جلسہ سالانہ کی اہمیت اور برکات
ازحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ
(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ دسمبر 1937ء مطبوعہ الفضل 18؍ دسمبر1937ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
سب سے پہلے تو میں جماعت کے احباب کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب دسمبر کا مہینہ شروع ہوچکا ہے اور آج اس کا دوسرا جمعہ ہے۔ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور اس کے الہام اور وحی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت کا ایک اجتماع مقرر فرمایا ہے۔ یہ اجتماع 26۔27۔ 28دسمبر کو ہوا کرتا ہے اس اجتماع کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ خواہش ظاہر فرمائی ہے کہ جماعت کے وہ تمام دوست جن کا ان دنوں یہاں پہنچنا ممکن ہو اِس موقع پر جمع ہوا کریں۔ اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سننے یا سنانے میں شامل ہوا کریں جو اِن دنوں یہاں کیا جاتا ہے۔
ابھی تک ہمارے ملک میں وسائلِ سفر اتنے آسان نہیں جتنے کہ یورپ میں آسان ہیں۔ اور ہندوستان کے باہر تو کئی ممالک میں ان وسائل میں اور بھی کمی ہے جیسے افغانستان ہے یا ایران ہے یا ہندوستان سے باہر کے جزائر ہیں۔ پھر ابھی تک ہماری جماعت میں ایسے لوگ شامل نہیں جو مالدار ہوں۔ اور جو دُوردراز ممالک سے جبکہ ہوائی جہازوں کی آمد و رفت نے سفر کو بہت حد تک آسان کردیا ہے، جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان پہنچ سکیں۔ لیکن اگر ایسے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوں تو ان دوردراز ممالک کے لوگوں کے لئے بھی جہاں ہرقسم کے وسائلِ سفر آسانی سے میسر آسکتے ہیں،یہاں پہنچنا کوئی مشکل نہیں رہتا۔ اور زیادہ سے زیادہ ان کے لئے روپیہ کا سوال رہ جاتا ہے۔ مگر ایسے لوگ ابھی ہماری جماعت میں بہت کم ہیں یا حقیقتاًبالکل ہی نہیں۔ ہماری جماعت کابیشتر حصہ اِس وقت ہندوستان میں ہے اور اس میں سے بھی زیادہ تر مردوں کی ایک تعداد ہے جو جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان پہنچ سکتی ہے۔ پس جو پہنچ سکتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ساری جماعت کی طرف سے اُن پر ایک خاص ذمہ واری ہے جسے اد اکرنے کی کوشش ان کا اوّلین فرض ہے۔ اور یہ کہ جبکہ ساری جماعت اس موقع پر نہیں پہنچ سکتی تو ہر علاقہ کے مردوں، عورتوں اور بچوں میں سلسلہ کی روح کو زندہ رکھنے کے لئے جو پہنچ سکتے ہیں انہیں سَو کام کا حرج کرکے بھی آنا چاہئے تا ان کا آنا دوسروں کے نہ آسکنے کے نقصان کا ازالہ کردے۔
دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ترقی کے شروع ہونے پر سُست ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں اب جماعت بہت ہوگئی۔ ایسے لوگوں کو میں بتادینا چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کے لئے جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان پہنچنا ممکن ہے اگر یہاں آنے میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کا لازمی اثر اس کے ہمسایوں اور اس کی اولاد پر پڑے گا۔ میں نے دیکھا ہے جو دوست سال بھر میں ایک دفعہ بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان آجاتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کو ہمراہ لاتے ہیں ان کی اولادوں میں احمدیت قائم رہتی ہے اور گو ان بچوں کو احمدیت کی تعلیم سے ابھی واقفیت نہیں ہوتی مگر وہ اپنے والدین سے یہ ضرور کہتے رہتے ہیں کہ ابا! ہمیں قادیان کی سیر کے لئے لے چلو۔ اس طرح بچپن میں ہی ان کے قلوب میں احمدیت گھر کرنا شروع کردیتی ہے اور آخر بڑے ہوکر وہ اپنی احمدیت کا شاندار نمونہ پیش کرنے پر قادر ہوجاتے ہیں۔ پھر بچوں کے ذہن کے لحاظ سے بھی جلسہ سالانہ کا اجتماع ان پر بڑا اثر کرتا ہے۔ بچہ ہمیشہ غیرمعمولی چیزوں اور ہجوم سے متأثر ہوتا ہے۔ پس جلسہ سالانہ پر آکر وہ نہ صرف ایک مذہبی مظاہرہ دیکھتا ہے بلکہ اپنی طبیعت کی جِدت پسندی کے لحاظ سے بھی تسلی پاتا ہے اور یہ اجتماع اس کے لئے ایک دلچسپ اور یاد رکھنے والا نظارہ بن جاتا ہے۔ غرض جو باپ جلسہ پر آتے ہیں وہ اپنی اولاد کے دل میں بھی یہاں آنے کی تحریک پیدا کردیتے ہیں۔ اور کبھی نہ کبھی ان کے بچے کا اصرار بچے کو جلسہ پر لانے کا محرک ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد دوسرا قدم وہ اُٹھتا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیاہے۔پس ان ایام میں قادیان آنا کسی ایسے بہانے یا عذر کی وجہ سے ترک کردینا جسے توڑا جاسکتا ہو یا جس کا علاج کیا جاسکتا ہو، صرف ایک حکم کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ اپنی اولاد پر بھی ظلم ہے۔
حقیقت تویہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہماری جماعت میں ابھی مالدار لوگ داخل نہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جلدی سے جانے کے لئے جو وسائلِ سفر ہیں وہ اتنا خرچ چاہتے ہیں کہ بیرونی ممالک کے احمدیوں کے لئے ان ایام میں قادیان پہنچنا مشکل ہے۔ لیکن اگر کسی زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے مالدار ہماری جماعت میں شامل ہوجائیں یا سفر کے جو اخراجات ہیں ان میں بہت کچھ کمی ہوجائے اور ہرقسم کی سہولت لوگوں کو میسر آجائے تو دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ اس موقع پر آئیں گے۔ اگر کسی وقت امریکہ میں ہماری جماعت کے مالدار لوگ ہوں اور وہ آمدو رفت کے لئے روپیہ خرچ کرسکیں تو حج کے علاوہ ان کے لئے یہ امر بھی ضروری ہوگا کہ وہ اپنی عمر میں ایک دو دفعہ قادیان بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر آئیں۔ کیونکہ یہاں علمی برکات میسرآتی ہیں اور مرکز کے فیوض سے لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں اور میں تو یقین رکھتا ہوں کہ ایک دن آنے والا ہے جبکہ دور دراز ممالک کے لوگ یہاں آئیں گے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک رئویا ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ آپ ہوا میں تیر رہے ہیں اور فرماتے ہیں ’’عیسیٰ تو پانی پر چلتے تھے اورمیں ہوا پر تیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل ان سے بڑھ کر مجھ پر ہے۔‘‘(تذکرہ صفحہ445۔ ایڈیشن چہارم)اس رئویا کے ماتحت میں سمجھتا ہوں وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جس طرح قادیان کے جلسہ پر کبھی یکے سڑکوں کو گھسادیتے تھے اور پھر موٹریں چل چل کر سڑکوں میں گڑھے ڈال دیتی تھیں اور اب ریل سواریوں کو کھینچ کھینچ کر قادیان لاتی ہے، اِسی طرح کسی زمانہ میں جلسہ کے ایام میں تھوڑے تھوڑے وقفہ پر یہ خبریں بھی ملا کریں گی کہ ابھی ابھی فلاں مُلک سے اتنے ہوائی جہاز آئے ہیں۔ یہ باتیں دنیا کی نظروں میں عجیب ہیں مگر خداتعالیٰ کی نظرمیں عجیب نہیں۔ خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے دین کے لئے مکہ اورمدینہ کے بعد قادیان کو مرکز بنانا چاہتا ہے۔ مکہ اور مدینہ وہ دو مقامات ہیں جن سے رسول کریم ﷺ کی ذات کا تعلق ہے۔ آپ اسلام کے بانی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آقا اور استاد ہیں۔ اس لحاظ سے اِن دونوں مقامات کو قادیان پر فضیلت حاصل ہے۔ لیکن مکہ اور مدینہ کے بعد جس مقام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کا مرکز قرار دیا ہے وہ وہی ہے جو رسول کریم ﷺ کے ظل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے اور جو اِس وقت تبلیغ دین کا واحد مرکز ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل مکہ اور مدینہ جو کسی وقت بابرکت مقام ہونے کے علاوہ تبلیغی مرکز بھی تھے آج وہاں کے باشندے اس فرض کو بھلائے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ حالت ہمیشہ نہیں رہے گی۔ مجھے یقین ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان علاقوں میں احمدیت کو قائم کرے گا تو پھر یہ مقدس مقامات اپنی اصل شان و شوکت کی طرف لَوٹائے جائیں گے اور پھر یہ تعلیمِ اسلام اور تبلیغ کا مرکز بنائے جائیں گے۔ اور جب بھی احمدیوں کی طاقت کا وقت آئے گا اُن کا پہلا فرض ہے کہ ان پاک شہروں کو ان کا کھویا ہوا حق واپس دینے کی تدبیر کریں اور ان کی اصلی شان کو واپس لائیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے ان کو دی گئی ہے۔ لیکن جب تک وہ دن نہیں آتا اُس وقت تک محض قادیان ہی تبلیغ و اشاعت دین کا مرکز ہے۔ مکہ ہماری عبادت کا مرکز ہے۔ مکہ ہماری محبت اولیٰ کا مرکز ہے ا ورمدینہ بھی ہمارے بہت سے تبرکات اورمحبت اولیٰ کا مرکز ہے مگر افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں نے اِس زمانہ میں اس عظیم الشان فرض کو بُھلا دیا ہے جس کے لئے مکہ اور مدینہ کے مرکز خداتعالیٰ نے قائم کئے تھے اور وہ فرض اِس وقت قادیان سے ادا ہورہا ہے یعنی دنیا میں تبلیغِ اسلام اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی اشاعت کا فرض۔ لیکن وہ دن دور نہیں گو ہمارے خیالات اور واہمہ سے دور ہو مگر خداتعالیٰ کے فیصلہ کے لحاظ سے دور نہیں کہ پھر یہ دونوں مرکز نہ صرف عبادت یا محبت کامرکز ہوں بلکہ تبلیغ اور اشاعت دین کے بھی مرکز ہوں۔
غرض رسول کریم ﷺ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے جو عبادت کا مرکز قائم کیا وہ مکہ ہے اور مدینہ ہماری محبت اولیٰ کا مرکز ہے مگر تبلیغ اور اشاعت دین کے لحاظ سے اس وقت دنیا میں ایک ہی مرکز ہے جو قادیان ہے اور اِس سے وابستگی ہر مومن کے لئے ضروری ہے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا کے گوشوں گوشوں سے ہوائی جہازوں کے ذریعہ یا بعض اور سواریوں کے ذریعہ سے جو ابھی ہمیں معلوم بھی نہ ہوں لوگ قادیان آئیں گے اور ساری دنیا کی احمدی جماعتیں اُس وقت قادیان میں اکٹھی ہوں گی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بعینہٖ وہ سارے الہامات ہوئے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مکہ کے قیام کے وقت ہوئے تھے۔ مثلا ًآپ کو الہام ہوا
یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔
(تذکرہ صفحہ 201۔ایڈیشن چہارم)
پھر الہام ہوا
یَأتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔
(تذکرہ صفحہ297۔ ایڈیشن چہارم)
یعنی خداتعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت ہر ایک دور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ راستے لوگوں کے بہت چلنے کی وجہ سے گہرے ہوجائیں گے۔ اسی طرح اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خبر دی گئی تھی کہ
یَأتُوْکَ رِجَالاً وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ (الحج:28)
یہ الہام بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوا اور آپ کو بتایا گیا کہ ہرقسم کی اونٹنی پر سوار ہوکر لوگ یہاں آئیں گے۔ مگر اس جگہ ہرقسم کی اونٹنی سے مراد اونٹنیاں نہیں بلکہ ہرقسم کی سواری مراد ہے۔ پس ہماری جماعت کو یہ مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور جلسہ سالانہ کے موقع پر نہ صرف خود آنا چاہئے بلکہ اپنے ہمسایوں، اپنے عزیزوں اور اپنے د وستوں کو بھی ساتھ لانا چاہئے۔ مگر اس کے ساتھ یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان ایام میں بے احتیاطیاں دل کو زیادہ سخت کر دیا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے مقدس مقامات کا احترام کرانا چاہتا ہے اور ہر شخص جو ان مقامات کا احترام نہیں کرتا اُس کی سرزنش کا مستحق ہوتا ہے۔ جس طرح قادیان میں جلسہ سالانہ کے موقع پر آنا برکات کا موجب ہوتا ہے اسی طرح یہاں آنا اور پھر اپنے اوقات کا حرج کرنا اور انہیں علمی باتوں کے سننے میں صرف کرنے یا مقدس مقامات کی زیارت کرنے کی بجائے رائیگاں کھودینا دل پر زنگ لگادیتا ہے۔
پس دوستوں کو چاہئے کہ جب وہ جلسے پر آئیں تو یہ اقرار کرکے آیا کریں کہ ہم محض رسم پوری کرنے نہیں چلے بلکہ ہم وہاں خدا کا ذکر کریں گے۔ جب جماعت میں بیٹھیں گے تب بھی اس کا ذکر کریں گے اورجب علیحدہ ہوں گے تب بھی اس کا ذکر کریں گے۔ جماعتی ذکر ہمیشہ مجلس میں ہوتا ہے۔ انسان باتیں سنتا ہے تو نصیحت حاصل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف اس کے قلب کا میلان ہوجاتا ہے۔ لیکن انفرادی ذکر الگ الگ ہوتا ہے۔ دنیا میں چونکہ بعض طبائع ایسی ہیں جو اُس وقت ذکر کی طرف توجہ قائم رکھ سکتی ہیں جب خود ذکر میں شامل ہوں اور بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں سے ذکر سُنیں تو ذکر میں مشغول ہوجاتی ہیں نہ سُنیں تو وہ بھی ذکر چھوڑ بیٹھتی ہیں۔ اس لئے جماعتی اور انفرادی دونوں ذکر انسانی اصلاح کے لئے ضروری ہیں اور ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے نمازوں میں جمع کردیا ہے۔ دیکھو ظہر اور عصر میں اِس طرح نماز پڑھی جاتی ہے کہ ہر شخص اپنا اپنا ذکر کررہا ہوتا ہے۔ امام خاموشی سے اپنے طور پر ذکرکررہا ہوتا ہے اور مقتدی اپنے طور پر۔ پھر جب خاموش طور پر دُعا کی جاتی ہے تو ہر ایک کی دعا الگ الگ ہوتی ہے لیکن مغرب، عشاء اور فجر کے وقت اللہ تعالیٰ نے یہ طریق مقرر کردیا کہ جب امام سورئہ فاتحہ پڑھے تو تم بھی سورئہ فاتحہ پڑھو۔ مگرجب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو۔ غرض قرآن کریم کے سننے میں ہم امام کے تابع ہوتے ہیں اور سورئہ فاتحہ میں بھی ہم اس رنگ میں اس لئے تابع ہوتے ہیں کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایاکہ جب ملائکہ اور نمازیوں کی آمین ایک ہو جائے تو اُس وقت دعا قبول ہوجاتی ہے۔(بخاری کتاب الاذان باب جھر الامام بالتامین) اب ہمیں کیا پتہ ہوسکتا ہے کہ ملائکہ اور نمازیوں کی آمین ایک ہوئی ہے یا نہیں اور اگر ہوئی ہے تو کس وقت؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ ملائکہ کی آمین تابع ہوتی ہے امام کی آمین کے اور اس حدیث میں رسول کریم ﷺ نے جس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ امام کے ساتھ چلتے ہیں اُنہی کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
پھر دعائیں ہیں۔ شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ امام نماز میں بلند آواز دعائیں مانگے اور مقتدی آمین کہیں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ بعض دفعہ مہینوں اس رنگ میں دعائیں کرتے تھے تو نماز میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا طریق رکھا ہے کہ بعض جگہ لوگوں کو کلیۃً امام کے تابع کردیا ہے۔ امام کہتا ہے اَللّٰہُ اَکْبَرُ اور مقتدی بھی کہتا ہے اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ امام رکوع میں جاتا ہے تو مقتدی بھی رکوع میں چلا جاتا ہے۔ امام سجدہ میں جاتا ہے تو مقتدی بھی سجدہ میں جھک جاتا ہے۔ لیکن جو خاموشی کا حصہ ہوتا ہے اس میں ہر شخص آزاد ہوتا ہے اور ہمیں نظر آتا ہوتا ہے کہ مقتدی کچھ کہہ رہا ہوتا ہے اور امام کچھ۔ تو دونوں قسم کی عبادتیں خدا تعالیٰ نے نمازمیں رکھ دی ہیں۔ ایسی بھی جن میں اسے حکم ہے کہ امام کے ساتھ ساتھ چلے اور ایسی بھی جو مستقل ہیں اور جن میں اپنے طور پر جو جی چاہے وہ اللہ تعالیٰ سے مانگ سکتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے دونوں طبائع کا علاج کردیا ہے۔ اُن کا بھی جو دوسروں کو ذکر میں مشغول دیکھ کر ذکر کرنے کی عادی ہوتی ہیں اور ان کا بھی جنہیں اُس وقت عبادت میں لذت آتی ہے جب وہ علیحدہ ہوں۔ چنانچہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں مجلس میں دعا کرتے وقت رقت آتی ہی نہیں مگر بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جونہی وہ کسی کی چیخ سنتے ہیں ان کی بھی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ پہلے انہیں جوش نہیں آتا لیکن دوسرے کا جوشِ گر یہ دیکھ کر بے اختیار خود بھی رو پڑتے ہیں۔ یہ کوئی بُری بات نہیں مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ ایک عادت ہے جو بعض لوگوں کو ہوتی ہے اور انہی لوگوں کے لئے خداتعالیٰ نے نماز کا ایک حصہ جہری بھی رکھا ہے تا دوسروں کی تاثیر کو دیکھ کر ان میں روحانیت کے حصول کا جوش اور ولولہ پید اہو۔ پس جلسہ سالانہ میں بھی دونوں قسم کی عبادتیں کرنی چاہئیں۔ یعنی دوستوں کو چاہئے کہ جب تک وہ جلسہ گاہ میں رہیں لیکچر سنیں۔ احمدیت کی تعلیم سے واقفیت پید اکریں۔ قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کے ارشادات سے آگاہی حاصل کریں اور جب جلسہ سے فارغ ہوں تو نمازیں پڑھیں، دعائیں کریں، مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کریں اور اُن آدمیوں سے ملیں جن سے مل کر ان کے ایمان کو تقویت حاصل ہو۔ مگر اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور نہ کھیل کود اور لغو کاموں میں اسے رائیگاں جانے دیں۔ ……
تم مت خیال کرو کہ اگر تم جلسہ کے لئے چندہ جمع کردیتے ہو تو تمہیں نیکی میں کمال حاصل ہوجاتا ہے یا تم جلسہ میں لیکچر دے دیتے ہو یا لیکچر سن لیتے ہو تو تم نیکیوں کو پورا کرلیتے ہو یا قادیان میں مکان بنالیتے ہو یا جلسہ والوں کو مکان دے دیتے ہو تو نیکیوں کو پورا کرلیتے ہو یا مہمانوں کی خدمت کرتے ہو تو نیکیوں کو پورا کرلیتے ہو۔ یہ الگ الگ اور انفرادی طور پر جس قدر خدمتیں ہیں ان کا بجالانا بھی ضروری ہے۔ لیکن ان کے علاوہ اور بھی جس قدر خدمتیں ہیں ان سب میں حصہ لینا تمہارے لئے ضروری ہے۔ کیونکہ جو شخص ساری خدمتیں کرتا ہے وہی جلسہ سالانہ کے سارے انعامات کا مستحق بنتا ہے۔ اور یہ صرف جلسہ کی ہی بات نہیں دین کی ہر بات میں یہی فرض انسان پر عائد ہوتا ہے۔ انسان کو حکم ہے کہ وہ نما زبھی پڑھے، وہ فرضی روزے بھی رکھے، وہ نفلی روزے بھی رکھی، وہ فرضی زکوٰۃ بھی دے، وہ نفلی صدقہ و خیرات بھی دے۔ وہ بنی نوع انسان کی خدمت بھی کرے، خواہ وہ خدمت لسانی ہو یا مالی ہو یا جسمانی ہو۔ غرض ہر رنگ میں جب وہ اپنے آپ کو خدمت دین کے راستہ پر ڈال دے تبھی اس کا دین کامل ہوسکتا ہے اور تبھی ہر رنگ میں وہ انعام کا مستحق ہوتا ہے۔ اور یہی جنت کے ہر دروازہ سے داخل ہونا ہے جو فخر کے قابل ہے اور جس سے ہر مومن اپنے اپنے ایمان اور اپنے اپنے عرفان کے مطابق حصہ لے سکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے دروازہ سے ہر شخص داخل نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر کوئی حضرت ابوبکرؓ کے قدم پر قدم مارسکتا ہے تو خداتعالیٰ اس کو بھی وہ انعام دینے کے لئے تیار ہے جو اس نے حضرت ابوبکرؓ کے لئے تیار کیا۔ اور اگر کوئی حضرت عمرؓ کے قدم پر قدم مارسکتا ہے تو خداتعالیٰ اُس کو بھی وہ انعام دینے کے لئے تیار ہے جو اس نے حضرت عمرؓ کو دیا۔ لیکن جو ان کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا وہ ان سے اُتر کر اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلے۔ لیکن بہرحال کوشش کرے کہ اس میں ہرقسم کی نیکیاں پیدا ہو جائیں۔ یہی روحانیت کو محفوظ کردینے والی بات ہوتی ہے ……
صحابہؓ نیکیوں کے حصول کے اتنے دلدادہ تھے کہ ایک دفعہ کوئی جنازہ گزرا تو ایک مجلس میں جہاں چند صحابہؓ بیٹھے ہوئے تھے ایک صحابیؓ کہنے لگے جنازے میں شامل ہونا بڑے ثواب کا کام ہے میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہوا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کے جنازے میں شامل ہوتا ہے اور پھر اس سے جدا نہیں ہوتا جب تک اسے دفن نہ کردیا جائے، اسے احد کے پہاڑ کے برابر ثواب ملتا ہے۔ باقی صحابہؓ یہ روایت سن کر کہنے لگے نیک بخت تو نے یہ بات ہمیں پہلے کیوں نہ بتائی۔ معلوم نہیں ہم اب تک کتنے احد کے پہاڑ جیسے ثواب ضائع کرچکے ہیں۔
(بخاری کتاب الجنائز باب فضل اتباع الجنائز)
تو نیکی کو ہر رنگ میں لینے کی کوشش کرنا اور نیکیوں کے حصول کی جستجو کرنا اسی کا نام تصوف، اسی کا نام بزرگی اور اسی کا نام روحانیت ہے۔ تم ہزاروں کتابیں تصوف پر پڑھ جائو، تم ہزاروں کتابیں روحانیت کا سبق سکھانے والی اپنے مطالعہ میں لے آئو تمہیں اس سے زیادہ ان میں اور کوئی چیز نظر نہیں آئے گی۔ یہ خلاصہ ہے تمام روحانیات کا( اور باقی جو کچھ ہے وہ اس کی تفصیلات ہیں) کہ انسان کے دل میں خداتعالیٰ کی ایسی محبت پید اہوجائے کہ اس کے دل میں ہر وقت یہ آگ سی لگی رہے کہ مجھے نئے سے نئے طریقے نیکیوں کے حصول کے ملتے جائیں جن کے ذریعہ میں اس سے اپنا تعلق وسیع سے وسیع تر کرتا چلا جائوں۔ یہی خواہش ہے جو انسان کے دل میں جس وقت پیدا ہوجاتی ہے اس میں روحانیت بھی ترقی کرنے لگ جاتی ہے۔ پس بچے بھی اور نوجوان بھی اور بوڑھے بھی اور اُدھیڑ عمر کے لوگ بھی، جو بھی کوشش کریں اپنے اپنے ظرف، اپنے اپنے مجاہدہ اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کے فضلوں سے حصہ لے سکتے ہیں اور جلسہ سالانہ کے ایام چونکہ خصوصیت کے ساتھ برکات اور انوار کے نزول کے دن ہیں اس لئے احباب کو چاہئے کہ وہ ان ایام کی برکات سے مستفید ہونے کی پوری کوشش کریں۔ میں بات تو ایک اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر چونکہ یہی بات لمبی ہوگئی ہے اس لئے آج کا خطبہ اسی پر ختم کرتا ہوں۔
(خطبات محمود جلد18صفحہ 615تا635)
٭…٭…٭