طلاق کی صحیح شرائط کیا ہیں؟
سوال:بلاد عرب سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ مِلکِ یمین سے کیا مراد ہے۔نیز طلاق کی صحیح شرائط کیا ہیں اور ایک دفعہ زبانی طلاق کہنے سے طلاق واقع ہونے کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍جنوری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضورنے فرمایا:
جواب:اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ دشمنان اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے۔ چنانچہ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا کی قرآنی تعلیم کے مطابق دشمن اسلام کی ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کےلیے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کےقید کر لی جاتی تھیں۔اور پھر دشمن کی یہ عورتیں تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کےجب آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو چونکہ اس زمانے میں ایسے جنگی قیدیوں کو رکھنے کےلیے کوئی شاہی جیل خانے وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔اس لیے انہیں مجاہدین لشکر میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔اسلامی اصطلاح میں ان عورتوں کو مِلکِ یمین کہا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں مِلکِ یمین کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام برسرپیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ صرف اس وجہ سے کہ وہ برسر پیکار ہیں قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ جوبھی دشمن ہے ان کی عورتوں کوپکڑلاؤاور اپنی لونڈیاں بنالو۔ بلکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب تک خونریزجنگ نہ ہو تب تک کسی کو قیدی نہیں بنایاجاسکتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا ٭ۖ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ؕ وَاللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ۔ (الانفال:68)
یعنی کسى نبى کےلئے جائز نہىں کہ زمىن مىں خونرىز جنگ کئے بغىر قىدى بنائے۔تم دنىا کى متاع چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت پسند کرتا ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔
یہاں جب خونریزجنگ کی شرط لگا دی تو پھر میدان جنگ میں صرف وہی عورتیں قیدی کے طور پر پکڑی جاتی تھیں جو محاربت کےلیے وہاں موجودہوتی تھیں۔اس لیے کہ وہ صرف عورتیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ حربی دشمن کے طورپر وہاں آئی ہوتی تھیں۔
پس اسلام انسانوں کو لونڈیاں اورغلام بنانے کے حق میں ہر گز نہیں ہے۔اسلام کے ابتدائی دَور میں اُس وقت کےمخصوص حالات میں مجبوراً اس کی وقتی اجازت دی گئی تھی لیکن اسلام نے اورآنحضرتﷺ نے بڑی حکمت کے ساتھ ان کو بھی آزادکرنے کی ترغیب دی اور جب تک وہ خود آزادی حاصل نہیں کر لیتے تھے یا انہیں آزاد نہیں کر دیا جاتا تھا، ان سےحسن واحسان کے سلوک کی ہی تاکیدفرمائی گئی۔
اورجونہی یہ مخصوص حالات ختم ہوگئے اور ریاستی قوانین نے نئی شکل اختیارکرلی جیساکہ اب مروج ہے تواس کے ساتھ ہی لونڈیاں اور غلام بنانےکا جواز بھی ختم ہوگیا۔ اب اسلامی شریعت کی روسے لونڈی یاغلام رکھنے کاقطعاً کوئی جوازنہیں ہے۔بلکہ حکم وعدل حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اب موجودہ حالات میں اس کوحرام قراردیاہے۔
طلاق کی شرائط یہ ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پورے ہوش و حواس میں اپنی مرضی سے طلاق دے تو طلاق خواہ زبانی ہو یا تحریری، ہر دو صورت میں مؤثر ہو گی۔
اسی طرح ایک دفعہ زبانی کہی ہوئی طلاق بھی طلاق ہی شمار ہو گی البتہ عدت کے اندر خاوند کو رجوع کا حق ہے بشرطیکہ یہ تیسری طلاق نہ ہو۔ کیونکہ تیسری طلاق کے بعد نہ عدت میں رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی عدت کے بعد نیا نکاح ہو سکتا ہے، جب تک کہ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ والی شرط پوری نہ ہو یعنی یہ بیوی کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور تعلقات زوجیت کے بعد وہاں سے بغیر کسی منصوبہ بندی کے طلاق یا خلع کے ذریعہ علیحدگی ہو جائے یا اس خاوند کی وفات ہو جائے تو تب یہ عورت اس پہلے مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔
البتہ ایک ہی وقت میں تین مرتبہ دی جانے والی طلاق صرف ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے۔چنانچہ کتب احادیث میں حضرت رکانہ بن عبد یزیدؓ کا واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دےدیں، جس کا انہیں بعد میں افسوس ہوا۔جب یہ معاملہ آنحضرتﷺ کے پاس پہنچا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس طرح ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔ اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔چنانچہ انہوں نے اپنی طلاق سے رجوع کر لیا اور پھر اس بیوی کو حضرت عمر ؓکے زمانۂ خلافت میں دوسری اور حضرت عثمان ؓکے زمانہ ٔخلافت میں تیسری طلاق دی۔
(مسند احمد بن حنبل، من مسند بنی ہاشم،بدایۃ مسند عبد اللہ بن العباس۔ حدیث نمبر 2266)