خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 18؍ مارچ 2022ء

حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ تم میں سے جو شخص ڈرتا ہو وہ جہاں چاہے جائے۔ خدا کی قسم! اگر تم میں سے ایک شخص بھی میرا ساتھ نہ دے گا تو بھی مَیں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا اور اگر دشمن مدینہ کے اندر گھس آئے اور میرے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو قتل کر دے اور عورتوں کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں ان سے جنگ کروں گا اور اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک یہ لوگ اونٹ کا گھٹنہ باندھنے کی وہ رسی بھی جو پہلے زکوٰة میں دیا کرتے تھے نہ دینے لگ جائیں۔

سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حالاتِ زندگی کے ذکر میں مانعینِ زکوٰة کے متعلق آپؓ کے خیالات اور ان کے ساتھ سلوک کا ذکرہو رہا تھا۔

سوال نمبر3: منکرین زکوٰۃ کے مدینہ پرحملہ کرنے کی بابت حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: منکرینِ زکوٰة کے وفد کے مدینہ سے واپس جانے کے بعد صرف تین راتیں گزری تھیں کہ ان لوگوں نے رات ہوتے ہی مدینہ پر حملہ کردیا۔ اپنے ساتھیوں میں سے ایک جماعت کو وہ ذُوحِسٰی چھوڑ آئے تا کہ وہ بوقتِ ضرورت کمک کا کام دیں …بہرحال یہ حملہ کرنے والے رات کے وقت مدینہ کے ناکوں پر پہنچے۔ وہاں پہلے سے جنگجو متعین تھے۔ ان کے عقب میں کچھ اَور لوگ تھے جو بلندی پر چڑھ رہے تھے۔ پہرے داروں نے ان لوگوں کو دشمن کی یورش سے آگاہ کیا اور حضرت ابوبکرؓ کو دشمن کی پیش قدمی کی اطلاع دینے کے لیے آدمی دوڑائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ پیغام بھجوایا کہ سب اپنی اپنی جگہ پر جمے رہیں جس پر تمام فوج نے ایسا کیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ مسجد میں موجود مسلمانوں کو لے کر اونٹوں پر سوار ہو کر ان کی طرف روانہ ہوئے اور دشمن پسپا ہو گیا۔ مسلمانوں نے اپنے اونٹوں پر ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ وہ ذُوحِسٰی جا پہنچے۔ حملہ آوروں کی کمک والا گروہ چمڑے کے مشکیزوں میں ہوا بھر کر اور ان میں رسیاں باندھ کر مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلا اور انہوں نے ان مشکیزوں کو اپنے پیروں سے ضرب لگا کر اونٹوں کے سامنے لڑھکا دیا اور چونکہ اونٹ اس سے سب سے زیادہ بِدَکتا ہے کہ مشکیزے، لڑھکتی ہوئی چیز آ رہی ہے اس لیے مسلمانوں کے تمام اونٹ ان سے اس طرح بدک کر بھاگے کہ وہ مسلمانوں سے جو اُن پر سوار تھے کسی طرح بھی سنبھل نہ سکے یہاں تک کہ وہ مدینہ پہنچ گئے۔ البتہ اس سے مسلمانوں کا کوئی نقصان نہ ہوا اور نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز آئی۔ مسلمانوں کی اس بظاہر پسپائی سے دشمنوں کو یہ گمان ہوا کہ مسلمان کمزور ہیں ان میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے۔ اس خام خیالی میں انہوں نے اپنے ان ساتھیوں کو جو ذُوالقَصَّہ میں فروکش تھے اس واقعہ کی اطلاع دی وہ اس خبر پر بھروسہ کر کے اس جماعت کے پاس آ گئے مگر ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے ان کے متعلق کچھ اَور ہی فیصلہ کیا ہے جس کو وہ بہرحال نافذ کر کے چھوڑے گا۔ رات بھر حضرت ابوبکرؓ اپنی فوج کی تیاری میں مصروف رہے اور سب کو تیار کر کے رات کے پچھلے پہر پوری فوج کو ترتیب دے کر پیدل روانہ ہوئے۔ نعمان بن مُقَرِّن میمنہ پر، عبداللہ بن مُقَرِّن میسرہ پر اور سُوَید بن مُقَرِّن فوج کے پچھلے حصہ پر نگران تھے۔ ان کے ساتھ کچھ سوار بھی تھے۔ ابھی فجر طلوع نہیں ہوئی تھی کہ مسلمان اور منکرینِ زکوٰة ایک ہی میدان میں تھے۔ مسلمانوں کی کوئی آہٹ اور بھنک بھی نہ ان کو مل سکی کہ مسلمانوں نے ان کو تلوار کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا۔ پھر رات کے پچھلے پہر میں لڑائی ہوئی۔ آفتاب کی کرن نے ابھی مطلعِ افق کو اپنے جلوے سے منور نہیں کیا تھا کہ منکرین نے شکست کھا کر راہِ فرار اختیار کی۔ پھر لکھا ہے کہ مسلمانوں نے ان کے تمام جانوروں پر قبضہ کر لیا۔ اس واقعہ میں حِبَال مارا گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان لوگوں کا تعاقب کیا یہاں تک کہ ذُوالقَصَّہ پہنچ کر ٹھہرے۔ یہ پہلی فتح تھی جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دی۔ حضرت ابوبکرؓ نے نُعمان بن مُقَرِّن کو کچھ لوگوں کے ساتھ وہیں متعین کر دیا اور خود مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

سوال نمبر4: منکرین زکوٰۃ کے حملوں کے سدِباب کے بعد کی صورتحال کی بابت حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ کی قیادت و راہنمائی میں منکرینِ زکوٰة کے حملوں کا سدباب ہوتے ہی دیگر کمزور اور متذبذب قبائل یکے بعد دیگرے اپنی زکوٰة لے کر مدینہ کی طرف آنے لگے۔ جب کمزور قبائل نے دیکھا کہ جو طاقتور قبائل ہیں ان کا یہ حال ہو گیا ہے تو جنہوں نے زکوٰة روکی ہوئی تھی وہ زکوٰة لے کر مدینہ آنے لگے۔ کوئی قبیلہ رات کے پہلے حصہ میں زکوٰة لے کر آنے لگا اور کوئی رات کے درمیانی حصہ میں اور کوئی رات کے آخری حصہ میں۔ جب یہ لوگ مدینہ میں نمودار ہوتے تو ہر جمعیت کے نمودار ہونے کے موقع پر لوگ کہتے کہ یہ ڈرانے والے معلوم ہوتے ہیں یعنی کوئی بری خبر لانے والے، مگر حضرت ابوبکرؓ نے ہر موقع پر یہ کہا کہ یہ خوشخبری دینے والے ہیں۔ حمایت کے لیے آئے ہیں نقصان کے لیے نہیں۔ چنانچہ جب باقاعدہ طور پر یہ معلوم ہوا کہ یہ جماعتیں حمایتِ اسلام کے لیے آئی ہیں اور زکوٰة کے اموال لے کر آنے والی جماعتیں ہیں تو مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا آپؓ بڑے مبارک آدمی ہیں آپ ہمیشہ سے بشارت دیتےچلے آئے ہیں۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے یہ بھی فرمایا کہ بُری خبر اور بُرے ارادے سے آنے والے تیز تیز چلتے ہیں جبکہ خوشخبری لانے والے قافلے آرام اور اطمینان سے چلتے ہیں۔ میں ان کی رفتار سے اندازہ کر لیتا تھا۔

سوال نمبر5: حضرت ابوبکرؓ نے منکرین زکوٰۃ کے سامنے کونسی دو باتیں بیان کیں؟

جواب: فرمایا: عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺؑ کے وصال کے بعد ہم اس مقام پر کھڑے تھے کہ اگر اللہ ابوبکر صدیقؓ کے ذریعہ سے ہماری مدد نہ فرماتا تو ہلاکت یقینی تھی۔ ہم سب مسلمانوں کا اتفاق کامل سے یہ خیال تھا کہ ہم زکوٰة کے اونٹوں کی خاطر دوسروں سے جنگ نہیں کریں گے اور اللہ کی عبادت میں مصروف ہو جائیں گے یہاں تک کہ ہمیں مکمل غلبہ حاصل ہو جائے لیکن ابوبکر صدیقؓ نے منکرینِ زکوٰة سے لڑنے کا عزم کر لیا۔ انہوں نے منکرین کے سامنے صرف دو باتیں پیش کیں، تیسری نہیں۔ پہلی یہ کہ وہ اپنے لیے ذلت و خواری قبول کر لیں اور اگر یہ منظور نہیں تو جلا وطنی یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ اپنے لیے ذلّت و خواری قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اقرار کریں کہ ان کے مقتول دوزخی اور ہمارے جنتی ہیں وہ ہمیں ہمارے مقتولوں کا خون بہا ادا کریں۔ ہم نے جو مالِ غنیمت ان سے وصول کیا اس کی واپسی کا مطالبہ نہ کریں لیکن جو مال انہوں نے ہم سے لیا ہے وہ ہمیں واپس کر دیں۔ اور جلا وطنی کی سزا بھگتنے کا مطلب یہ ہے کہ شکست کھانے کے بعد اپنے علاقوں سے نکل جائیں اور دور دراز مقامات میں جا کر زندگی بسر کریں۔

سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مسئلہ زکوٰۃ کی بابت حضرت مصلح موعوؓدکا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: زکوٰة کے مسئلے کو بیان کرتے ہوئےحضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’ایک بہت اہم مسئلہ زکوٰة کا ہے لیکن لوگوں نے اس کو سمجھا نہیں۔ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد اس کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں زکوٰة نہ دینے والوں سے وہی سلوک کروں گا جو آنحضرتﷺ کفار سے کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کے مرد غلام بنا لوں گا اور ان کی عورتیں لونڈیاں۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد ایسا ابتلا آیا تھا کہ عرب کے تین شہروں مکہ، مدینہ اور ایک اَور شہر کے علاوہ سب علاقہ عرب کا مرتد ہو گیا…حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اچھا جو لوگ زکوٰة کے منکر ہیں ان سے صلح کر لیں۔ پہلے دوسرے مرتدین سے جنگ ہو جائے تو رفتہ رفتہ ان کی بھی اصلاح ہو جائے گی۔ اول ضرورت یہی ہے کہ جھوٹے مدعیانِ نبوت کا قلع قمع کیا جائے کیونکہ ان کا فتنہ سخت ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا اگر لوگ بکری کا بچہ یا اونٹ کے گھٹنہ باندھنے کی رسی کے برابر بھی زکوٰة کے مال میں سے ادا نہ کریں گے جو آنحضرتﷺ کو ادا کرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا اور اگر تم لوگ مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور جنگل کے درندے بھی مرتدین کے ساتھ مل کر حملہ کریں گے تو میں ان سے اکیلا لڑوں گا۔‘‘

سوال نمبر7: قومی ترقی کے رازکوبیان کرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: ایک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ ’’جب آپؐ‘‘ آنحضرتﷺ ’’فوت ہوئے تو بہت سے نادان مسلمان مرتد ہو گئے۔ تاریخوں میں آتا ہے کہ صرف تین جگہیں ایسی رہ گئی تھیں جہاں مسجدوں میں باجماعت نماز ہوتی تھی۔ اسی طرح ملک کے اکثر لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ رسول کریمﷺ کے بعد کسی کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے زکوٰة مانگے۔ جب یہ رَو، سارے عرب میں پھیل گئی اور حضرت ابوبکرؓ نے ایسے لوگوں پر سختی کرنی چاہی تو حضرت عمرؓ اور بعض اَور صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچے اورانہوں نے عرض کیا کہ یہ وقت سخت نازک ہے۔ اس وقت کی ذرا سی غفلت بہت بڑے نقصان کا موجب ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہماری تجویز یہ ہے کہ اتنے بڑے دشمن کا مقابلہ نہ کیا جائے اور جو زکوٰة نہیں دینا چاہتے ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ تم میں سے جو شخص ڈرتا ہو وہ جہاں چاہے جائے۔ خدا کی قسم! اگر تم میں سے ایک شخص بھی میرا ساتھ نہ دے گا تو بھی مَیں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا اور اگر دشمن مدینہ کے اندر گھس آئے اور میرے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو قتل کر دے اور عورتوں کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں ان سے جنگ کروں گا اور اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک یہ لوگ اونٹ کا گھٹنہ باندھنے کی وہ رسی بھی جو پہلے زکوٰة میں دیا کرتے تھے نہ دینے لگ جائیں۔ چنانچہ انہوں نے‘‘ یعنی حضرت ابوبکرؓ نے’’دشمن کی شرارت کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا اور آخر کامیاب ہوئے صرف اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کام مَیں نے ہی کرنا ہے۔ اسی لئے انہوں نے مشورہ دینے والے صحابہؓ کو کہہ دیا کہ تم میں سے کوئی شخص میرا ساتھ دے یا نہ دے میں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا یہاں تک کہ میری جان خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائے۔ پس جس قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہو جائے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کے ’’جس قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہو جائے وہ ہر میدان میں جیت جاتی ہے اور دشمن کبھی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔‘‘اور یہی قومی ترقی کا راز ہے جسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔

سوال نمبر8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت ابوبکرؓ کے فیصلوں اور اس کے نتائج کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے صحابہ کی خلافِ مرضی حضرت اسامہ بن زیؓد کو لشکر سمیت مؤتہ کی طرف روانہ کر دیا۔ چنانچہ چالیس دن بعد یہ مہم اپنا کام پورا کر کے فاتحانہ شان سے مدینہ واپس آئی اور خدا کی نصرت اور فتح کو نازل ہوتے سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ پھر اس مہم کے بعد حضرت ابوبکرؓ جھوٹے مدعیان کے فتنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس فتنہ کی ایسی ایسی سرکوبی کی کہ اسے کچل کر رکھ دیا اور یہ فتنہ بالکل ملیا میٹ ہو گیا۔ بعد ازاں یہی حال مرتدین کا ہوا۔ اور صحابہ کبار بھی حضرت ابوبکرؓ سے اختلاف کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ جو لوگ توحید اور رسالت کا اقرار کرتے ہیں اور صرف زکوٰة دینے کے منکر ہیں ان پر کس طرح سے تلوار اٹھائی جا سکتی ہے لیکن حضرت ابوبکرؓ نے نہایت جرأت اور دلیری سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ اگر آج زکوٰة نہ دینے کی اجازت دے دی تو آہستہ آہستہ لوگ نماز روزے کو بھی چھوڑ بیٹھیں گے اور اسلام محض نام کا رہ جائے گا۔ الغرض ایسے حالات میں حضرت ابوبکرؓ نے منکرینِ زکوٰة کا مقابلہ کیا اور انجام یہی تھا کہ اس میدان میں بھی آپ کو فتح اور نصرت حاصل ہوئی اور تمام بگڑے ہوئے لوگ راہ حق کی طرف لوٹ آئے۔

سوال نمبر9: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا کے موجودہ حالات کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: جیسا کہ میں ہمیشہ تحریک کر رہا ہوں آجکل دنیا کے حالات کے لیے دعائیں کرتے رہیں، ان میں کمی نہ کریں۔ خاص طور پریہ دعا کریں کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگ جائے، یہی ایک حل ہے دنیا کو تباہی سے بچانے کا۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہماری دعائیں بھی قبول فرمائے۔

سوال نمبر10: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کس مرحوم کا ذکرخیرفرمایا؟

جواب: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم ومحترم مولانا مبارک نذیرصاحب(آف کینیڈا)کا ذکرخیر فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button