حقیقی انسان اُس وقت بنتا ہے جب حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو
جب حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کے جذبات ایک انسان میں موجزن ہوتے ہیں تو پھر وہ حقیقی تقویٰ پر قدم مار رہا ہوتا ہے اور حقیقی تقویٰ پر چلنے والا پھر کسی نیکی پر خوش نہیں ہوتا۔ اُس میں فخر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی خشیت اُس میں بڑھتی چلی جاتی ہے۔ …دوسروں کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھنے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ شرائطِ بیعت جو ایک احمدی کے حقیقی احمدی مسلمان کہلانے کے لئے بنیادی چیز ہے، اس کی چوتھی شرط میں آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا، نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے، نہ کسی اور طرح سے‘‘۔
پس حقیقی نیکی اُس وقت ہو گی جب اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو گی اور اس رضا کے حصول کے لئے اپنی تمام تر طاقتوں اور استعدادوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی میں ایک شخص استعمال کرتا ہے۔ … پس حقیقی انسان اُس وقت بنتا ہے جب حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی طرف توجہ دے۔
اب دیکھیں اگریہ جذبہ ہمدردی ہر احمدی میں پیدا ہو جائے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جماعت میں جھگڑوں اور مسائل کا سامنا ہو۔ …
ان دنوں میں جہاں احمدی اپنی عبادتوں اور ذکرِ الٰہی کے ذریعے سے خدا تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کی کوشش کرے، وہاں ہمدردیٔ خلق اور رنجشوں کو دور کرنے اور اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ خالصۃً خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک دلوں کی کدورتیں اور رنجشیں دور نہ ہوں۔ اصل ہمدردیٔ خلق کا جذبہ تو وہیں ظاہر ہوتا ہے جہاں ہر ایک سے بلا امتیاز اور بلا تخصیص ہمدردی کا جذبہ ہو اور یہی ہمدردی کا جذبہ پھر ایک دوسرے کے لئے دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ اور پھر آپس کی دعاؤں سے تقویٰ کا قیام عمل میں آتا ہے۔ دلوں اور روحوں کی پاکیزگی کے سامان ہوتے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کے نئے معیار قائم ہوتے ہیں۔(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 2012ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍ جون 2012ء صفحہ 6-9)