الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
’’کشتی نوح‘‘
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ ’’کشتی نوح کا بار بار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بنائو۔‘‘ یہ کتاب حضور علیہ السلام نے5؍اکتوبر1902ء کو شائع فرمائی اوراس میں قرآن و سنت کی روشنی میں وہ تعلیم بیان کی جو ہر احمدی کے لیے ضروری اور نجات کا باعث ہے۔آپؑ نے الہامی تصریحات کے مطابق اس کتاب کو کشتی نوح سے تشبیہ دی جو طوفانِ ضلالت سے مومنوں کو بچا سکتی ہے۔فرمایا:
ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر
نوحؔ کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 11؍ستمبر 2013ء میں شامل اشاعت مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے ایک مضمون میں بیان کیا گیا ہے کہ کتاب ’’کشتیٔ نوح‘‘سے ہزار ہا سعید روحوں نے فائدہ اٹھایا۔ ان میں احمدی بھی تھے جو اس تعلیم پر عمل پیرا ہوکر اس الہام کے تحت حفاظت الٰہی کے حقدار ہوئے کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلّ مَنْ فِیْ الدَّار۔ (تذکرہ صفحہ348) یعنی مَیں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہے طاعون سے بچائوں گا۔ اور ان میں وہ بھی تھے جو احمدی نہیں تھے، انہوں نے اس کتاب کے مطالعے سے قبول احمدیت کی توفیق پائی اور رستگار ہوگئے۔
٭… حضرت غلام حیدر صاحبؓ بیان کرتے ہیں: 1903ء میں مجھے نماز پڑھنے کا شوق ہوا۔ چنانچہ میں نے نماز پڑھنی شروع کی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک بزرگ آدمی کے ہمراہ اُس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہوں۔ اسی اثناء میں ایک چٹھی رساں نے مجھے کشتی نوح لا کر دی۔ اسے مَیں نے غور سے پڑھا، مخالفین نے شور مچانا شروع کیا اور مشورہ دیا کہ احمدیوں کی کتابیں نہ منگوائی جائیں۔ پھر میں نے قرآن شریف باترجمہ پڑھنا شروع کیا۔ کشتی نوح کو قرآن شریف کے تابع پاکر میں نے ارادہ کیا کہ اب مجھے بیعت کر لینی چاہیے۔ اس چٹھی رساں نے پھر مجھے حضرت صاحب کا فوٹو لا کر دکھایا۔ فوٹو کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ یہ فوٹو تو اُسی شخص کا ہے جس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔
٭… محترم ملک حسن خان ریحان صاحب (ریٹائرڈ پنشنر پولیس) بچپن سے ہی پنجوقتہ نماز کے عادی بلکہ تہجد گزار تھے۔ احمدی ہونے سے پہلے اپنے محکمہ کے ایک احمدی سینئر افسر کے ساتھ سخت درشت کلامی سے پیش آتے لیکن وہ ہمیشہ حُسن سلوک سے پیش آتے۔ بالآخر احمدی افسر کا حسن اخلاق کا وار کارگر ثابت ہوا اور اُن کے کہنے پر کہ جس بزرگ کو تم جھوٹا سمجھتے ہو اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہوا تو پھر خدا تعالیٰ کے سامنے حاضری کے وقت کیا جوا ب دو گے؟ اس پران کے دل میں خوف پیدا ہوا اور اپنے افسر سے حضرت مسیح موعودؑ کی کوئی کتاب طلب کی۔ انہوں نے کشی نوح پڑھنے کو دی تو مزید تجسس بڑھا اور ایک دو کتب مزید مطالعہ کرنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا اور پھر آئندہ جلسہ سالانہ پر قادیان جاکر بیعت کرلی۔
٭… مکرم میاں محمد عالم صاحب نے 1901ء میں محکمہ پولیس میںملازمت کی تو بعض مخالفین کی زبانی اتنا معلوم ہوا کہ قادیان میں ایک مغل رئیس نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیاہے اور علماء نے ان کی سخت مخالفت کی ہے۔ محکمہ پولیس کے عمومی ماحول کی وجہ سے آپ اس طرف زیادہ توجہ نہ دے سکے حتیٰ کہ1908ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ہوئی اور ہندوستان کے اخبارات میں حضور کا تذکرہ ہوا تواس وقت آپ کو احمدیت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ لیکن محکمے کے پراگندہ ماحول کی وجہ سے اس سلسلہ میں قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی۔ آپ1919ء کے لگ بھگ جب بطور ایس ایچ او چونترہ ضلع راولپنڈی ڈیوٹی پر تھے تو پیچش کی شدید تکلیف ہو گئی اور سول ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ وہاںجنرل اختر علی ملک و جنرل عبدالعلی ملک صاحبان کے والد محترم ملک غلام نبی صاحب (جو علاقے کے معروف زمیندار رئیس اور مخلص احمدی تھے) بیمارپرسی کے لیے ہسپتال تشریف لائے اور واپسی پر سلسلہ احمدیہ کی کچھ کتب چھوڑ گئے۔ آپ نے ان کتب (کشتی نوح، فتح اسلام وغیرہ)کا مطالعہ شروع کردیا تو مزید معلومات حاصل کرنے کا تجسس ہوا۔ جب دوبارہ ملک صاحب موصوف ہسپتال تشریف لائے تو آپ نے ان کتب کی افادیت کا ذکر کیااور مزید لٹریچر کے مطالعہ کی خواہش کی۔ چنانچہ محترم ملک صاحب نے مزید کتب قادیان سے منگوا دیں۔ یہ سلسلہ مطالعہ اور باہمی ملاقاتوں کا لمبا عرصہ چلا یہاں تک کہ ایک مرتبہ جب آپ ایک غیراحمدی پولیس اہلکار کے ہمراہ راجہ بازار کی طرف آرہے تھے تو بازار کے سرے پر واقع مسیحی دارالمطالعہ کے سامنے ایک یورپین پادری ایک ہجوم میں عیسائیت کے بارے میں تقریر کر رہا تھا۔ ان دو افراد کو دیکھ کر اُس نے مجمع سے باہر آکر ان کو خوش آمدید کہا اور تبلیغ شروع کر دی۔ اچانک آپ کے ہمراہی نے کہہ دیا کہ میرا دوست احمدی ہے حالانکہ اس وقت تک آپ نے بیعت نہیں کی تھی۔ لیکن اس بات پر عیسائی پادری نے کہا کہ مَیں احمدیوں سے بات نہیں کرتا اور پھر لائبریری کے اندر چلا گیا۔باہر لوگوں کی کثیر تعداد منتظر کہ پادری صاحب ابھی آتے ہیں مگر وہ نہ آیا اور مجمع مایوس ہوکر منتشر ہو گیا۔آپ دونوں پر اس بات کا گہرا اثر ہوا کہ احمدیت کے نام اور اس کے لٹریچر سے پادری لوگ کس قدر خوف زدہ ہیں۔ چنانچہ دونوں نے بیعت کرلی۔
٭…مکرم چودھری عزیز احمد چیمہ صاحب جب آرمی میں تھے تو ایک دن ایک سینئر آفیسر نے آپ کو بلا کر کہا کہ آپ دیکھیں کہ ماتحت یونٹ وقفہ کا ٹائم کس طرح گزارتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ گانے بجانے میں مصروف ہیں، کچھ تاش کھیل رہے ہیں اور کچھ گپیں مار رہے ہیں لیکن ایک کیمپ میں سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آرہی تھی۔ آپ کچھ دیر کیمپ کے باہر کھڑے سنتے رہے اور پھر چلے گئے۔ لوگوں نے اس آدمی کو بتا یا کہ صاحب تمہارے کیمپ کے باہر کھڑے تھے۔ چنانچہ وہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے اس سے کہا کہ وہ آپ کو قرآن پاک پڑھنا سکھا دے کیونکہ آپ قرآن پڑھے ہوئے نہیں تھے۔ چنانچہ اُس آدمی نے قریباً ایک ماہ میں آپ کو قرآن پاک سکھا دیا۔ اسی دوران تقسیمِ ہند ہو گئی تووہ آدمی چلاگیا لیکن آپ کے کمرے میں دو کتابیں ’’کشتیٔ نوح‘‘ اور ’’احمدیت‘‘ رکھ گیا۔ ان سے آپ کو احمدیت سے واقفیت حاصل ہوئی۔ پھر قیام پاکستان کے وقت برٹش گورنمنٹ نے آپ کو الاٹمنٹ آفیسر بنادیا توآپ کے والد صاحب نے آپ کو کہا کہ تمہارے پاس اتنا شاندار موقع ہے اس لیے سب سے پہلے تھوڑی بہت جائیداد اپنے نام کر لو لیکن آپ نے کہا کہ میں امانت میں خیانت نہیں کروں گا۔اس بات پر آپ کا آپ کے والد صاحب سے جھگڑا ہو گیااور آپ کچھ عرصہ اپنے سسرال چلے گئے۔ چونکہ آپ کے سسر صوبیدار میجر عبدالقادر اس وقت تک احمدیت کے نور سے فیضیاب ہوچکے تھے اور گھر میں جماعتی کتب کا ایک خزانہ بھی رکھتے تھے چنانچہ وہاں آپ کو احمدیت کو قریب سے پڑھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ اس کا آپ پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ آپ نے وہیں 1950ء میں احمدیت قبول کرلی۔
٭… مکرم راجہ محمد مرزا خان صاحب لکھتے ہیں کہ بارہ تیرہ سال کی عمر میں مَیں اپنے گائوں کے کھیتوں میں بشمول کچھ اور لڑکوں کے اپنے مویشی چرا رہا تھا۔ہم لڑکوں نے باہم کوئی کھیل کھیلنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے مویشیوں کی طرف توجہ نہ رہی ۔تھوڑی دیر کے بعد دیکھا تو میرے مویشی کچھ فاصلے پر ہماری برادری کے ایک بزرگ راجہ حیات خاں کی فصل میں پہنچ گئے ہیں۔ مَیں مویشیوں کی طرف دوڑا اُدھر راجہ حیات خاں بھی اپنے ڈیرہ سے بھاگتا ہوا آیا اور مجھے پہچان کر نہایت غصے کے لہجہ میں مجھے کہا ’’اومرزیا قادیانیا‘‘۔ مَیں بچہ بھی تھا اور قصور وار بھی۔ خاموشی سے اپنے مویشی لے کر واپس آگیا۔ لیکن جب مَیں نے اُس کے طعنے کے الفاظ پر غور کیا تو ’’او مرزیا‘‘ تو مَیں نے سمجھا کہ میرے نام کا حصہ بنتا ہے مگر یہ ’’قادیانیا‘‘ کی کچھ سمجھ نہ آتی تھی۔ اس قسم کا طعنہ اس سے پہلے زندگی میں کبھی سنا نہ تھا۔بہر حال یہ سخت الفاظ ہمیشہ کے لیے میرے ذہن اور قلب پر ثبت ہو گئے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران مَیں1940ء میں19سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہو گیا۔1942ء میں ہمیں اٹلی لے جایا گیا۔ وہاں میرے ساتھ ایک دوست مکرم سید شبیر حسین شاہ صاحب حوالدار بھی رہتے تھے۔ایک دن اُن کے پاس میں نے ایک چھوٹی سی کتاب پڑی دیکھ کر اٹھا لی جس کا نام ’’کشتی نوح‘‘ اور مصنف کا نام ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘پڑھ کر مجھے وہ تقریباً دس سال پرانا راجہ حیات خاں کا طعنہ یاد آگیا اور وہ پرانا سارانقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ تو کوئی مرزا قادیانی ہے اور سچ مچ کا ہے۔ پھر ارادہ کیاکہ اس کتاب کو غور سے پڑھوں گا تاکہ پتہ چلے کہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی کون ہیں اور انہوں نے اس کتاب میں کیا لکھا ہے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ راجہ حیات خاں نے مجھے کس قسم کا طعنہ دیا تھا۔چنانچہ مَیں نے شاہ صاحب سے یہ کتاب پڑھنے کے لیے مانگ لی اور نہایت غور سے اس کو محض اس غرض سے پڑھنا شروع کیا کہ کبھی موقع لگا اور زندگی رہی تو راجہ حیات خاں کو اس کا جواب دوں گا۔مگر مجھے کیا پتہ کہ خدا کی پاک تقدیر میرے ساتھ کیا سلوک کر رہی تھی اور کیا معلوم کہ خدا نے اپنے فضل سے اور محض اپنے ہی فضل سے راجہ حیات خاں کے طعنے کو میرے لیے تریاق بنا کرمجھے روحانی بیماریوں سے شفا بخشنے کا ارادہ فرما لیا ہوا تھا۔میں عین سچائی اور دیانت سے یہ کہتا ہوں کہ میں جوں جوں کتاب پڑھتا گیا میری فطری سچائی(جو کہ ہر انسان کے اندر موجود ہے)کو ہدایت سے ایک قرب نصیب ہوتا چلا گیا۔ پوری کتاب پڑھنے کے بعد شرح صدر ہو گیا کہ یہ کلام خود بول رہا ہے کہ یہ سچے کا کلام ہے۔ چنانچہ اسی روز1945ء میں بیعت کا خط قادیان لکھ دیا۔
پھر میں نے ’’کشتی نوح‘‘مکرم سردار خان صاحب کو دی اور انہوں نے بھی کچھ ماہ بعد تحریری بیعت کر لی۔
٭… مسٹر سیموئیل عصمت سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ مشن ہائی سکول کلارک آباد ضلع لاہورلکھتے ہیں کہ میرے ماں باپ کے مرنے کے بعد مجھے پادری پکڑ کر لے آئے اور لائل پور مشن میں رکھا۔میر ی عمر 10 سال کی تھی۔ پھر وہاں سے دو سال کے بعد گوجرانوالہ میں بھیجا گیا جہاں سے چند ہفتوں کے بعد کلارک آباد ضلع لاہور میں بھیجا گیا۔اس تمام زمانہ میں مجھے بڑی حفاظت سے رکھا گیا۔ مسلمانوں سے میل جول تک بھی نہ ہونے دیا۔ آٹھ سال کلارک آباد میں گزارے۔ منادی کا کام بھی کرتا رہا اور سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ مشن ہائی سکول کا کام بھی میرے ذمہ رہا۔ اب مَیں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی کئی ایک کتب مثلاً کشتی نوح وغیرہ کے مطالعہ کے بعد جو کہ میںخفیۃً کرتا رہا، اسلام کو اختیار کرتا ہوں۔
…٭… جناب محمد دین صاحب ہیڈکنسٹیبل پولیس گجرات خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر تحریر کرتے ہیں کہ جبکہ میری ابھی اوائل عمری کا زمانہ تھا، ’’ازالہ اوہام‘‘ اور ’’کشتی نوح‘‘ کا مطالعہ کرتا تھا کہ مجھے کشتی نوح کی عبارت ’’مریم صدیقہ سے عیسیٰؑ کا پیدا ہونا‘‘ کے متعلق شکوک پیدا ہوئے۔ اسی دوران مَیں رات کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ موضع جادہ جو کہ ہمارے گائوں سے جانب غرب ہے کی طرف جار ہا ہوں۔ جب اپنے کھیت میں پہنچا۔ تو میری دا ہنی طرف سے آتا ہوا ایک بزرگ سفید ریش و سفید پارچات میرے قریب پہنچا۔ جس نے آتے ہی السلام علیکم کہہ کر فرمایا کہ دیکھ لڑکے تمہارے دل میں جوشکوک پیدا ہو رہے ہیں یہ محض شیطانی و ساوس ہیں، ان کو دل سے نکا ل دو اور مسیح موعود پر پورا پورا ایمان رکھو کہ یہ وہی مسیح موعود ہیں جس کی نسبت پہلے پیشگوئیاں ہو ئی ہیں۔ خبردار اس راستہ کو نہ چھوڑنا ۔
٭… مکرم سید حضرت اللہ پاشا صاحب نے احمدی ہوتے ہی اپنے والد،بھائی بہنوں اور دیگر اقارب کو دعوتی خط لکھے۔ ابتداءً بہت شدید ردّعمل تھا۔ لیکن رشتہ داروں کی طرف سے قطع رحمی کی ہر کوشش کا جواب آپ نے صلہ رحمی سے دیا۔ بیعت سے وفات تک قریباً نصف صدی کا طویل عرصہ بھی آپ کے حوصلے اور تحمل کو تھکا نہ سکا۔ اختلاف اگرچہ قائم رہا لیکن مخالفت دھیرے دھیرے مدھم پڑتی گئی۔ آپ نے ایک مرتبہ اپنے والد سید صاحب حسینی صاحب کو ’’کشتی نوح‘‘ پڑھنے کو دی تو ایک خاص عبارت کو پڑھ کر انہوں نے بےساختہ آپ سے کہا: واہ ! تمہارا مرزا تو ولی تھا۔
٭… حضرت مسیح موعود ؑکی تحریرات مندرجہ کشتی نوح سے متاثر ہو کر اردو ادب کے بہت بڑے نقاد جناب وقار عظیم نے کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب کی تحریر کسی ہم عصر سے کم نہیں لیکن ہم تعصب کی وجہ سے اس کو نظرانداز کرتے ہیں۔
٭… کشی نوح اتنی پُرا ثر اور جامع کتاب ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ صحابہ کو اس کتاب کے بار بار مطالعہ کی ترغیب دلاتے تھے۔ 8نومبر1902ء کو مونگھیرسے محمد رفیق صاحب بی اے اور محمد کریم صاحب تشریف لائے ہوئے تھے دونوں نے نماز فجر کے وقت حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی۔ بیعت کر چکے تو حضورؑ نے فرمایا کہ ہماری کتابوں کو خوب پڑھتے رہو تاکہ واقفیت ہو اور کشی نوح کی تعلیم پر ہمیشہ عمل کرتے رہا کرو اور ہمیشہ خط بھیجتے رہو۔(ملفوظات جلد2،صفحہ502)
ایک نوجوان کو گناہوں سے بچنے کے ذرائع بتاتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ایک یہ بھی علاج ہے گناہوں سے بچنے کا کہ کشتی نوح میں جو نصائح لکھی ہیں ان کو روزانہ ایک بار پڑھ لیا کرو۔ (ملفوظات جلد 2،صفحہ399)
فرمایا: الہام میں جو یہ آیا ہے الاالذین علواباستکبار یہ بڑا منذر اور ڈرانے والا ہے اس لیے ضروری ہے کہ بار بار کشتی نوح کو پڑھو اور قرآن شریف کو پڑھو اور اس کے موافق عمل کرو کسی کو کیا معلوم ہے کہ کیا ہونے والا ہے تم نے اپنی قوم کی طرف سے جو لعنت ملامت لینی تھی لے چکے۔ لیکن اگراس لعنت کو لے کر خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی تمہارا معاملہ صاف نہ ہو اور اس کی رحمت اور فضل کے نیچے نہ آئو تو پھر کس قدر مصیبت اور مشکل ہے ۔ (ملفوظات جلد2،صفحہ407)
فرمایا: میں نے بارہا اپنی جماعت کو کہا ہے کہ تم نرے اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا، اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گے تب تک نجات نہیں۔ قشر پر صبر کرنے والا مغز سے محروم ہوتا ہے اگر مرید خود عامل نہیں تو پیر کی بزرگی اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔جب کوئی طبیب کسی کو کوئی نسخہ دے اور وہ نسخہ لے کر طاق میں رکھ دے تو اسے ہر گز فائدہ نہ ہو گا کیونکہ فائدہ تو اس پر لکھے ہوئے عمل کا نتیجہ تھا جس سے وہ خود محروم ہے۔’’کشتی نوح‘‘کا باربار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بنائو۔ (ملفوظات جلد2،صفحہ541)
٭… سید نا حضر ت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 1929ء پر کشتی نوح کے مطالعہ پر خاص زور دیا اور 1930ء میں ہر احمدی کو یہ کتاب پڑھنے کا ارشاد فرمایا ۔ آپ نے فرمایا: اگلے سال تمام کے تمام احمدی پڑھے لکھے یا اَن پڑھ حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب کشتی نوح پڑھیں یا سنیں۔اسی طرح ہر سال ایک کتاب مقرر کر دی جایا کرے تو سب لوگ حضرت مسیح موعودؑ کی ساری کتب سے واقف ہو جائیں گے۔ آپ لوگ جو یہاں موجود ہیں سن لیں اور جویہاں نہیں انہیں سنادیں کہ اگلے سال کشتی نوح کا پڑھنایا سننا ہر ایک احمدی کا فرض ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ تین گھنٹہ میں ختم ہو سکتی ہے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ (الفضل13 جنوری1930ء)
٭… حضرت ماسٹر عبدالرحمان صاحبؓ نے 8جولائی 1950ء کو اہل و عیال کے نام ایک وصیت تحریر فرمائی جو صرف دینی امور سے تعلق رکھتی تھی۔ اس وصیت میں آپؓ نے تاکید فرمائی کہ اگر تم صحابہ کی برکات سے حصہ لینا چاہتے ہو تو ہماری طرح کشتی نوح کا مطالعہ کیا کرو ۔میں اب بھی سال میں دو ایک مرتبہ اسے پڑھتا ہوں اور حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ مبارک میں ہم کشتی نوح پڑھ پڑھ کر بعض ہدایات کو خط کشیدہ کرلیتے تھے اور ہفتہ بعد دیکھتے کہ وہ نقص دُور ہوا یا خوبی ہم میں پیدا ہوئی یا نہیں۔ اسی طرح صحابہ کیاکرتے تھے اور میں خود تو اپنے بعض عیوب اور کوتاہیوں کو خط کشیدہ کر کے اصلاح کیا کرتا تھا اسی لیے گھر میں اس کتاب کا اور کبھی دوسری کتب حضرت اقدسؑ کادرس دیتا تھا۔
٭… ستمبر1902ء میں لندن میں ایک پادری جان ہیوسمتھ پگٹ نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ایک خط مسٹر پگٹ کو لکھ کر مزید حالات اس کے دعویٰ کے دریافت کیے جس کے جواب میں پگٹ کے سیکرٹری نے دو اشتہار اور ایک خط روانہ کیا۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے 11نومبر1902ء کو وہ حضرت مسیح موعودؑ کو سنائے۔ پگٹ کے اشتہار کا جو عنوان انگریزی لفظو ں میں تھا اس کے معنے ہیں کشتی نوح۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: اب ہماری کشتی نوح جھوٹی پر غالب آجائے گی۔ یورپ والے کہا کرتے تھے کہ جھوٹے مسیح آنے والے ہیں۔ سو اوّل لنڈن میں جھوٹا مسیح آگیا، اس کا قدم اس زمین میں اوّل ہے بعدا زاں ہمارا ہو گا جو کہ سچا مسیح ہے اور یہ جو حدیثوں میں ہے کہ دجال خدائی اَور نبوت کا دعویٰ کرے گا۔ (ملفوظات جلد2صفحہ512)
٭… 10نومبر1902ء کو مکرم خوا جہ کمال الدین صاحب نے حضورؑ کو پشاور اور کوہاٹ کا ذکر سنایا کہ وہاں پر اکثر اشتہارات جو کہ ’’ضمیمہ شحنہ ہند‘‘ (میرٹھ) میں حضورؑ کی مخالفت میں شائع ہوئے ہیں اس نظر سے پڑھے جاتے ہیں کہ گویا وہ حضورؑ کے اشتہارات ہیں اسی مغالطہ سے سرحد کے لوگوں کے دلوں میں آپؑ کے متعلق یہ خیالات ذہن نشین ہیں کہ نعوذ باللہ جناب نے روزے اپنے خدام کو معاف کر دیے ہیں اور دیگر الزام لگائے گئے۔ غرض یہ اشتہار اس وضع اور عنوان سے لکھے ہوئے ہیں کہ عوام الناس کو دھوکا لگتا ہے اور یہی خیال کیا جاتا ہے کہ آپؑ کا مضمون اور آپؑ کی تحریر ہے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ کشتی نوح وہاں کثرت سے تقسیم کر دی جائے یہی کافی ہے۔ خوا جہ صاحب نے کہا ایک ذی و جاہت شخص کو مَیں نے دیکھا ہے کہ اس نے کشتی نوح پڑھ کر کہا کہ کتاب تو عمدہ ہے اگر آخر میں مکان کے چندہ کا ذکر نہ ہوتا۔مَیں نے اسے جواب دیا کہ کیا تم سے بھی ایک پیسہ مرزا صاحب نے مانگا ہے یا تم نے دیا ہے؟ حضرت مرزا صاحب نے تو ان لوگوں کو مخاطب کیا ہے جو ان سے تعلق ابنیت کا رکھتے ہیں۔کیا اگر ایک باپ اپنے بیٹوں سے دو ہزار اس لیے طلب کرے کہ اسے ایک مکان بنانا ہے تو کیا یہ فعل اس کا قابل اعتراض ہو گا؟ اس پر وہ خاموش ہو گیا۔ (ملفوظات جلد2صفحہ508)
٭… حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طاعون کا ٹیکہ لگانے سے متعلق گورنمنٹ انگریزی کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے اپنی جماعت کو ٹیکہ نہ لگوانے کی ہدایت کی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ میری تعلیم پر عمل پیرا ہونے والوں کی حفاظت فرمائے گا اور یہ میری صداقت کا نشان ہو گا۔ اس ہدایت پر مخالفین نے بڑا شور مچایا۔ مصری جریدہ اللواء کے ایڈیٹر مصطفیٰ کمال پاشا نے یہ اعتراض کیا کہ آپ نے ٹیکے کی ممانعت کر کے ترک اسباب کیا ہے اور یہ خلافِ قرآن ہے۔
29نومبر1902ء کو حضرت مسیح موعودؑ مجلس احباب میں جلوہ گر ہوئے اور احباب کے ہمراہ سیر کو چلے۔ گزشتہ شب سول ملٹری گزٹ اور پایونیئر کے حوالے سے ٹیکہ طاعون کے خطر ناک نتائج جو حضرت اقدس ؑکو سنائے گئے تھے کہ ملکوال میں انیس موتیں ٹیکہ لگنے کے باوجود ہوئیں۔ اس پر فرمایا کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کی کتنی رحمت ہے ہماری ’’کشتی نوح‘‘ میں صاف لکھا ہوا ہے کہ اگر آسمانی ٹیکہ کے علاوہ اور اس کے مقابلے پر کسی اَور طرح سے زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے تو ہمارا دعویٰ جھوٹا۔ اس ٹیکہ کے انتظام پر گورنمنٹ کا لاکھوں روپیہ صرف ہوتا ہے(مگر نتیجہ ظاہر ہے)۔ اس میں بھی خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ہماری کشتی نوح پر بڑے بڑے متعصب اخباروں نے حتی کہ مصر کے اللواء نے بھی مخالفت میں مضمون درج کیا۔کیا ان کی روسیاہی ہوئی یا نہیں؟حق کا رعب ایسا ہوتا ہے کہ منہ بند ہو جاتے ہیں اب دیکھیں کہ اللواء کیا لکھے گا اور اب بھی شرمندہ ہو گا یا نہیں؟… یہ اللہ تعالیٰ کی طاقتیں ہیں اور اسی کا کام ہے۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ546)
نیز اس اعتراض کے جواب میں حضرت اقدسؑ نے عربی زبان میں ’’مواہب الرحمٰن‘‘ کے نام سے کتاب تصنیف فرمائی جو جنوری1903ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ایڈیٹر مذکور کے اعتراض کا مفصل و مدلل جواب دیتے ہوئے اپنے عقائد اور جماعت کے لیے تعلیم اور ان نشانات کا بھی ذکر فرمایا ہے جو گزشتہ تین سال میں ظاہر ہوئے تھے۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ کی اس معرکۂ آ راء کتاب سے غیر احمدی مصنفین نے بھی خوب استفادہ کیا ہے اور حضور کا نام اور کتاب کا حوالہ دیے بغیر اس کے معارف اپنی کتب میں درج کیے ہیں ۔ مثلاً مولانا سید نذیر الحق قادری صاحب کی کتاب’ الاسلام‘ میں پنجگانہ نمازوں کے اوقات کی حکمت سے متعلق کئی اقتباس درج ہیں۔ (صفحہ686تا 688)
یہی مضمون مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ میں بغیر حوالہ کے درج کیا ہے۔ (49تا51)
حضرت مسیح موعودؑ کے بعض پر زور اقتباسات جی ایم مفتی صاحب مدیر ہفت روزہ ’’قائد‘‘ مظفر آباد (کشمیر) نے عذاب الٰہی کے عنوان کے تحت 23اگست1973ء کو اپنے اداریہ میں قلمبند کیے۔ بزرگ کشمیری صحافی میر عبدالعزیز صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ ’’انصاف‘‘ راولپنڈی نے اس سرقہ کا پول کھولا۔ (انصاف 22اپریل1976ء ،صفحہ6)
مولانامحمد مکی صاحب ایڈیٹر ’’دی مسلم ڈائجسٹ‘‘ جنوبی افریقہ نے جولائی، اگست 1990ء کے شمارہ میں ایک اداریہ لکھا جو کشتی نوح کے انگریزی ترجمہ سے ماخوذ تھا۔
٭… حقیقت یہ ہے کہ کشتی نوح کا سفر جاری ہے اور کروڑوں روحیں امن پا رہی ہیں مگر لوگ اب بھی کشتی نوح کو ڈھونڈتے ہیں اور پھر مایوس ہو جاتے ہیں۔ جناب مرتضیٰ برلاس صاحب موجودہ معاشرتی صورتحال کے حوالے سے اپنے اشعار میں اپنے جذبات یوں بیان فرماتے ہیں۔ ؎
اب نوحؑ نہیں جو ہمیں کشتی میں بٹھا لے
ورنہ کسی طوفان کے آثار تو سب ہیں
جس شاخ پہ بیٹھے ہوں اسی شاخ کو کاٹیں
ہم لوگ ہی خود اپنی تباہی کا سبب ہیں
(ماہنامہ قومی ڈائجسٹ لاہور ستمبر1999ء صفحہ75)
جواباً ایک ا حمدی شاعر (ابن کریم) کہتا ہے ؎
اک آیا ہے نوحؑ تم کو بھی طوفاں سے بچانے
اب چھوڑ دو جتنے بھی ہیں سب حیلے بہانے
اس کشتی میں جو بیٹھے گا وہ پار لگے گا
باقی جو ہیں وہ سارے فسانے ہی فسانے
………٭………٭………٭………
’’کشتی نوح ‘‘ میں بیان فرمودہ تعلیم کے حوالے سے حضرت ثاقب مالیر کوٹلوی کی ایک نظم حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں اخبار ’’الحکم‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ یہ نظم روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍ستمبر 2013ء میں مکرّر شائع ہوئی ہے۔ اس طویل نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
تمہارا زباں سے یہ اقرار بیعت
ہے لا شے ، نہ جب تک ہو دل کی عزیمت
جو ہے میری تعلیم پہ دل سے عامل
کھلے دل سے ہو میرے گھر میں وہ داخل
وہ گھر جس کا وعدہ خدا نے دیا ہے
حفاظت کا تم سب کی ذمہ لیا ہے
جو اس دار کی چار دیوار میں ہے
ہمارے وہ الہام فی الدار میں ہے
نہ سمجھو وہی لوگ ہیں گھر کے اندر
ملا ہے جنہیں خشت اور خاک کا گھر
نہیں بلکہ وہ لوگ بھی دار میں ہیں
مری پیروی کے جو آثار میں ہیں
مرا گھر حقیقت میں روحانیت ہے
رہے اس میں تقویٰ کی جس میں صفت ہے
وہ ہیں چند باتیں مری پیروی کی
وہ ہے پیروی پیارے زندہ نبیؐ کی
بڑی بات یہ ہے جو بالابتدا ہے
یقیناً یہ جانو کہ واحد خدا ہے
وہ قیوم ہے اس سے قائم جہاں ہے
وہ قادر ہے اور خالق جسم و جاں ہے
وہ ہے محو حبّ عزیزان جانی
یہی دل کی ٹھنڈک یہی شادمانی
مگر تم کو صرف اس خدا کی طلب ہو
مقدّم وہی اور اس کا ادب ہو
کرو اس طرح تم عبادت خدا کی
بنو آسماں پر جماعت خدا کی