متفرق مضامین

کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی

(محمد انیس دیالگڑھی۔ مدیر اخبار احمدیہ جرمنی)

دسمبر کا موسم جلسہ کا موسم ہے۔ یہ مہینہ آتے ہی جلسہ کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں اوربےچین کرتی ہیں۔ جب یہ مہینہ آتا ہے تو جلسہ کی مخصوص خوشبو ساتھ لاتا ہے۔ خصوصاً بچپن کی یادیں دل و دماغ پر یوں نقش ہیں کہ بسا اوقات بِن بلائے، گھٹا کی طرح اُمڈی چلی آتی ہیں۔ دل پر بجلیاں کڑکتی ہیں، آہ و فغاں کی آندھی اُٹھتی ہے اور پھر سیلابِ اَشک آتا ہے۔ انسان دل و دماغ کے پردے پر چھائی ان یادوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتا ہے کہ اُس میں اِس روداد کو دُہرانے کی ہمت نہیں۔ مگر یہ یادیں جو خون میں شامل ہیں وہ مجبور کرکے بار بار اس کوچہ میں لے جاتی ہیں کہ’’ہمیں تو ٹھوکریں کھانا مگر جانا‘‘۔

میں نے ذکر کیا کہ دسمبر جلسہ کی خوشبو ساتھ لاتا ہے۔ ہر چیز میں خوشبو تھی۔ پرالی، آب خورے، مٹی کے پیالے، وقارعمل اور مٹی پر پانی کے چھڑکاؤ کی خوشبو، اُس چونے کی خوشبو جس سے دیواروں پر اقوال زرّیں لکھے جاتے تھے۔ مجھےیاد ہے کہ دیگر اشعار کےساتھ ایک جگہ مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے یہ شعر بھی لکھا ہو اتھا کہ

اے باد صبا کچھ تو نے سنا مہمان جو آنے والے ہیں

کلیاں نہ بچھانا رستے میں، ہم آنکھیں بچھانے والے ہیں

مونگ پھلی، چلغوزے، گُڑ اور ریوڑیوں کا موسم، آگ سینکنے کا موسم اور اس آگ کی خوشبو، لنگر کی دال کی خوشبو، آلو گوشت کی خوشبو، تازہ روٹی کی بھینی بھینی خوشبو۔ یہ ساری خوشبوئیں آج بھی سانسوں میں بس رہی ہیں اور دل وجاں معطر کیے ہوئے ہیں۔

پھر ربوہ کا ماحول اذان اور صَلِّ عَلیٰ کی آوازیں اور لوگوں کا نماز کو لپکنا اور دور دور کے مہمانوں کا مسجد مبارک میں خلیفہ وقت کے پیچھے نمازپڑھنے کی سعادت حاصل کرنا، عمارتوں اور دُکانوں پر چراغاں، جگہ جگہ گیٹ بنانے، جن پر ایمان افروز فقرات کے ساتھ ساتھ خوش آمدید اور Welcomeکے الفاظ کا لکھا ہونا۔

بیرکس، چھولداریاں، لاری اڈے اور ریلوے اسٹیشن پر مہمانوں کا استقبال اور خدام کا لپک لپک کر مہمانوں کا سامان اٹھا کر قیام گاہوں تک پہنچانا، اسپیشل بسوں اور ٹرینوں کی آمد پر نعرہ ہائے تکبیر کا غلغلہ، لاؤڈسپیکر پر السلام علیکم، اھلاو سھلاً ومرحبا کی محبت بھری آوازیں اور استقبالیہ نظمیں۔ ڈیوٹی دینے کا شوق، ڈیوٹی چارٹ پر اپنا نام ڈھونڈنا اور انگلی رکھ کر یاروں کو بتاناکہ میرا نام بھی لکھا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میری پہلی ڈیوٹی تصدیق پرچی خوراک کی تھی۔ پھر دارالرحمت غربی کے لنگر خانے میں چند سال ڈیوٹی دی۔ آٹا گندھوائی، روٹی پکوائی، سالن پکوائی، روٹی تقسیم، سالن تقسیم اور لنگر میں آخری ڈیوٹی پہرہ گیٹ کی ڈیوٹی تھی۔ ایک سال رابطہ مستورات میں ڈیوٹی دینے کا موقع ملا۔ پھر خدمت خلق کے شعبہ میں ڈیوٹی مل گئی بعد ازاں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کےحفاظتی موٹر سائیکل گروپ میں ڈیوٹی دینے کی سعادت نصیب ہوئی اور دوسال 1982ء، 1983ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کےحفاظتی موٹر سائیکل گروپ میں بھی ڈیوٹی دینے کا موقع ملا۔ اور پھر جلسہ بند کر دیا گیا، مگر جلسہ کہاں بند ہوا۔ اب وہی جلسہ اتنے ملکوں میں جاری ہے کہ گننامشکل ہے۔

جب لنگر نمبر 2 دارالرحمت غربی میں ڈیوٹی تھی تو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ ناظم لنگر خانہ تھے۔ ان کے آنے سے چہروں پر خوشی، مسرت اور بشاشت کی لہر دوڑ جاتی تھی اور جوش و خروش میں اضافہ ہوجاتا تھا اور کام کے ساتھ ساتھ لنگر میں نعرے بھی لگتے۔ آپ صرف ناظم لنگرخانہ نہیں تھے بلکہ بہت سی دوسری جماعتی ذمہ داریاں بھی تھیں۔ ساری ڈیوٹیاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے مہمانوں کا بھی خیال رکھتے اور گھر بھی کشتی کی طرح بھرا ہوا ہوتا اور ہر مہمان کا یہ کہنا ہے کہ ہمارا ہر طرح خیال رکھا جاتا۔ ساتھ ساتھ مریضوں کو بھی دیکھتے تھے کہ خدا نے دل ہی ایسا دیا تھا۔ میٹنگوں میں شمولیت کے ساتھ ساتھ شبینہ اجلاسوں کا انعقاد اور نعتیہ مشاعروں کی صدارت۔ بلکہ آپ ہی اس کی روح رواں اور رونق محفل تھے۔ پھر آپ جلسہ پر تقریر بھی کرتے، کب تقریر لکھتے اور تیار کرتے یہ خدا ہی جانتا ہے۔ شاید ان کا دن 48یا 72گھنٹوں کا ہوتا تھا۔

اب یہ ساری باتیں صرف یادیں ہی بن کر رہ گئیں مگر نقش و نگار طاق نسیاں نہیں ہوئیں۔ ربوہ میں جلسہ نہ ہونے کی ایک کسک اور ہوک دل میں ضرور اٹھتی ہے مگر ساتھ یہ بھی ایمان ہےکہ یہ دن اور یہ رونقیں دوبارہ واپس آئیں گی کہ یہ اُس خدا کا وعدہ ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے۔

چھٹنے والے ہیں ظلم کے بادل

ایک دو دن کی بات ہے یارو

ایک عرصہ تک تو جماعت ہر سال جلسہ کی اجازت کی درخواست دیتی اورحکومت اس کو ردّ کر دیتی۔ چنانچہ نظام جماعت خاموشی سے اس کی اطاعت کرتا کہ ہمیں یہی نصیحت ہے۔

امن کے ساتھ رہو، فتنوں میں حصہ مت لو

باعث فکر و پریشانیٔ حکام نہ ہو

اور ہم کبھی بھی فتنہ و فساد کا حصہ نہیں بنے۔ ہمیشہ حکومت وقت کی اطاعت کی اور جیسا حکم ہوا مان لیا۔

ہم نے سنا ہو اتھا کہ جماعت ہمیشہ ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہی ہے مگر بعض سال تو بڑے سخت تھے۔ مثلاً 1934ء، 1953ء اور 1974ء کا سال، 1984ء کے بعد سے اب تک ظلم وستم میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ 28؍مئی 2010ء کو سفاکوں نے ظلم و بربریت کی انتہا کر دی۔ ایک ہی دن میں 80؍سے زائد احمدی شہید کیے اور ہم خاموشی سے لاشیں اٹھاتے رہے، جنازہ پڑھتے، دعائے مغفرت کرتے اور خدا کے سپرد کرتے رہے۔ غم واندوہ کی کیفیت تو ناقابل بیان تھی مگر کوئی غصہ اور طیش نہ تھا۔ کوئی انتقامی جذبات نہیں تھے۔ اور یہ اس لیے ہے کہ اس جماعت کی باگ ڈور اُس خلافت حقّہ کے ہاتھ میں ہے جس کی رہ نمائی خدا خود فرماتا ہے۔ سب سے زیادہ دکھ اور تکلیف میں وہی مبتلا تھا اور وہی جماعت کو یہ تعلیم دے رہا تھا کہ صبر، صبر اور صبر کےساتھ دعا کرواور ساتھ یہ تسلی دی کہ ہمارا بدلہ ہمیشہ خدا خود لیتا آیا ہے۔ اب بھی وہ ان ظالموں سے خود ہی نپٹے گا۔ ہمارا کام صبر اور دعا ہے۔

دعا پر کس قدر کامل یقیں ہے

اور ایسا صبر کہ صد آفریں ہے

ہمیں خوف و خطر زیبا نہیں ہے

فلک پر شورِ نصرت بالیقیں ہے

ہیں صف آراء بھی لشکر آسماں میں

’’نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں ‘‘

1974ء میں پہلی بار ہم نے اپنی ہوش میں اس ظلم و ستم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ روزانہ ہنگامے، روزانہ لوٹ مار، روزانہ قتل و غارت اور کوئی روکنے والا نہ تھا بلکہ قانون نافذ کرنے والے خود اس ظلم و ستم کا حصہ بن گئے۔ اور پھر نشانِ عبرت بھی بن گئے۔ ہم لوگ جوان تھے۔ اور اس ظلم و ستم پر غم وغصہ پیدا ہونا ایک فطری اور طبعی امر تھا۔

ایک دن ایک بزرگ سے میں نے عرض کیا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ دشمن جب چاہتا ہے اٹھ کر ہم پر ہرقسم کا ستم ڈھاتا ہے۔ کیا ہمارے ہاتھ پاؤں ٹوٹے ہوئے ہیں ؟ اور آخر ہمیں اجازت کیوں نہیں دی جاتی کہ ہم ان ظلموں کا کچھ تو بدلہ لیں۔ تو مسکرائے، کہنے لگےتم کیا سمجھتے ہو مجھے غصّہ نہیں آتا؟ آتا ہے، مگرحضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بڑی سختی سے یہ تعلیم دی ہے کہ

گالیاں سن کر دعا دو، پا کے دکھ آرام دو

کِبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار

یہ جذبات تو ہر انسان میں ہوتے ہیں اور کبھی کبھی مجھ پر بھی ان جذبات اور غیظ و غضب کا غلبہ ہوتا ہے مگر خدا نے مسیح موعودؑ کی امن و آشتی کی تعلیم پر قائم رکھنے کے لیے خلافت بھی قائم کی ہے اورجو بار بار ہمیں یہ تعلیم یاد دلاتی ہے اور ہمیں انتقام لینے سے روکتی ہے اور بتاتی ہے کہ یہ راستہ اور یہ سمت درست نہیں۔

پھر جگرمراد آبادی کا ایک شعر سنایاکہ

ہم زمانے سے انتقام تو لیں

اک حسیں درمیان ہے پیارے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button