صبر کے طریق کو اختیارکرو
۱۳ برس کا زمانہ کم نہیں ہوتا۔ اس عرصہ میں آپ (آنحضرتﷺ ) نے جس قدر دکھ اٹھائے ان کا بیان بھی آسان نہیں ہے۔ قوم کی طرف سے تکالیف اور ایذا رسانی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ ی جاتی تھی اور ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر اور استقلال کی ہدایت ہوتی تھی اور بار بار حکم ہوتا تھاکہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا ہے تُوبھی صبر کر۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کمال صبر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کرتے تھے اور تبلیغ میں سست نہ ہوتے تھے۔ بلکہ قدم آگے ہی پڑتا تھا۔ اور اصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر پہلے نبیوں کا سا نہ تھا کیونکہ وہ تو ایک محدود قوم کے لئے مبعوث ہو کر آئے تھے اس لئے ان کی تکالیف اور ایذارسانیاں بھی اسی حد تک محدود ہوتی تھیں۔ لیکن اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر بہت ہی بڑا تھا۔ کیونکہ سب سے اول تو اپنی ہی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالف ہو گئی اور ایذا رسانی کے در پے ہوئی اور پھرعیسائی بھی دشمن ہو گئے…۔
(ملفوظات جلد 7صفحہ 198-199، ایڈیشن 1984ء)
ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔ … میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء و رسل سے زیادہ نہیں ہو، ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لئے آتی ہیں کہ خداتعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقع ملے۔ دعاؤں میں لگے رہو۔ پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء و رُسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیارکرو۔ تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔ … تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ان سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کرکے دکھاؤ۔ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو میں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو۔ اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش کےساتھ مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسد انہ طریق ہو جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو۔ لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا توخود اسے شرم آ جاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا۔جو صبر سے نکلتا ہے۔ صبر ہی ہے جودلوں کو فتح کر لیتا ہے۔
(ملفوظات جلد 7صفحہ 203-204، ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭