سچائی کے خُلق کو سب سے زیادہ ہمیں اپنانا ہو گا
سچائی ایک ایسا وصف ہے کہ جس کے اپنانے کے بارے میں صرف مذہب ہی نے نہیں کہا بلکہ ہر شخص جس کا کوئی مذہب ہے یا نہیں اس اعلیٰ خُلق کے اپنانے کا پُر زور اظہار کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو اس اظہار کے باوجود سچائی کے اظہار کا حق نہیں ادا کیا جاتا۔ جس کو جب موقع ملتا ہے اپنے مفاد کے حصول کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک میں سچائی کا خُلق اپنانے کا جس شدت سے اظہار کیا جاتا ہے اُسی شدت سے وقت آنے پر اُس کی نفی کی جاتی ہے… یہ بے خوفی اور بیباکی سچائی کو ہر سطح پر پامال کرنے کی اس لئے پیدا ہو گئی ہے کہ خدا تعالیٰ پر یقین نہیں رہا۔ اگر خدا تعالیٰ پر یقین ہو تو ہر سطح پر جھوٹ کا سہارا اس طرح نہ لیا جائے جس طرح اس زمانے میں لیا جاتا ہے یا اکثر لیا جاتا ہے۔ ذاتی زندگی میں گھروں میں ناچاقیاں اس لئے بڑھتی ہیں کہ سچائی سے کام نہیں لیا جاتا اور اس سچائی سے کام نہ لینے کی وجہ سے میاں بیوی پر اعتمادنہیں کرتا اور بیوی میاں پر اعتمادنہیں کرتی اور جب بچے دیکھتے ہیں کہ ماں باپ بہت سے موقعوں پر جھوٹ بول رہے ہیں تو بچوں میں بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ نئی نسل جب بعض غلط کاموں میں پڑ جاتی ہے وہ اس لئے کہ گھروں کے جھوٹ اُنہیں برائیوں پر اُبھارتے ہیں …
لیکن ہم احمدی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم نے یہ سچائی کا پیغام دنیا کو پہنچانا ہے، لیکن کس طرح؟ پہلے تو ہمیں اپنے آپ کو سچا ثابت کرنا ہو گا… یہی کام ہے جو انبیاء کے ماننے والوں کا ہے کہ جس طرح انبیاء اپنی مثال دیتے ہیں اُن کے حقیقی ماننے والے بھی اپنی سچائی کو اس طرح خوبصورت کر کے پیش کریں کہ دنیا کو نظر آئے۔ ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے کا حکم ہے۔ پس اس اسوہ پر چلتے ہوئے سچائی کے خُلق کو سب سے زیادہ ہمیں اپنانا ہو گا… سچائی کے یہ معیار تبھی حاصل ہوں گے جب ہم ہر سطح پر خود اپنی زندگی کے ہر لمحے کو سچائی میں ڈھالیں گے۔ہماری گھریلو زندگی سے لے کر ہماری باہر کی زندگی اور جو بھی ہمارا حلقہ اور ماحول ہے اُس میں ہماری سچائی ایک مثال ہو گی…
(خطبہ جمعہ فرمودہ 09؍ستمبر 2011ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 30؍ستمبر 2011ء صفحہ5تا 7)