نجات کی جڑ اور نجات کا ذریعہ صرف یقین ہے
گناہوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خوفِ الٰہی دل میں پیدا ہو۔ بغیر اس کے انسان گناہوں سے بچ نہیں سکتا اور خوف بغیر معرفت کے پیدا نہیں ہوسکتا۔ جب کسی کے سر پر ننگی تلوار لٹک رہی ہو اور اس کو یقین ہو کہ اگر فلاں کام میں کروں گا تو یہ تلوار میرے سر میں لگے گی پھر وہ کس طرح وہ کام کرسکتا ہے؟ اس کو یقین ہے کہ وہ تلوار اس کو دکھ دے گی۔ اس قسم کا یقین اگر خدا تعالیٰ پر ہو اور اس کی عظمت اور اس کا جلال اس کے دل میں گھر کر جائے تو کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ بدی کا ارتکاب کرے۔
(ملفوظات جلد 9صفحہ 52، ایڈیشن 1984ء)
یقیناًیاد رکھو کہ گناہوں سے بچنے کی توفیق اس وقت مل سکتی ہے جب انسان پورے طور پر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاوے۔ یہی بڑا مقصد انسانی زندگی کا ہے کہ گناہ کے پنجہ سے نجات پالے…جب تک گناہ کو خطرناک زہر یقین نہ کرلے اس سے بچ نہیں سکتا۔ یہ یقین معرفت کے بدوں پیدا نہیں ہو سکتا۔
(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 287)
کامل محبت اور کامل خوف یہی دونوں چیزیں ہیں جو گناہ سے روکتی ہیں کیونکہ محبت اورخوف کی آگ جب بھڑکتی ہے توگناہ کے خس و خاشاک کو جلاکر بھسم کردیتی ہے۔ اور یہ پاک آگ اورگناہ کی گندی آگ دونوں جمع ہو ہی نہیں سکتیں۔ غرض انسان نہ بدی سے رک سکتا ہے اور نہ محبت میں ترقی کرسکتاہے جب تک کہ کامل معرفت اُس کو نصیب نہ ہو…۔
(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 7)
گناہ سے پاک ہونا بجز اس کے ممکن ہی نہیں کہ ہیبت اللہ کی موت یقین کی تیز شعاعوں کی وجہ سے انسان کے دل پر وارد ہو جائے اور سچی محبت اور سچی ہیبت دل میں بس جائے اور دل خدا کے جمال اور جلال سے رنگین ہو جائے اور یہ دونوں کیفیتیں کبھی اور ہرگز دل میں آ ہی نہیں سکتیں جب تک کہ خدا کی ہستی اور اس کی ان دونوں قسم کے صفات پر یقین پیدا نہ ہو۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ نجات کی جڑاور نجات کا ذریعہ صرف یقین ہے۔
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 489)