اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے
بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے۔ انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔
بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہوخواہ باطن کا خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔ آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے۔ رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (الاعراف: 24) یہ دعا اول ہی قبول ہوچکی ہے۔ غفلت سے زندگی بسر مت کرو۔ جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گذارتا۔ ہر گز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بلا میں مبتلا ہو۔ کوئی بلا بغیر اذن کے نہیں آتی۔ جیسے مجھےیہ دعا الہام ہوئی۔ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 275-276، ایڈیشن 1984ء)
گناہ سے حفاظت یعنی عصمت تو انسان کو استغفار سے ملتی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے چاہے کہ ان قویٰ کا ظہور اور بروز ہی نہ ہو۔ جو معاصی کی طرف کھینچتے ہیں۔ کیونکہ جیسے انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ گذشتہ گناہ اس کے بخشے جائیں اسی طرح اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ آئندہ اس کے قویٰ سے گناہ کا ظہور و بروز نہ ہو۔ یہ مسئلہ بھی قابل دعا کے ہے۔ ورنہ یہ کیا بات ہے کہ جب گناہ میں مبتلا ہو تو اس وقت تو دعا کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رہنے کی دعا نہ کرے…غرضیکہ طبعی تقسیم قرآن مجید نے کی ہے کہ گناہ سے حفاظت کے ہر ایک پہلو کو دیکھ کر استغفار کا لفظ رکھا ہے کیونکہ انسان دونو راہ کا محتاج ہے کبھی گناہ کی معافی کا اور کبھی اس امر کا کہ وہ قویٰ ظہور و بروز نہ کریں۔ ورنہ یہ کب ممکن ہے کہ قویٰ خدا تعالیٰ کی حفاظت کے بغیر خود بخود بچے رہیں۔ وہ کتاب کامل ہے۔ عقل اور ضرورت خود دونو قسم کی دعا کا تقاضا کرتی ہے۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ 262، ایڈیشن 1984ء)