خدا تعالیٰ جو تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے سب سے زیادہ رحمت مومن پر ہی کرتا ہے
…خدا تعالیٰ اپنی قُدوسیت کی وجہ سے تقاضا فرماتا ہے کہ شخص مجرم کو سزا دے اور بسا اوقات اس تقاضا سے اپنے ملہمین کو اطلاع بھی دے دیتا ہے پھر جب شخص مجرم تو بہ اور استغفار اور تضرع اور زاری سے اُس تقاضا کا حق پورا کر دیتا ہے تو رحمت الٰہی کا تقاضا غضب کے تقاضا پر سبقت لے جاتا ہے اور اس غضب کو اپنے اندر محجوب و مستور کر دیتا ہے۔ یہی معنے ہیں اس آیت کے کہ عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَرَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ (الاعراف: 157) یعنی رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ غَضَبِیْ۔ اگر یہ اصول نہ مانا جائے تو تما م شریعتیں باطل ہو جاتی ہیں۔
(تحفہ غزنویہ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 537)
خدا تعالیٰ جو تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے سب سے زیادہ رحمت مومن پر ہی کرتا ہے اور ہریک مصیبت کے وقت اسے سنبھالتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے اور اگر تمام دنیا ایک طرف ہو اور مومن ایک طرف تو فتح مومن ہی کو دیتا ہے اور اس کی عمر اور عافیت کے دن بڑھاتا ہے۔ دشمن کہتا ہے کہ وہ ہلاک ہوجائے اور ناپدید ہوجائے پر وہ دشمن کو ہی ہلاک کرتا ہے اور اس کی بددعائیں اسی کے سر پر مارتا ہے پر مومن کی دعا کو قبول کر لیتا ہے…۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 244)