تینتالیسویں مجلسِ شوریٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کے اختتامی اجلاس سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب
وہ مبارک بیج جو آج سے سَو سال پہلے بویا گیا تھا آج نہ صرف یہ کہ اس کی جڑیں زمین میں مضبوطی سے قائم ہیں بلکہ وہ اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ اس کے شیریں ثمرات سے ساری دنیا مستفید ہو رہی ہے
تینتالیسویں مجلسِ شوریٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کے اختتامی اجلاس سےسیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب (اردو ترجمہ)فرمودہ مورخہ 22؍مئی 2022ء بمقام طاہر ہال مسجد بیت الفتوح مورڈن (سرے)، یو کے
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
گذشتہ دوبرس سے کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریبات پر پابندی تھی اور بہت ہی محدود سطح پر ان کا انعقاد ہورہا تھا۔ ہماری جماعتی تقریبات بھی ان پابندیوں سے بڑی شدید متاثر ہوئیں۔گوکہ پچھلے دوسالوں میں یوکےجماعت اور بعض دیگر ممالک نے بھی مجالسِ شوریٰ کا انعقاد ورچوئل(virtual) طریق پرکیا تاہم ان مجالسِ شوریٰ کا ایجنڈا عام روایتی مجالس کی نسبت بہت ہی محدود تھا۔ پس آج اس اعتبار سے نہایت خوشی اورمسرت کا موقع ہے کہ کم و بیش تین برس بعد خداتعالیٰ کے فضل سے یوکے جماعت مجلسِ شوریٰ کا انعقاد روایتی طریق سے کر رہی ہےاور ممبرانِ شوریٰ یہاں موجود ہیں۔ اسی طرح کینیڈا، جرمنی اور امریکہ سمیت بعض دیگرممالک میں بھی مجالسِ شوریٰ کا انعقادکیا جارہا ہے۔
الحمدللہ! اس سال مجلسِ شوریٰ کے قیام کو بھی سَو سال مکمل ہورہے ہیں چنانچہ مجھےامید ہے کہ تمام ممبران نےاس اہم سنگِ میل کے موقعے پرشوریٰ کےقیام کے مقاصد کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی ہوگی۔ شوریٰ کا نظام اپنی تاسیس سےلےکر اب تک نئی سےنئی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نہایت مضبوط طریق پر استوارہوچکا ہے۔ جماعتی تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالنا ہی اس حقیقت کو آشکار کرنےکےلیے کافی ہے کہ خداتعالیٰ کی تائید ونصرت ہمیشہ شاملِ حال رہی ہے۔ خداتعالیٰ کی مدد کےسہارے ہی ہماری جماعت ہر میدان میں کامیابی سےہم کنار ہوتی رہی ہے اور یہی بات نظامِ شوریٰ کے معاملے میں ہے۔ وہ مبارک بیج جو آج سے سَو سال پہلے بویا گیا تھا آج نہ صرف یہ کہ اس کی جڑیں زمین میں مضبوطی سے قائم ہیں بلکہ وہ اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ اس کے شیریں ثمرات سے ساری دنیا مستفید ہو رہی ہے۔
وہ تمام ممالک جہاں جماعت کا انتظامی ڈھانچہ جو ’نظامِ جماعت‘ کہلاتا ہے مضبوطی سے قائم ہے وہاں مجالسِ شوریٰ کا انعقاد بھی ہوتا ہے اور یہ نظام اپنے قدم مضبوطی سے جماتا چلا جارہا ہے۔ یوکے میں جماعت کا قیام سَو سال سے بھی پہلے ہوا تھا تاہم یہاں مجلسِ شوریٰ کاباقاعدہ قیام کئی دہائیوں بعدحضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد ہوا اور تب سے یہ سلسلہ صحیح خطوط پر اور مؤثر انداز میں جاری ہے۔ میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے میں اب مجلسِ شوریٰ انتظامی اعتبار اور طریقہ کار کے لحاظ سے نہایت عمدہ طریق پر استوار ہے۔ مجھے امید ہے کہ یورپ، امریکہ، کینیڈا اور افریقہ کی بڑی بڑی جماعتیں جہاں مشاورت منعقد ہورہی ہے اور جو اس اجلاس میں ہمارے ساتھ شریک ہیں؛وہاں بھی یہ نظام مستحکم بنیادوں پر قائم ہوگا۔
ممبرانِ شوریٰ کا انتخاب، شوریٰ کے قواعد کے مطابق ہوا کرتا ہے۔ اسی طرح ایک مخصوص طریق کے مطابق تجاویز جمع کی جاتی ہیں اور اُن تجاویز میں سے جو منظور ہوں انہیں غور و فکر اورمشورے کےلیےایجنڈے میں شامل کیا جاتا ہے۔ پھر مشاورت کے موقعے پر سب کمیٹیاں (Sub Committees)قائم ہوتی ہیں جہاں زیرِ غور تجاویز پر عرق ریزی کے ساتھ تمام پہلوؤں کو مدِنظر رکھتے ہوئے بحث کی جاتی ہےاورپھر مکمل ایوان کے سامنے مجوزہ لائحہ عمل مزید غور وفکر اور مشاورت کےلیے پیش کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے پر نمائندگانِ شوریٰ حتمی اتفاقِ رائے پیدا ہونے تک زیرِ غور تجاویز پر بحث کرتے اور ان کا تجزیہ کرتےہیں۔
پس جہاں تک طریقہ کار کا تعلق ہے اس میں تو کافی حد تک پختگی آچکی ہے تاہم میرے نزدیک یہ بات کسی قدر قابلِ فکر ہے کہ بعض عہدےدار اور ممبرانِ شوریٰ کو مشاورت کے طریقہ کار اور اپنی ذمہ داریوں نیز اس اعتماد کا جو اُن پرکیا گیا ہےابھی تک پوری طرح ادراک نہیں۔
اس حوالے سے یہ بات ہمیشہ یادرکھیں کہ مجلسِ شوریٰ عام دنیاوی پارلیمان یا اسمبلی سے بالکل مختلف ہے۔ اگر ہم دنیاوی پارلیمان یا اسمبلیوں کی کارروائیوں پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ وہاں نہ ختم ہونے والی بےنتیجہ بحث و تمحیص کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ لاحاصل بحث ممبران کے درمیان تلخ کشیدگی اور تنازعات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ پھر جیسا کہ ہم آج کل بھی دیکھ رہے ہیں کہ اکثر وبیشتر یہ کشیدگی افرادسے بڑھ کر قوموں کےدرمیان بھی دوریوں کا باعث بن جاتی ہے۔ ان سیاسی ایوانوں کا طریقہ کار بالعموم یوں ہے کہ ہر معاملے میں دو گروہ ہوا کرتے ہیں جو اپنی اپنی متضاد آراء اور ایجنڈے کے حامی ہوتےہیں۔ پھر ہر گروہ کے ممبران کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان کی تجویز کردہ پالیسیوں اور خیالات کا اطلاق ہوسکے۔ اس کوشش میں یہ امر بھی پیشِ نظر نہیں رہتا کہ دوسرے گروہ کی رائے اور مشورے میں کتنا وزن ہے، صرف یہی کوشش ہوتی ہے کہ میری پارٹی کی اور میری ذاتی رائے اور خواہشات کسی بھی طرح لاگو ہوجائیں۔حتیٰ کہ طاقت اور اقتدار کی خواہش بسا اوقات عوامی فلاح و بہبود پر بھی حاوی ہوجاتی ہے۔ ان عام دنیاوی پارلیمان کے ممبران کی خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی انفرادی شخصیت کو اجاگر کرسکیں، اس کے لیے وہ بسا اوقات انصاف اور حقیقت سے ہٹ کر بھی رائے کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔ ان دنیاوی سیاسی ایوانوں کی تو یہی حقیقت ہے کہ ان کے ممبران کے لیے ملک و قوم کے وسیع تر مفادات اور سچائی یا انصاف اولین ترجیح ہوا ہی نہیں کرتے۔ اس کے برعکس ان کی وابستگی اور وفاداری اپنی سیاسی جماعت اور اپنی ذات تک محدود ہوتی ہے۔الحمدللہ! ہماری مجلسِ شوریٰ جیسا کہ مَیں نے کہا ان دنیادار پارلیمانوں سے یکسر مختلف ہے۔مجلسِ شوریٰ ایک ایسا مشاورتی ادارہ ہے جو اپنی اعلیٰ روایات اور مضبوط بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے دوسری تمام دنیاوی پارلیمان اور کانگریس وغیرہ سےزیادہ ا فضل ہے۔ مگر اس کی یہ افضلیت اسی بنا پر قائم رہ سکتی ہے کہ جب اس کے ممبران کے اخلاق اور رویّے مثالی ہوں۔اُن کی رائے صداقت پر مبنی اور دھوکہ دہی اور سیاسی ہیرپھیر سے مبرّا ہو۔
یاد رکھیں کہ شوریٰ کا بنیادی مقصد وہ سفارشات پیش کرنا ہے کہ جو امامِ وقت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مشن کو آگے بڑھانے والی ہوں۔ وہ امام مہدی کہ جس کی بعثت کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی عظیم الشان اور حیات آفرین تعلیمات کا احیا ئے نَو ہے۔آپؑ کا مشن اسلام اور آنحضرتﷺ کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاناہے۔ پس بطور ممبرانِ شوریٰ یہ آپ سب کی ذمہ داری ہے کہ خلیفۂ وقت جو تمام جماعت کے لیے بمنزلہ روحانی باپ کے ہے اُسے صحیح اور صائب مشورہ دیں۔پھرخلیفۂ وقت آپ کے مشوروں پر اس بنیادی مقصد کو مدِّنظر رکھتے ہوئے غور کرے گا کہ جو بھی پالیسیاں اور منصوبے ترتیب دیےجائیں وہ اسلام کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لیےمفید ہیں۔ ایسے پروگرام اور پالیسیاں جن کے نتیجے میں بنی نوع انسان اپنے خالق کو پہچاننے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے بنیں۔
مجھے امید اور توقع ہے کہ آپ تمام ممبران نے اپنی اس ذمہ داری کو اخلاص اور خوش اسلوبی کے ساتھ نبھایا ہوگا۔اس حوالے سےچونکہ خلیفۂ وقت کی طرف سے بےشمار مواقع پر ممبرانِ شوریٰ اور عہدےداروں کو توجہ دلائی جاتی رہی ہے لہٰذا اس معاملے میں تساہل یا کسی طرح کے عذر کی کوئی گنجائش نہیں۔ یاد رکھیں کہ آپ یہاں کسی دنیاوی مقصد کے لیے اکٹھےنہیں ہوئے بلکہ آپ دینِ اسلام کو دنیا میں پھیلانے کی تجاویز سوچنے کےلیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ سب کو یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیےکہ مجلسِ شوریٰ بنیادی طور پر ایک متحد ادارہ ہے جس کا ایک ہی مشترکہ مقصد ہے، جب یہ بات آپ کے سامنے رہے گی تو آپ اپنی ذمہ داریوں کو مکمل سنجیدگی اور دیانت داری سے ادا کرنے والے بنیں گے۔ اگر اس روح کے ساتھ آپ مجلس مشاورت میں شامل ہو رہے ہوں گے تو آپ کو کبھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ محض آپ کا ہی مشورہ درست ہے یا آپ کی رائے دوسروں سے زیادہ مفید اورباوزن ہے۔ اسی روح کے ساتھ آپ دنیادار سیاسی جماعتوں کے برعکس جتھے بندیوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ اگر یہ ہوگا تو تب ہی آپ اس حقیقت کو سمجھ سکیں گے کہ بطور عہدے دار اور ممبر مجلسِ شوریٰ ہم سب کا ایک ہی مطمحِ نظر اور ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ ہم سب نے خدائے واحد ویگانہ کے دین کی خدمت کرنی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اب تو ہر اس ملک میں جہاں نظامِ جماعت فعال ہےوہاں مجلسِ شوریٰ کا نظام بھی قائم ہے۔ بہرحال یہ کہنا تو درست نہ ہوگا کہ ہر جگہ پر مجالسِ شوریٰ کی کارروائی مکمل طور پر درست اور کمیوں کوتاہیوں سے مبرّا ہوچکی ہے۔ بدقسمتی سے بعض مواقع پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض ممبران بحث برائے بحث کرتے ہیں یا معمولی باتوں پر وقت ضائع کرتے ہیںجس سے اصل معاملات کو آگے بڑھانے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ بعض ایسی مثالیں بھی ہیں کہ بعض ممبران اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ دوسرے ممبرانِ شوریٰ جو اُ ن کی رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوں وہ مثبت سوچ اور اخلاص کے ساتھ مشاورت میں شامل نہیں ہورہے۔ پس جو باتیں مَیں نے بیان کی ہیں ان کی روشنی میں مجھے امیدہے کہ آپ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جواپنی اناکی تسکین کی خاطر یا محض اپنی علمی برتری کے اظہار کےلیے بےمقصد بحث و تمحیص میں الجھا ہو۔ مَیں توقع رکھتا ہوں کہ آپ سب نےجو بھی تجویز اور مشورہ دیا ہوگا وہ خوفِ خدا اور تقویٰ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے نیزمجلس مشاورت کےحقیقی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دیا ہوگا۔ اور وہ مقصد کیا ہے؟ یہی کہ اسلام کے پیغام کو تمام لوگوں اور دنیا کی تمام اقوام تک پہنچایا جائے۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا کہ اس سال مجلس مشاورت کے سَو سال پورے ہورہے ہیں۔ پس ایسے مواقع پرماضی کا جائزہ لینا نہایت اہم ہے تاکہ ہم خدا کے ان بےانتہا فضلوں کو یادکرسکیں جو ہمیشہ ہمارے شاملِ حال رہے ہیں۔اگر ہم پہلی مجلسِ مشاورت جو 1922 میں ہوئی تھی،اس وقت کا جائزہ لیں تو اس وقت تمام جماعت کا کُل بجٹ جو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے بیان فرمایا وہ محض 55ہزار روپے تھا جو آج افراطِ زر کے باوجود کسی طرح بھی ڈیڑھ دو لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ نہیں بنتا۔ لیکن آج محض اور محض خداتعالیٰ کے فضل سے صرف یوکے جماعت کا سالانہ بجٹ ہی کئی ملین پاؤنڈ زہے۔ اسی طرح کینیڈا، جرمنی اور امریکہ وغیرہ جماعتوں کا بجٹ بھی ہے۔
ہماری جماعت پر خداتعالیٰ کے لامتناہی افضال اوربےشمار برکتوں کانزول ایک ایسی حقیقت ہے جس سےکوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ ایک وہ زمانہ تھا جب جماعت کے پاس اتنے وسائل بھی نہ تھے کہ واقفینِ زندگی کو بنیادی گزارہ الاؤنس دیا جاسکتا۔ ایسے مشکل وقت میں اُن واقفین نے صبر اور توکل علیٰ اللہ کے غیرمعمولی معیار قائم کیے۔ انہوں نے اور اُن کے اہلِ خانہ نے بھوک کی سختیاں برداشت کیں مگر کبھی یہ شکایت نہیں کی کہ ہمیں مشاہرے یا وظائف وقت پر کیوں نہیں مل رہے۔ انہوں نےبڑی سادگی کے ساتھ گزارے کیے اور وقف کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نبھایا مگر ان سختیوں اور نامساعد حالات کے باوجود اپنے کام میں کبھی رکاوٹ نہیں آنے دی۔ ہم اُن واقفین کی عظیم قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے، بلکہ ان واقفین نے جو معیار قائم کیے وہ آج کے واقفینِ زندگی اور عہدے داروں اور ممبرانِ شوریٰ سب کے لیے مثال ہیں۔ ہر احمدی کو ہمیشہ اس بات پر خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ممبرانِ جماعت کی جانب سے چندہ جات کی ادائیگی ویسی معیاری نہیں جیسا کہ اس کا حق ہے مگر خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کے مالی حالات اب پہلے کی نسبت بہت بہتر ہیں۔
اب وہ صورتِ حال نہیں کہ ہمارے پاس مساجد کی تعمیر کے لیے رقم نہ ہو، یا جماعتی لٹریچر کی نشرواشاعت کے لیے وسائل نہ ہوں۔ اب ایسی تنگی کا سامنا نہیں کہ ممبرانِ شوریٰ کو ہمارے تبلیغی منصوبوں کے لیے وسائل کی دستیابی دشوار ہو۔ اب ایسی مشکلات کا سامنا نہیں کہ ہم اپنے مستقل کارکنان کو ان کے الاؤنس نہ دے سکتے ہوں۔کہاں وہ وقت کہ جماعت کے پاس صدر انجمن احمدیہ کا خرچ پورا کرنے کےوسائل نہ تھے اور کہاں یہ کہ اب کئی ممالک میں اسلام کی ترقی و ترویج کے ایک ایک منصوبے کےلیے کافی وسائل موجود ہیں۔
پس ہمیں اپنی اپنی ذات میں اس بات پرغور کرنا چاہیے کہ کیاآج ہم میں قر بانی اور صبر واستقامت کا وہی جذبہ ہے جس کا مظاہرہ ہم سے پہلوں نے کیا تھا۔ کیا اسلام کی خدمت کے لیے ہم بھی اسی عزم و حوصلے سے سرشار ہیں جو ہم سے پہلوں میں پایا جاتا تھا۔ ہر عہدےدار اور ممبر شوریٰ کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اسلام کی خاطرہم واقعی ہر ایک قربانی کے لیے تیار ہیں یا عہدمیں دہرائے جانے والے الفاظ محض کھوکھلے اور بےمعنی دعوے ہیں۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے افضال اور اس کی رحمتیں بارش کی طرح ہماری جماعت پربرس رہی ہیں، الحمدللہ! اب ہمارے پاس اتنے مالی وسائل موجود ہیں کہ ہم تمام دنیا میں تبلیغی سرگرمیوں اور منصوبوں کو جاری رکھ سکتے ہیں۔مساجد تعمیر کرسکتے ہیں، مشن ہاؤسز بنا سکتے ہیں تاکہ دوسروں تک اسلام کا پیغام پہنچا سکیں اور ممبرانِ جماعت کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا سامان کرسکیں۔ بہت سے احمدی محض خداتعالیٰ کی خاطر مالی قربانیوں میں آگے سے آگے قدم بڑھا رہے ہیں، چندہ عام اور دیگر چندہ جات کے علاوہ انفرادی طور پر غریب ممالک میں مساجد کی تعمیر کے لیے بڑھ چڑھ کر مالی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔یہاں یوکے میں جب چند سال پہلےبیت الفتوح کے احاطے میں آگ لگنے کا واقعہ ہوا تب سے برطانیہ کی جماعت بیت الفتوح کامپلیکس کی تعمیرِ نَو کےلیے مسلسل قربانی کر رہی ہے۔مالی اعتبار سے یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا جس کا برطانیہ کی جماعت نے بیڑا اٹھایا، گوکہ بعض دوسرے ممالک کے مخلصین نے بھی اس سلسلے میں مالی اعانت کی تاہم اس منصوبے کےلیے کثیر سرمایہ برطانیہ کی جماعت خود فراہم کر رہی ہے۔
خداتعالیٰ کے ان شان دار فضلوں اور احبابِ جماعت کی قربانی کے نمونوں کو دیکھتے ہوئے آپ سب کے سر خداتعالیٰ کے حضور شکرانے کے جذبات سے جھک جانے چاہئیں۔ نہ یہ کہ ان قربانیوں کو سیکریٹری مال یا سیکریٹری تحریکِ جدید یا وقفِ جدید کے سیکریٹری یا بعض کمیٹیوں کی کارکردگی گردانا جائے۔ آپ سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس طرح کے وسیع منصوبے خداتعالیٰ کے غیرمعمولی فضلوں اور احبابِ جماعت میں خدا کی طرف سےسیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کےمشن کی تکمیل کےلیے پیدا کردہ قر بانی کی روح کے ذریعہ ہی ممکن ہیں۔
اسی طرح یہ بات بھی ہر عہدےدار اور ہر احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ صرف مالی قربانیاں کرکے ہم اپنی روحانی اوراخلاقی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ نہ ہی ممبرانِ شوریٰ اس غلط فہمی کا شکار ہوں کہ آج مشاورت میں اپنی رائے کا اظہار کرنےکے بعدان کی ذمہ داری ختم ہوگئی۔ یہ خیال مت کریں کہ محض بجٹ یا شوریٰ کی دیگرتجاویز پر بحث کرکے یا تبلیغ اور تربیت یا دیگر پروگراموں کےلیے رقم مختص کرکے آپ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوگئے ہیں۔ بلکہ آپ کو اب اپنے روحانی اور اخلاقی معیاروں کو مسلسل بڑھاتے چلے جانےکےلیے کوشاں رہنا ہوگا۔ اپنے آپ کو خدا کے حضور عاجزی اور انکساری اختیار کرتے ہوئےدعاؤں میں جھکاتے چلے جانا ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی کمیوں اور کوتاہیوں سے صرفِ نظر فرمائے اور جو بھی منصوبے آپ نے تجویز کیے ہیں وہ خلیفۂ وقت کی منظوری کےبعد بہترین رنگ میں پایۂ تکمیل کو پہنچ سکیں۔
مزید براں ہر عُہدےدار اور ممبر شوریٰ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر افرادِ جماعت کو اس طرف توجہ دلائے کہ دینی فرائض کی ادائیگی کےلیے صرف مالی قربانی پیش کردینا کافی نہیں، بلکہ ان کی یہ قربانیاں حقیقت میں خداتعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے والی تب ہی ہوں گی جب وہ اپنے اخلاقی اور روحانی معیاروں کو مسلسل بلند کرنے کے لیے کوشش کریں گے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس پر عمل پیرا ہوکر احبابِ جماعت خداتعالیٰ کے فضلوں کے مورد بن سکتے ہیں۔
اگر تمام احمدی مسلمان اس جذبےکےساتھ قدم اٹھائیں گے تو یقیناً ہمارا تعلق خداتعالیٰ کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی سطح پرمضبوط ہوگا اورہم خداتعالیٰ کی راہ میں ترقی کرتے چلے جائیں گے۔اگر ہم اُس کی راہ میں کوشش کریں گے تو یقیناً خداتعالیٰ کی لازوال برکتوں اور رحمتوں کو جذب کرنے والے ٹھہریں گے۔ پس آپ سب کو یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ شوریٰ کی تمام تجاویز اور سفارشات میں برکت ڈالے۔پھر یہ نہ ہوکہ آپ صرف دفتری یا انتظامی معاملات میں ترقی کرنے والے ہوں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ آپ مسلسل یہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کا شمار ان لوگوں میں ہو جن کی عبادتوں کے معیار بڑھتے چلے جاتے ہیں اور جو اخلاقی اور روحانی لحاظ سے دوسروں کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں گزاریں گے تو نہ صرف اسلام کا حقیقی پیغام دنیا تک پہنچانے کے اعتبار سے بلکہ افرادِ جماعت کی اخلاقی تربیت کے حوالے سےبھی لوگ طبعاً آپ کی طرف کھنچتے چلے آئیں گے۔ اگر تمام افرادِ جماعت اپنی روحانی اصلاح کی کوشش کرنے والے بن جائیں تو یقیناً تبلیغ کے کے نئے سے نئے دروازے کھلتے چلے جائیں گے اور اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچانے کےراستے خود بخود ابھرنے لگیں گے۔
جہاں تک تبلیغ اور تربیت کا تعلق ہے تو اس موقعے پر مَیں نمائندگان مجلس مشاورت کی توجہ قرآن کریم اور تمام جماعتی لٹریچر کی نشرواشاعت کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے پاس کافی وسائل موجود نہ تھے کہ ہم قرآن کریم اور دیگر کتابوں کو بڑی تعداد میں شائع کرسکتے تاہم اب خداتعالیٰ کے فضل سے ہرسال جماعت ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں اور اخبارات و رسائل اور پیمفلٹس شائع کر رہی ہے۔ مثلاً اسی سال حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کے انگریزی ترجمے کےساتھ قرآن کریم کا عربی متن نہایت دل کش انداز میں شائع کیا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کا قرآن کریم کا لفظی اردو ترجمہ بھی بڑی تعداد میں شائع کیا جارہا ہے۔ پھر اس کے علاوہ حدیث کی کتابیں، سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور خلفائے سلسلہ کی تصانیف اور دیگر بہت سی کتابوں کو شائع کیا جارہا ہے۔
پہلے وقتوں میں ہمیں لٹریچر کی اشاعت کےسلسلےمیں مشکلات کا سامنا تھا۔ اب جبکہ ہمارے پاس یہ لٹریچر وافر موجود ہے تو وکالت اشاعت کی رپورٹ کے مطابق مختلف ممالک کی جماعتیں اور احبابِ جماعت انفرادی طور پر بھی اس لٹریچر کو خریدکر اور تقسیم کرکے اُس طرح فائدہ نہیں اٹھا رہے جیسا کہ اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے۔ جماعت کے مرکزی سٹور میں لٹریچر کا بہت ساسٹاک لمبے عرصےتک پڑا رہتا ہے۔ اسی طرح مختلف ممالک کو جو لٹریچر بھجوایا جاتا ہے، میرا تاثر یہی ہے، کہ وہ بھی صحیح طور پر استعمال نہیں ہوتا اور اکثر و بیشتر سٹورز میں پڑا گرد آلود ہوتا رہتا ہے۔ چاہیے تو یہ کہ مختلف ممالک کی طرف سےاس تیزی کے ساتھ مزید لٹریچرکا تقاضہ ہو کہ وکالت اشاعت کو مشکل پڑ جائے۔ کتابوں کی اشاعت اور ترسیل کے حوالے سےانصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ یہ تمام لٹریچر مرکزی سٹور اور مختلف ممالک کے سٹورز سے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوکر تمام احمدیوں کےگھروں اور زیرِ تبلیغ احباب کےپاس پہنچ جائے۔
جماعت برطانیہ اور دیگر جماعتیں جو بھی میرے اس خطاب کو سن رہی ہیں وہ اس بات کا پختہ ارادہ کریں کہ آئندہ لٹریچر کی تقسیم اور ترسیل کےلیے وہ پہلےسے بڑھ کر کوشش کریں گی۔ لٹریچر کا پھیلاؤ عوام الناس میں اس منظم رنگ میں ہونا چاہیے کہ جماعت کے تعارف، تعلیمات اور عقائد سے معاشرے کا ہر طبقہ پورے طور پر واقف ہوجائے۔ آپ کو چاہیے کہ جماعتی کتب کو خریدنے،پڑھنے اور دوست احباب میں تقسیم کرنے کے حوالے سے افرادِ جماعت کی بھرپورحوصلہ افزائی کریں۔
پھرہمیں آج کے زمانےکے مطابق مختلف آن لائن (online)اور سماجی رابطے (Social Media) کےذرائع کو بھی جماعت کے تعارف کو پھیلانےاور طول و عرض میں پہنچانے کےلیےبروئے کار لانا چاہیے۔ تمام افرادِ جماعت کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ وہ ایم ٹی اے اور دیگر آن لائن جماعتی ذرائع ابلاغ پر دستیاب مواد سےنہ صرف خود استفادہ کریں بلکہ اپنے جاننے والوں کو بھی اس سے متعارف کرائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے اور الاسلام کے ذریعے ہر سال ہزاروں افراد احمدیت سے متعارف ہوتے ہیں اور ان میں سے بہت سی نیک اور سعید فطرت روحیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہوجاتی ہیں۔ پس ایم ٹی اے کو محض ایک تربیتی چینل خیال نہ کریں بلکہ یہ تبلیغ کے میدان میں بھی بہت اہم اور وسیع کردار ادا کر رہا ہے۔ گوکہ غیراز جماعت احباب تک پیغام پہنچانے کے سلسلےمیں اب بھی ایم ٹی اے کی پوری صلاحیت بروئے کار نہیں لائی جا رہی۔ لہٰذا نمائندگانِ شوریٰ اور متعلقہ عُہدے داروں کو چاہیے کہ جامع منصوبہ بندی اور مشترکہ کوشش کے ذریعے ایم ٹی اے اور الاسلام وغیرہ ویب سائٹس کو غیراز جماعت احباب اور غیر مسلموں تک پہنچانے کےلیے اقدامات کریں۔
آخر میں یاددہانی کے طور پر مَیں اپنی اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ عہُدے داران اور ممبرانِ شوریٰ پوری لگن اور عاجزی اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، اُس سے دعائیں مانگتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کے فضل پہلے سے بڑھ کر بارش کے قطروں کی طرح جماعت پر نازل ہوں گے۔ اس طرح آپ اسلام کا پیغام ایک نئے جذبے کے ساتھ پھیلانے کے لیےباقی احمدیوں کے سامنے ان شاء اللہ ایک مثال بن رہے ہوں گے۔
آج ہمارے بعض مخالفین احمدیوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں اور یہ کہ اِن کے عقائد اور عمل کا اسلام سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔بےشک یہ سب بےبنیاد الزامات ہیں لیکن، یہ ہمیں اس بات کا احساس دلانےوالے ہیں کہ ہمارے قول و فعل میں معمولی سا بھی تضاد نہیں ہونا چاہیے اور یہ کہ ہمارے تمام عمل اور تمام افعال اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونے چاہئیں۔
آج جبکہ دنیا سے امن و امان تقریباً معدوم ختم ہوچکاہے، اور دنیا تباہی کے کنارےپر کھڑی ہے، ایسے میں انسانیت کےلیے تباہی سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ بنی نوع انسان اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانے اور اس کی طرف متوجہ ہو۔ لہٰذا یہ ہماری اوّلین ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اپنی قوموں کی راہ نمائی کریں انہیں اس خوابِ غفلت سے جگائیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے حقوق اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ مگر یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم خود اپنی ذات میں اُن تعلیمات پر عمل پیرا ہوں، اُن اقدار کو اپنانے والے ہوں جو ہمیں قرآن کریم اور رسول اللہﷺ اور اس زمانے میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے سمجھائی ہیں۔
پس چاہیے کہ ہم اپنی پوری طاقت اور پورے زور کے ساتھ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جہاں تک ممکن ہے احمدیت کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے، تاکہ لوگ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت کے مقصدکو سمجھ سکیں۔ اگر یہ ہوگا تو تب ہی ہم مجلسِ شوریٰ کے مقاصد کو حاصل کرنے والے بن رہے ہوں گے، اور تب ہی آپ حقیقی معنوں میں خلیفۂ وقت کے سلطانِ نصیر بن رہے ہوں گے جوہر لمحہ جماعت کو اُن راہوں کی طرف راہ نمائی کرتا ہے جن پرقدم مارنے سے اسلام احمدیت کا پیغام پھیلانےکا یہ فریضہ نئی سے نئی بلندیوں کو حاصل کرسکتا ہے۔ تب ہی آپ اپنے اس فرض کو ادا کرنے والے ہوں گے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تمام احمدی خلیفۂ وقت کے ہاتھ کےنیچےاسلام اورمحمدرسول اللہﷺ کی اُس فیصلہ کُن روحانی فتح کی طرف ایک متحدہ جماعت کی صورت میں ایک ہی سمت میں حرکت کریں۔ ان شاء اللہ
مجھےامید ہے کہ آپ نے جو سفارشات اورتجاویز مجھے بھجوائی ہیں وہ بڑے غورو فکر کے بعدمجلس مشاورت کے حقیقی مقاصداور اس بات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے مرتب کی ہوں گی کہ جماعت کے اندر محبت اور یک جہتی کے معیار بلند سے بلند ہوتے چلے جائیں اور حقیقی اسلام کا پیغام دنیا کے تمام خطّوں اور علاقوں تک پہنچ جائے۔ ان الفاظ کے ساتھ مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجلس مشاورت کا دوسری صدی میں داخل ہونابہت مبارک فرمائے اور ہماری جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کا مشاہدہ کرنےوالی ہو۔
(ترجمہ: حافظ نعمان احمد خاں)