خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 15؍ اپریل2022ء
’’جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے اور اللہ نے انہیں امارت تفویض فرمائی تو خلافت کے آغاز ہی میں آپ نے ہر طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیان نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین ہو جاتے اور فوراً گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا۔‘‘ (حضرت عائشہؓ )
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ
فتنۂ ارتداد اور بغاوت کے دوران بھجوائی جانے والی مہمات کا تذکرہ
ابوبکر جغرافیہ کا دقیق علم رکھتے تھے اور زمین کے نشانات اور انسانی آبادیوں اور جزیرة العرب کے راستوں سے بخوبی واقف تھے۔ گویا کہ جزیرہ عرب مجسم شکل میں آپ کی آنکھوں کے سامنے تھا جیسا کہ دورِ حاضر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس مراکزِ قیادت میں ہوتا ہے
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 15؍ اپریل2022ء بمطابق 15؍ شہادت 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ خطبہ سے پہلے جو خطبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعات کے بارے میں دیا جا رہا تھا اس میں مختلف حوالے بیان کیے گئے تھے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مرتدین کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سزا ان کے ارتداد کی وجہ سے نہیں دی تھی بلکہ بغاوت اور جنگ کی وجہ سے ان کو جواب دیا گیا تھا۔ اس بارے میں
زمانے کے حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہدِ خلافت میں اس ارتداد کو سرکشی اور بغاوت سے تعبیر کیا ہے۔
چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے کہ حضرت ابوبکرؓ کی جرأت اور دلیری کتنی تھی آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اہل تحقیق سے یہ امر مخفی نہیں کہ آپ کی خلافت کا وقت خوف اور مصائب کا وقت تھا۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اسلام اور مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے۔ بہت سے منافق مرتد ہو گئے اور مرتدوں کی زبانیں دراز ہو گئیں اور افترا پردازوں کے ایک گروہ نے دعویٔ نبوت کر دیا اور اکثر بادیہ نشین ان کے گرد جمع ہو گئے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب جاہل اور بدکردار آدمی مل گئے اور فتنے بھڑک اٹھے اور مصائب بڑھ گئے۔ اور آفات نے دور و نزدیک کا احاطہ کر لیا۔ اور مومنوں پر ایک شدید زلزلہ طاری ہو گیا۔ اس وقت تمام لوگ آزمائے گئے اور خوفناک اور حواس باختہ کرنے والے حالات نمودار ہو گئے اور مومن ایسے لاچار تھے کہ گویا ان کے دلوں میں آگ کے انگارے دہکائے گئے ہوں یا وہ چھری سے ذبح کر دئیے گئے ہوں۔ کبھی تو وہ خَیْرُ الْبَرِیَّہْ (ﷺ) کی جدائی کی وجہ سے اور گاہے ان فتنوں کے باعث جو جلا کر بھسم کر دینے والی آگ کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے روتے۔ امن کا شائبہ تک نہ تھا۔ فتنہ پرداز گند کے ڈھیر پر اُگے ہوئے سبزے کی طرح چھا گئے تھے۔ مومنوں کا خوف اور ان کی گھبراہٹ بہت بڑھ گئی تھی۔ اور دل دہشت اور بے چینی سے لبریز تھے۔ ایسے (نازک)وقت میں (حضرت) ابوبکر رضی اللہ عنہ حاکم وقت اور (حضرت) خاتم النبیینؐ کے خلیفہ بنائے گئے۔ منافقوں، کافروں اور مرتدوں کے جن رویوں اور طور طریقوں کا آپ نے مشاہدہ کیا ان سے آپ ہم و غم میں ڈوب گئے۔ آپ اس طرح روتے جیسے ساون کی جھڑی لگی ہو اور آپ کے آنسو چشمۂ رواں کی طرح بہنے لگتے اور آپ (رضی اللہ عنہ) (اپنے) اللہ سے اسلام اور مسلمانوں کی خیر کی دعا مانگتے۔ (حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ
جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے اور اللہ نے انہیں امارت تفویض فرمائی تو خلافت کے آغاز ہی میں آپ نےہر طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیان نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین ہو جاتے اور فوراً گر کرریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں’’یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آن پہنچی اور جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دئیے گئے۔ فتنے دور کر دئیے گئے اور مصائب چھٹ گئے اور معاملے کا فیصلہ ہو گیا اور خلافت کا معاملہ مستحکم ہوا اور اللہ نے مومنوں کو آفت سے بچا لیا اور ان کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور ان کے لیے ان کے دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق پر قائم کر دیا اور مفسدوں کے چہرے کالے کر دئیے۔ اور اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے (حضرت ابوبکر) صدیقؓ کی نصرت فرمائی اور سرکش سرداروں ا ور بتوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ اور کفار کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ پسپا ہو گئے اور (آخر) انہوں نے رجوع کر کے توبہ کی اور یہی خدائے قہار کا وعدہ تھا اور وہ سب صادقوں سے بڑھ کر صادق ہے۔ پس غور کر کہ کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ (حضرت ابوبکر) صدیقؓ کی ذات میں پورا ہوا۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس تحقیق کی خاطر تمہارا سینہ کھول دے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’غور کرو کہ آپ کے خلیفہ ہونے کے وقت مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ اسلام مصائب کی وجہ سے آگ سے جلے ہوئے شخص کی طرح (نازک حالت میں) تھا۔ پھر اللہ نے اسلام کو اس کی طاقت لوٹا دی اور اسے گہرے کنویں سے نکالا اور جھوٹے مدعیان نبوت دردناک عذاب سے مارے گئے اور مرتد چوپاؤں کی طرح ہلاک کئے گئے اور اللہ نے مومنوں کو اس خوف سے جس میں وہ مُردوں کی طرح تھے امن عطا فرمایا۔ اس تکلیف کے رفع ہونے کے بعد مومن خوش ہوتے تھے اور (حضرت ابوبکر) صدیقؓ کومبارک باد دیتے اور مرحبا کہتے ہوئے ان سے ملتے تھے۔ آپ کی تعریف کرتے اور رب الارباب کی بارگاہ سے آپ کے لئے دعائیں کرتے تھے۔ آپ کی تعظیم اور تکریم کے آداب بجا لانے کے لئے لپکتے تھے۔ اور انہوں نے آپ کی محبت کو اپنے دل کی گہرائی میں داخل کر لیا اور وہ اپنے تمام معاملات میں آپ کی پیروی کرتے تھے اور وہ آپ کے شکر گزار تھے۔ انہوں نے اپنے دلوں کو روشن اور چہروں کو شاداب کیا اور وہ محبت و الفت میں بڑھ گئے اور پوری جدو جہد سے آپ کی اطاعت کی۔ وہ آپ کو ایک مبارک وجود اور نبیوں کی طرح تائید یافتہ سمجھتے تھے۔ اور یہ سب کچھ (حضرت ابوبکر) صدیقؓ کے صدق اور گہرے یقین کی وجہ سے تھا۔‘‘
(سر الخلافة اردو ترجمہ عربی عبارت شائع کردہ نظارت اشاعت صفحہ 47تا 51)
یہ سر الخلافہ آپ کی عربی میں کتاب ہے۔ یہ اس عربی کا اردو ترجمہ ہے۔
فتنہ ارتداد اور بغاوت
جب ہوا ہے تو اس کی طرف آپ نے بعض مہمات بھیجی تھیں جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تقریباً سارے عرب نے ہی ارتداد اختیار کر لیا تھا۔ کچھ لوگ تو وہ تھے جنہوں نے صرف زکوٰة دینے سے انکار کیا تھا۔ ان کے خلاف جو کارروائیاںحضرت ابوبکرؓ کی طرف سے کی گئیں ان کا تذکرہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
اب دوسرے گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے جنہوں نے نہ صرف اسلام سے ارتداد اختیار کر لیاتھا بلکہ بغاوت کر دی تھی اور مسلمانوں کو قتل بھی کر رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کی خبر لینے کا عزم فرمایا چنانچہ بِدَایَۃ و النِّھَایَۃ میں لکھا ہے کہ حضرت اسامہؓ کے لشکر کے آرام کرنے کے بعد حضرت ابوبکرؓ اسلامی افواج کے ساتھ تلوار سونتے ہوئے مدینہ سے سوار ہو کر ذُوْالقَصَّہ کی طرف روانہ ہوئے جو مدینہ سے اس زمانے میں جو سفر کا ذریعہ تھا اس کے مطابق ایک رات اور ایک دن کے فاصلے پر واقع ہے۔ صحابہ کرامؓ جن میں حضرت علیؓ بھی تھے وہ آپ سے اصرار کر رہے تھے کہ آپ مدینہ واپس تشریف لے جائیں اور اَعراب سے جنگ کے لیے اپنے سوا کسی دوسرے بہادر کو بھیج دیں۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ میرے والد تلوار سونتے ہوئے سواری پر سوار ہو کر روانہ ہوئے تو حضرت علی بن ابی طالبؓ نے آ کر آپ کی اونٹنی کی مہار پکڑ لی اور عرض کیا: اے خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ سے وہ بات کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن فرمائی تھی۔ آپ نے تلوار کیوں سونتی ہے؟ ہمیں اپنی جان کی وجہ سے مصیبت میں نہ ڈالیے۔ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ ہمیں اپنی جان کی وجہ سے مصیبت میں نہ ڈالیے۔ اللہ کی قسم! اگر ہمیں آپ کی جان کی مصیبت پہنچی تو آپ کے بعد ہمیشہ کے لیے اسلام کا نظام نہ رہے گا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ واپس تشریف لے گئے اور فوج کو بھیج دیا۔
(البدایۃ و النھایۃ جلد 3 جزء 6ص 311-312 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ)
جب حضرت اسامہؓ اور ان کے لشکر نے آرام کر لیا اور ان کی سواریاں بھی تازہ دم ہو گئیں اور اموالِ زکوٰة بھی بکثرت آ گئے جو مسلمانوں کی ضرورت سے زائد تھے تو
حضرت ابوبکرؓ نے فوج کو تقسیم کیا اور گیارہ جھنڈے باندھے۔
ایک جھنڈا حضرت خالد بن ولیدؓ کے لیے باندھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ طُلَیحہ بن خُوَیلِد کے مقابلے پر جائیں اس سے فارغ ہو کر بُطَاح میں مَالِک بن نُوَیْرَہ سے مقابلہ کے لیے جائیں اگر اس وقت تک وہ ان کے مقابلہ پر جما رہے۔ یہ سب مرتدین تھے، جنگ کرنا چاہتے تھے۔بُطاح بنو اسد کے علاقے میں ایک چشمہ کا نام ہے۔ اس طرف آپ نے بھیجا۔ حضرت عکرمہ بن ابوجہلؓ کے لیے جھنڈا باندھا اور ان کو مُسَیْلمہ کے مقابلے کا حکم دیا۔ تیسرا جھنڈا حضرت مُہَاجِر بن ابواُمَیّہؓ کے لیے باندھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ عَنْسِی کی فوجوں کا مقابلہ کریں۔ پھر قَیس بن مَکْشُوح اور ان اہل یمن کے مقابلہ میں جو اَبْنَاء سے برسرپیکار تھے اَبْنَاء کی امدا دکریں۔ اَبْنَاء بھی اہل فارس میں سے ایک قوم کی اولاد تھی جنہوں نے یمن میں سکونت اختیار کر لی تھی اور عربوں میں شادیاں کی تھیں۔ اور فرمایا کہ اس سے فارغ ہو کر کِندہ کے مقابلے کے لیے حضرموت چلے جائیں۔ حضرموت بھی یمن کا ایک علاقہ ہے۔ چوتھے حضرت خالد بن سعید بن عاصؓ کے لیے جھنڈا باندھا اور ان کو حَمْقَتَیْن کی طرف بھیجاجو شام کی سرحد پر ہے۔ پانچویں حضرت عمرو بن عاصؓ کے لیے جھنڈا باندھا اور ان کوقُضَاعَہ وَدِیْعَہ اور حَارِث کی جمعیتوں کے مقابلے پر جانے کا حکم دیا۔ چھٹا جھنڈا حضرت حذیفہ بن مِحْصَن غَلْفَانِی ؓ کے لیے باندھا اور ان کو اہل دَبَاکی طرف جانے کا حکم دیا۔دَبَا بھی عمان میں عربوں کا ایک بازار تھا۔ عمان کا ایک قدیم اور مشہور شہر تھا۔ مارکیٹ لگا کرتی تھی۔ ساتواں حضرت عَرفَجَہ بن ھَرْثَمَہ ؓ کے لیے جھنڈا باندھا اور ان کو مَہْرَہ جانے کا حکم دیا۔ مَہْرَہ یمن کے ایک علاقے کا نام ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان دونوں کو فرمایا کہ ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں مگر جو علاقے ان کے سپرد کیے گئے ہیں ان میں وہ ایک دوسرے پر امیر رہیں گے۔ یعنی پہلے یمن والے اور دوسرے ان کو۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے شُرَحْبِیْل بن حَسَنَہ کو حضرت عکرمہ بن ابوجہل کے پیچھے روانہ کیا اور حکم دیا کہ یمامہ سے فارغ ہو کرقُضَاعہ کے مقابلہ پر چلے جانااور مرتدین سے جنگ کے موقع پر تم ہی اپنے لشکر کے امیر ہو گے۔ نوواں حضرت طُرَیْفَہ بن حَاجِز ؓ کے لیے جھنڈا باندھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ بنو سُلَیم اور ہَوَازِن کا مقابلہ کریں۔ دسواں جھنڈا حضرت سُوَید بن مُقَرِّنؓ کے لیے باندھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ یمن کے علاقے تِہَامہ کی طرف جائیں اور گیارھواں جھنڈا حضرت عَلَاءرضی اللّٰہعنہ بن حَضْرَمِی کے لیے باندھا اور ان کو بحرین جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ یہ اُمَرا ذُوْالقَصَّہ سے اپنی اپنی سمت روانہ ہو گئے۔
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ257مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)
(ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق ؓشخصیت و کارنامے صفحہ 288مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)
(معجم البلدان جلد1صفحہ527، جلد 2 صفحہ 270، 311، 496)
(معجم الوسیط زیرمادہ ’’بنی‘‘)
حضرت ابوبکرؓ نے ہر دستے کے امیر کو حکم دیا کہ جہاں جہاں سے وہ گزریں وہاں کے طاقتور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لیں اور بعض طاقتور افراد کووہیں اپنے علاقے کی حفاظت کے لیے پیچھے چھوڑ دیں۔
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ257مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)
حضرت ابوبکرؓ کی اس تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے ایک مصنف لکھتے ہیں کہ ذُوالقَصَّہ فوجی مرکز قرار پایا۔ یہاں سے منظم اسلامی افواج ارتداد کی تحریک کو کچلنے کے لیے مختلف علاقوں کی طرف روانہ ہوئیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے منصوبہ سے منفرد عبقریت اور دقیق جغرافیائی تجربہ کا پتہ چلتا ہے۔ دستوں کی تقسیم اور ان کے مواقع کی تحدید سے واضح ہوتا ہے کہ
ابوبکر جغرافیہ کا دقیق علم رکھتے تھے اور زمین کے نشانات اور انسانی آبادیوں اور جزیرة العرب کے راستوں سے بخوبی واقف تھے۔
گویا کہ جزیرہ عرب مجسم شکل میں آپ کی آنکھوں کے سامنے تھا جیسا کہ دورِ حاضر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس مراکز قیادت میں ہوتا ہے۔ جو شخص بھی لشکروں کو روانہ کرنے ان کی جہت کا تعین کرنے، تفرق کے بعد اجتماع اور دوبارہ مجتمع ہونے کے لیے تفرق میں غور و فکر کرے گا اس کو یہ اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ یہ منصوبہ بندی پورے جزیرہ عرب پر مثالی اور صحیح انداز سے محیط تھی اور ان لشکروں کے ساتھ رابطہ بھی انتہائی دقیق تھا۔ ابوبکر کو ہمہ وقت اس کا پتا رہتا تھا کہ فوج کہاں ہے۔ اس کے تحرکات اور جملہ امور سے بخوبی واقف رہتے تھے اور یہ بھی پتا رہتا تھا کہ ان کو کیا کامیابی ہوئی اور کل کو کیا پروگرام ہے؟ مراسلات انتہائی دقیق اور تیز ہوا کرتے تھے اور میدانِ قتال سے خبریں برابر مدینہ مرکزِ قیادت میں حضرت ابوبکر ؓکو پہنچتی رہتی تھیں۔ پوری فوج سے برابر رابطہ قائم رہتا تھا ۔ مرکزِ قیادت اور میدانِ قتال کے درمیان فوجی خبررسانی میں ابوخَیْثَمَہ انصاری، سَلَمہ بن سَلَامہ، ابوبَرْزَہ اسلَمِی اور سَلَمہ بن وَقْش نے نمایاں حیثیت حاصل کی۔
جن لشکروں کو ابوبکر نے روانہ فرمایا وہ آپس میں مربوط تھے اوریہ خلافت کی اہم کامیابیوں میں سے تھا کیونکہ ان لشکروں کے اندرقیادت کی مہارت کے ساتھ حسنِ تنظیم بھی موجود تھا۔
مزید برآں اس کے علاوہ قتال میں تجربہ پہلے سے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غزوات و سرایاکی تحریک میں انہیں عسکری اعمال کا اچھا تجربہ ہو چکا تھا۔ ابوبکر کی حکومت کا عسکری نظام جزیرہ عرب میں تمام عسکری قوتوں پر فوقیت رکھتا تھا اور ان لشکروں کے قائد سیفُ اللّٰہ الْمَسْلُول خالد بن ولید تھے جو اسلامی فتوحات اور حروب ارتداد میں منفرد عبقری شخصیت کے حامل تھے۔ اسلامی فوج کی یہ تقسیم انتہائی اہم فوجی منصوبہ کے تحت عمل میں آئی تھی کیونکہ مرتدین ابھی تک اپنے اپنے علاقوں میں متفرق تھے یعنی کہ بکھرے ہوئے تھے جمع نہیں ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف ان کی جتھہ بندی عمل میں نہ آ سکی تھی۔ بڑے قبائل دور دراز علاقوں میں بکھرے تھے۔ وقت اس کے لیے کافی نہ تھا کہ وہ آپس میں جتھہ بندی کر سکیں کیونکہ ارتداد شروع ہوئے ابھی تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہ گزرا تھا اور ثانیاً وہ اپنے خلاف مسلمانوں کے خطرے کو نہ سمجھ سکے۔ وہ یہ تصور کیے ہوئے تھے کہ چند ماہ میں تمام مسلمانوں کا صفایا کر دیں گے۔ اسی لیے ابوبکر نے چاہا کہ اچانک ان کی شوکت و حکومت کا صفایا کیا جائے، قبل ازیں کہ وہ اپنے باطل کی نصرت کے لیے جتھہ بندی کر سکیں۔ اس لیے ابوبکر نے ان کے فتنہ کے بڑھنے سے قبل ہی ان کی خبر لی اور انہیں اس بات کا موقع نہ دیا کہ وہ اپنا سر اٹھا سکیں اور اپنی زبان دراز کر سکیں جس سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچا سکیں۔
(ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق ؓشخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ 288تا290مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)
حضرت ابوبکرؓ کی جانب سے قائدین کی تقرری کے حوالے سے مختلف امور کا تذکرہ
کرتے ہوئے ایک لکھنے والے مصنف لکھتے ہیں کہ نمبر ایک تو اس منصوبہ میں اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ لشکروں کے درمیان آپس میں ربط اور تعاون برابر قائم رہے۔ اگرچہ ان کے مقامات اور جہات مختلف تھے لیکن سب ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں تھیں۔ ان کا آپس میں ملنا اور جدا ہونا ایک ہی مقصد کے پیش نظر تھا اور خلیفہ کے مدینہ میں ہوتے ہوئے قتال کے جملہ امور کا کنٹرول، پاور اس کے ہاتھ میں تھا یعنی خلیفہ کے ہاتھ میں تھا۔ (ب) دوسرا نمبر یہ کہ صدیق اکبر نے دارالخلافہ مدینہ کی حفاظت کے لیے فوج کا ایک حصہ اپنے پاس رکھا اور اسی طرح امور حکومت میں رائے اور مشورہ کے لیے کبار صحابہ کی ایک جماعت اپنے پاس رکھی۔ تیسرے یہ کہ ابوبکر کو معلوم تھا کہ ارتداد سے متاثرہ علاقوں میں اسلامی قوت موجود ہے۔ آپ کو اس کی فکر لاحق ہوئی کہ کہیں یہ مسلمان مشرکین کے غیظ و غضب کا نشانہ نہ بنیں اس لیے قائدین کو حکم فرمایا کہ ان میں سے جو قوت اور طاقت کے مالک ہیں ان کو اپنے ساتھ شامل کر لیں اور ان علاقوں کی حفاظت کی خاطر کچھ افراد کو وہاں مقرر کر دیں۔ چوتھے مرتدین کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے ابوبکر نے اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ کے اصول کو اپنایا۔ فوج کے اہداف کچھ ظاہر کرتے حالانکہ مقصود کچھ اَور ہی ہوتا۔ انتہائی احتیاط اور حذر کا طریقہ اختیار کیا کہ کہیں ان کا منصوبہ فاش نہ ہونے پائے۔ اس طرح ابوبکر کی قیادت میں سیاسی مہارت ،علمی تجربہ، علم راسخ اور ربانی فتح اور نصرت نمایاں ہوتی ہیں۔
(ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق ؓشخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ 297-298مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)
اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے
دو فرمان
بھی لکھے تھے: ایک عرب قبائل کے نام اور دوسرا سپہ سالاران فوج کی ہدایت کے لیے۔
(حضرت ابوبکرؓ کےسرکاری خطوط مؤلفہ خورشید احمد فاروق صفحہ22)
یہی پہلے مصنف ڈاکٹر علی محمد صلابی جو ہیں، یہ ایک خط کے متعلق لکھتے ہیں کہ اسلامی لشکروں کی تیاری اور ٹھوس تنظیم کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ تحریری دعوت کا سلسلہ جاری رہا اور اس نے اہم کردار ادا کیا۔
آپؓ نے ایک عام خط تحریر کیا
جو محدود مضمون پر مشتمل تھا۔ مرتدین سے قتال کے لیے افواج کو روانہ کرنے سے قبل آپ نے اس خط کو مرتدین اور ثابت قدم رہنے والے سب کے درمیان اونچے پیمانے پر ممکنہ حد تک نشر کرنے کی کوشش کی۔ قبائل کے پاس لوگوں کو روانہ کیا اور انہیںحکم دیا کہ وہاں پہنچ کر ہر مجمع میں یہ خط سنائیں اور جس کو بھی اس خط کا مضمون پہنچے اسے حکم فرمایا کہ وہ ان لوگوں تک بات پہنچا دے جن تک نہیں پہنچی۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس خط میں عام اور خاص سب کو خطاب کیا خواہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہنے والے ہوں یا اس سے مرتد ہو جانے والے۔
(ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق ؓشخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ 290-291مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)
حضرت ابوبکرؓ کا وہ خط جو قبائل عرب کے نام تھا
وہ سب سے زیادہ تفصیلات کے ساتھ طبری نے بیان کیا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنی تصنیف سر الخلافہ میں اس خط کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مناسب ہے کہ ہم یہاں وہ خط درج کر دیں جو صدیق اکبر نے مرتد ہونے والے قبائل عرب کی طرف لکھا تاکہ اس خط پر اطلاع پانے والے صدیق اکبر کی شعائر اللہ کی ترویج اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام سنن کے دفاع میں مضبوطی کو دیکھ کر ایمان اور بصیرت میں ترقی کریں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ خط لکھتے ہیں جو اس طرح شروع ہوتا ہے۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔ یہ خط ابوبکر خلیفة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہر خاص و عام کے لیے ہے۔ جس تک پہنچے خواہ وہ اسلام پر قائم رہا ہے یا اس سے پِھر گیا ہے۔ ہدایت کی اتباع کرنے والے ہر شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کے بعد گمراہی اور اندھے پن کی طرف نہیں لوٹا۔ پس میں تمہارے سامنے اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو واحد ہے لاشریک ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور جو تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اس کا ہم اقرار کرتے ہیں اور جس نے اس سے انکار کیا اسے ہم کافر قرار دیتے ہیں اور اس سے جہاد کرتے ہیں۔ اما بعد واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جناب سے حق دے کر اپنی مخلوق کی طرف مبشر نذیر اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے اور ایک منور کر دینے والے سورج کے طور پر بھیجا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ڈرائیں جو زندہ ہو اور کافروں پر فرمان صادق آ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو حق کے ساتھ ہدایت دی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کیا اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیٹھ پھیر لی اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک جنگ کی کہ وہ طوعًا و کرھًا اسلام میں آ گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے بعد اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کو نافذ فرما لیا اور امت کی خیر خواہی کر لی اور جو ذمہ داری آپ پر تھی اسے پورا کر لیا اور اللہ نے آپ پر اور اہل اسلام پر اپنی اس کتاب میں جو اس نے نازل فرمائی اس بات کو خوب کھول کر بیان کر دیا۔ چنانچہ فرمایا اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ(الزمر :31)۔ یعنی یقیناً تُو بھی مرنے والا ہے اور یقیناً وہ بھی مرنے والے ہیں۔ نیز فرمایا وَمَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ الۡخُلۡدَ (الانبیاء:35)۔اور ہم نے کسی بشر کو تجھ سے پہلے ہمیشگی نہیں دی۔ اَفَا۠ئِنۡ مِّتَّ فَہُمُ الۡخٰلِدُوۡنَ(الانبیاء:35)۔ پس اگر تُو مر جائے تو کیا وہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے؟ مزید برآں مومنوں سے فرمایا وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَمَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَسَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ(آل عمران:145)۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں مگر ایک رسول یقیناً اس سے پہلے رسول گذر چکے ہیں۔ پس اگر یہ وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے گا وہ اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ یقیناً شکرگزاروں کو جزا دیتا ہے۔ پھر آپ لکھتے ہیں۔ پس وہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد تو فوت ہو چکے اور وہ جو واحد و یگانہ لاشریک اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا اسے معلوم ہو کہ اللہ اس کی گھات میں لگا ہوا ہے۔ وہ زندہ ہے اور قائم دائم ہے۔ وہ نہیں مرے گا۔ اسے اونگھ اور نیند نہیں آتی۔ وہ اپنے کاموں کا محافظ ہے۔ اپنے دشمن سے انتقام لینے والا ہے اور اسے سزا دینے والا ہے۔ میں تمہیں اللہ کے تقویٰ کی اور تمہارے اس بخت کی اور نصیب کے حصول کی جو اللہ کے ہاں تمہارے لیے مقرر ہے اور وہ تعلیم جو تمہارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس لے کر آیا اس پر عمل کرنے کی تمہیں تاکید کرتا ہوں اور یہ کہ تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی سے راہنمائی حاصل کرو اور اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑے رکھو کیونکہ ہر وہ شخص جسے اللہ ہدایت نہ دے وہ گمراہ ہے اور ہر وہ شخص جسے وہ نہ بچائے وہ آزمائش میں پڑے گا اور ہر وہ شخص جس کی وہ اعانت نہ فرمائے وہ بے یارومددگار ہے۔ پس جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ قرار دے وہ گمراہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَمَنۡ یُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرۡشِدًا(الکہف:18)۔جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے حق میں کوئی ہدایت دینے والا دوست نہ پائے گا۔ آپ آگے لکھتے ہیں کہ اور
اس کا دنیا میں کیا ہوا کوئی عمل اس وقت تک قبول نہ کیا جائے گا جب تک وہ اس دین اسلام کا اقرار نہ کر لے اور نہ ہی آخرت میں اس کی طرف سے کوئی معاوضہ اور بدلہ قبول کیا جائے گا
اور مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ تم میں سے بعض نے اسلام کا اقرار کرنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیتے ہوئے اور اس کے معاملے میں جہالت برتتے ہوئے اور شیطان کی بات مانتے ہوئے اپنے دین سے ارتداد اختیار کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ ؕ اَفَتَتَّخِذُوۡنَہٗ وَذُرِّیَّتَہٗۤ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِیۡ وَہُمۡ لَکُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِیۡنَ بَدَلًا(الکہف :51)۔اور جب ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کے لئے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ جنّوں میں سے تھا۔ پس وہ اپنے رب کے حکم سے روگردان ہو گیا۔ تو کیا تم اسے اور اس کے چیلوں کو میرے سوا دوست پکڑ کر بیٹھو گے جبکہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ ظالموں کے لئے تو یہ بہت ہی بُرا بدل ہے۔
نیزفرمایا اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡہُ عَدُوًّا ؕ اِنَّمَا یَدۡعُوۡا حِزۡبَہٗ لِیَکُوۡنُوۡا مِنۡ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ(فاطر:7)۔یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے پس اسے دشمن ہی بنائے رکھو۔ وہ اپنے گروہ کو محض اس لئے بلاتا ہے تا کہ وہ بھڑکتی آگ میں پڑنے والوں میں سے ہو جائیں۔ آپؑ اس خط کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اور میں نے مہاجرین انصار اور حسن عمل سے پیروی کرنے والے تابعین کے لشکر پر فلاں آدمی کو مقرر کر کے تمہاری طرف بھیجا ہے اور
میں نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ نہ تو کسی سے جنگ کرے اور نہ اسے اس وقت تک قتل کرے جب تک وہ اللہ کے پیغام کی طرف بلا نہ لے۔
پھر جو اس پیغام کو قبول کر لے اور اقرار کر لے اور باز آ جائے اور نیک عمل کرے تو اس سے قبول کرے اور اس پر اس کی مدد کرے اور جس نے انکار کیا تو مَیں نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اس سے اس بات پر جنگ کرے اور جس پر قابو پائے ان میں سے کسی ایک کو بھی باقی رہنے نہ دے اور یا وہ انہیں آگ سے جلا ڈالے اور ہر طریق سے انہیں قتل کرے اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لے اور کسی سے اسلام سے کم کوئی چیز قبول نہ کرے۔ پھر جو اس کی اتباع کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے اور جس نے اسے ترک کیا تو وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکے گا اور میں نے اپنے پیغامبر کو حکم دیا ہے کہ وہ میرے اس خط کو تمہارے ہر مجمع میں پڑھ کر سنا دے اور اذان ہی اسلام کا اعلان ہے۔ پس جب مسلمان اذان دیں اور وہ بھی اذان دے دیں تو ان پر حملہ سے رک جائیں اور اگر وہ اذان نہ دیں تو ان پر حملہ جلد کرو اور جب وہ اذان دے دیں تو جو اُن پر فرائض ہیں ان کا مطالبہ کرو اور اگر وہ انکار کریں تو ان پر جلد حملہ کرو اور اگر اقرار کر لیں تو ان سے قبول کر لیا جائے۔
(ماخوذ از سر الخلافة اردو ترجمہ عربی عبارت شائع کردہ نظارت اشاعت صفحہ 190 تا 194حاشیہ)
بہرحال اس بارے میں جو تفصیل تھی کہ کیوں ان سے جنگ ہوئی اور کیوں سب سے یہ سلوک کیا گیا، تو یہ اس لیے کہ یہ لوگ جنگ کرنے والے تھے۔ مسلمانوں پر جنگ ٹھونسنے والے تھے اور نہ صرف جنگ کرتے تھے بلکہ ظلم بھی کرنے والے تھے اور جو اُن کے علاقوں میں نہتے مسلمان تھے ان پر ظلم کر رہے تھے۔
دوسرا خط
جو حضرت ابوبکرؓ نے ان سب امرائے لشکر جن کی تعداد گیارہ تھی کے نام تحریر فرمایا ان امرا کا ذکر ہو چکا ہے۔ وہ خط ان لشکروں کے امرا کے نام تھا۔ وہ حسب ذیل ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ یہ فرمان ابوبکر خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فلاں شخص کے لیے لکھا گیا ہے اور جب انہوں نے اسے مسلمانوں کی فوج کے ساتھ مرتدین سے لڑنے کے لیے روانہ کیا یعنی امیر کا نام اس پہ لکھا گیا تھا۔ انہوں نے اس
امیر کو تاکیدی حکم دیا ہے کہ وہ ہر معاملے میں ظاہر اور باہر میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے جہاں تک اس کی استطاعت ہے
اور اس کو اللہ کے معاملے میں جدوجہد کا اور ان لوگوں سے جہاد کا حکم دیا ہے جنہوں نے اللہ سے پیٹھ پھیر لی اور اسلام سے رجوع کرتے ہوئے شیطانی آرزوؤں کو اختیار کر لیا ہے۔ سب سے پہلے ان پر اتمام حجت کرے۔ انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں۔ اگر وہ اس کو قبول کر لیں تو ان لوگوں سے لڑائی سے رک جائے اور اگر وہ اس کو قبول نہ کریں تو ان پر فی الفور حملہ کرے یہاں تک کہ اس کے سامنے جھک جائیں۔ پھر وہ ان لوگوں کو ان کے حقوق اور فرائض بتائے اور وہ ان سے وصول کرے جو اُن پر فرض ہے اور انہیں دے جو اُن کے حقوق ہیں۔ وہ ان لوگوں کو مہلت نہ دے یعنی ایسی مہلت جس سے وہ جنگ کے لیے تیار ہو کر مسلمانوں پر حملہ کر دیں۔ وہ مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے لڑائی کرنے سے نہ روکے اور مسلمان اگر سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ باز نہیں آئیں گے اور وہ لڑنا چاہتے ہیں تو ان کو جنگ سے نہ روکو۔ یہ حکم ان لیڈروں کو دیا جنہیں اس علاقے کے لوگ زیادہ جانتے تھے۔ پس جس نے اللہ عزوجل کے حکم کو قبول کیا اور اس کی فرمانبرداری کی تو اس کی یہ بات قبول کرے اور معروف طریق پر اس کی مدد کرے اور صرف اس سے جنگ کی جائے گی جس نے اس اقرار کے بعد اللہ کا انکار کیا کہ جو اللہ کی جانب سے آیا تھا۔ اگر وہ دعوت کو قبول کر لے تو اس پر کوئی الزام نہیں ہوگا اور اللہ اس سے حساب لینے والا ہے بعد اس کے جو اس نے چھپایا۔ اور جس نے اللہ کے پیغام کو قبول نہ کیا تو اس سے لڑائی کی جائے اور اس کو قتل کر دیا جائے جہاں بھی وہ ہو اور وہ خواہ کتنا ہی مال دار کیوں نہ ہو۔
کسی سے کوئی چیز قبول نہ کی جائے گی جو وہ دے سوائے اسلام کے۔
پس جس نے اسلام قبول کر لیا اور اقرار کر لیا تو اس سے قبول کیا جائے اور اس کو اسلامی تعلیمات سکھائی جائیں اور جس نے انکار کیا یعنی مسلمان ہو کے مرتد ہو گئے۔ پھر لڑائیاں کر رہے ہیں تو اسلامی تعلیمات کے خلاف کر رہے ہیں ان کو بتاؤ کہ اسلام کیا ہے، حقیقت کیا ہے، تم مسلمان ہونے کا دعویٰ کر کے پھر حکومت کے خلاف جنگ نہیں لڑ سکتے۔ جس نے انکار کیا تو اس سے لڑائی کی جائے۔ اگر اللہ اسے ان پر فتح عطا کرے تو ان کو بُری طرح اسلحہ اور آگ کے ذریعہ قتل کیا جائے گا۔ پھر اللہ جو اس کو مالِ فَے عطا فرمائے تو وہ اس کو تقسیم کر دے سوائے خمس کے۔ وہ ہمیں پہنچائے گا۔ اور وہ سپہ سالار اپنے ساتھیوں کو جلدی اور فساد سے روکے اور ان میں کوئی غیر آدمی داخل نہ کرے جب تک کہ وہ جان نہ لے کہ اس میں کیسی صلاحیت ہے۔ یہ نہ ہو کہ وہ جاسوس ہو۔ یعنی کسی شخص کو داخل کر لو اوروہ جاسوس ہو۔(صحیح طرح چھان کر کے، چھان پھٹک کر کے پھر لینا۔) اور ان کی وجہ سے مسلمانوں پر مصیبت آ جائے۔ سفر اور قیام میں مسلمانوں کے ساتھ نرمی اور میانہ روی اختیار کرے اور ان کی خبر گیری کرتا رہے۔ لشکر کے ایک حصہ کو دوسرے سے جلدی کرنے کا حکم نہ دے۔ مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اور گفتار میں خوش خلقی اور ملائم لہجہ اختیار کرے۔
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ258-259 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)
اب بعض باتیں ایسی بھی ہیں جن کی وضاحت کرنی پڑتی ہے لیکن وضاحت نہیں کی گئی۔ اس وجہ سے بعض دفعہ اسلام کا غلط تاثر بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی وضاحت گذشتہ خطبہ میں مَیں کر چکا ہوں کہ
یہ سب مرتدین ایسے تھے جنہوں نے جنگ کی، محارب تھے
اور نہ صرف جنگ کی بلکہ جو مسلمان ان کے علاقوں میں تھے ان پر انہوں نے ظلم بھی کیا، ان کو مارا، ان کو جلایا۔ ان کے گھروں کو جلایا، ان کو خودبھی جلا دیا۔ تو ان کے خلاف پھر حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ ضرور بدلہ لینا ہے اور ان کو اسی طریق سے پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی خط کو quoteکیا ہے کہ اسی طریق سے پھر ان کو بھی سزا دینی ہے کیونکہ پھر بدلہ لینے کے لیے قرآن شریف کا بھی، اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہےکہ جیسا کوئی کرتا ہے اس کو ویسا ہی سزا دو۔ لیکن اس بات کی وضاحت ایک جگہ انہی مصنف ڈاکٹر علی محمد صلابی صاحب نے اس طرح بھی لکھی ہے کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ مرتدین باغیوں کو آگ میں جلا دیا جائے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کسی کو جلانے کی سزا دینا تو جائز نہیں ہے۔ ارشاد نبویؐ بھی ہے کہ اِنَّ النَّارَ لَا یُعَذَّبُ بِھَا اِلَّا اللّٰہُ۔ کہ آگ کے ذریعہ عذاب دینا صرف اللہ کا کام ہے لیکن
یہاں انہیں جلانے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ ان بدمعاشوں نےاہلِ ایمان کے ساتھ یہی برتاؤ کیا تھا لہٰذا یہ قصاص کے طور پر تھا۔
(ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق ؓشخصیت و کارنامے صفحہ 293مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)
اسی کتاب میں حضرت ابوبکرؓ کے اسی خط کا ذکر کرتے ہوئے جو بیان ہواہے یہ بھی لکھا ہے کہ جو مسلمانوں کی صف کی طرف لَوٹنے سے انکاری ہو اور ارتداد پر ڈٹ جائے وہ محاربین میں سے ہے اس پر حملہ کرنا ضروری ہے اس کو قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے۔
(ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق ؓشخصیت و کارنامے صفحہ 294-295مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی یہی فرمایا ہے کہ جب تمہیں مشکل میں ڈالتے ہیں تو اس کے مطابق ہی ان کوسزا دو جس طرح انہوں نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔ باغیوں نے جیسا کہ پہلے میں ذکر کر چکا ہوں گذشتہ خطبہ میں بھی، ابھی بھی میں نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کو جلانے اور انہیں گھناؤنے طریقے سے قتل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ ان کو آگ میں جلایا، ان کے گھروں کو جلایا، ان کے بچوں، بیویوں سب کو جلایا، ان کا مُثلہ کیا۔ لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا کہ جو اس میں شامل تھے ان سے وہی سلوک کرنا ہےجو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔
بہرحال یہ ذکر جو ہے وہ آگے بھی ان شاء اللہ بیان ہو گا۔ رمضان میں شاید دوسرے خطبےبھی بیچ میں آتے رہیں گے۔ ہو سکتا ہے وقت لگ جائے لیکن بہرحال جو بھی آئندہ خطبہ اس پہ آئے گا اس میں آئندہ ذکر، اس کی تفصیل بیان ہو گی۔