوق اللہ کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ جب آپ ان سے اس طرح بات کریں گے تو پھر جو دلچسپی رکھتے ہیں وہ آپ سے مذہب کے بارے میں مزید پوچھیں گے۔ جو دلچسپی نہیں رکھتے وہ آپ کو چھوڑ دیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ کا مذاق اڑائیں۔ لیکن آپ نے ان کی پروا نہیں کرنی۔ آپ کو ان کے مذاق اڑانے کی وجہ سے کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کو خود اپنے گرد ا یک ماحول بنانا ہوگا تاکہ لوگ آپ سے پوچھیں کہ مذہب کیا ہے؟
ایک اَور خادم نے ایسا ہی سوال کیا کہ وہ سکول میں اور اپنی روز مرہ زندگی میں منفی پہلوؤں سے کس طرح نبردآزما ہو سکتے ہیں؟
حضور انور نے ایک مرتبہ پھر اپنے مثالی نمونہ کو پیش کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو اچھے دوست بنانےچاہئیں۔ اگر آپ فطرتاً اچھے ہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں تو پہلا حکم تو اس کے آگے جھکنے کا ہے، نماز ادا کرنے کا ہے۔ جب سکول کے دوران بھی نماز کا وقت ہوجائے تو نماز پڑھنے کی کوشش کریں۔ اپنے استاد سے اجازت لیں کہ بریک (break)میں یا جب بریک نہ بھی ہو کہ اس وقت میری نماز کا وقت ہے۔ اگر آپ مجھے چند منٹ دے دیں تاکہ میں نماز ادا کر لوں تو اس طرح آپ کے باقی دوست سمجھ جائیں گے کہ آپ الگ مزاج کے آدمی ہیں۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ اگر آ پ کے اخلاق اچھے ہیں، آپ ہمیشہ اچھی طرح پیش آتے ہیں، آپ کی زبان ہمیشہ اچھی ہوتی ہے، آپ کسی بد اخلاقی میں ملوث نہیں ہیں، دوسروں کا برا نہیں سوچتے اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچاتے ہیں، کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتے، ہمیشہ اپنے سکول کے کام میں یا سکول کی دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں، تب انہیں پتا لگ جائے گا کہ یہ طلبہ باقیوں سے مختلف ہیں۔ اور ایسے طلبہ جو اچھی فطرت کے ہیں وہ خود آپ کے پاس آئیں گے اور آپ کو دوست بنانا چاہیں گے۔ تو یہ طریق ہے۔ …پھر اپنا دینی علم بڑھانے کی کوشش کریں کیونکہ بعض دفعہ وہ آپ سے سوال کر سکتے ہیں اور بحث کر سکتے ہیں۔ وہ بہت سے سوالات کر سکتے ہیں اور پھر وہ جب آپ سے سوال کریں گے تو آ پ کو اس قابل ہونا چاہیے کہ ان کے سوالات کے جواب مذہبی نقطہ سے دے سکیں۔
آخر پر حضور انور نے صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اب وقت ختم ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کافی سوالات کے جوابات دیے جاچکے ہیں۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ میں کئی نیک چہرے دیکھ سکتا ہوں۔ کافی نیک فطرت خدام یہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان میں مضبوطی پیدا کرے اور انہیں جماعت کا اور اپنی قوم کا مفید اثاثہ بنائے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ