متفرق مضامین

جلسہ سالانہ کی تاریخ سے چند ایمان افروز واقعات

(امۃ الباری ناصر)
جلسہ سالانہ قادیان (دسمبر 1929ء)

جلسہ سالانہ پر مہمانوں کے لیے سرمائی بستروں کی کمی تھی۔ نبی بخش نمبر دار نے حضرت اقدس علیہ السلام سے بستر منگواکر مہمانوں کو دیے۔ ان بستروں میں حضرت اقدس علیہ السلام کا بستر بھی چلا گیا۔ حضور کے لیے ایک اور بستر منگوایا گیا۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایا یہ کسی دوست کو دے دو۔ میرا کیا ہے مجھے تو اکثر رات کو نیند نہیں آتی۔ سردی کی وہ رات حضور نے اس طرح گزاری کہ ایک صاحبزادہ پر، جو غالباً حضرت مصلح موعودؓ تھے، ایک شتری چوغہ اڑھایا ہوا تھا، اور خود حضور بغلوں میں ہاتھ دیے بیٹھے تھے اور اس طرح وہ رات گزر گئی۔

(مضامین مظہر صفحہ 9)

آپ مسکرا رہے تھے

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’ایک دن آپ(حضرت مسیح موعوؑد۔ ناقل)نے ہماری والدہ سے فرمایا کہ اب تو روپیہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی میرا خیال ہے کہ کسی سے قرض لے لیا جائے کیونکہ اب اخراجات کے لیے کوئی روپیہ پاس نہیں رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ ظہر کی نماز کے لیے تشریف لے گئے جب واپس آئے تو اس وقت مسکرارہے تھے واپس آنے کے بعد پہلے آپ کمرہ میں تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے اور والدہ سے فرمایا کہ انسان باوجود خداتعالیٰ کے متواتر نشان دیکھنے کے بعد بعض دفعہ بدظنی سے کام لیتا ہے۔ میں نے خیال کیا تھا کہ لنگر کے لیے روپیہ نہیں اب کہیں سے قرض لینا پڑے گا مگر جب میں نماز کے لیے گیا تو ایک شخص نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ آگے بڑھا اور اُس نے ایک پوٹلی میرےہاتھ میں دے دی میں اس کی حالت کو دیکھ کر سمجھا کہ اس میں کچھ پیسے ہوں گے مگر جب گھر آکر اُسے کھولا تو اس میں سے کوئی سو روپیہ نکل آیا۔ ‘‘ (تفسیرکبیرجلد9صفحہ341)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ

’’والدہ صاحبہ نے فرمایا شروع میں سب لوگ لنگر سے ہی کھانا کھاتے تھے خواہ مہمان ہوں یا یہاں مقیم ہوچکے ہوں مقیم لوگ بعض اوقات اپنے پسند کی کوئی خاص چیز اپنے گھروں میں پکالیتے تھے مگر حضرت صاحب کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ اگر ہو سکے تو ایسی چیزیں بھی ان کے لیے آپ ہی کی طرف سے تیار ہوکر جاویں اور آپ کی خواہش رہتی تھی کہ جو شخص جس قسم کے کھانے کا عادی ہو اس کو اسی قسم کا کھانا دیا جاسکے۔ ‘‘

(سیرۃ حضرت اماں جانؓ صفحہ 676)

جن کا خیال و گمان نہ تھا

’’ایک دفعہ مارچ 1905ء کےمہینے میں بوجہ قلت آمدنی لنگر خانہ کے مصارف میں بہت دقّت ہوئی کیونکہ کثرت سے مہمانوں کی آمد تھی اور اس کے مقابل پر روپیہ کی آمدنی کم۔ اس لئے دعا کی گئی۔ 5مارچ1905ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا۔ میرے سامنے آیا اور اُس نے بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا۔ میں نے اس کا نام پوچھا۔ اس نے کہا نام کچھ نہیں۔ میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہو گا۔ اُس نے کہا میرا نام ہے ٹیچی ٹیچی۔ ٹیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں یعنی عین ضرورت کے وقت کام آنے والا تب میری آنکھ کُھل گئی۔ بعد اس کے خداتعالیٰ کی طرف سے کیا ڈاک کے ذریعے سے اور کیا براہِ راست لوگوں کے ہاتھوں سے اس قدر مالی فتوحات ہوئیں جن کا خیال و گمان نہ تھا۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن، جلد22صفحہ346)

جماعت کی ترقی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1907ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر باہر سیر کے لیے تشریف لے گئے تو جلسہ پر آنے والے مہمان بھی آپ کے ساتھ چل پڑے۔ رستہ میں لوگوں کے پاؤں کی ٹھوکریں لگنے کی وجہ سے آپ کی جوتی باربار اُترجاتی اور کوئی مخلص آگے بڑھ کر آپ کو جوتی پہنا دیتا جب باربار ایسا ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہوگئے اور آپ نے فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ اب ہماری زندگی ختم ہونے کے قریب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جو ترقی مقدر کی ہے وہ اُ س نے ہمیں دکھا دی ہے۔

(افتتاحی خطاب حضرت مصلح موعودؓ برموقع جلسہ سالانہ مطبوعہ الفضل 8؍دسمبر1958ء)

بنفسِ نفیس

’’میری آنکھ نے پھر ایک حیرت افزاء چیز دیکھی جو کانوں کے ذریعے پیش ہوئی تھی۔ حضرت اماں جانؓ بہ نفسِ نفیس لنگر خانہ میں تشریف لے جاتی ہیں اور وہاں کے انتظامات کو دیکھتی ہیں اور اپنی تسلّی کرتی ہیں پھر اپنے ذاتی اخراجات سے ایک پلاؤ کی دیگ مہمان خواتین کے لیے تیار کرواتی ہیں۔ سوال پلاؤ کی ایک دیگ کا نہیں اکرامِ ضیف کے اس وصف کا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجیت کے ساتھ آپ کو ملا۔ مہمانوں کی خاطر تواضع کے متعلق حضرت اماں جانؓ کی سیرۃ کا باب بہت وسیع اور اس کی شاندار مثالیں بے شمار ہیں …پھر یہی نہیں آپ اسٹیشن پر تشریف لے جاتی ہیں اور اپنی موٹر کو اس وقت مہمان عورتوں کو شہر لے جانے کے لیے پیش کردیتی ہیں اور خود اسٹیشن پر کھڑی رہتی ہیں۔ ‘‘

(نوٹ: از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ الحکم 14؍جنوری1934ء)

جو دوڑ رہے ہیں

’’ایک دفعہ قادیان جلسے کے موقع پر گیا ہواتھا۔ آپؓ (حضرت مصلح موعودؓ۔ ناقل) جلسہ گاہ سے آکر نماز مغرب و عشاء مسجد مبارک میں پڑھا کرتےتھے۔ جب آپ نماز پڑھا نے کےلیے تشریف لائے تو آپ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا آج میں جلسہ گاہ میں جانے کے لیے موٹر میں سوار ہو کر سڑک کے راستے جارہا تھا اور لوگ مولوی شیر علی صاحب کے مکان اور شفا خانہ نورکے پاس پگڈنڈی کے راستے جارہے تھے میری موٹر کی آواز سُن کر پگڈنڈی پر جانے والے لوگوں میں سے کچھ لوگ دوڑنے لگے تا جلدی سے جلسہ گاہ پہنچ جائیں۔ میں نے اُن کی طرف دیکھ کر دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے کہ اے خدا! جو لوگ دوڑ رہے ہیں تیرا فضل بھی اُن پر دوڑ کر آوے۔ لیکن الٰہی تصرف عجیب رنگ میں ظاہر ہوا کہ دوڑنے والوں میں سے بعض لوگ ہلکے چلنے لگ گئے اور ہلکے چلنے والوں میں سے بعض لوگ دوڑنے لگ گئے۔ ‘‘

(تجلّی قدرت از الحاج مولوی قدرت اللہ سنوری صفحہ 138اندازاً 1925ء کا واقعہ)

میری مریم

حضرت مصلح موعودؓ اپنے ایک مضمون ’’میری مریم‘‘ میں حضرت سیّدہ اُمِّ طاہر صاحبہ مرحومہ کا محبت بھرا ذکر فرماتے ہوئے ان کے نمایاں وصفِ مہمان نوازی کو بایں الفاظ خراج تحسین پیش فرماتے ہیں :

’’مہمان نواز انتہا درجہ کی تھیں ہر ایک کو اپنے گھر میں جگہ دینے کی کوشش کرتیں اور حتی الوسع جلسہ کے موقع پر گھر میں ٹھہرنے والے مہمانوں کا لنگر سے کھانا نہ منگواتیں خود تکلیف اُٹھاتیں۔ بچوں کو تکلیف دیتیں لیکن مہمان کو خوش کرنے کی کوشش کرتیں۔ بعض دفعہ اپنے پر اس قدر بوجھ لادلیتیں کہ میں بھی خفا ہوتا کہ آخر لنگر خانہ کا عملہ اسی غرض کے لیے ہے تم کیوں اس قدر تکلیف میں اپنے آپ کو ڈال کر اپنی صحت برباد کرتی ہو آخر تمہاری بیماری کی تکلیف مجھے ہی اُٹھانی پڑتی ہے مگر اس بارہ میں کسی نصیحت کا ان پر اثر نہ ہوتا۔ کاش اب جبکہ وہ اپنے ربّ کی مہمان ہیں ان کی یہ مہمان نوازیاں اُن کے کام آجائیں اور وہ کریم میزبان اس وادئ غربت میں بھٹکنے والی روح کو اپنی جنت الفردوس میں مہمان کرکے لے جائے۔ ‘‘

(الفضل 12؍جولائی1944ء)

’’جلسوں پر بھی وہی ہماری میزبان ہوتی تھیں۔ حالانکہ جلسہ سالانہ پر ان کی مصروفیات کا جو عالم ہوتا تھا اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صبح کا ناشتہ وہ جلسہ گاہ پر جاتے ہوئے راستہ میں کرتی تھیں۔ جلسہ سالانہ پر دارالمسیح کے اندر اور باہر یعنی پورے قادیان میں مہمان ہوتے تھے مگر موصوفہ کی مہمان نوازی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ ہر شخص سمجھتا تھا کہ ان کی تمام تر توجہ و عنایات کا واحد مرکز صرف اس کی ذات ہے جلسہ گاہ کا انتظام ان کی پُر جوش اور دبنگ آواز کا مرہونِ منت ہوتا تھا ورنہ گاؤں سے جمع شدہ مجمع کو سنبھالنا آسان امر نہیں۔ ‘‘

(روایت از محترمہ بیگم صاحبہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین سکندر آباد۔دکن) (سیرۃ اُمِ طاہر صفحہ 113)

ایک بابرکت رؤیا

’’غالباً 1919ء کی بات ہے کہ میں جلسہ سالانہ کی تقریب پر قادیان پہنچا رات کو میں نے رؤیا دیکھی کہ میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے گھر میں رہتا ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قیام گاہ بھی دارالمسیح ہی ہے اس وقت حضرت ابراہیمؑ نے مجھے ایک ڈبیہ جو خالص مشک سے بھری ہوئی تھی عطا فرمائی میں نے اس میں سے کچھ مشک کھالی اور پھر اس ڈبیہ کو جیب میں ڈال لیا۔ یہ مشک بہت ہی عمدہ اور خوش ذائقہ تھی اس کے بعد میں حضرت ابراہیمؑ کے سامنے آیت

اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا

پڑھ کر عرض کرتا ہوں کہ منصب امامت کا عطا کرنا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس وقت جب میں نے زیادہ توجہ سے دیکھا تو حضرت ابراہیمؑ کی جگہ سیّدنا محمود ایدہ للہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نظر آئے۔ دوسرے دن جلسہ سالانہ میں حضرت سیّدنا خلیفۃ المسیح الثانی [رضی اللہ تعالیٰ عنہ] کا پُر معارف لیکچر جو’’عرفانِ الٰہی‘‘ کے موضوع پر تھا ہوا نماز ظہروعصر کے بعد حضور کا لیکچر شروع ہوا اور عشاء کے وقت تک جاری رہا جب تقریر ختم ہوئی تو حضور نے اونچی آواز سے میرا نام لے کر ارشاد فرمایا کہ ’’مولوی غلام رسول راجیکی صاحب نمازِ مغرب و عشاء پڑھائیں لیکن لوگ تھکے ہوئے ہیں۔ اس لئے نماز مختصر پڑھائی جائے‘‘

(روایت از حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ۔ حیاتِ قدسی صفحہ 120)

دُعا میں شرکت

’’جلسہ سالانہ 1950ء کے موقع پر جب آپ نے قافلۂ زائرین کو تکیہ کمال الدین کے پاس ظہر وعصر کی نمازیں پڑھائیں تو آپ نے کشف میں حضرت اقدسؑ کی زیارت کی پھر جب قادیان میں داخل ہو کر حضرت اقدس(حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ ناقل)کے مزار پر قافلۂ درویشاں سمیت آپ نے دعا کرائی تو پھر آپ نے کشف دیکھا کہ حضرت اقدسؑ تشریف لائے ہیں اور حضور کے دستِ مبارک میں ایک طشت پلاؤ کاہے اور حضور نے وہ طشت آپ کو پکڑا دیا اسی طرح اس جلسہ سالانہ میں مسجد اقصیٰ میں آپ دُعا کررہے تھے تو پھر آپ پر کشفی حالت طاری ہوگئی آپ نے دیکھا کہ حضرت اقدسؑ بھی دعا میں شریک ہوئے ہیں۔ ‘‘

(اصحابِ احمد جلد ہشتم صفحہ 43)

وہ چاند سے مکھڑے والا

’’میرے دل نے خواہش کی کہ حضور سیّدنا مسیح پاک کو دُور سے تو دیکھ لیا ہے مگر نزدیک بیٹھ کر دیکھنے کا موقع مل جائے تو کیا ہی خوش قسمتی ہے ابھی اس خیال ہی میں مسجد اقصیٰ کے آخری حصہ میں نماز جمعہ کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ وہ چاند سے مکھڑے والا خوشبو سے معطّر دلبر آتا ہے اور عین میرے اور میرے بھائی حافظ ملک محمد صاحب کے سامنے بیٹھ جاتا ہے اور میں شکر مولیٰ میں لگ جاتا اور حیرت میں پڑ جاتا ہوں کہ یہ ناچیز بندہ اور یہ انعام الٰہی یہ میرے دل کی خواہش تھی یا بجلی کی تار تھی کہ جس نے بندہ نواز کے دل پر اثر کیا اور بندہ کے پاس لا بٹھایا مجھے اس جلسہ (1907ء) میں حضرت اقدسؑ کی دونوں روز دونوں تقاریر سننے کا موقع ملتا ہے۔ ایک روز حضور سیر کے لیے قصبہ سے باہر تشریف لے جاتے ہیں اور بالارادہ بڑے بازار میں سے اپنے گرد بھیڑ سمیت باہر چلے جاتے ہیں تاکہ قادیان کے ہندو ساکنین کو یہ نظارہ دکھلایاجائے کہ یہ چھوٹا سا گاؤں اور یہ جم غفیر اور یاد کرایا جائے کہ حضور کا الہام یَأ تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کیسی صداقت کے ساتھ پورا کیا ہے۔ ‘‘

(روایت از ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب، اصحابِ احمد جلد ہشتم صفحہ 101)

شہادت کی انگلی کی شہادت

جلسہ سالانہ 1908ءسے چار پانچ روز پہلے حضرت حافظ حامد علی صاحب، منشی امام الدین پٹواری صاحب کے پاس آئے اور حضرت میاں صاحب(حضرت مصلح موعودؓ ) کا پیغام دیا کہ جلسہ سالانہ کے لیے لکڑی کا انتظام کریں۔

منشی صاحب کی طبیعت بہت جوشیلی تھی فوراً لکڑی کے انتظام میں مشغول ہوگئے۔ اور تین چار دن میں حسبِ ضرورت لکڑی بھجوادی۔ سارا سارا دن خود کھڑے رہ کر لکڑی کٹواتے اور گڈوں پر لدوا کر قادیان بھیجتے۔ خود بڑھئیوں کے ساتھ لکڑی کٹوانے میں مدد دے رہے تھے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی اُنگلی کٹ گئی اپنی اولاد کو یہ سارا واقعہ سُنا کر خوش ہوا کرتے تھے بعد ازاں مستقل طورپر قادیان میں رہائش اختیار کرنے کے بعد کئی سال تک جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ بطور افسر دیگ بیرون قصبہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔

(روایت از ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب، اصحابِ احمد، جلد ہشتم، صفحہ 102)

قیمتی تحفہ

’’میں اپنے کمرے میں تنہا لیٹا ہوا تھا۔ بانی صاحب کے دو فرزند نصیر احمد بانی و شریف احمد بانی کمرے میں داخل ہوئے اور میرے ہاتھ میں ایک پیکٹ دیتے ہوئے کہا کہ ابا جان نے قادیان سے آپ کے لیے تحفہ لایا ہے۔ کھول کر دیکھا تو خشک روٹی کے ٹکڑے تھے اور گُڑ تھا۔ بانی صاحب نے یہ روٹیاں مہمان خانے سے لی تھیں اور گُڑ کسی غریب درویش بھائی سے خریدا تھا۔ ذرا تصور فرمائیے مرحوم کو دیارِ مسیح سے کیسی عقیدت تھی اور آپ سمجھتے تھے کہ ایک احمدی کو حضرت مسیح موعودؑ کے لنگر کی روٹی سے زیادہ قیمتی تحفہ اور کیا دیا جاسکتا ہے۔ ‘‘

(تحریر مکرم نور عالم صاحب ایم۔ اے، امیر جماعت احمدیہ کلکتہ)

روٹی کی لذّت

’’کئی شاید سمجھتے ہوں کہ اتنی لذّت نہیں ملتی جتنی ان کی گھر کی روٹی میں ملتی ہے لیکن ہمیں تو بہت لذّت آتی ہے…سب سے زیادہ مزے دار روٹی جو میں نے عمر میں کھائی ہے وہ تازہ گرم گرم تنوری روٹی تھی جو جلسہ سالانہ کے تنور سے نکلی اور میں نے بغیر سالن کے کھالی اور ساتھ پانی پی لیا۔ بہت سے کھانے میں نے کھائے ہیں۔ اب بھی اس روٹی کی لذّت دل میں سرور پیدا کرتی ہے حالانکہ اس وقت نہ جلسہ ہورہا ہے اور نہ وہ تنور چل رہا ہے۔ ‘‘

(خطبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرمودہ 28نومبر1975ء)

روٹی کے ٹکڑے

جناب شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ لاہور حضرت میرمحمد اسحٰق صاحبؓ کے متعلق رقم طراز ہیں :

’’ایک دفعہ کا واقعہ ہے لنگر خانہ میں روٹی ختم ہوچکی تھی۔ اور سیالکوٹ کے کسی معزّز زمیندار نے کھانا کھانا تھا اس نے آپ کے پاس شکایت کی کہ روٹی ختم ہوچکی ہے۔ اور مجھے بھوک لگی ہوئی ہے۔ آپ اُسی وقت اس کے ساتھ لنگر خانہ تشریف لے گئے۔ کھانے کی میز پر کافی تعداد میں بکھرے ہوئے بچے کھچے ٹکڑے پڑے تھے ان کو دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ چودھری صاحب! کھانا تو موجود ہے۔ آئیے میں اور آپ دونوں کھائیں۔ چنانچہ آپ نے بعض ٹکڑے اکٹھے کرلیے اور پہلے خود کھانا شروع کردیئے سالن تو موجود تھا ہی روٹی کے قائم مقام ٹکڑے جمع ہوگئے۔ آپ کو دیکھ کر اس معزز مہمان نے بھی وہ ٹکڑے کھانا شروع کردیئے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ و عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ۔ ‘‘

(الفرقان ستمبر۔ اکتوبر1961ءصفحہ66تا67)

قوم کے خادم

میاں اللہ دتہ صاحب سپاہی پنشنر سیالکوٹ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کا واقعہ بیان کرتے ہیں :

’’مَیں ملازمت کی حالت میں ایک دفعہ قادیان جلسہ دیکھنے آیا۔ میں رات کے کسی حصہ میں قادیان پہنچا تھا۔ میں اس وقت ناصر آباد میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ صبح کا وقت تھا کہ میں دودھ لینے کے لیے شہر میں گیا۔ راستہ میں کیا دیکھا کہ احمدیہ اسکول کے پاس حضرت میر صاحب مجھے ملے اور میں نے السلام علیکم کہا۔ آپ کا گلا بیٹھا ہوا تھا۔ آپ نے السلام علیکم کا جواب دیا اور اشارے سے فرمایا۔ میاں اللہ دتہ آؤ میرے ساتھ۔ میں اُن کے ساتھ سٹورمیں گیا۔ آپ نے 5,4لوٹے اپنے دونوں ہاتھوں میں اُٹھا لیے، میں نے بھی لوٹوں کا ایک ٹوکرہ سر پر اُٹھالیا۔ جہاں تک میرا خیال ہے آپ افسر جلسہ تھے۔ آگے آگے آپ جارہے تھے پیچھے پیچھے میں جارہا تھا۔ ہم احمدیہ اسکول پہنچے اور لوٹے وضو کرنے کی جگہ پر رکھ دیئے۔ اس طرح لوگوں کے وضو کرنے کی تکلیف دُور ہوگئی۔ ‘‘ (ستمبر اکتوبر الفرقان 1961ءصفحہ69)

مجھے اب بھی یاد ہے

’’مجھے اب بھی یاد ہے شروع شروع میں جب جامعہ نصرت کے میدان میں جلسہ ہوا کرتا تھا۔ غالبًا حضرت صاحب کی افتتاحی تقریر کے بعد میں باہر نکلا کیونکہ میں افسر جلسہ سالانہ تھا اور مجھے دوسری ڈیوٹیوں پر جانا تھا۔ ایک صاحب جن کو میں ذاتی طورپر جانتا تھا کہ وہ لکھ پتی تھے یا اس سے بھی زیادہ امیر تھے۔ انہوں نے ہاتھ میں ایک بکس پکڑا ہوا تھا اور ساتھ اُن کی بیوی تھی وہ اڈّے کی طرف سے چلے آرہے تھے میں سمجھ گیا کہ یہ تو ابھی پہنچے ہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا:

آپ کے لیے رہائش کی جگہ مقرر ہے؟

کہنے لگے ’’نہیں، اب جا کر تلاش کروں گا۔ ‘‘

میں نے سوچا یہ اب کہاں تلاش کریں گے…میں نے اُن سے کہا، آئیے میں آپ کے لیے کوشش کرتا ہوں۔ میں اپنے گھروں میں ایک جگہ گیا۔ گھر والوں سے پوچھا کوئی کمرہ یا کوئی ڈریسنگ روم خالی ہو مگر پتہ لگا کہ کوئی بھی خالی نہیں۔ پھر ہم دوسرے گھر گئے، حتّٰی کہ تیسرے گھر میں تلاش کرتے کرتے ایک چھوٹا سا غسل خانہ ٹائپ کمرہ تھا جس میں گھر والوں کی کچھ چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ میں نے کہا: کیا یہ کمرہ آپ کے لیے ٹھیک ہے؟کہنے لگے بڑا اچھا ہے، الحمد للہ، ہم اس میں بڑے آرام سے رہیں گے۔ میں نے وہ کمرہ خالی کروایا۔ دبّ (دبّ دراصل بوجوں والی گھاس ہوتی تھی جو کاٹ کر بچھاتے تھے اور جو تکلیف دہ ہوتی تھی پھر جلسہ سالانہ کے مہمانوں کو آرام پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زمین کو کہا یہاں چاول اُگا ورنہ پہلے تو یہاں چاول نہیں ہوتا تھا۔ ) کی ایک پنڈ منگوائی اور وہاں ڈلوادی۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ مطبوعہ الفضل 15؍دسمبر1980ء)

صرف امام کے لیے

’’پچھلے سال آنے والوں میں سے ایک شخص نے مجھ سے ایک بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ کہتے ہیں میں برٹش ایمبیسی اسلام آباد(پاکستان) میں بیٹھا ہوا تھا اور امیگریشن کا آفیسر ایک بوڑھی عورت کے ساتھ انٹرویو لے رہا تھا جو کہ تعلیم یافتہ بھی معلوم نہیں ہوتی تھی معمر عورت تھی سادہ سی غریب سی جب اس نے بہت سے سوال کیے اور ویزا دینے لگا تو اچانک اس کو خیال آیا کہ اس سے پوچھوں کہ اس کا کوئی رشتہ دار تو نہیں کیونکہ وہ کہہ رہی تھی کہ میں تو اپنے امام کو ملنے جارہی ہوں۔ اس نے کہا بی بی تمہارا کوئی رشتہ دار بھی وہاں ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں میرا ایک بیٹاہے فلاں جگہ رہتا ہے تو اسی وقت امیگریشن افسر کے کان کھڑے ہوئے اور اس نے کہا کہ یہ تو بہانہ بنا رہی ہے۔ اپنے بیٹے کے پاس ٹھہرنے کے لیے اور وہاں نیشنیلٹی لینے کے لیے جارہی ہو گی۔ یہ بدظنی اس کے دل میں پیدا ہوئی تو اس نے کہا کہ اچھا یہ کیوں نہیں کہتی۔ امام امام کیوں کہہ رہی ہو یہ کیوں نہیں کہتی کہ میں اپنے بیٹے سے ملنے جارہی ہوں۔ اس کا جواب سنیئے کہتی ہے۔ دُر فٹے منہ!!اس طرح بے اختیار اس کے منہ سے دُر فٹے منہ نکلا کہ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔ اس جذبات کی وجہ سے کہتی میرا پُتر تیس سال دا اُوتھے اے۔ میں مُڑ کے اُوس پاسے کدی نظر نہیں کیتی۔ میرا امام اے جیدے لئی میں بے قرار ہوگئی آں کس بیٹے کی بات کہہ رہے ہو۔ 30سال سے میرا بیٹا وہاں ہے میں نے کبھی اس ملک کی طرف نظراُٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔ ہاں جب سے میرا امام گیا ہے میں بے قرار ہو گئی ہوں اور بے چین ہوگئی ہوں۔ ‘‘

(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جلسہ یوکے 1988ء)

سادہ سی ترکیب۔ کامیاب تجربہ

’’چند سال پہلے میں نے گھر میں ایک بڑی اچھی ترکیب دیکھی تھی، بستر بنانے کی، وہ بڑی سادہ سی ترکیب ہے، اگر اُسے اختیار کیا جائے تو وقتی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ انہوں نے پرانی کھاد کی بوریاں دھو کر اس سے غلاف بنالیے اور ان میں پرالی بھرلی اور ان کو اوپر نیچے سے ٹھیک کرکے ایک طرف رکھ لیا اور جب اُن کے مہمان آئے جن کے پاس بستر وغیرہ نہیں تھے تو ان کو اس کی توشکیں دے دیں اور جو زائد توشکیں ہیں وہ اوپر لینے کے کام آجاتی ہیں چنانچہ اس طرح ڈبل بستر بن گئے۔ میں نے جب اُن سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ نہایت ہی کامیاب تجربہ ہے، نرم بھی رہتا ہے اور گرم بھی۔ اس توشک کو دیکھ کر مہمان بہت خوش ہوئے۔ ‘‘

(خطبہ 4؍نومبر1983ء حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مطبوعہ الفضل 26؍نومبر1983ء)

اولاد کے لیے باپ کا گھر

’’یہاں کا جسمانی دسترخوان یعنی لنگر بھی آپ کی خداتعالیٰ کی طرف سے دعوت ہے۔ جو نان فرشتہ آپ کے روحانی باپ کو اس کے اور اس کے درویشوں کے لیے دے گیا ہے۔ اس کی بھی قدر کریں اور ان ایّام میں خصوصًا درویش صفت بنیں گھر آپ کا ہے اولاد کے لیے باپ کا گھر اپنا ہوتا ہے۔ سال بھر کے بعد بچھڑی ہوئی اولاد باپ کے دستر خوان پر جمع ہوتی ہے تو کس قدر خوش ہوتی ہے خواہ اپنے گھر میں کیسی بھی خوشحال ہو۔ خصوصًا بیٹیاں باپ کے گھر روکھی سوکھی بھی ملے تو اس کو نعمت جان کر خوشی سے کھاتی ہیں۔ وہ خوشی اپنے گھر کبھی محسوس نہیں کرسکتیں تو اس کا بھی خیال رہے کہ آپ ہی مہمان ہیں اور آپ ہی میزبان یہ مبارک روٹی آپ کو مسیح موعودؑ ہی کھلارہے ہیں۔ ‘‘

(تقریر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ، جلسہ سالانہ 1961ء)

تبرک

’’یہاں اگر خراب روٹی بھی کبھی ملے تو آپ کے لیے ہزارہا کھانوں سے زیادہ مبارک ہے اور جو اس میں مزہ آپ کو آئے وہ دنیا کی کسی اعلیٰ سے اعلیٰ نعمت میں بھی نہ پائیں۔ اس لنگر کے تو ٹکڑے بھی تبرک ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لنگر کا کھانا بھی اندر گھر میں پکتا تھا اور جلسہ کی روٹی ہمارے صحن میں پکنا تو کئی سال تک مجھے بھی یقینی طورپر یاد ہے۔ اس وقت وہ بھی ایک بہت بڑی رونق نظر آتی تھی پھر اس کو اللہ تعالیٰ نے وسیع سے وسیع تر کیا اور کرے گا۔ اب لنگر کے تنور ایک جگہ کی بجائے کئی جگہ بنتے ہیں اور کئی جگہ سے روٹی تقسیم ہوتی ہے کام بڑھ گیا ہے۔ مگر آپ ہمیشہ وہی تصوّرکریں کہ آپ دارالمسیح موعود کے خاص مہمان ہیں۔ آپ میں سے بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے پورے گھر کا نام ’’دارالامن‘‘ آپ کا رکھا ہوا تھا۔ جیسا کہ مختلف کمروں کے نام بیت الذکر اور بیت الفکر وغیرہ آپ نے سُنے ہوں گے۔ تو جہاں بھی آپ لوگ اس سلسلہ میں جمع ہوں۔ اپنے کو اسی طرح ’’دارالامن‘‘میں سمجھیں اور امن و محبت کو شعار بنائیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے لنگر بہت محبت سے اپنے مہمانوں کے لیے جاری کیا اور اس کا آپ کو بہت خیال رہتا تھا کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگ آئیں۔ اور اس سے آرام پائیں۔ لنگر کا کام قریباً بہت آخر زمانہ تک آپ کے ہاتھ میں ہی تھا۔ مجھے یاد آتے ہیں وہ دن کہ میاں نجم الدین بھیرے والے جو منتظم ہوا کرتے تھے۔ آتے اور بتاتے کہ آٹا ختم ہے یا دوسری چیزیں تو آپ جلدی سے جو رقم موجود ہوتی ان کو دیتے اور فرماتے کہ جائیں اور سامان لیں کہیں مہمان کو تکلیف نہ ہو۔ ایک دفعہ کا خوب یاد ہے مجھے کہ آپ نے جیب اور اپنے رومالوں کی گرہیں کھول کھول روپے پیسے جتنے نکلے میاں نجم الدین کو پکڑادیئے اور فرمایا بس اس وقت یہی نکلا ہے۔ صرف 32روپے کچھ آنے اور کچھ پیسے تھے۔ اب خداتعالیٰ کے فضل سے ہزار ہا پر نوبت پہنچتی ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس کا شکر کریں اور دعائیں کریں کہ تمام روحانی برکات کا سلسلہ جاری ہے۔ اور یہ ظاہری لنگر بھی کہ یہ بھی ایک نشان ہے بڑھتا چلا جائے۔ ‘‘

(حضرت نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ تعالیٰ عنہا تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد سوم صفحہ 124)

ایک نصیحت ایک تنبیہ

مستورات میں مہمان نوازی کے فرائض حضرت اُمّ داؤد صاحبہ 1922ء سے 1951ء تک ادا کرتی رہیں۔ 1952ء کے جلسہ سالانہ پر آپ بیمار تھیں مگر مہمانانِ مسیح کے ساتھ قلبی تعلق کا اندازہ اُن کی اس تحریر سے ہوتا ہے جو باوجود بیماری کے آپ نے کارکنات کے لیے تحریر فرمائی:

’’سب سےپہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے اس جلسہ کو خیر و خوبی سے اختتام تک پہنچایا اور ہمیں مہمانوں کی خدمت عطا کی یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایک لمبے عرصے سے ہم جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کرتے چلے آئے ہیں مجھے وہ دن بھی یاد ہے جبکہ قادیان میں حضرت اماں جانؓ کے مکان کے نچلے حصے میں صرف چند ایک مہمانوں کے سامنے دسترخوان بچھا کر اور قطاریں بنوا کر کھانا کھلوایا کرتے تھے لیکن اب وہی حضرت مسیح موعودؑ کے مہمان ہزار ہا کی گنتی میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کااحسان ہے کہ اس نے اپنے اس کام کے لئے ہمیں نوازا ورنہ دنیا میں کروڑوں کروڑ مخلوق بھری پڑی ہے ہم نہ ہوتے تو کوئی اور لوگ اس کام کو سرانجام دینے والے ہوتے اس شکریہ میں کہ اپنے اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منتخب فرمایا۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ کام نیک نیتی اور اخلاص سے کریں اور آیندہ بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں کام تو اللہ تعالیٰ کا ہے وہ ہو کر رہے گا لیکن اگر ہماری نیتوں میں اخلاص نہ ہوگا اور ہم اس کام کو آیندہ بہتر بنانے کی کوشش نہ کریں گی تو ہم ثواب سے محروم ہوجائیں گی۔ ‘‘

(تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم صفحہ 296)

کایا پلٹ گئی

’’ایک دفعہ لنگر خانہ میں رات کو بارش ہوگئی۔ نانبائی اور پیڑے بنانے والی عورتیں ایک دم اُٹھ کر اندر کو بھاگیں کام رُک گیا۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ میں نے سب خدّام و اطفال، بچوں بوڑھوں بڑوں کو بُلایا اور کہا کہ جس کو جو چیز میسّر آتی ہے وہ اُٹھائے اور ان نانبائیوں کے سر پر چھتری کے طورپر پکڑے رہے بارش اس کو نہ بھگوئے چنانچہ پھر کام شروع ہوگیا اور ساری رات قریباً اسی طرح گزر ی…صبح کو ایک مولوی صاحب مجھے ملے مجھے دیکھتے ہی بھاگ کر مجھ سے لپٹ گئے اور چھوٹتے ہی کہا میں نے بیعت کرلی ہے میں حیران ہوا کہ یہ تو بڑے کٹر اور متعصب قسم کے شخص تھے اور سندھ میں (مخالفین۔ ناقل) کے پیش روؤں میں سے تھے ان کی کایا کیسی پلٹی انہوں نے بتایا کہ جب رات کو بارش ہوئی تو میں یہ دیکھنے آیا کہ دیکھیں اب احمدی کیا کرتے ہیں۔ میں نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ افسر ماتحت کا رکن سب کنالیاں اور پراتیں لے کر نانبائیوں کو بارش سے بچار ہے ہیں۔ یہ نظارہ دیکھ کر میری ایسی کایا پلٹ گئی میں نے کہا میں لازماً بیعت کروں گا۔ میں نےباقی رات بڑی بے چینی سے کاٹی اب صبح بیعت کرکے آرہا ہوں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ۔ مطبوعہ الفضل 2؍دسمبر1982ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button