احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تحریرات کی روشنی میںآپ کی سنہ پیدائش کا تعین
ولادت باسعادت
(حصہ سوم)
(گذشتہ سے پیوستہ)
xi.ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21 صفحہ258 پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میری عمرستر 70 برس کے قریب ہے ‘‘۔
xii.ریویو بابت نومبر دسمبر 1903ء صفحہ479 پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ میری عمر ستر سال کے قریب ہے۔ حالانکہ ڈاکٹرڈوئی صرف 55 سال کی عمر کا ہے۔‘‘ اسی طرح تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ506 پر فرماتے ہیں: ’’میری طرف سے 23 اگست 1903ء کو ڈوئی کے مقابل پر انگریزی میں یہ اشتہار شائع ہوا تھا جس میں یہ فقرہ ہے کہ مَیں عمر میں ستر70 برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس50 برس کا جوان ہے‘‘۔
xiii.’’ میری عمر غالباً 66سال سے بھی کچھ زیادہ ہے۔‘‘( ریویو اردو ستمبر 1902ء صفحہ 346)
xiv.کتاب البریہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گذری۔ ایک طرف ان کا دُنیا سے اٹھایا جاناتھا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا مجھ سے شروع ہوا۔‘‘ ( کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ 195حاشیہ)
اس سے معلوم ہوا کہ والد بزرگوار کے انتقال کے وقت آپ کی عمر چالیس برس کے قریب تھی اس کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ سلسلہ مکالمات الٰہیہ کے شرف کے وقت آپ نے اپنی عمر متعدد مقامات پر چالیس برس بیان فرمائی ہے۔
اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے والد ماجد کی وفات کب ہوئی؟ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تصنیف سیرۃ المہدی جلداول روایت نمبر469پر آپ کے والد بزرگوار کے انتقال کو 1876ء میں قرار دیا ہے۔ لیکن جہاں تک مجھے علم ہے اس واقعہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر نہایت اہمیت کی حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ نزول المسیح صفحہ 117تا 118پر آپؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’آج تک جو دس اگست 1902ءہے۔ مرزا صاحب مرحوم کے انتقال کو اٹھائیس برس ہو چکے ہیں۔‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن 18 صفحہ 495تا496)
گویا یہ واقعہ 1874ء کا ہے۔ اس میں سے 40 نکالیں۔ تو تاریخ پیدائش 1834ءثابت ہوتی ہے۔
xv.کتاب البرّیہ میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’ میری پیدائش کے دنوں میں ان کی تنگی کا زمانہ فراخی کی طرف بدل گیا تھا اور یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ مَیں نے ان کے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ 177-178 حاشیہ)اسی طرح آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ صفحہ543-544 پر بھی آپؑ یہی فرماتے ہیں۔ اسی طرح سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر129سےپتا چلتا ہے کہ 1816ء کے قریب راجہ رنجیت سنگھ نے رام گڑھیوں کو زیر کر کے ان کا تمام علاقہ اپنے قبضہ میں کر لیا تھا۔ یعنی قادیان رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگیا تھا اور پنجاب چیفس میں لکھا ہے کہ ’’رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جاگیر پر قابض ہو گیاتھا۔ غلام مرتضیٰ کو قادیاں واپس بلا لیا۔ اور اس کی جدّی جاگیر کا ایک بہت بڑا حصہ اُسے واپس دے دیا۔ اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہوا۔ اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔‘‘ ( تذکرہ رؤسائے پنجاب جلددوم صفحہ 67) اس سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کشمیر کی فتح کے وقت رنجیت سنگھ کی فوج میں شامل تھے۔ کشمیر 1819ء میں فتح ہوا۔ اس لیے معلوم یہ ہوتا ہےکہ گو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم قادیان میں واپس آگئے تھے مگر قادیان کے اردگرد کے گاؤں ابھی تک نہیں ملے تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیاں میں واپس آئے اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گاؤں واپس ملے کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنا لی تھی۔ سو ہمارےتمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے۔ اور لاہور سے لےکر پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ 176، 175حاشیہ)
xvi. حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ آپؑ کی تاریخ ولادت کی تعیین کی بحث میں فرماتے ہیں: ’’اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے مخالفین آپ کی عمر کے متعلق کیا کچھ کہتے ہیں۔ لیکھرام کا جو حوالہ مکرم سیّد احمد علی شاہ صاحب نے درج کیا ہے۔ اس کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش 1836ء بنتی ہے اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے حوالوں سے 1829ء اور 1833ء پیدائش کے سن نکلتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک ان سے بڑھ کر جس مخالف کا علم ہونا چاہئے۔ وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں۔ جن کو بچپن سے ہی آپ سے ملنے کا موقعہ ملتا رہا ہے۔ ان کے اشاعت السنہ 1893ء کے حوالہ سے آپ کی پیدائش 1830ء کے قریب بنتی ہے۔‘‘(الفضل 3؍ستمبر 1933ء)
xvii.’’ گیارھواں نشان۔ دانیال نبی کی کتاب میں مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ وہی لکھا ہے جس میں خدا نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ اس وقت بہت لوگ پاک کئے جائیں گے اور سفید کئے جائیں گے اور آزمائے جائیں گے لیکن شریر شرارت کرتے رہیں گے اور شریروں میں سے کوئی نہیں سمجھے گا پر دانشور سمجھیں گے اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور مکروہ چیز جو خراب کرتی ہے قائم کی جائے گی ایک ہزار دو سو نوے1290 دن ہوں گے۔ مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے اور ایک ہزار تین سو پینتیس1335 روز تک آتاہے۔ اس پیشگوئی میں مسیح موعود کی خبر ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا۔ سو دانیال نبی نے اس کا یہ نشان دیا ہے کہ اس وقت سے جو یہودی اپنی رسم قربانی سوختنی کو چھوڑ دیں گے اور بد چلنیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ایک ہزار دو سو نوے1290 سال ہوںگے جب مسیح موعود ظاہر ہوگا سو اِس عاجز کے ظہور کا یہی وقت تھا کیونکہ میری کتاب براہین احمدیہ صرف چند سال بعد میرے مامور اور مبعوث ہونے کے چھپ کر شائع ہوئی ہے اور یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک بارہ سو نوے1290 ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا چکا تھا۔ پھر سات سال بعد کتاب براہین احمدیہ جس میں میرا دعویٰ مسطور ہے تالیف ہو کر شائع کی گئی جیسا کہ میری کتاب براہین احمدیہ کے سرورق پر یہ شعر لکھا ہوا ہے:
از بس کہ یہ مغفرت کا دکھلاتی ہے راہ
تاریخ بھی یا غفور1297 نکلی وہ واہ
سو دانیال نبی کی کتاب میں جو ظہور مسیح موعود کے لئے بارہ سو نوےبرس لکھے ہیں۔ اِس کتاب براہین احمدیہ میں میری طرف سے مامور اور منجانب اللہ ہونے کا اعلان ہے صرف سات برس اِس تاریخ سے زیادہ ہیں جن کی نسبت میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ اِن سات برس سے پہلے کا ہے یعنی بارہ سو نوے1290 کا۔ پھر آخری زمانہ اس مسیح موعود کا دانیال تیرہ سو پینتیس1335 برس لکھتا ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے اس الہام سے مشابہ ہے جو میری عمر کی نسبت بیان فرمایا ہے اور یہ پیشگوئی ظنی نہیں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی جو مسیح موعود کے بارہ میں انجیل میں ہے اُس کا اِس سے توارد ہو گیا ہے اور وہ بھی یہی زمانہ مسیح موعود کا قرار دیتی ہے چنانچہ اس میں مسیح موعود کے زمانہ کی یہ علامتیں لکھی ہیں کہ اُن دنوں میں طاعون پڑے گی زلزلے آئیں گے لڑائیاں ہوں گی اور چاند اور سورج کا کسوف خسوف ہوگا۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ جس زمانہ کے آثار انجیل ظاہر کرتی ہے اُسی زمانہ کی دانیال بھی خبر دیتا ہے اور انجیل کی پیشگوئی دانیال کی پیشگوئی کو قوت دیتی ہے کیونکہ وہ سب باتیں اس زمانہ میں وقوع میں آگئی ہیں اور ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی وہ پیشگوئی جو بائیبل میں سے استنباط کی گئی ہے اس کی مؤید ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود آدم کی تاریخ پیدائش سے چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا چنانچہ قمری حساب کے رُو سے جو اصل حساب اہل کتاب کا ہے میری ولادت چھٹے ہزار کے آخر میں تھی اور چھٹے ہزار کے آخر میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ابتدا سے ارادۂِ الٰہی میں مقرر تھا۔ کیونکہ مسیح موعود خاتم الخلفاء ہے اور آخر کو اوّل سے مناسبت چاہئے۔ اور چونکہ حضرت آدم بھی چھٹے دن کے آخر میں پیدا کئے گئے ہیں اِس لئے بلحاظ مناسبت ضروری تھا کہ آخری خلیفہ جو آخری آدم ہے وہ بھی چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو۔ وجہ یہ کہ خدا کے سات دنوں میں سے ہر ایک دن ہزار برس کے برابر ہے جیسا کہ خود وہ فرماتا ہے اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ اور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہوگا۔ اِسی لئے تمام اہل کشف مسیح موعود کا زمانہ قرار دینے میں چھٹے ہزار برس سے باہر نہیں گئے اور زیادہ سے زیادہ اُس کے ظہور کا وقت چودھویں صدی ہجری لکھاہے۔ اور اہل اسلام کے اہل کشف نے مسیح موعود کو جو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفاء ہے صرف اِس بات میں ہی آدم سے مشابہ قرار نہیں دیا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا اور مسیح موعود چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا بلکہ اس بات میں بھی مشابہ قرار دیا ہے کہ آدم کی طرح وہ بھی جمعہ کے دن پیدا ہوگا اور اسکی پیدائش بھی توام کے طور پر ہوگی یعنی جیسا کہ آدم توام کے طور پر پیدا ہوا تھا پہلے آدم اور بعد میں حوّا۔ ایسا ہی مسیح موعود بھی توام کے طور پر پیدا ہوگا۔ سو الحمدللّٰہ والمنۃ کہ متصوفین کی اس پیشگوئی کا میں مصداق ہوں میں بھی جمعہ کے روز بوقت صبح توام پیدا ہوا تھا صرف یہ فرق ہوا کہ پہلے لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا۔ وہ چند روز کے بعد جنت میں چلی گئی اور بعد اس کے میں پیدا ہوا۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ207تا209)
xviii.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف کیا‘‘۔ ( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ 283) دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’ٹھیک بارہ سو نوے 1290 میں خدا تعالیٰ کیطرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا چکا تھا۔‘‘( حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ 208) گویا کہ 1290میں آپ کی عمر چالیس برس ہو چکی تھی۔ آپ کی وفات1326ھ میں ہوئی۔ گویا قمری حساب سے پورے 36 برس آپ شرف مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے ممتاز رہے اور شمسی حساب سے 35 سال۔ اس طرح آپ کی تاریخ پیدائش 1833ء ثابت ہوئی۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭