حضرت مصلح موعود ؓ

صداقتِ اسلام اور ذرائع ترقیٔ اسلام (قسط نمبر 6)

(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، فرمودہ 22؍فروری 1920ءبمقام بندے ماترم ہال (امرتسر)

اسلام کی صداقت میں ایک اور پیشگوئی

پھر لوگ کہتے ہیں کہ وہ اسلام کا دشمن تھا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کا کیسا عاشق تھا۔ اس کے اپنے خاندان کے بعض لوگوں نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی تو اس نے ان سے قطع تعلق کر لیا۔ اسی خاندان کے ایک حصہ نے جو اسلام کی ہتک کیا کرتا تھا آپ سے درخواست کی کہ آپ ایک معاملہ میں ہم سے اچھا سلوک کریں۔ مرزا صاحبؑ نے کہا اچھا اگر تمہاری اصلاح ہوجائے تو ہم سلوک کر دیتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کی اصلاح آپ سے تعلق پیدا کرنے سے ہوسکتی تھی اس لئے آپ نے کہا کہ تم اپنی لڑکی کا رشتہ مجھ سے کر دو۔ انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ کیا تم پھوپھی کی لڑکی سے جو تمہاری بہن ہے شادی کرنا چاہتے ہو۔ حضرت صاحب نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو اپنی پھوپھی کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ کہنے لگے انہوں نے بھی بہن سے شادی کی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہتک پر حضرت مرزا صاحبؑ نے انہیں کہا کہ اس پر تمہیں خدا کی گرفت ہوگی۔ نادانوں نے اس پر ہنسی اُڑائی۔ حالانکہ یہ ایک عظیم الشان ثبوت تھا اسلام کی صداقت اور خدا تعالیٰ کےاپنے بندوں کے ساتھ کلام کرنے کا۔ چنانچہ جب انہوں نے اس طرح کہا تو انہیں کہا گیا کہ اگر تم نے توبہ نہ کی اور اسی جگہ شادی نہ کی جہاں کے متعلق تم نے ایسے الفاظ کہے ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے تو کسی اور جگہ شادی کرنے سے تین سال کے عرصہ میں لڑکی کا باپ اور جس سے شادی کی جائے گی وہ اڑھائی سال کے اندر مر جائے گا۔ یعنی اس پیشگوئی میں یہ باتیں بتائی گئی تھیں کہ (1)لڑکی کی شادی ہونے تک اس کا باپ زندہ رہے گا۔ (2)اگر اس نےکسی اور جگہ لڑکی کا نکاح کر دیا تو نکاح کرنے سے تین سال کے اندر اندر وہ مر جائے گا۔ (3)جس سے اس کی شادی کی جائے گی وہ اڑھائی سال تک مر جائے گا۔(4)پھر یہ بھی کہا گیا تھا کہ توبہ کر توبہ کر، بلا آرہی ہے۔ یعنی اگر وہ توبہ کر لیں گے تو بلا ان سے ٹل جائے گی۔ اس میں یہ بتایا گیا کہ عورت رجوع کر لے گی۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ اس کے شائع ہونے کے بعد لڑکی کا باپ اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک اس کا نکاح نہیں کرتا۔ پھر جب وہ نکاح کرتا ہےاور نکاح کو ابھی چھ ماہ بھی نہیں گزرتے کہ اس پیشگوئی کے ماتحت مر جاتا ہے۔ پھر جیساکہ بتایا گیا تھا کہ اگر وہ رجوع کر لیں گے تو بلا ٹل جائے گی۔ باقی لوگ رجوع کرتے ہیں اور اس عورت کی طرف سے پیغام آتا ہے کہ اس معاملہ میں میرا تو کوئی قصور نہیں مجھے معاف کیا جائے۔ اس طرح گویا وہ اسلام کی ہتک سے توبہ کرتی ہے پھر دوسرے رشتہ دار بھی توبہ کرتے ہیں اور اس طرح پیشگوئی کا دوسرا حصہ جو توبہ کرنے پر بلا کے ٹلنے کی صورت میں ظاہر ہونا تھا پورا ہوتا ہے چنانچہ وہ عورت اور اس کا خاوند اب تک زندہ ہیں۔ ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ ان کا نہ مرنا اس پیشگوئی کے جھوٹا ہونےکا ثبوت ہے۔ لیکن دراصل ان کا زندہ رہنا پیشگوئی کے سچا ہونے کا ثبوت ہے۔ کیونکہ اس پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآءَ عَلٰی عَقِبِکِ(تذکرہ صفحہ135)یعنی اگر توبہ کریں تو بلا ٹل جائے گی۔ جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہتک آمیز الفاظ استعمال کئے تھے اس کی لڑکی کے خاوند کا مرنا اس کے لئے عذاب تھا۔ اگر وہ توبہ کر لیتی تو یہ عذاب ہٹا دیا جاتا۔ کیونکہ اگر باوجود اس کے توبہ کرنے کے اس عذاب کو ہٹایا نہ جاتا تو یہ پیشگوئی غلط نکلتی۔ لیکن چونکہ اس نے توبہ کی اس لئے یہ عذاب ہٹا دیا گیا اور اسے معاف کر دیا گیا۔

پھر اس لڑکی کی جس شخص سے شادی ہوئی تھی اس نے ایک خط لکھا جس میں حضرت مرزا صاحب کی تعریف کی۔ پھر اس لڑکی کے اور رشتہ داروں نے بھی توبہ کر لی اور اس طرح یہ پیشگوئی پوری ہوئی اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر پیشگوئی پوری نہ ہوسکتی تھی اور کہا جاسکتا تھا کہ یہ پیشگوئی ایک بالارادہ کام کرنے والی ہستی کی طرف سے نہ تھی۔ کیونکہ فرض کرو ایک مکان پر پہاڑ سے پتھر گرتا ہے اور صاحب مکان کے بھائی بیٹے اور دوسرے رشتہ دار اس کے نیچے دب کر مر جاتے ہیں۔ اس کےمتعلق کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مالک مکان نے اپنے ارادے سے پتھر گرایا تھا۔ کیونکہ اگر وہ ارادہ سے پتھر گراتا تو اپنے رشتہ داروں کو ضرور خبر کر دیتا اور انہیں بچا لیتا اور اپنے دشمنوں کو ہلاک ہونے دیتا۔ تو بالارادہ وہی فعل کہلا سکتا ہے جو انسان کے اعمال کے مطابق ہو۔ دیکھو پولیس ارادہ سے اسی کو پکڑتی ہے جو مجرم ہوتا ہے غیرمجرم کو نہیں پکڑتی۔ یہ ممکن ہے کہ غلطی سے کسی غیر مجرم کو پکڑے۔ لیکن عقل اور سمجھ کے ماتحت یہی ہوتا ہے کہ مجرم کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مجسٹریٹ کسی بے قصور کو چھوڑ دیتا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سزا دینے کی طاقت نہیں رکھتا بلکہ یہی کہا جائے گا کہ وہ ارادہ کے ماتحت کام کرتا ہے۔ پس اگر توبہ کرنے پر بھی وہ لوگ ہلاک کئے جاتے تو کہا جاسکتا تھا کہ پیشگوئی غلط نکلی اور کسی نجومی کی پیشگوئی تھی۔ مگر جب انہوں نے توبہ کر لی اور بچ گئے تو صاف ظاہر ہوگیا کہ پیشگوئی پوری ہوگئی اور اس ہستی کی طرف سے تھی جو بالارادہ کام کرتی ہے۔ جیسی کسی کی حالت ہوتی ہے اسی کے مطابق اس سے سلوک کرتی ہے۔ پس یہ پیشگوئی اسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کا خدا مشین کی طرح نہیں ہے کہ وہ امتیاز نہیں کرسکتا۔ بلکہ ایک بالارادہ ہستی ہے۔

ہمارے مخالف سمجھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی غلط نکلی۔ مگر ان کو دھوکا لگا ہوا ہے اصل میں یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی۔

دیوانے کتے کے کاٹے کا بچنا

اب کچھ اور باتوں کو لیتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے جو باتیں پیش کی ہیں ان سے اسلام کا جلال اور صداقت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو ایسی باتیں بتائیں جو سوائے یار غمگسار کے کسی کو نہیں بتاتا۔

ایک دفعہ ایک لڑکے کودیوانہ کتے نے کاٹا اور اسے کسولی بھیج کر علاج کرایا گیا لیکن جب وہاں سے واپس آیا تو تھوڑے سے عرصہ کے بعد اسے ہڑک اُٹھی اس حالت کے متعلق تمام طبّی کتابوں میں یہی لکھا ہے اور ڈاکٹر بھی اس سے متفق ہیں کہ جس کو سگ گزیدہ کی ہڑک اُٹھنے لگے اس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا چنانچہ اس لڑکے کی بیماری کی خبر جب کسولی دی گئی تو وہاں سے جواب آیا۔

SORRY, NOTHING CAN BE DONE FOR ABDUL KARIM

(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 481)

افسوس کہ عبدالکریم کے متعلق کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ وہ لڑکا دُور دراز سے دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا ہوا تھا۔ اس لئے حضرت مرزا صاحبؑ کو خیال ہوا کہ یہ ابتدائی زمانہ ہے چاروں طرف سے مخالفت ہورہی ہے یہ لڑکا اگر فوت ہوگیا تو اس کے ماں باپ کو جنہوں نے اتنی دُور سے اسے تعلیم دین کے لئے بھیجا ہے بہت صدمہ ہوگا اور مخالفین بھی شور مچائیں گے اس لئے اس وقت جبکہ اس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا تھا اس کے لئے دُعا کی اور وہ بچ گیا۔ چنانچہ اس وقت تک وہ لڑکا زندہ ہے۔ آج تک ہزاروں سالوں سے اس قسم کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی کہ کوئی ایسا بیمار اچھا ہوا ہو۔ وہ صرف حضرت مرزا صاحبؑ کی دُعا کی وجہ سے بچ گیا۔ یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا بہت بڑا نشان ہے جو حضرت مرزا صاحبؑ کے ذریعہ ظاہر ہوا۔

مایوس العلاج مریض کا شفا پانا

اسی طرح اور ہزاروں نشانات ظاہر ہوئے جن میں سے مثال کے طور پر ایک اور پیش کرتا ہوں۔ نواب محمد علی خان صاحب جو موجودہ نواب صاحب مالیر کوٹلہ کے ماموں ہیں اور مَیں نے سنا ہے کہ آج یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ان کے ایک لڑکے کو ٹائیفائیڈ بخار ہوگیا۔ جس کا علاج ایک یونانی حکیم مولوی نور الدین صاحب جو مہاراجہ صاحب جموں کے خاص طبیب رہ چکے تھے اور دو ڈاکٹر کر رہے تھے، لیکن ایک وقت اس پر ایسا آگیا کہ معالج بالکل گھبرا گئے اور انہوں نے کہہ دیا کہ اب یہ لڑکا نہیں بچ سکتا۔ اس کی خبر جب حضرت مرزا صاحبؑ کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ مَیں اس کی صحت کے لئے دُعا کروں گا۔ اور آپ نے دُعا کی، لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ اب یہ نہیں بچ سکتا۔ اس پر حضرت مرزا صاحبؑ نے کہا۔ مَیں اس کی صحت کے لئے سفارش کرتا ہوں۔ اس پر انہیں الہام ہوا تُو کون ہے جو بلا اجازت سفارش کرتا ہے۔ (تذکرہ صفحہ 495 ایڈیشن چہارم) اس وقت کے متعلق حضرت مرزا صاحبؑ فرماتے ہیں کہ میری ایسی حالت ہوگئی کہ میں بے ہوش ہو کر گِر پڑا۔ اس وقت آواز آئی اچھا تم کو اجازت دی جاتی ہے۔ اب سفارش کرو۔ یہ سُن کر حضرت مرزا صاحبؑ نے دعا کی اور انہیں بتایا گیا کہ اب یہ لڑکا بچ جائے گا۔ چنانچہ آدھ گھنٹہ کے بعد ہی اسے ہوش آگئی اور وہ بچ گیا۔ اب ولایت تعلیم حاصل کرنے کےلئے گیا ہے۔

ایک سوال کا جواب

اس موقع پر کسی شخص نے لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو یہ سوال دیا کہ آپ کا مضمون تو یہ تھا کہ ’’اسلام کی صداقت کے تازہ نشانات کے ساتھ ‘‘ مگر آپ نے مرزا صاحب کے نشانات کو پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔

اس کے متعلق حضور نے فرمایا:

میرے مضمون کا پہلا حصہ اسلام کی صداقت کے دلائل کے متعلق تھا جو مَیں نے بیان کئے اور دوسرا حصہ اسلام کی صداقت کے مشاہدہ کا ہے جس کے لئے حضرت مرزا صاحبؑ کے نشانات کو پیش کر رہا ہوں اور یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ہم حضرت مرزا صاحب کو ان کی ذات کی وجہ سے نہیں مانتے بلکہ اس لیے مانتے ہیں کہ ان کے وجود سے اسلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے ان کی صداقت کے نشان دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے نشان ہیں کیونکہ حضرت مرزا صاحبؑ اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔

اسلام کی صداقت کے متعلق پادری لیفرائے کو چیلنج

پھر حضرت مرزا صاحبؑ نے دُعا کے ذریعہ اسلام کی سچائی کا فیصلہ کرنے کے لئے پادری لیفرائے کو مدِنظر رکھ کر چیلنج دیا اور لکھا آپ عیسائیت کی طرف سے کھڑے ہوں اور مَیں اسلام کی طرف سے کھڑا ہوتا ہوں۔ اور دُعا کرتے ہیں کہ جو مذہب سچا ہے خدا اس کی تائید میں نشان دکھلائے۔ اور وہ اس طرح کہ طرفین کچھ کچھ مریض لے لیں اور ان کی صحت کے لئےدُعا کریں۔ جس کے زیادہ مریض صحت یاب ہوجائیں اس کے مذہب کو سچا سمجھا جائے۔

اس پر بڑے بڑے انگریزی اخباروں نے مضامین لکھے کہ ہمارے پادری جو اتنی بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں وہ کیوں مقابلہ میں نہیں آتے۔ یہی وقت عیسائیت کو سچا ثابت کرنےکا ہے۔ لیکن کوئی مقابلہ پر نہ آیا۔ یہ فیصلہ کا نہایت آسان اور عمدہ طریق تھا مگر کسی نے قبول نہ کیا اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ دیگر مذاہب کے لوگ محسوس کرتے تھے کہ اپنی صداقت کا ثبوت اسلام ہی دے سکتا ہے ہمارے مذہب کچھ نہیں کر سکتے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button