امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفات نو (لجنہ اماء اللہ) برطانیہ کی (آن لائن) ملاقات
تم لوگوں نے تو انقلاب پیدا کرنا ہے ابھی میں نے کہا نہیں کہ اتنی زیادہ ماشاء اللہ ہو گئی ہو اب تو انقلاب پید اکر دو
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 15؍مئی 2022ء کو واقفات نو (لجنہ اماء اللہ) برطانیہ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ واقفات نو نے مسجد بیت الفتوح مورڈن، لندن سے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ پھرممبرات واقفات نو کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
حضور انور نے اس بابرکت نشست کے آغاز میں فرمایا کہ مجھے لگتا ہے واقفات نو کی بجائےسارے یوکے کی لجنہ اکٹھی کرلی ہیں ۔ اس پر مکرمہ زینوبیہ احمد صاحبہ (انچارج کلاس واقفات نو) نے عرض کی کہ سب واقفات نو ہیں۔ حضور انور نے فرمایا: اچھا، پوری جماعت ایک طرف ہو گئی، واقفات نو ایک طرف ہو گئیں۔ پھر تو یہاں یوکے میںانقلاب آجانا چاہیے ۔ ہمارے پاس اتنی توواقفات نو ہیں۔
بعد ازاں سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔
ایک واقفہ نو نے عرض کیا کہ ہمارا مذہب اسلام ہے لیکن کچھ لوگ روایات اور مذہب کو mixکر دیتے ہیں۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ ہم زیادہ مذہب کی طرف رجوع کریں؟
حضور انور نے فرمایا کہ ہمارا مذہب اسلام ہے اور اسلام کے بارے میں ہمیں کہاں سے پتا لگتا ہے؟ اس پر واقفہ نو نے عرض کی کہ قرآن اور حدیث سے۔ حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم source ہے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اس سنت کے بعد پھر حدیث ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کام کر کے دکھایا جو قرآن کریم میں احکامات ہیں اور بعض باتوں کی اپنے عمل سے تشریح کی :یا اپنے ارشادات سے تفصیل بتائی جواحادیث میں آیا۔ تو اسلام کا بنیادی کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا، اس کی عبادت کرنا، اس کا حق ادا کرنا۔ دوسری بات یہ کہ ایک دوسرے کا حق ادا کرنا۔ بندوں کے حق ادا کرنا اپنی social obligationsجتنی ہیں ان کو پورا کرنا۔ obligations جو ہیں ان کو نبھانا اور اپنے moralsکو دکھانا، اپنے اچھے اخلاق دکھانا۔ یہ چیزیں ہیں جومذہب ہمیں کہتا ہے۔ اس کے علاوہ جو باتیں ہیں وہ بعض کلچر میں شامل ہوچکی ہوئی ہیں۔ بعض جو ایشین ہیں انڈو پاکستان کے، mix رہتے تھے ہندوؤں سکھوں کے ساتھ ان کے بیچ میں بعض کلچر شامل ہوگئے ۔ شادی بیاہ کی رسمیں شامل ہو گئی ہیں۔ مثلاً شادی کی مثال ہے اس کے بعد رخصتانہ ہوتا ہے ایک روایت بن چکی ہے کہ رخصتانہ بھی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ بس نکاح جو ہے وہ شادی کا اعلان ہے۔نکاح کے بعد بھی رخصت کر سکتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ بڑے ڈھول ڈھمکے کیے جائیں اورہر ایک چیز کےفنکشن علیحدہ کیے جائیں۔ ایک مہندی کا فنکشن ہو اور ایک شادی کا فنکشن ہو۔ اسلام میںتو نکاح کا اعلان شادی ہے اس کے بعد ولیمہ ہے۔ ولیمہ کی دعوت۔ یہی دو باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ اسی طرح اسلام ہمیں کہتا ہے کہ اپنے لباس کو حیا دار بناؤ۔ قرآن کریم کا بھی حکم ہے اپنے لباس کو حیا دار بناؤ اور حجاب رکھو۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان فاصلہ رکھو۔ یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ اس میںکلچر کا کوئی تعلق نہیں لیکن جہاں ضرورت ہو وہاں interaction ہو بھی سکتی ہے، رابطہ ہو بھی سکتا ہے، بات بھی ہوسکتی ہے۔ ریسرچ میں اگر کوئی پڑھ رہی ہے، لڑکی ریسرچ کر رہی ہے اور وہاں اس کے ساتھ ریسرچ کرنے والے دوسرے ہیں تو علم حاصل کرنے کی حد تک آپس میں بات چیت بھی ہو سکتی ہے۔ باقی جو روایتیں ہیں وہ تو ادھر ادھر کی اکٹھی ہو چکی ہوئی ہیں۔ اب دنیا میں بے شمار ممالک ہیں، مختلف لوگ ہیں، مختلف قومیں ہیں، مذہب کے علاوہ ان کی اپنی traditions ہیں، افریقہ میں قبائل ہیں، tribes ہیں ان کی اپنی traditions ہیں۔ ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے جو چیز clashکرتی ہے اس کو چھوڑنا ہے۔ شرک جو ہے وہ نہیں کرنا۔ اصل بنیادی چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تقدس کو قائم کرنا ہے اور شرک نہیں کرنا ۔شرک کو چھوڑ کے اور بنیادی جو احکامات ہیں قرآن کریم میں ان کو سامنے رکھتے ہوئے تمہاری traditionsمیں بھی بعض چیزیں شامل ہیں اچھی بھی ہوں گی وہ تم کرنا چاہو تو کر سکتی ہو۔ لیکن کسی کو یہ کہنا اگر یہاں کی برٹش عورت کوئی احمدی ہوجاتی ہے کہ تم نے یہ کرنا ہے، یہ کرنا ہے اور وہ اسلامی تعلیم میں نہیں ہے بلکہ تمہارے کلچر میں ہے تو وہ غلط ہے، نہ افریقنوںکو یہ کہنا کہ تم لوگ یہ کرو۔ ہاں افریقنوںکی بعض traditionsاگر اللہ تعالیٰ کے مقابلے پہ نہیں،ان سےشرک کا کوئی اظہار نہیں ہوتا یا بنیادی اخلاق سے دور نہیں لے کر جاتیں تو وہ بھی اپنے کلچر میں رہتے ہوئے وہ کر سکتی ہیں۔ تو مختلف قوموں کے کلچر میں بعض بنیادی باتیں اچھی بھی ہیں، اگر وہ اسلام کی براہ راست تعلیم سے clashنہیں کرتی تووہ ان کو اختیار کر سکتے ہیں۔
ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ جب آپ جلسہ یا کسی اجتماع پر تشریف لاتے ہیں اور ہم آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور ہاتھ ہلا رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ تم خوش ہوتے ہوتو میں بھی خوش ہو جاتا ہوں۔ میں بھی تمہیں ہاتھ ہلا دیتا ہوں۔ بس۔ جو تمہیں feel ہو رہا ہوتا ہے وہی مجھے ہو رہا ہوتا ہے کہ اچھے لوگ بیٹھے ہیں، احمدی بیٹھے ہیں، مخلص احمدی بیٹھے ہیں۔ پیار کرنے والے احمدی بیٹھے ہیں، خلافت کے وفادار احمدی بیٹھے ہیں۔ یہی feelہو رہا ہوتا ہے۔
ایک اور واقفہ نو نے سوال کیا کہ کسی بھی رشتے میں جھگڑے اور فساد سے بچنے کے لیے کس حد تک compromise کرنا چاہیے اور کس وقت اپنیself respectکو ترجیح دینی چاہیے؟
حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ کس قسم کے رشتے ہیں۔ بعض بہن بھائیوں کے رشتے ہیں، بعض ماں باپ کے رشتے ہیں، بعض ماموں چچا کے رشتے ہیں، بعض خاوند بیوی کے رشتے ہیں، بعض ساس بہو کے رشتے ہیں۔ تو ہر رشتے کی مختلف نوعیت ہے۔ اور جھگڑے کی نوعیت کیا ہے۔ جہاں تک ماں باپ کا سوال ہے ان کی تو ہر وقت عزت کرنی ہے، احترام کرنا ہے یہی قرآن کریم کا حکم ہے، سوائے شرک پر یا دین سے ہٹانے کی بات کریں اس کے علاوہ ان کے سامنے اُف بھی نہیں کرنی۔ ہر جگہ compromise ہی compromiseہے۔ ان کی تو خدمت کرنی ہے۔ ماں باپ کے اگر آپس کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں اور اس میں اگر تمہیں ہو کہ ماں کی سائیڈ لینی ہے یا باپ کی سائیڈ لینی ہے تو کسی کی بھی نہیں لینی۔ دونوں کو اگر سمجھا سکتے ہو سمجھاؤ۔ بہن بھائیوں کا جہاں تک سوال ہے وہاں اگر بہن بھائیوں سے صلح کے لیے اپنا حق چھوڑنا بھی پڑے تو چھوڑ دینا چاہیے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ دوسروں کے حق کا خیال رکھو۔ اسلام یہ توکہتا ہے جہاںتمہارا حق بنتا ہے تم لو لیکن پہلے اس سے یہ کہتا ہے کہ دوسرے کے حق کا خیال رکھو۔ اگر تم دوسرے کے حق کا خیال رکھو گے اور اس کے لیے دعا بھی کررہے ہو گے کہ میں حق کا بھی خیال رکھنے والی ہوں اللہ تعالیٰ اس کو بھی عقل دے کہ یہ بھی بات سمجھ جائے اور لڑائی جھگڑے ختم ہو جائیں تو وہاں لڑائی جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں۔ تیسری بات آجاتی ہے رشتہ داروں سے۔ اگرماموں چچا بہن بھائی ہو،وہ تو ویسے ہی بزرگ بڑے ہیں اور ان سے روزانہ کا interaction تو ہوتا نہیں ہے روزانہ کا میل جول تو ہے کوئی نہیں۔ کبھی کبھار ملنا ہے تو ان سے اچھی طرح السلام علیکم کرو۔ ہر ایک سے سلام کرو خوش اخلاقی سے پیش آؤ یہی اعلیٰ اخلاق ہیں۔ رہ گئی ساس بہو کی بات تو ساس بہو میں یہ ہے کہ ساسیں، اپنی عمر کے لحاظ سےان کی عادتیں پکی ہو جاتی ہیں۔ ان کی جہاں تک عزت اور احترام کا سوال ہے وہ کرو اور عورتوں کو کرنا چاہیے۔ خاوندوں کو مستقل اپنی ساسوں کی شکایتیں بھی نہیں کرنی چاہئیں ۔ اور صرف یہ کہنا چاہیے کہ دعا کرو کہ میں صحیح طرح کام کر سکوں۔ بات یہ ہے اگر اپنے اچھے اخلاق ہوں تو خاوند بھی رام ہو جاتے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی ڈھیٹ قسم کا آدمی ہو تو اور بات ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ساس ہے تو اس کے بھی اعلیٰ اخلاق یہی ہیں کہ بہو کا خیال رکھے۔ یہ تو اسلام کی تعلیم ہے کہ ایک دوسرے کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھو۔ بہو کو ساس کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے، ساس کو بہو کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔ بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور پھر ان کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے، اگر کوئی ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جس سے آپس میں کسی بھی قسم کی rift پیدا ہو رہی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دور کر دے۔ تو اعلیٰ اخلاق اگر ہوں تو انسان جو ہے وہ رام کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ جو تمہارے دشمن ہیں ان کو بھی تم اگر اعلیٰ اخلاق دکھاؤ تو وہ بہترین دوست بن جاتے ہیں۔ تو جو آپس کی رشتہ داریاں ہیں یا ایک مذہب میں رہنے والے ہیں وہ کیوں نہیں آپس میں ایک دوسرے سے اچھے اخلاق دکھا کے دوست بن سکتے۔ اللہ تعالیٰ کا تو دعویٰ ہے کہ دشمن بھی تمہارا دوست بن جاتا ہے تو دوست جو آپس کے ایک ہی قبیلے کے ہیں، ایک ہی خاندان کے ہیں، ایک ہی گھر کے ہیں، ایک ہی قوم کے ہیں، ایک ہی مذہب کے ہیں وہ کیوں نہیں کر سکتے۔
ایک اور واقفہ نو نے سوال کیا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ جس طرح پہلے زمانے کے لوگ اپنی جنس کے مطابق اپنے آپ کو پیش کرتے تھے یہ طریقہ اب تبدیل ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر قدیم مصری زمانے میں مرد عام طور پر میک اپ استعمال کرتے تھے اور یہ ان کی مردانگی اور دولت کی علامت سمجھی جاتی تھی لیکن اب یہ بات gender norms کے خلاف سمجھی جاتی ہے۔ ایک حدیث میں ذکر ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانے میں مرد عورتوں جیسا لباس پہننے لگیں گے اور عورتیں مردوں جیسا۔ حضور کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ آج کل کے زمانے میں اس حدیث کا مطلب کس طرح سے لیا جا سکتا ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کو generalise نہیں کر سکتے جو تم نے پہلے بیان کیا کہ مرد جو تھے وہ سنگھار کیا کرتے تھے۔ بعض traditionsہیں بعض قبیلوں کی اور ان کے بھی جو خاص فیسٹیول ہوتے تھے اس میں وہ ایک اپنا خاص قسم کا میک اپ کر کے یا dress پہن کے آیا کرتے تھے اور اسی طرح عورتیں بھی میک اپ کر کے اور dress پہن کے آتی ہیں۔ پرانے جو قبیلے ہیں Aboriginals ہیں آسٹریلیا کے یا ماؤری ہیں نیوزی لینڈ کے ریڈ انڈینز ہیں امریکہ وغیرہ کے،ان کے اپنے اپنے رواج ہیں اور پرانی قوموں میں بھی رواج تھے ۔ اس کے حساب سے وہ لوگ کیا کرتے تھے لیکن یہ کہنا کہ عمومی طور پر مرد جو تھا وہ عورتوں کی طرح پہنتا تھا اور عورت بن جاتا تھا یہ غلط ہے۔ مرد کی تو نشانی یہی تھی کہ مردانگی ظاہر ہو۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بھی فرمایا کہ مرد کو مرد ہی نظر آنا چاہیے۔ لیکن ایک وقت ایسا آئے گا جب مرد عورت کی پہچان ہی رہ گئی ہے جو حسیں ہیں وہ ختم ہو جائیں گی جو preferencesہیں وہ بدل جائیں گی ترجیحات بدل جائیں گی۔ اس وقت ہر کوئی اپنا حق پہچاننے والا ہو نہیں گا اور اسی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہ برائیاں پھیل رہی ہیں۔ اب جب gender چینج(change)کرنے کا رواج پیدا ہو گیا۔ اس قسم کی جو برائیوں میں انسان ملوث ہوتا ہے تو وہ خیال بھی اس لیےپیدا ہو جاتا ہے۔ ماحول اس پہ اثر ڈالنے لگ جاتا ہے۔ لڑکی کہتی ہے میں لڑکا بننا چاہتی ہوں۔ لڑکا کہتا ہے میں لڑکی بننا چاہتا ہوں یا نہیں بھی وہ بننا چاہتے تو بعض ایسی حرکتیں کرتے ہیں، لڑکوں نے بُندے پہن لیے۔ کانوں میں بُندے پہننے شروع کردیے، لمبے بال رکھنے شروع کر دیے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرد اور عورت میں فرق ہونا چاہیے۔ مرد کو اپنی مردانگی کے جو اصول ہیں اس کے مطابق مردانگی دکھانی چاہیے۔ اور عورت جو ہے وہ صنف نازک ہے اس کو اس کے حساب سے لباس میںرہنا چاہیے ۔ تو جب یہ چیزیں بدل جاتی ہیں تو وہی آخری زمانے کی نشانی ہے اس وقت پھر، ایسے حالات جب بدلتے ہیں کہ جب سارا بگاڑ پیدا ہونے لگ جاتا ہے دنیا میں فساد پیدا ہونے لگ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے اپنے قریبیوں کو اپنے پیاروں کو دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجتا ہے اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ صحیح تعلیم بتا کے اور انسانوں کو ان کے حق بتا کے کہ تمہارے کام کیا ہیں بھیجا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں دو مقصد لے کے آیا ہوں۔ ایک یہ کہ بندے کو خدا سے ملانا اور دوسرا یہ کہ بندوں کے آپس کے حقوق ادا کرنا اور وہ اعلیٰ اخلاق دکھانا۔ تو یہ اخلاق جو ہیں وہ کیا ہیں وہ یہی ہیں کہ جب بندے کااللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرے گا اور اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو بنایا ہے اسی پہ چلے گا۔ نہ یہ کہ دنیا دکھاوے کے لیے دنیا کے پیچھے چل کے، ایک رسم بن گئی ہے۔ بعض تو بیمار ہوتے ہیں ان کو تو آپ چھوڑ دو لیکن اکثریت ایسی ہے کہ وہ بیمار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگوں کی دیکھا دیکھی فیشن کے طور پہ اس قسم کی حرکتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ پھر وہ اللہ سے بھی دور چلے جاتے ہیں، دین سے بھی دور چلے جاتے ہیں دنیا میں بالکل ڈوب جاتے ہیں تو پھرایسے لوگ جو ہیں اگر وہ صحیح رستے پر نہیں آئیں گے توان کو اللہ تعالیٰ سزا بھی دیتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ اس دنیا میں سزا ملے اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ سزا دیتا ہے کہ جو تمہیں میں نے بنایا تھا وہ کیوں نہیں تم بن کے رہے۔ جو میں نے تمہارے پاس پیغام بھیجا تھا کہ یہ یہ اچھے اخلاق ہیں، یہ مذہب کی تعلیم ہے تم نے کیوں نہیں عمل کیا، تم نے مخالفت کیوں کی۔ کیوں دنیا میں ڈوبے رہے۔ تو یہ تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے کس طرح بندے کے ساتھ deal کرتا ہے لیکن یہی بات ہے کہ اس زمانے میں آزادی کے نام پر اور freedom of expression اور ہر قسم کا جو freedom ہے اس کے نام پر جو مرضی انسان چاہے کرنے لگ جاتا ہے اور یہ پھر برائیوں کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اس سے آہستہ آہستہ انسانی نسل بھی ختم ہو رہی ہے او ریہ برائیاں بڑھ بڑھ کے آخر میں جن قوموں میں زیادہ ہو جائیں گی وہ قومیں تباہ ہو جائیں گی جس طرح پہلی قومیں تباہ ہوتی رہیں۔
ایک اور واقفہ نو نے عرض کی کہ میرا سوال ہے کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ لوگ مثلاً انبیاء، خلفاء، شہداء، صالحین، صادقین کی اولاد دعائیں ملنے کے باوجود اور نیک نمونہ دیکھنے کے باوجود صحیح راستے سے ہٹ جاتے ہیں تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ ہر ایک کا اپنا عمل ہے۔ حضرت نوحؑ کا بیٹا نہیں مانا تواس کو اللہ تعالیٰ نے سزا دے دی۔ غرق ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے حدیث میں ہےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور میں پچھلے گذشتہ کئی خطبوں میں quoteبھی کر چکا ہوں کہ فاطمہ! تم یہ نہ سمجھنا کہ تم پیغمبر کی بیٹی ہو تو تم بخشی جاؤ گی۔ تمہارے اپنے عمل جو ہیں وہ تمہیں بخشنے کی طرف لے کر جائیں گے۔ تو انبیاء بھی اور نیک لوگ بھی نیک نمونہ تو قائم کر دیتے ہیں لیکن اگر ان کے نمونوں کے اوپر عمل کوئی نہ کرے، چلے نہ کوئی، ڈھیٹ ہو، ضدی طبیعت ہو اور اس نمونے کو دیکھ کر بھی اگر نصیحت حاصل نہ کرے تو پھر اللہ تعالیٰ کا قانون چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ نیک آدمی کا بیٹا ہے یا بچہ ہے یا بیٹی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ اس کے اپنے عمل کیا ہیں، اس نے میری تعلیم پر عمل کیا ہے کہ نہیں۔ اور اگر نہیں کیا تو پھر اس کو سزا ملتی ہے اس دنیا میں یا اگلے جہان میں یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ تو وہ تعلیم تو ہر ایک کے لیے ایک ہے۔ اگر عقل مند انسان ہے تووہ دوسرے سے نمونہ لے کے سبق حاصل کرتا ہے۔ نیک نمونہ دیکھ کر نیکیوں پہ عمل کرتا ہے۔ اگر کوئی بدفطرت ہے اور دنیا کی چیزوں اور دنیا کی چمک دمک نے اس کو زیادہ قائل کر لیا ہے یا اس کی ذاتی خواہشات زیادہ بڑھ گئی ہیں تو وہ پھر برائیوں میں پڑ جاتا ہے، قطع نظر اس کے وہ کس کا بچہ ہے کس کا بچہ نہیں ہے۔ یہ تو ہر ایک کا اپنا عمل ہے۔ انبیاء بھی نصیحت کرتے ہیں، ساروں کو ایک جیسی نصیحت کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کی تو سب مسلمانوں کو کرتے تھے۔ اگر individually ہرایک کو کرتے تھے تو اپنے بچوں کو بھی کرتے تھے۔ اسی طرح نیک لوگ جو ہیں وہ نصیحت کرتے ہیں، اپنے بچوں کو بھی کرتے ہیں۔ اب کوئی نہ مانے اور ڈھیٹ ہو تو پھر اس کا کیا کیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ کے گھر گئے پوچھاتہجد نہیں پڑھی تو انہوں نے کہا جب اللہ تعالیٰ جگا دیتا ہے تو جاگ جاتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عجیب لوگ ہیں کج بحثی کرتے ہیں کہ خود جس کام کوکرنا نہیں چاہتے اس پہ اللہ کا نام لگا دیتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ خیر اس سےحضرت علیؓ کو سبق آ گیا۔ پھر انہوں نے تہجدکے لیے بھی اٹھنا شروع کر دیا ۔ تو حضرت فاطمہ کو بھی نصیحت اس طرح ہی فرمایا کرتے تھے۔ تویہ نصیحتیں ہیں، اگر کسی کو عقل ہےتووہ ان پرعمل کر لے گا۔ نوح کے بیٹے کو نصیحت کی کہ آ جاؤ میرے پاس نہ بگڑو۔ اس نے عمل نہیں کیا وہ ڈوب گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچے کو نصیحت کی اس نے عمل کیا وہ بچ گیا۔ تو یہ تو ہرایک پہdependکرتا ہے ۔ یہ کہنا کہ یہ ضروری شرط ہے کہ ضرور نیک آدمی کا بچہ نیک ہو،ہاں عمومی طور پر نیک ہوتے ہیں۔ بعض برے بھی نکل آتے ہیں۔ تو وہ قانون قدرت ہے کہ اگر برائیوں کی طرف جاؤ گے تو برے بن جاؤ گے لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ جو نیک لوگ ہیں اپنے بچوں کے لیے دعا کرنے والے لوگ ہیں چاہے وہ نبی ہیں صدیق ہیں یا یا صالح ہیں یا شہید ہیں کوئی بھی ہیں۔ اگر وہ نیک ہیں اور اپنے بچوں کے لیے دعا کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کے دعائیں کرنے والے ہیں تو عموماً ان کے بچے بہتر ہوتے ہیں اکا دکا مثالیں ایسی ہیں جو برے بھی نکل آتے ہیں۔
ایک اور واقفہ نو نے عرض کیا کہ آج کل یہ رواج ہے کہ اگر کوئی شخص کسی موضوع پہ اپنی کوئی ایسی رائے دیتا ہے جو trend سے الگ ہوتی ہے یا جو مذہب کی بنیاد پر ہوتی ہے تو لوگ اسے ostracizeکر دیتے ہیں۔ اس ٹرینڈ کو آج کل کینسل کلچر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ڈر کی وجہ سے کچھ نوجوان اپنی رائے نہیں دیتے اور اپنے دوستوں کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔ تو اس صورت حال میں حضور انور کی واقفات نو کے لیے کیا نصیحت ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ تم لوگوں نے تو انقلاب پیدا کرنا ہے۔ ابھی میں نے کہا نہیں کہ اتنی زیادہ ماشاء اللہ ہو گئی ہو اب تو انقلاب پید اکر دو۔ اسی رو میں بہ جانا تو ہمارا کام نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نبی بھیجتا ہے تو اس وقت بھیجتا ہے، جب زمانہ بہت زیادہ بگڑ چکا ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ تعالیٰ نے بھیجا تو قرآن شریف میں بھی کہا ہے کہ اس وقت بحر و برّ میں فساد برپا ہوا تھا ہر جگہ لوگ بگڑے ہوئے تھے۔ تو ان کی اصلاح کے لیے بھیجا اور عیسائی بھی مانتے ہیں یہودی بھی مانتے ہیں کہ وہ زمانہ بہت بگڑا ہوا تھا۔ لوگ مذہب سے دور ہٹ رہے تھے۔ اور ان کی اصلاح کے لیے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔آپ نے بتایا کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے کا طریقہ کیا ہے، کس طرح عبادت کرنی چاہیے، اچھے اخلاق کیا ہیں، تمہارے سے مذہب کیا چاہتا ہے اور اس کا اثر ہوا اور دنیا میں اس کا اثر پھیلا۔ اور جب عیسائیوں نے یہودیوں نے دیکھا کہ اسلام پھیل رہا ہے، مذہب کا اثر ہورہا ہے تو انہوں نے بھی اس کے مقابلے میں لانے کے لیے اپنی تعلیم کو بہتر کرنا شروع کر دیا۔ اچھے اخلاق پھیلانا شروع کر دیے۔ لیکن عمومی طور پر وہ مانتے ہیں کہ انتہائی بگڑا ہوا زمانہ تھا۔ پھر بارہ سو سال چودہ سو سال کازمانہ گزر گیا۔ پھر مسلمانوں میں بھی بگاڑ پیدا ہو گیا۔ پھر دوسرے مذاہب میں بھی اسی طرح دوبارہ بگاڑ پیدا ہو گیا۔ مذہب سے دور جانے لگ گئے۔ آج کل تو دیکھ لو کہ 65فیصدسے زیادہ لوگ جو ہیں وہ خدا کو ہی نہیں مانتے۔ مذہب سے دور ہو چکے ہیں۔ دوسرے مذاہب والے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق بھیجا اور ہمیں توفیق دی کہ ہم ان کو مان لیں اور آپ لوگوں کو توفیق دی کہ آپ وقف کر کے ان کے مشن کو پورا کرنے کے لیے اپنا رول playکریں، اپنا کردار ادا کریں۔ تو لوگ تو مذہب سے کیونکہ دور ہٹے ہوئے ہیں اس لیے وہ مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں اور نہ صرف مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں بلکہ جو انبیاء ہیں ان کا بھی مذاق اڑاتے ہیں اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی انہوں نے caricature بنائے اور کارٹون بنائے اور مختلف قسم کے لطیفے بنائے اور غلط قسم کی باتیں کیں حرکتیں کیں، آج سے آٹھ نو سال پہلے۔ اور اب تک قرآن کریم کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ اب سویڈن ڈنمارک وغیرہ میں ایک بندہ ہے جو قرآن کریم کی بے حرمتی کر رہا ہے اور اسلام کا مذاق اڑاتا ہے۔ اسی طرح فرانس میں اسلام کی تعلیم پہ پابندیاں لگ گئیں۔ اور ملک بھی ہیں جو مسلمانوں کو غلط نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے اپنےجو عمل ہیں وہ ایسے ہو گئے ہیں کہ واقعی مذاق اڑانے والی باتیں بن گئی ہیں۔ غلط قسم کی ٹریڈیشنز شامل ہو گئی ہیں جن کو مذہب کا نام دے دیا ہے۔ تو ایسے حالات میں ہم احمدی ہیںجنہوں نے صحیح اسلامی تعلیم کو لوگوں کو بتانا ہے۔ اگر ہمارےاخلاق اچھےہوں گے اچھے moralsہوں گے ہمارا علم ہو گا، دنیاوی علم بھی ہمارا ہو گا تو لوگ ہماری بات سنیں گے۔ جب ہم بحث کریں گے یا بات کریں گے تو لوگ دیکھیں گے کہ ہاں یہ پڑھا لکھا ہے یہ جاہل انسان نہیں ہے اس کو دنیاکا بھی علم ہے اور یہ سائنس کو بھی جانتا ہے اور اس کی جو approachہے وہ بڑی سائنٹیفک ہے، philosophical approach بھی ہے اور اس approach کے ساتھ جب یہ argumentکرتا ہے یا دلیل دیتا ہے تو اس کو ہمیں سننا چاہیے، دیکھنا چاہیے۔ پھر وہ مذاق نہیں اڑائیں گے۔ ہاں ڈھیٹ لوگ ہوتے ہیں بعض مذاق اڑانے والے، عمومی طور پر تمہیںوہ avoidتو کریں گے لیکن تمہارے سے بحث کر کے تمہارا مذاق نہیں اڑائیں گے اور اگر اڑائیں گے بھی تو انہی میں سے بعض لوگ اور پیدا ہو جائیں گے وہ کہیں گے یہ غلط طریقہ ہے ہم نے مذاق اڑایا ہمیں بات سننی چاہیے تھی۔ تو آہستہ آہستہ بات سننے والے بھی پیدا ہوتے جائیں گے۔ اور اس پہ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کتنی مستقل مزاجی سے ہم یہ کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہم نے ڈرنا نہیں اور رکنا نہیں۔ اپنے عمل سے، اچھے اخلاق سے اور اپنے علم سے جس کو بڑھا کر ہم نے لوگوںکو قائل کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعا سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، دعا کرتے ہوئے یہ کام کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کام کو آگے بڑھائیں اور دنیا کو صحیح راستے پر چلانے کی جو ہمارا وعدہ ہے کوشش ہے اس کو ہم پورا کریں۔ اپنے اپنے حلقے میں اپنے اپنے جو تمہارے ماحول ہے یا جن لوگوں سے بھی تمہارا interaction ہوتا ہے کسی بھی ذریعہ سے رابطہ رہتا ہے یا تعلق قائم ہوتے ہیں ان کو اگر تمہارے بارے میں پتا لگ جائے کہ یہ مذہبی بھی ہے اور علمی بھی ہے اور بڑی دلیل سے بات کرتے ہیں تو پھر وہ تمہاری بات سنیں گے۔
ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ ہم غیر مسلمانvegans کو کیسے قائل کر سکتے ہیں کہ جانوروں کو ذبح کرنا اخلاقاً غلط نہیں ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہےbalancedخوراک کھاؤ۔ گوشت بھی کھاؤ سبزی بھی کھاؤ۔ اور اگر کوئی کھانا پسند نہیں کرتا بعض لوگوں کو نہیں پسند ہوتا، گوشت نہیں کھاتے نہ کھائیں یا صرف اس لیے کہ جی ذبح کرنا جرم ہے اس لیے ہم نے نہیں کھانا تو پھرتو ہم سانس بھی نہ لیں۔ پانی میں بھی تو ہزاروں جراثیم ایسے ہیں جو ہمارے پیٹ میں جاتے ہیں، مر جاتے ہیں یا ہوا میں بھی پھر رہے ہوتے ہیں بہت سارے جراثیم وہ بھی ہمارے سانس لینے سے مرجاتے ہیں۔ پھر جو سبزی ہے، ہم جب اگاتے ہیں اس میں بھی تو کئی insectsکو مار کے اگاتے ہیں۔ اگر وہ ظلم ہے تو پھر سبزی اگاتے ہیں،کھاتے ہیں، اتنی organic سبزی تو نہیں کر رہے ہوتے۔ اگر organicبھی ہو تب بھی ایک زندگی تو ختم کر رہے ہوتے ہیں ناں۔ تو جانور ذبح کر کے کھانا یا indirectly کھانا بات تو ایک ہی ہے۔ ایک زندگی وہ بھی ختم کر رہے ہوتے ہیں۔ اسلام کی تعلیم balancedتعلیم ہے۔ یہ نہیں کہتی کہ گوشت ہی کھاتے جاؤ اور نہ یہ کہتی ہے کہ صرف سبزیاں ہی کھاتے جاؤ۔ دونوں طرح کی چیزیں کھانی چاہئیں، balanced diet ہونی چاہیے اور nutritionallyبھی یہ ثابت ہے کہ یہ balanced diet اگر ہوتو انسان کے جو جسم کی requirementsہیں وہ پوری ہوتی ہیں۔ باقی جو اس قسم کی موومنٹ میں شامل ہوتے ہیں وہ کتنے لوگ ہوتے ہیں؟ اکثر دنیا کی آبادی تو گوشت بھی کھا رہی ہے، سبزی بھی کھا رہی ہے کچھ بھی نہیں چھوڑتی۔ اس لیے زیادہ قائل کرنے کی ہمیں ضرورت کوئی نہیں ان باتوں میں بحث کرنے کی ضرورت کوئی نہیں، ان چھوٹی چھوٹی چیزوں میں پڑنے کی بجائے اَور بہت سے مسائل ہیں جن پہ بحث کرو، تبلیغ کرو۔اسلام کی تبلیغ اس سے نہیں رکنی چاہیے۔ تم یہ کہو اچھا ٹھیک ہے تم نے سبزی کھانی ہے بیشک کھاؤ لیکن تم اللہ تعالیٰ کی طرف آؤ، اللہ کا حق ادا کرو اور دین سیکھو۔ جب وہ ایک طرف دین سیکھ لیں گے، اللہ کا حق ادا کرنے والے بن جائیں گے تو جوvegan وغیرہ کی موومنٹ میں بلا وجہ ایک فیشن کے طور پر شامل ہو جاتے ہیں وہ بھی ہٹ جائیں گے۔
ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے فرمایا اللہ حافظ ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔