خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍اپریل 2022ء
رمضان المبارک کے فیض کو جاری رکھنے کے لیے نمازکی ادائیگی ، قرآن کریم کو پڑھنا اور سمجھنا اور باہمی محبت و اخوت کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کےبصیرت افروز ارشادات کا بیان
٭…فرض روزوں کا مہینہ رمضان تو ختم ہو رہا ہے لیکن باقی فرائض کی ادائیگی کے معیاروں میں ترقی کرتے چلے جانے کا وقت شروع ہو رہا ہے
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےاپنے ماننے والوں کو مسلسل نصیحت فرمائی کہ اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کرو اور بندوں کے بھی حق ادا کرو
٭…ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں ۔ اس نور کے آگے کوئی ظلمت نہیں ٹھہر سکے گی
٭…مَیں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اوّل خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو
٭…دنیا کے حالات، اسیرانِ راہ مولیٰ اور مختلف ممالک میں بسنے والے احمدیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک
٭…مکرم عبدالباقی ارشد صاحب چیئرمین الشرکة الاسلامیہ یوکے کی وفات پر اُن کا ذکر خیر ، جماعتی خدمات کا تذکرہ اور ادائیگی نماز جنازہ حاضر
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍اپریل 2022ء بمطابق 29؍شہادت 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 29؍اپریل 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورت فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
بیشک فرض روزوں کا مہینہ رمضان تو ختم ہو رہا ہے لیکن باقی فرائض کی ادائیگی کے معیاروں میں ترقی کرتے چلے جانے کا وقت شروع ہو رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچوں نمازیں ،ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔چھوٹے گناہ اور غلطیاں توبہ و استغفار نہ کرنے پر کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔ پس ان سے بچنے کے لیے انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھےاور استغفار کرتا رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلسل نصیحت فرمائی کہ اپنی عبادتوں کے بھی اور بندوں کے بھی حق ادا کرو۔ اگرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیے ہوئے لائحہ عمل کوہم اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں تو یقیناً ہم نیکیوں میں بڑھنےاور ایک رمضان سے دوسرے رمضان کو ملانے والے ایسے راستوں پر چلنے والے بن جائیں گے جو غلطیوں اور گناہوں سے بچانے اور معاف کروانے کے راستے ہیں۔
رمضان میں فرض نمازیں اور نوافل ہم خاص اہتمام سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ سال کے بارہ مہینوں میں ادا کرنا ضروری ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو کفر اور شرک کے قریب کر دیتا ہے۔ نماز کی اہمیت کے ضمن میں فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے۔ اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور نجات پا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا تسبیح اور تحلیل میں مصروف رہے بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اس طریق پر اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے۔دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں لذت اور ایک خاص حظ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو۔ خوب سمجھ لو کہ عبادت میں جولذت اور سرور ہےوہ دنیا کی تمام لذتوں اورحظوظ نفس سے بالا تر اور بلند تر ہے۔پس خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور جوش کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزہ چکھا دے۔جب ایک دفعہ انسان کومزہ آ جاتا ہے تو پھر اس لذت کا بھی پتہ لگ جاتا ہے پھر اس طرف توجہ بھی کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡھِبۡنَ السَّیِّاٰتِ یعنی نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں یا فرمایاکہ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے۔لیکن بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نمازیں تو پڑھتے ہیں مگر رُوح اور راستی کے ساتھ نہیں۔ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں۔ فرمایا کہ نماز کو اس طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بیشک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ نماز کا اصل مغز اور رُوح تو دعا ہی ہے۔ جس طرح ایک شخص بادشاہ کے دربار میں تو کچھ نہ کہے لیکن جب باہر آجائے تو اپنی درخواست پیش کرے۔ کیا فائدہ ہو گا ایسے؟ ایسا ہی حال اُن لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع وخضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے۔
پھر فرمایا کہ نماز کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد ایک مومن کا کام ہے کہ قرآن کریم کو بھی پڑھے ، سمجھےاور اس کی طرف توجہ رکھےکیونکہ یہ بھی ایک ذریعہ ہے رمضان کو اگلے رمضان سے جوڑنے کا۔ ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں ۔ اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔ اس نور کے آگے کوئی ظلمت نہیں ٹھہر سکے گی۔
نیکیوں کو قائم رکھنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ہدایت فرمائی کہ دین کو ہر حال میں دنیا پر مقدم رکھو۔فرمایا :دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو بالکل دنیا کے پرستار ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں پر شیطان قابو پا لیتا ہے۔ دوسرے وہ جو دین کی ترقی کی فکر کرتے ہیں اوریہ گروہ حزب اللّٰہ کہلاتا ہے جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے۔ دین کو حاصل کرنا بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک تجارت ہے چنانچہ فرماتا ہےکہ ھَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ۔یعنی کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے نجات دے گی ؟ فرمایا:ہر ایک اَمر پر جو سمجھ نہ آئے پوچھنا چاہیے تا کہ معرفت میں زیادتی ہو۔فرمایا کہ عملی ترقی کے لیے پوچھنا ضروری ہے۔ پس دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لیے جہاں ایمان میں مضبوطی ضروری ہے وہاں علمی اور عملی ترقی بھی ضروری ہے اور اس کے لیے کوشش بھی کرنی چاہیے۔
رمضان کے فیض کو جاری رکھنے کے لیے آپؑ نے آپس کے تعلقات میں اعلیٰ اخلاق دکھانے ،محبت اور بھائی چارے کو بڑھانے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنےکی کوششوں کو مسلسل جاری رکھنے کی نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایک جماعت قائم کرے گا جو قیامت تک منکروں پر غالب رہے گی مگر یہ ابتلا اور کمزوری کے دن ہر ایک شخص کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اپنی حالت میں تبدیلی کرے۔ایک دوسرے کی دل آزاری کرنا اورکمزوروں اور عاجزوں کو حقیر سمجھنا سخت گناہ ہے۔ فرمایا :مَیں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اوّل خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی۔ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ۔ یعنی تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا۔ یاد رکھو جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہ اپنے بھائی کے لیے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔ اس کا انجام اچھا نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے عمل سے یہ دکھایا کہ میرا مرنا اور جینا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ۔ مسلمان بننا آسان نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نمونہ جب تک اپنے اندر پیدا نہ کرو مطمئن نہ ہو۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ انسان عظیم الشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی کہلا کرکافروں کی سی زندگی بسر کرے۔اللہ تعالیٰ کا محبوب ہونا انسان کی زندگی کی غرض وغایت ہونی چاہیے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کا محبوب نہ ہو اور خدا کی محبت نہ ملے کامیابی کی زندگی بسر نہیں کر سکتا اور یہ اَمر پیدا نہیں ہوتا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اطاعت اور متابعت نہ کرو ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھا دیا کہ اسلام کیا ہے؟ پس تم وہ اسلام اپنے اندر پیدا کرو تا کہ خدا کے محبوب بن جاؤ۔فرمایا کہ یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لیے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ پس یہ ثابت کرنا ہو گااگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت اس یقین کے ساتھ کی ہے کہ آپ وہی مسیح و مہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی تو ہمیں اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہو گی ۔ دنیا کے لیے ایک نمونہ بننا ہو گا ۔حقوق اللہ اور حقوق العبادکی ادائیگی کے معیار قائم کرنے ہوں گے۔ توحید کے قیام کے لیے ہر قربانی دینی ہو گی تبھی ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ دنیا کے لیےبھی دعائیں کریں کہ دنیا کے حالات بہتر ہوں۔ آپس میں جو دشمنیاں چل رہی ہیں، ملک ملک جو حملے کر رہے ہیں وہ عقل کے ناخن لیں اور ان چیزوں سے باز آجائیں۔ دنیا بہت زیادہ تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ یہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچان لیں تو تبھی اس سے نکل سکتے ہیں۔
اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک کے اسیرانِ راہِ مولیٰ نیز وہاں بسنے والے احمدیوں کی مشکلات کی آسانی کے لیے دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی طرح احمدی اسیران کے لیے دعا کریں۔ پاکستان کے جو حالات ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ دنیا کے بعض اَور ممالک میں حالات ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ افغانستان کے اسیران ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ الجزائر کے اسیران ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ پاکستان میں تو قانون کی وجہ سے، مولوی کے خوف یا عوام کے خوف سے ججوں کوصحیح فیصلہ کرنے کی توفیق بھی نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ حالات بہتر کرے اور پاکستان میں بھی احمدی آزادی سے رہنے لگیں۔
حضور انور نے آخر میں مکرم عبدالباقی ارشد صاحب چیئرمین الشرکة الاسلامیہ یوکےکی وفات پران کی جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان کی نماز جنازہ حاضر پڑھانے کا بھی اعلان فرمایا۔
٭…٭…٭