خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 22؍ اپریل2022ء
’’مختصر خلاصہ ہماری تعلیم کا یہی ہے کہ انسان اپنی تمام طاقتوں کو خدا کی طرف لگا دے‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
رمضان المبارک کی مناسبت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاداتِ مبارکہ کی روشنی میں جماعت کو خالص تقویٰ کے حصول کی نصیحت
’’اسلام کا کمال تو تقویٰ ہے جس سے ولایت ملتی ہے، جس سے فرشتے کلام کرتے ہیں، خدا تعالیٰ بشارتیں دیتا ہے‘‘
’’حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی۔ حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے‘‘
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 22؍ اپریل2022ء بمطابق 22؍ شہادت 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج کل ہم رمضان کے مہینے سے گزر رہے ہیں اور تقریباً دو عشرے ختم ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر مومن اس مہینے میں یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس مہینے کے فیض سے حصہ لے۔ اللہ تعالیٰ نے روزوں کی فرضیت کے حکم میں شروع میں ہی روزے کا یہ مقصد بیان فرمایا ہے کہ
روزے تم پر اس لیے فرض کیے گئے ہیں تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
پس روزوں اور رمضان کے فیض سے ہم تبھی حصہ پا سکیں گے جب ہم روزوں کے ساتھ اپنے تقویٰ کے معیار بھی بلند کرنے والے ہوں گے۔ ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کریں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے۔(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللّٰہ تعالیٰ یریدون ان یبدلوا کلام اللّٰہ حدیث 7492)کیا صرف نام کا روزہ رکھنا ہی ہمارے لیے کافی ہے؟ سحری اور افطاری کرنا ہی کافی ہے؟ کیا ہمارا اتنا کام ہی ہمیں روزے کی ڈھال کے پیچھے لے آئے گا کہ ہم نے سحری اور افطاری کر لی؟ نہیں بلکہ اس کے لوازمات کو بھی دیکھنا ہو گا اور بنیادی مقصد جو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ وہ یہ ہے کہ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرۃ:184) تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ پس اگر ہم نے اپنے روزوں کو، اپنے رمضان کو وہ روزے اور رمضان بنانا ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہو، جس کا اجر خود اللہ تعالیٰ بنتا ہو تو ہمیں پھر اسے اس معیار پر لانا ہو گا جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور جس کے لیے روزے فرض کیے گئے ہیں اور وہ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔
ہم اپنے آپ کو مومن کہتے ہیں، مسلمان کہتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے، آپؐ پر اپنے ایمان کو کامل کرتے ہوئے اس بات کو بھی مانا ہے کہ آپؐ کی پیشگوئی کے مطابق جس مسیح و مہدی نے آنا تھا وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے وجود میں آ چکا ہے اور اب دین اسلام کی نشأتِ ثانیہ کا کام اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اس مسیح و مہدی کے ہاتھ سے ہی ہونا ہے۔ پس
ہمارا فرض ہے کہ اپنے اندر اسلام کی حقیقی روح کو قائم رکھنے کے لیےمسیح موعود علیہ السلام سے ہی راہنمائی لیں۔
چنانچہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ تقویٰ کے متعلق آپؑ کیا ارشاد فرماتے ہیں تو اس مضمون سے بھی ہمیں آگاہی ہوتی ہے کہ تقویٰ کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم ایمان لانے والوں میں شامل ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تو پھر سنو کہ ایمان کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور پھر فرمایا کہ
تقویٰ کیا ہے؟
پھر اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا۔ اب اگر ہم جائزہ لیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہمیں اپنے جائزہ سے ہی پتہ چل جائے گا کہ کیا ہم تقویٰ کا حق ادا کرتے ہوئے حقوق اللہ کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ کیا ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کر رہے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ بات کہ تقویٰ کیا ہے اس وقت تک پتہ نہیں چل سکتی جب تک ان باتوں کا مکمل علم نہ ہو۔ علم حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ بغیر علم کے کوئی چیز حاصل ہی نہیں ہو سکتی، اس کو آدمی پا ہی نہیں سکتا۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ علم حاصل کرنے کے لیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے حق ہیں؟ کیا بندوں کے حق ہیں؟ کن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے؟ کن باتوں کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کے لیے بار بار قرآن شریف کو پڑھو۔ فرمایا اور تمہیں چاہیے کہ جب قرآن شریف پڑھ رہے ہو تو بُرے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہو گا۔
پس اس رمضان میں ہم قرآن شریف بھی پڑھ رہے ہیں اور عموماً قرآن کریم پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے تو اس سوچ سے پڑھنا چاہیے کہ اس کے اوامر و نواہی پر ہم نے غور کرنا ہے اور بُرے کاموں سے رکنا ہے اور اچھے کاموں کو ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ آپؑ نے فرمایا قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک اوامر و نواہی اور احکام الٰہی کی تفصیل موجود ہے۔ پس ہمیں ان چیزوں کو دیکھنا ہو گا، ان پر غور کرنا اور ان پر عمل کرنا ہو گا اور یہی ایک مومن کی نشانی ہے۔ آپؑ نے اس بات کو بڑے زور سے بیان فرمایا کہ
جب تک انسان متقی نہیں بنتا اس کی عبادات اور دعاؤں میں قبولیت کا رنگ پیدا نہیں ہوتا
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے۔ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ۔ (المائدہ:28) یعنی بےشک اللہ تعالیٰ متقیوں کی ہی عبادت کو قبول فرماتا ہے ۔ فرمایا یہ سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیوں کا ہی قبول ہوتا ہے۔ پھر اس کا جواب دیا کہ عبادات کی قبولیت کیا ہے؟ اور اس سے مراد کیا ہے؟ قبولیت کیا چیز ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز قبول ہو گئی ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ نماز کے اثرات اور برکات نماز پڑھنے والے میں پیدا ہو گئے ہیں۔ جب تک وہ برکات اور اثرات پیدا نہ ہوں، فرمایا اس وقت تک نری ٹکریں ہی ہیں۔ پس ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا ہمارا رمضان، ہمارے روزے ہمیں اس معیار پر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ آپؑ نے فرمایا کہ عیبوں اور برائیوں میں اگر مبتلا کا مبتلا ہی رہا تو تم ہی بتاؤ کہ اس نماز نے اس کو کیا فائدہ پہنچایا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نماز کے ساتھ اس کی برائیاں اور بدیاں جن میں وہ مبتلا تھا کم ہو جاتیں اور نماز اس کے لیے ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ فرمایا پس پہلی منزل اور مشکل اس انسان کے لیے جو مومن بننا چاہتا ہے یہی ہے کہ بُرے کاموں سے پرہیز کرے اور اس کا نام تقویٰ ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحہ 374تا 377 ایڈیشن1984ء)
پس ہماری عبادتوں، ہمارے روزوں، ہمارے قرآن کریم پڑھنے نے اگر ہم میں عملی تبدیلیاں پیدا نہیں کیں اور تقویٰ جس کا حصول روزوں کا مقصود ہے وہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی تو ہم نے اپنے روزوں کے مقصد کو پورا نہیں کیا۔
ہم نے اس ڈھال کے متعلق باتیں تو کی ہیں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے لیکن ہم نے اس ڈھال کے استعمال کا طریق سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم نے سحری اور افطاری کا اہتمام تو کیا لیکن ہم نے سحری اور افطاری کھانے کے مقصد کو پورا نہیں کیا۔ ہم نے سارا دن بغیر کھائے پیے گزار تو دیا لیکن ہم نے اس فاقے کے مقصد کو پورا نہیں کیا۔ پس ہمیں یہ جائزے لینا ہوں گے کہ جو مقصد تقویٰ سے پورا ہوتا ہے اور جو تقویٰ ہم میں پیدا ہونا چاہیے تھا وہ ہوا کہ نہیں ہوا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اَور اقتباسات بھی مَیں تقویٰ کے بارے میں پیش کرتا ہوں جن سے ہماری راہنمائی ہوتی ہے کہ
اصل تقویٰ کیا ہے اور کس قسم کا تقویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟
اس بارے میں ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ’’اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لئے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اٹھ گیا ہے۔ کوئی ہو گا جو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشمس:10) کا مصداق ہو گا۔‘‘ یعنی جس نے اس کو پاک کیا وہ اپنا مقصد پا گیا۔ فرمایا: کوئی ہو گا جو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا کا مصداق ہو گا۔ ’’پاکیزگی اور طہارت عمدہ شے ہے۔ انسان پاک اور مطہر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔ لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذات کی ہر ایک شے حلال ذرائع سے ان کو ملے۔ چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر وہ صبر کرے تو خدا تعالیٰ اسے اَور راہ سے مالدار کر دے‘‘ گا اور یہ چوری صرف ظاہری چوری نہیں ہے۔ بعض کاروباری لوگ بھی جو اپنی غلط قسم کی چیزیں بیچتے ہیں وہ بھی اسی زمرے میں آ جاتی ہیں۔ ’’اسی طرح زانی زنا کرتا ہے اگر صبر کرے تو خدا تعالیٰ اس کی خواہش کو اَور راہ سے پوری کر دے جس میں اس کی رضا حاصل ہو۔ حدیث میں ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘ یعنی کہ ایمان جب دل سے نکل جاتا ہے تو اسی وقت پھر انسان سے اس قسم کی حرکتیں ہوتی ہیں۔ فرمایا کہ ’’جیسے بکری کے سر پر شیر کھڑا ہو تو وہ گھاس بھی نہیں کھا سکتی تو بکری جتنا ایمان بھی لوگوں کا نہیں ہے۔‘‘ گناہوں اور برائیوں کو جب انسان کرتا ہے تو اس وقت یہ احساس ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ فرمایا کہ ’’اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے۔ جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پا سکتا ہے بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے۔‘‘ چھوٹے گناہوں اور بڑے گناہوں سے بچے۔ ’’انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچا سکتے حکام ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے۔ انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کر کے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے۔‘‘ ایمان اس کے اندر کوئی نہیں ہوتا۔ خدا اس کے دل سے نکل چکا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت دہریہ ہو جاتا ہے ’’اور یہ خیال نہیں کرتا کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے وہ مجھے دیکھتا ہے ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا‘‘ کہ خدا دیکھ رہا ہے ’’تو کبھی گناہ نہ کرتا۔ تقویٰ سے سب شے ہے۔ قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتحہ:5) سے مراد بھی تقویٰ ہے کہ انسان اگرچہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرأت نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے۔ اگر نیکی کی بھی تو یہ نہیں کہ میرا کوئی کمال ہے میرا دل نیک ہے یا میں بہت اعلیٰ نیکی کے معیار پر پہنچ گیا ہوں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے اس نیکی کی نماز پڑھنے کی توفیق دی، دعا کرنے کی توفیق دی۔ ’’پھر دوسری صورت بھی هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ:3) سے شروع ہوتی ہے۔
نماز، روزہ، زکوٰة وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو۔
اس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اٹھا دیتا ہے۔‘‘ یعنی گناہ کی طرف بلانے والی تمام چیزیں جو ہیں اگر تقویٰ ہو توان کو اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے۔ ’’بیوی کی ضرورت ہو تو بیوی دیتا ہے، دوا کی ضرورت ہو تو دوا دیتا ہے۔ جس شے کی حاجت ہو وہ دیتا ہے اور ایسے مقام سے روزی دیتا ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی۔‘‘ فرمایا کہ ’’ایک اَور آیت قرآن شریف میں ہے اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا (حٰم السجدہ:31)۔اس سے بھی مراد متقی ہیں۔ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔یعنی ان پر زلزلے آئے، ابتلا آئے، آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو اس سے کر چکے اس سے نہ پھرے۔’’وفا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھا۔ ایمان ایک دفعہ لے آئے تو ایمان پر مضبوط ہوتے چلے گئے۔ یہ نہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر ایمان ہلنے لگ جائے، متزلزل ہو جائے۔
’’پھر آگے خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا اور صدق اور وفا دکھلائی تو اس کا اجر یہ ملا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰئِكَةُ یعنی ان پر فرشتے اترے اور کہا کہ خوف اور حزن مت کرو۔ تمہارا خدا متولی ہے۔ وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔(حٰم السجدہ:31)اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے اور اس جنت سے یہاں مراد دنیا کی جنت ہے۔’’جیسے قرآن مجید میں ہے۔ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ (الرحمٰن:47)۔پھر آگے ہے نَحْنُ اَوْلِيٰؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ (حٰم السجدہ:32) دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے ولی اور متکفل ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 4صفحہ 251تا 253 ایڈیشن1984ء)
پس کیا خوش قسمت ہیں جن کا اللہ تعالیٰ ولی ہو جائے اور متکفل ہو جائے، جو اپنا ہر کام خدا کی رضا کے حصول کے لیے کرنے والے ہوں۔
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ
مومن اور کافر کی کامیابی میں کیا فرق ہوتا ہے،
مومن کس طرح اپنی کامیابی کو دیکھتا ہے اور کافر کس طرح دیکھتا ہے۔ فرمایا کہ اس اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھو کہ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ کسی کامیابی پر جو اسے دی جاتی ہے شرمندہ ہوتا ہے۔ شرمندہ کیوں ہوتا ہے؟ یہ اظہار ہوتا ہے اس سے کہ میں تو اس قابل نہیں تھا اللہ تعالیٰ کے فضل نے یہ سب کچھ دے دیا۔ جو بھی عطا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوئی ہے نہ کہ میری کسی خوبی کی وجہ سے، میرے کسی علم کی وجہ سے، میری عقل کی وجہ سے، میری دولت کی وجہ سے یا میری جسمانی حالت کی وجہ سے۔ نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور جب یہ احساس ہوتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی حمد کرتا ہے کہ اس نے اپنا فضل کیا اور اس طرح پر وہ قدم آگے آگےرکھتا ہے اور ہر ابتلا میں ثابت قدم رہ کر ایمان پاتا ہے۔ فرمایا کہ یاد رکھو کہ کافر کی کامیابی ضلالت کی راہ ہے اور مومن کی کامیابی سے اس کے لیے نعمتوںکا دروازہ کھلتا ہے۔کافر کیونکہ ہر چیز اپنے پر فخر کرتا ہے اور اس کا کریڈٹ اپنے اوپر لیتا ہے تو وہ گمراہی میں گرتا چلا جاتا ہے لیکن مومن ،حقیقی مومن جب اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف ہر چیز منسوب کرتا ہے تو پھر اس کے اوپر نعمتوں کا دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ فرمایا کہ کافر کی کامیابی اس لیے ضلالت کی طرف لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی طرف رجوع نہیں کرتا بلکہ اپنی محنت، دانش اور قابلیت کو خدا بنا لیتا ہے مگر مومن خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے خدا سے ایک نیا تعارف پیدا کرتا ہے اور اس طرح پر ہر ایک کامیابی کے بعد اس کا خدا سے ایک نیا معاملہ شروع ہو جاتا ہے اور اس میں تبدیلی ہونے لگتی ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا(النحل:129) خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔
یاد رکھنا چاہیے قرآن شریف میں تقویٰ کا لفظ بہت مرتبہ آیا ہے (سو سے زیادہ دفعہ آیا ہے۔) اس کے معنی پہلے لفظ سے کیے جاتے ہیں۔ یہاں مَعَ کالفظ آیا ہے یعنی جو خدا کو مقدم سمجھتا ہے خدا اس کو مقدم رکھتا ہے اور دنیا میں ہر قسم کی ذلتوں سے بچا لیتا ہے۔ فرمایا کہ میرا ایمان یہی ہے کہ اگر انسان دنیا میں ہر قسم کی ذلت اور سختی سے بچنا چاہے تو اس کے لیے ایک ہی راہ ہے کہ متقی بن جائے پھر اس کو کسی چیز کی کمی نہیں۔ پس مومن کی کامیابی اس کو آگے لے جاتی ہے اور وہ وہیں پر نہیں ٹھہر جاتا۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ 155-156 ایڈیشن1984ء)
فرمایا ’’تقویٰ کا اثر اسی دنیا میں متقی پر شروع ہو جاتا ہے۔ یہ صرف ادھار نہیں نقد ہے۔ بلکہ
جس طرح زہر کا اثر اور تریاق کا اثر فوراً بدن پر ہوتا ہےاسی طرح تقویٰ کا اثر بھی ہوتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 2صفحہ 324 ایڈیشن1984ء)
پس اگر نیک کام کرنے، عبادات کرنے، نیکیاں بجا لانے کے باوجود انسان کی حالت پر اثر نہیں پڑ رہا تو پھر قابل فکر بات ہے۔ بہت سارے لوگ کچھ سوال بھی لکھتے ہیں، بھیجتے ہیں کہ کس طرح پتا لگے۔ تو پتا اسی طرح لگے گا کہ اگر نیکیوں کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو رہی ہے، اللہ کی طرف توجہ زیادہ پیدا ہو رہی ہے تو پھر وہ کام انسان اللہ تعالیٰ کی خاطر کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال رہا ہے۔
تقویٰ کی راہوں کی نشاندہی
کرتے ہوئے، اس طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں۔‘‘ تقویٰ کی باریک راہیں کیا ہیں کہ روحانی طور پر اس میں ایک خوبصورتی پیدا ہو جاتی ہے۔ ’’اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوقِ عباد کا بھی۔‘‘ یہ چیزیں جو ہیں ایمانی عہد ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ہم نے کیے ہیں کہ اپنی آنکھ کو بھی صحیح جگہ استعمال کرنا ہے۔ بدنظری سے بچانا ہے۔ غلط کاموں سے بچانا ہے ۔کانوں کو بھی غلط باتیں سننے سے بچانا ہے۔ ہاتھ اور پیر سے بھی نیک عمل کرنے ہیں۔ دل کے اندر جو گندے خیالات ہیں ان کو بھی نکالنا ہے اور اس کے لیے
زیادہ سے زیادہ استغفار بھی کرنی چاہیے۔
دوسری قوتیں ہیں ان سے بھی کام لینا ہے۔ اپنے اخلاق کو اعلیٰ معیار تک پہنچانا ہے۔ یہ عہد ہیں ایمانی عہد جو اللہ تعالیٰ سے انسان کرتا ہے۔ فرمایا کہ تم نے ان کو پورا کرنا ہے اور اس کے مقابلے پر فرمایا کہ حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا ہے۔ بندوں کے جو حقوق ہیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے۔ وہ چیزیں تو تمہارے اپنے لیے ہو گئیں اب بندوں کے حق بھی ادا کرنے ہیں اور اگر یہ حق ادا ہوں گے تو فرمایا ’’یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے۔‘‘ اللہ کے حق ادا ہو گئے، بندوں کے حق ادا ہو گئے تو روحانی خوبصورتی انسان میں پیدا ہو جاتی ہے ’’اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوٰى قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کاربند ہو جائے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 209-210)
عبادات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں، اپنی ذات کو صحیح کرنے کے بارے میں، لوگوں کے حق ادا کرنے کے بارے میں ان کی باریکیوں میں جا کر اُن کو ادا کرنے کی کوشش کرو۔ پس جب تک انسان حقوق اللہ اور حقوق العباد کے باریک در باریک پہلوؤں پر عمل کرنے کی کوشش نہ کرے اس وقت تک آپؑ نے فرمایا کہ تقویٰ کا معیار حاصل نہیں ہوتا۔ پس
یہ بہت اہم نکتہ ہے جسے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف عبادتیں اگر اس کے ساتھ بندوں کے حقوق کی ادائیگی نہیں تو کچھ فائدہ نہیں دیتیں اور صرف مخلوق کے بعض حق ادا کر دینا اور خدا تعالیٰ کو بھول جانا جس طرح لوگ کہتے ہیں ہم بندوں کے حق ادا کر رہے ہیں یہ بھی تقویٰ پر چلنے والے نہیں بنا سکتے۔ ایک حقیقی مومن کے لیے دونوں حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
پھر بدعات کے پھیلنے اور تقویٰ سے دوری کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہزارہا قسم کی بدعات ہر فرقہ اور گروہ میں اپنے اپنے رنگ کی پیدا ہو چکی ہیں۔ تقویٰ اور طہارت جو اسلام کا اصل منشاء اور مقصود تھا جس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطرناک مصائب برداشت کیں جن کو بجز نبوت کے دل کے کوئی دوسرا برداشت نہیں کر سکتا وہ آج مفقود و معدوم ہو گیا ہے۔ جیل خانوں میں جا کر دیکھو کہ جرائم پیشہ لوگوں میں زیادہ تعداد کن کی ہے۔‘‘یعنی جرائم پیشہ لوگ جو ہیں ان میں کن کی تعداد ہے آپ اس طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ جرائم پیشہ مسلمان زیادہ ہیں۔ گھانا میں ہمارے ایک منسٹر تھے۔ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں وہ بتایا کرتے تھے کہ ہماری میٹنگ ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ ہماری جیلوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔ انہوں نے کہا میں احمدی ہوں اور میں یہ چیلنج کرتا ہوں کہ ان مسلمانوں میں سے تم دیکھ لو گے کہ احمدی کوئی نہیں ہو گا یا احمدی ہوں گے تو اس نسبت کے لحاظ سے بالکل برائے نام اور جب جا کے جائزہ لیا گیا تو یہی بات صحیح نکلی۔ تو حقیقی مومن، حقیقی احمدی کی یہ نشانی ہے اور یہ پھر تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اگر اس چیز کو ہم اپنے سامنے رکھیں اور ہر معاملے میں، ہر عمل میں، اپنے کاروباروں میں، اپنی نوکریوں میں، اپنی روزمرہ کی لوگوں کے ساتھ dealingمیں اپنے اعلیٰ اخلاق دکھلانے والے ہوں، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے والے ہوں۔ تقویٰ دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے والے ہوں تو پھر جہاں یہ ہماری اصلاح کا باعث بنے گی وہاں تبلیغ کا بھی ایک خاموش ذریعہ بن جاتی ہے۔
فرمایا’’زنا، شراب اور اِتلافِ حقوق اور دوسرے جرائم اس کثرت سے ہو رہے ہیں کہ گویا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کوئی خدا نہیں۔ اگر مختلف طبقاتِ قوم کی خرابیوں اور نقائص پر مفصل بحث کی جاوے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جاوے۔ ہر دانشمند اور غور کرنےو الا انسان قوم کے مختلف افراد کی حالت پر نظر کر کے اس صحیح اور یقینی نتیجہ پر پہنچ جاوے گا کہ وہ تقویٰ جو قرآن کریم کی علّت غائی تھاجو اکرام کا اصل موجب اور ذریعہ شرافت تھا آج موجود نہیں۔‘‘ قرآن کریم تو تقویٰ پیدا کرنا چاہتا تھا۔ یہی مقصد تھا قرآن کریم کا۔ وہ مسلمانوں میں مفقود ہو گیا۔ فرمایا کہ ’’عملی حالت جس کی اشد ضرورت تھی کہ اچھی ہوتی اور جو غیروں اور مسلمانوں میں مابہ الامتیاز تھی سخت کمزور اور خراب ہو گئی ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد4صفحہ 4 ایڈیشن1984ء)
اگر ایسی حالت ہو تو پھر کیا تبلیغ ہونی ہے اور پھر کیا مسلمانوں کا اثر دنیا پہ ہونا ہے اور اسی کا نتیجہ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں اور اس کا حل احمدیوں کے پاس ہے۔ اگر ہم بھی بگڑ گئے تو پھر کون سنبھالے گا اور
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں وہ تو پورے ہونے ہیں لیکن ہم اگر ان میں شامل نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ اور قوموں کو کھڑا کر دے گا اور ان کے ذریعہ سے وعدے پورے کروا دے گا۔
جب ہمارے معاشرے کی یہ حالت ہو جائے جیسی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان کی ہے تو ہمیں کتنی فکر اپنے نیکی اور تقویٰ کے معیاروں کے لیے کرنی چاہیے اور کتنی فکر ہمیں اپنی نسلوں کی نیکی اور تقویٰ کے معیاروں کے لیے کرنی چاہیے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ
تقویٰ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھایا جائے بلکہ ان سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے تو یہ بھی تقویٰ سے دوری ہے۔
بعض نام نہاد بزرگ اور پیر فقیر دکھاوے کے لیے اپنی طرف سے سادہ لباس اور بدمزہ کھانا کھاتے ہیں اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہم متقی ہیں۔ بڑے نیک ہیں۔ فرمایا کہ ’’یاد رکھو کہ انسان کو چاہئے کہ ہر وقت اور ہر حالت میں دعا کا طالب رہے اور دوسرے اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحٰی:12) پر عمل کرے۔ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی تحدیث کرنی چاہئے۔‘‘ ان کا ذکر کرنا چاہیے۔ ان کا اظہار ہونا چاہیے ’’اس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے۔ اور‘‘ نعمتوں کا اظہار ہو گا تو ’’اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے ایک جوش پیدا ہوتا ہے۔ تحدیث کے یہی معنے نہیں ہیں کہ انسان صرف زبان سے ذکر کرتا رہے بلکہ جسم پر بھی اس کا اثر ہونا چاہئے۔ مثلاً ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ وہ عمدہ کپڑے پہن سکتا ہے لیکن وہ ہمیشہ میلے کچیلے کپڑے پہنتا ہے اس خیال سے کہ وہ واجب الرحم سمجھا جاوے یا اس کی آسودہ حالی کا حال کسی پر ظاہر نہ ہو ایسا شخص گناہ کرتا ہے کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے فضل اور کرم کو چھپانا چاہتا ہے اور نفاق سے کام لیتا ہے۔ دھوکا دیتا ہے اور مغالطہ میں ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ مومن کی شان سے بعید ہے۔‘‘ مومن ایسا نہیں ہوتا ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب مشترک تھا‘‘ یعنی ہر چیز جو میسر تھی وہ آپ کیا کرتے تھے۔ یہ نہیں ہے کہ ایک طرف رجحان ہو گیا۔ اعلیٰ کپڑے ملے تو اعلیٰ کپڑے بھی پہنے۔ اگر نہیں تھے تو عام کپڑے بھی پہنے۔ فرمایا کہ ’’آپ کو جو ملتا تھا پہن لیتے تھے اعراض نہ کرتے تھے۔ جو کپڑا پیش کیا جاوے اسے قبول کر لیتے تھے لیکن آپؐ کے بعد بعض لوگوں نے اسی میں تواضع دیکھی کہ رہبانیت کی جزو ملا دی۔ بعض درویشوں کو دیکھا گیا کہ گوشت میں خاک ڈال کر کھاتے تھے۔‘‘ اپنے آپ کو درویش کہتے اور گوشت میں مٹی ڈال کر کھاتے ہیں۔ ’’ایک درویش کے پاس کوئی شخص گیا اس نے کہا اس کو کھانا کھلا دو۔‘‘ اس درویش نے اپنے مریدوں کو کہا کہ مہمان کو کھانا کھلا دو۔ ’’اس شخص نے‘‘ مہمان نے ’’اصرار کیا کہ میں تو آپ کے ساتھ ہی کھاؤں گا‘‘ میں پیر صاحب آپ کے ساتھ ہی کھاؤں گا۔ ’’آخر جب وہ اس درویش کے ساتھ کھانے بیٹھا تو اس کے لئے نیم کے گولے تیار کر کے آگے رکھے گئے۔‘‘
نیم ایک درخت ہے جس کے پتے بڑے کڑوے ہوتے ہیں اور نمولیاں لگتی ہیں وہ بھی بڑی کڑوی ہوتی ہیں۔ اس کا کھانا بنا کے اس کو کڑوا کھاناپیش کیا گیا۔ اس کا کوئی مزہ نہیں تھا۔ مزہ کیا؟ خطرناک قسم کا اس کا کڑوا مزہ تھا۔ فرمایا کہ ’’اس قسم کے امور بعض لوگ اختیار کرتے ہیں اور غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اپنے باکمال ہونے کا یقین دلائیں ۔مگر اسلام ایسی باتوں کو کمال میں داخل نہیں کرتا۔
اسلام کا کمال تو تقویٰ ہے جس سے ولایت ملتی ہے، جس سے فرشتے کلام کرتے ہیں، خدا تعالیٰ بشارتیں دیتا ہے۔
ہم اس قسم کی تعلیم نہیں دیتے کیونکہ اسلام کی تعلیم کے منشا کے خلاف ہے۔ قرآن شریف تو كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ۔‘‘ کہ پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ ’’کی تعلیم دے اور یہ لوگ طیب عمدہ چیز میں خاک ڈال کر غیر طیب بنا دیں۔اس قسم کے مذاہب اسلام کے بہت عرصہ بعد پیدا ہوئے ہیں۔ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اضافہ کرتے ہیں۔ ان کو اسلام سے اور قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ خود اپنی شریعت الگ قائم کرتے ہیں۔ میں اس کو سخت حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ ہمارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسوہ حسنہ ہیں۔ ہماری بھلائی اور خوبی یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہوآپ‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم ’’کے نقش قدم پر چلیں اور اس کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائیں۔‘‘
یہ تو کھانے پینے کی بات ہے۔ پھر
روزمرہ کے اخلاق کی بات
جہاں تک آتی ہے فرمایا کہ ’’اسی طرح عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات ‘‘ ہیں، لوگوں کے جو گھریلو رویے ہیں ان کے بارے میں بھی فرما دیا کہ ’’عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ مٔستقیم سے بہک گئے ہیں۔‘‘ سیدھے راستے سے ہٹ گئے ہیں۔ ’’قرآن شریف میں لکھا ہے کہ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(النساء: 20)مگر اب اس کے خلاف عمل ہورہا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 4صفحہ 43-44 ایڈیشن1984ء)
معروف کیا کرنا ہے انہوں نے بلکہ بعض گھروں میں ظلم ہو رہے ہوتے ہیں۔ پس اچھے کپڑے پہننا اگر توفیق ہے، اچھے کھانے کھانا اگر توفیق ہے تقویٰ میں کمی نہیں کرتا بلکہ اضافہ کرتا ہے۔ نیز معاشرتی اخلاق کے بارے میں بھی بتایا کہ اپنی بیوی سے حسن سلوک کرنا یہ بھی ضروری ہے۔ اپنے بچوں کا خیال رکھنا، ان کی ضروریات پوری کرنا، ان کی صحیح تربیت کرنا یہ بھی ضروری ہے۔ یہ بھی تقویٰ ہے اور یہ قرآن کریم کا حکم ہے۔
پس حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی ضروری ہے۔
پھر آپؑ نے ایک بات بیان فرمائی کہ
متقی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور دیا جاتا ہے۔
اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی۔ حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے جیسا کہ اللہ جل شانہٗ فرماتا ہے يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ (الانفال:30) وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ (الحدید:29)یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اِتِّقا کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے۔ یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آ جائے گا۔ تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا۔‘‘ کوئی غلط حرکت اس سے سرزد ہو ہی نہیں سکتی جو اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق چلنے والا ہو۔ اگر ہو گی بھی تو فوراً اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کی طرف توجہ بھی دلا دے گا۔ استغفار کرنے کی طرف اللہ تعالیٰ توجہ دلائے گا۔ فرمایا کہ ’’تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں، تمہارے قویٰ کی راہیں، تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 177-178)
جتنی تمہاری راہیں ہیں وہ نیکی کی طرف لے جانے والی راہیں ہوں گی۔ تمہارے قویٰ جو ہیں وہ بھی نیک کام کرنے والے ہوں گے۔ تمہاری سوچیں اور خیالات جو ہیں وہ بھی نیک ہو جائیں گی۔ بدیوں کے خیالات مٹ جائیں گے اور جب ایسا معاشرہ قائم ہوتا ہے تو پھر وہ یقیناً
تقویٰ پر چلنے والوں کا معاشرہ
ہوتا ہے۔ فرمایا کہ ’’قانون قدرت قدیم سے ایسا ہی ہے کہ یہ سب کچھ معرفت کاملہ کے بعد ملتا ہے۔ خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑھ معرفت کاملہ ہے پس جس کو معرفت کاملہ دی گئی اس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی۔ اور
جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی اس کو ہر ایک گناہ سے جو بیباکی سے پیدا ہوتا ہے نجات دی گئی۔
پس ہم اِس نجات کے لئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور نہ کسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے۔ جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کررہی ہے۔ ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔‘‘ نفس کی قربانی کرنا تقویٰ پر جانے کا باعث بنتا ہے اور اسی کا نام اسلام ہے۔ ’’اسلام کے معنے ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا۔ یہ پیارا نام تمام شریعت کی روح اور تمام احکام کی جان ہے۔ ذبح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے۔‘‘ جب تک کسی چیز کی معرفت نہ ہو محبت پیدا نہیں ہو سکتی۔ ’’پس اسلام کا لفظ اِسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اَور چیز کی ضرورت۔ اِسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتاہے۔ لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ (الحج:38)۔یعنی تمہاری (قربانیوں) کے نہ تو گوشت میرے تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ خون بلکہ صرف یہ قربانی میرے تک پہنچتی ہے کہ تم مجھ سے ڈرو اور میرے لئے تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 151-152)
پس یہ وہ تقویٰ کا معیار ہے جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے چاہتے ہیں۔ جو زمانے کے امام ہم سے چاہتے ہیں اور اس کی بار بار قرآن کریم میں تلقین کی گئی ہے اور اس کے حصول کے لیے رمضان کے مہینے میں روزوں کی فرضیت رکھی گئی ہے۔
خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جو اس سوچ کے ساتھ کوشش کریں گے کہ یہ تقویٰ حاصل کرنے کے لیے رمضان کے بقیہ روزے ہم نے گزارنے ہیں
اور یا جو گزارے ہیں اللہ تعالیٰ کرے کہ وہ اس طرح ہی گزارے ہوں اور ہم نے اپنے ہر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنا ہے۔
ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو آپ تو سید نہیں ہیں اور سید ایک امتی کی بیعت کس طرح کر سکتا ہے؟ بعض سید اور سیدوں کو اونچا مقام دینے والے اب بھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سیدوں کا غیر معمولی مقام ہے تو سید کس طرح بیعت کر سکتا ہے غیر سید کی؟ اسی طرح آج کل بعض عربوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ مسیح موعود نے اگر آنا تھا تو عربوں میں سے آنا تھا، غیر عربوں سے کس طرح آگیا۔ ہم کس طرح مان لیں؟ قرآن کریم پڑھتے ہیں لیکن غور نہیں کرتے جواب تو وہاں پہلے سے موجود ہے۔ یہ مقام اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں نے دینا ہوتا ہے۔ بندے نہیں ہیں جو اس مقام کی تقسیم کر رہے ہوں۔ بہرحال آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نہ محض جسم سے راضی ہوتا ہے نہ قوم سے۔اس کی نظر ہمیشہ تقویٰ پر ہے۔ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الحجرات:14)۔یعنی اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ بزرگی رکھنے والا وہی ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہو۔ یہ بالکل جھوٹی باتیں ہیں کہ میں سید ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان اور شیخ ہوں۔ اگر بڑی قومیت پر فخر کرتا ہے تو یہ فخر فضول ہے۔ مرنے کے بعد سب قومیں جاتی رہتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کے حضور قومیت پر کوئی نظر نہیں اور کوئی شخص محض اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے نجات نہیں پا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو کہا ہے کہ اے فاطمہؓ تو اس بات پر ناز نہ کر کہ تُو پیغمبر زادی ہے۔ خدا کے نزدیک قومیت کا لحاظ نہیں۔‘‘ پس جب حضرت فاطمہؓ کے لیے یہ حکم ہے، یہ ارشاد ہے تو پھر اَور کون رہ جاتا ہے؟ فرمایا کہ ’’وہاں جو مدارج ملتے ہیں وہ تقویٰ کے لحاظ سے ملتے ہیں۔ یہ قومیں اور قبائل دنیا کا عرف اور انتظام ہیں۔ خدا تعالیٰ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
خدا تعالیٰ کی محبت تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے اورتقویٰ ہی مدارجِ عالیہ کا باعث ہوتا ہے۔
اگر کوئی سید ہو اور وہ عیسائی ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے اور خدا کے احکام کی بےحرمتی کرے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو آلِ رسول ہونے کی وجہ سے نجات دے گا۔ اور وہ بہشت میں داخل ہو جاوے گا۔ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (آل عمران:20)۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو سچا دین جو نجات کا باعث ہوتا ہے اسلام ہے۔ اگر کوئی عیسائی ہو جاوے یا یہودی ہو یا آریہ ہو وہ خدا کے نزدیک عزت پانے کے لائق نہیں۔ خدا تعالیٰ نے ذاتوں اور قوموں کو اڑادیا ہے۔ یہ دنیا کے انتظام اور عرف کے لئے قبائل ہیں ۔مگر ہم نے خوب غور کر لیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور جو مدارج ملتے ہیں ان کا اصل باعث تقویٰ ہی ہے۔ جو متقی ہے وہ جنت میں جائے گا۔ خدا تعالیٰ اس کے لیے فیصلہ کر چکا ہے۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک معزز متقی ہی ہے۔ پھر یہ جو فرمایا ہے اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ (المائدۃ:28)کہ اعمال اور دعائیں متقیوں کی قبول ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہا کہ مِنَ السَّیِّدِیْن۔ پھر متقی کے لیے تو فرمایا مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا۔ وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (طلاق:3-4) یعنی متقی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے۔ اس کو ایسی جگہ سے رزق دیا جاتا ہے کہ اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ اب بتاؤ کہ یہ وعدہ سیدوں سے ہوا ہے یا متقیوں سے۔ اور پھر یہ فرمایا ہے کہ متقی ہی اللہ تعالیٰ کے ولی ہوتے ہیں۔ یہ وعدہ بھی سیدوں سے نہیں ہوا۔ ولایت سے بڑھ کر اَور کیا رتبہ ہوگا۔ یہ بھی متقی ہی کو ملا ہے۔ بعض نے ولایت کو نبوت سے فضیلت دی ہے اور کہا ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے بڑھ کر ہے۔ نبی کا وجود دراصل دو چیزوں سے مرکب ہوتا ہے۔ نبوت اور ولایت۔ نبوت کے ذریعہ وہ احکام اور شرائع مخلوق کو دیتا ہے اور ولایت اس کے تعلقات کو خدا سے قائم کرتی ہے۔
پھر فرمایا ہے۔ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ:3) ھُدًی لِّلسَّیِّدِیْنَ نہیں کہا۔ غرض خدا تعالیٰ تقویٰ چاہتا ہے۔ ہاں سید زیادہ محتاج ہیں کہ وہ اس طرف آئیں کیونکہ وہ متقی کی اولاد ہیں۔ اس لئے ان کا فرض ہے۔‘‘ کہ وہ تقویٰ اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ نہ یہ کہ ان کا سید ہونا ان کو کوئی مقام دے رہا ہے۔ فرمایا کہ ’’اس لیے ان کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے آئیں نہ یہ کہ خدا تعالیٰ سے لڑیں کہ یہ سادات کا حق تھا۔ وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۔ (الجمعہ:5) یہ ایسی بات ہے کہ جیسے یہودی کہتے ہیں کہ بنی اسمعٰیل کو نبوت کیوں ملی۔ وہ نہیں جانتے تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ۔(آل عمران: 141) خداتعالیٰ سے اگر کوئی مقابلہ کرتا ہے تو وہ مردودہے۔‘‘ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ ایام ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ سے اگر کوئی مقابلہ کرتا ہے ۔تو وہ مردودہے ’’وہ ہر ایک سے پوچھ سکتا ہے۔ اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔‘‘
(ملفوظات جلد 3 صفحہ 343 تا 345 ایڈیشن1984ء)
پھر آپؑ اپنے دعویٰ پر الزام کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے دعویٰ کیا تو اس وقت بھی لوگوں کی نظروں میں بہت سے یہودی عالم متقی اور پرہیز گار مشہور تھے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی متقی ہوں۔ خدا تعالیٰ تو ان متقیوں کا ذکر کرتا ہے جو اس کے نزدیک تقویٰ اور اخلاص رکھتے ہیں۔ جب ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ سنا، لوگوں میں جو ان کی وجاہت تھی اس میں فرق آتا دیکھ کر رعونت سے انکار کر دیا اور حق کو اختیار کرنا گوارا نہ کیا۔ اب دیکھو کہ لوگوں کے نزدیک تو وہ بھی متقی تھے مگر ان کا نام حقیقی متقی نہیں تھا۔
حقیقی متقی وہ شخص ہے کہ جس کی خواہ آبرو جائے۔ ہزار ذلت آتی ہو۔ جان جانے کا خطرہ ہوفقرو فاقہ کی نوبت آئی ہو تو وہ محض اللہ تعالیٰ سے ڈر کر ان سب نقصانوں کو گوارا کرے لیکن حق کو ہرگز نہ چھپاوے۔
متقی کے یہ معنے جیسے آج کل کے مولوی عدالتوں میں بیان کرتے ہیں ہرگز نہیں ہیں کہ جو شخص زبان سے سب مانتا ہو خواہ اس کا عمل درآمد اس پر ہویا نہ ہو اور وہ جھوٹ بھی بول لیتا ہو، چوری بھی کرتا ہو تو وہ متقی ہے۔‘‘ یعنی صرف مسلمان کہہ دینا تقویٰ نہیں ہے
’’تقویٰ کے بھی مراتب ہوتے ہیں اور جب تک کہ یہ کامل نہ ہوں تب تک انسان پورا متقی نہیں ہوتا۔
ہر ایک شے وہی کار آمد ہوتی ہے جس کا پورا وزن لیا جاوے۔ اگر ایک شخص کو بھوک اور پیاس لگی ہے تو روٹی کا ایک بھورا اور پانی کا ایک قطرہ لے لینے سے اسے سیری حاصل نہ ہوگی۔‘‘ مولوی لوگ اپنے آپ کی علمیت کا اظہار کرتے ہیں تو یہ ان کا تقویٰ نہیں ہے تقویٰ تو پیدا ہوتا ہے عمل سے۔ کسی کو مولوی کہنے سے یا اس کے بڑا عالم بننے سے تقویٰ نہیں پیدا ہو جاتا۔ فرمایا کہ ’’اگر ایک شخص کو بھوک اور پیاس لگی ہے تو روٹی کا ایک بھورا اور پانی کا ایک قطرہ لے لینے سے اسے سیری حاصل نہ ہوگی اور نہ جان کو بچا سکے گا جب تک پوری خوراک کھانے اور پینے کی اسے نہ ملے۔ یہی حال تقویٰ کا ہے کہ جب تک انسان اسے پورے طور پر ہر ایک پہلو سے اختیار نہیں کرتا تب تک وہ متقی نہیں ہو سکتا۔ اور اگر یہ بات نہیں تو ہم ایک کافر کو بھی متقی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کوئی نہ کوئی پہلو تقویٰ کا (یعنی خوبی)‘‘ تو اس میں ہو گی ’’اس کے اندر ضرور ہوگی۔‘‘ کوئی نہ کوئی نیکی تو وہ کرتا ہی ہے جس سے وہ متقی تو نہیں بن جاتا۔ ’’اللہ تعالیٰ نے محض ظلمت تو کسی کو پیدا نہیں کیا۔‘‘ساری برائیاں تو نہیں ہر ایک میں پیدا کیں۔ اچھائیاں بھی ہوتی ہیں ’’مگر تقویٰ کی یہ مقدار اگر ایک کافر کے اندر ہو تو اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی۔ کافی مقدار ہونی چاہئے جس سے دل روشن ہو۔‘‘جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ وہ اللہ کے بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور بندوں کا حق بھی ادا کرنے والا ہو۔ ہر قسم کی خوبیاں اس میں ہوں۔ فرمایا ’’خدا تعالیٰ راضی ہو اور ہر ایک بدی سے انسان بچ جاوے۔ بہت سے ایسے مسلمان ہیں کہ جو کہتے ہیں کیا ہم روزہ نہیں رکھتے۔ نماز نہیں پڑھتے وغیرہ وغیرہ مگر ان باتوں سے وہ متقی نہیں ہو سکتے۔ تقویٰ اَور شے ہے۔ جب تک انسان خدا تعالیٰ کو مقدم نہیں رکھتا اور ہر ایک لحاظ کو خواہ برادری کا ہو خواہ قوم کا خواہ دوستوں اور شہر کے رؤساءکا خدا تعالیٰ سے ڈر کر نہیں توڑتا اور خدا تعالیٰ کے لیے ہر ایک ذلت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا تب تک وہ متقی نہیں ہے۔قرآن شریف میں جو بڑے بڑے وعدے متقیوں کے ساتھ ہیں وہ ایسے متقیوں کا ذکر ہے جنہوں نے تقویٰ کو وہاں تک نبھایا جہاںتک ان کی طاقت تھی۔ بشریت کے قویٰ نے جہانتک ان کا ساتھ دیا برابر تقویٰ پر قائم رہے حتی کہ ان کی طاقتیں ہار گئیں۔ اور پھر خدا تعالیٰ سے انہوں نے اَور طاقت طلب کی جیسے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ سےظاہر ہے۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ۔یعنی اپنی طاقت تک تو ہم نے کام کیا اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ یعنی آگے چلنے کے لیے اَور نئی طاقت تجھ سے طلب کرتے ہیں ۔جیسے حافظ نے کہا ہے۔‘‘ شاعر نے
’’ما بِدَاں منزِل عالی نَتَوَانِیم رسید
ہاں اگر لطفِ شُما پیش نِہَد گامے چند‘‘
کہ ہم اس عالی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تمہاری مہربانی ساتھ نہ ہو۔
’’پس
خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک متقی ہونا اَور شے ہےاور انسانوں کے نزدیک متقی ہونا اَور شے۔
مسیح علیہ السلام کے وقت جو مخالفوں کے جتھے وغیرہ بنتے تھے اس کا باعث بھی یہی تھاکہ جو عام لوگ یہود کے نزدیک مسلّم تھے اور متقی پرہیز گار تسلیم کیے جاتے تھے وہ مخالف تھے۔ اگر وہ مخالف نہ ہوتے تو جتھے وغیرہ نہ بنتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی یہی حال تھا۔ عُجب، بخل، ریا، نمود اور وجاہت کی پاسداری وغیرہ باتیں تھیں جنہوں نے حق کی قبولیت سے ان کو روکے رکھا۔ غرضکہ تقویٰ مشکل شے ہے جسے اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے تو اس کی علامات بھی ساتھ ہی رکھ دیتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ حق جب ظاہر ہو تو جو اسے خواہ نخواہ رد کرتا ہے اور دلائل، معقولات، منقولات اور خدا تعالیٰ کے نشانوں کو ٹالتا جاوے وہ کب متقی ہو سکتا ہے۔سچی بات یہ ہے کہ حق جب ظاہر ہو تو اسے جو خواہ نخواہ رد کرتا ہے اور دلائل معقولات منقولات اور خدا تعالیٰ کے نشانات کو ٹالتا جاتا ہے وہ ہرگز متقی نہیں ہوسکتا۔متقی کوتو ترساں اور لرزاں ہونا چاہیے۔‘‘
اپنی بعثت کے ذکر میں فرماتے ہیں۔ ’’کیا دنیا میں ایساہوا ہے کہ چوبیس سال سے برابر ایک انسان رات کو منصوبہ بناتا ہے اور صبح کو خدا کی طرف لگا کر کہتا ہے کہ مجھے یہ وحی یا الہام ہوا اور خدا تعالیٰ اس سے مواخذہ نہیں کرتا۔ اس طرح سے تو دنیا میں اندھیر پڑ جاوے اور مخلوق تباہ ہو جاوے۔ متقی تو ایک ہی بات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہاں تو ہزاروں ہیں۔ زمانہ الگ پکار رہا ہے۔ احادیث مِنْکُمْ مِنْکُمْ کہہ رہی ہیں۔ سورۂ نور میں بھی مِنْکُمْ لکھا ہے۔ قساوت قلبی اور بہائم کی طرح جو زندگی بسر ہو رہی ہے وہ الگ بتارہی ہے۔ صدی کے سر پر کہتے تھے کہ مجدد آتا ہے۔ اب بائیس سال بھی ہو چکے۔‘‘ اس وقت جب بیان دے رہے ہیں۔ اس وقت فرماتے ہیں۔ ’’کسوف و خسوف بھی ہو لیا۔ طاعون بھی آ گئی۔ حج بھی بند ہوا۔ان سب باتوں کو دیکھ کر اگر اب بھی یہ لوگ نہیں مانتے تو ہم کیونکر جانیں کہ ان میں تقویٰ ہے۔‘‘ یہ غیروں کوجواب ہے جو متقی ہونے کا اور نیک ہونےکا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کے فتوے لگانے کی باتیں کرتے ہیں ۔ اسی طرح لوگوں کو بھی ورغلاتے ہیں ان کو بھی خراب کر رہے ہیں۔
فرمایا ’’ہم نے بار بار کہا کہ آؤ اور جن باتوں کا تم کو سوال کرنے کا حق پہنچتا ہے وہ پوچھو۔ ہاں یہ نہیں ہوگا کہ قرآن شریف تو کچھ کہے اور تم کچھ کہو اور ایسے اقوال پیش کرو جو اس کے مخالف ہوں۔ مسیح کا نزول جسمانی آسمان سے مانتے ہیں حالانکہ وہ تب صحیح ہوسکتا ہے جبکہ صعود اول ہو۔ قرآن مسیح کی وفات بیان کرتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ چھت پھاڑ کر آسمان پر چلا گیا۔ کیا تقویٰ اس بات کا نام ہے کہ یقین کو ترک کر کے توہمات کی اتباع کی جاوے۔ سچے تقویٰ کا پتہ قرآن سے ملتا ہے کہ دیکھ لیوے کہ تقویٰ والوں نے کیا کیا کام کئے۔‘‘
(ملفوظات جلد 7 صفحہ 73 تا 76 ایڈیشن1984ء)
تقویٰ کے حوالے سے جماعت کو نصیحت
کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تقویٰ والے پر خدا کی ایک تجلّی ہوتی ہے۔ وہ خدا کے سایہ میں ہوتا ہے مگر چاہئے کہ تقویٰ خالص ہو اور اس میں شیطان کا کچھ حصہ نہ ہو ورنہ شرک خدا کو پسند نہیں اور اگر کچھ حصہ شیطان کا ہو تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ سب شیطان کا ہے۔‘‘ فرمایا ’’…ہم اپنی جماعت کو کہتے ہیں کہ صرف اتنے پر وہ مغرور نہ ہو جائے کہ ہم نماز روزہ کرتے ہیں یا موٹے موٹے جرائم مثلاً زنا ،چوری وغیرہ نہیں کرتے۔ ان خوبیوں میں تو اکثر غیر فرقہ کے لوگ مشرک وغیرہ تمہارے ساتھ شامل ہیں۔‘‘ یعنی وہ بھی نہیں کرتے یہ باتیں۔ ’’تقویٰ کا مضمون باریک ہے اس کو حاصل کرو۔ خدا کی عظمت دل میں بٹھاؤ۔ جس کے اعمال میں کچھ بھی ریا کاری ہو خدا اس کے عمل کو واپس الٹا کر اس کے منہ پر مارتا ہے۔‘‘ دکھاوے کے لئے عمل نہ ہو۔ ’’متقی ہونا مشکل ہے مثلاً اگر کوئی تجھے کہے کہ تُو نے قلم چرایا ہے تو تُو کیوں غصہ کرتا ہے۔‘‘ چھوٹی سی بات کی۔ کسی نے کہہ دیا۔ تُو نے میرا قلم اٹھایا ہے تو وہ غصہ میں آجائے تو یہ تقویٰ والوں کی نشانی نہیں ہے۔ صبر اور حوصلہ دکھانا چاہیے۔ فرمایا ’’تیرا پرہیزتو محض خدا کے لیے ہے۔‘‘ بچنا چاہیے تھا اس بات سے۔ غصہ سے بچنا چاہیے تھا۔ ’’یہ طیش‘‘ یہ غصہ ’’اس واسطے ہوا کہ روبحق نہ تھا۔‘‘ صحیح سچائی کی طرف تیرا قدم نہیں تھا۔ ’’جب تک واقعی طور پر انسان پر بہت سی موتیں نہ آجائیں وہ متقی نہیں بنتا۔ معجزات اور الہامات بھی تقویٰ کی فرع ہیں۔ اصل تقویٰ ہے۔ اس واسطے تم الہامات اور رؤیا کے پیچھے نہ پڑو بلکہ حصول تقویٰ کے پیچھے لگو۔‘‘ یہ نہیں ہے کہ فلاں کو الہام ہوا، فلاں کو رؤیا ہوا۔ یہ دیکھو تقویٰ کیا ہے۔ ’’جو متقی ہے اسی کے الہامات بھی صحیح ہیں اور اگر تقویٰ نہیں تو الہامات بھی قابل اعتبار نہیں۔ ان میں شیطان کا حصہ ہو سکتا ہے۔ کسی کے تقویٰ کو اس کے ملہم ہونے سے نہ پہچانو بلکہ اس کے الہاموں کو اس کی حالت تقویٰ سے جانچو اور اندازہ کرو۔ سب طرف سے آنکھیں بند کر کے پہلے تقویٰ کے منازل کو طے کرو۔‘‘ فرمایا ’’…جتنے نبی آئے سب کا مدّعا یہی تھا کہ تقویٰ کا راہ سکھلائیں۔ اِنْ اَوْلِيَآؤُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ۔(الانفال:35) مگر قرآن شریف نے تقویٰ کی باریک راہوں کو سکھلایا ہے۔ کمال نبی کا کمال امت کو چاہتا ہے۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس لئے آنحضرتؐ پر کمالات نبوت ختم ہوئے۔ کمالات نبوت ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم نبوت ہوا ۔جو خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہے اور معجزات دیکھنا چاہے اور خوارق عادت دیکھنا منظور ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی بھی خارق عادت بنا لے۔ دیکھو امتحان دینے والے محنتیں کرتے کرتے مدقوق کی طرح بیمار اور کمزور ہوجاتے ہیں۔ پس تقویٰ کے امتحان میں پاس ہونے کے لئے ہر ایک تکلیف اٹھانے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ جب انسان اس راہ پر قدم اٹھاتا ہے تو شیطان اس پر بڑے بڑے حملے کرتا ہے لیکن ایک حد پر پہنچ کر آخر شیطان ٹھہر جاتا ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کی سفلی زندگی پر موت آ کر وہ خدا کے زیرسایہ ہو جاتا ہے۔ … مختصر خلاصہ ہماری تعلیم کا یہی ہے کہ انسان اپنی تمام طاقتوں کو خدا کی طرف لگا دے۔‘‘
(ملفوظات جلد 2صفحہ 301-302 ایڈیشن1984ء)
مختلف زاویوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیںجونصائح فرمائی ہیں وہ بعض حوالے میں نے پیش کیے ہیں تا کہ ہمیں تقویٰ کے مطلب اور اس کی گہرائی کا بھی علم ہو اور ہم جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے آپؑ کی جماعت میں شامل ہو کر تقویٰ کی حقیقی روح کو سمجھتے ہوئے اس پر چلنے والے بھی ہوں۔ رمضان کے ان بقیہ دنوں میں جس حد تک ممکن ہو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ تقویٰ کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭