جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء: اجلاس مستورات کی کارروائی
’’خلافت۔خداکی قدرت ثانیہ کا مظہر‘‘، ’’خلافت اورہمارا عہد بیعت‘‘ اور’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف میراسفر‘‘ کے عناوین پر سیر حاصل تقاریر
جلسہ گاہ مستورات ميں جلسے کي کارروائي کا آغاز ٹھيک صبح دس بجے ہوا۔ اس اجلاس کي صدارت محترمہ ڈاکٹرفريحہ خان صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ يوکے نے کي۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کريم سے ہوا۔ مکرمہ روبینہ کاشف صاحبہ نے تلاوت کی اور ان آیات کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں ساعدہ عروج صاحبہ نے حضرت مسیح موعود ؑکے اردو منظوم کلام میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔
اے قادر و توانا آفات سے بچانا
ہم تیرے در پہ آئے ہم نے ہے تجھ کو مانا
نظم کے بعد محترمہ ملیحہ منصور صاحبہ نے ’’خلافت ۔خدا کی قدرت ثانیہ کا مظہر’’ کے عنوان پر تقریر کی۔
آپ نے اپنی تقریر کا آغاز رسالہ الوصیت کے اس اقتباس سے کیا کہ
’’اس لیے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں۔ کیونکہ تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے۔ جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تابعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدے کا دن ہے۔(الوصیت)۔یقین دہانی کے یہ تاریخی الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع ملنے پر لکھے تھے۔
مقررہ نے کہا کہ خلافت کو خدا کی قدرت کا مظہر قرار دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے خلافت کی عظیم حیثیت کو بڑی خوبصورتی سے بیان فرمایا ہے۔ خلافت کوئی عام قیادت نہیں ہے۔ اس کا موازنہ دنیا کی کسی بھی چیز سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک خدائی نظام ہے۔ ہر موڑ پر خود اللہ کی طرف سے حمایت، حفاظت اور راہنمائی موجود ہے۔ درحقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایا کہ ’’میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گےجو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔‘‘
میری پیاری بہنو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلام کو ایک بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے جاہل عرب مرتد ہو گئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غم میں مبتلا ہو گئے۔ اس وقت خلافت کے ذریعے ظاہر ہونے والی خدا کی وہ عظیم طاقت تھی جس نے اسلام کو بچایا۔ خدا کی قدرت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر اتری۔
لوگ سوچیں گے کہ دنیا کی دولت اور آسائشوں کے مقابلہ میں خلافت کونسی طاقت ہے؟ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ نہ صرف خلیفہ کے قول و فعل میں برکت ہوتی ہے بلکہ خلیفہ کے لباس میں بھی برکت ہوتی ہے۔ ایک بار جب قیصرِ روم کو شدید سر درد ہوا تو کوئی چیز اس کا علاج نہ کر سکی۔ اس نے ہر دنیاوی علاج آزمایا، سب بے سود۔ مایوسی کے عالم میں اس نے وقت کے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک سفیر بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنی پرانی پھٹی ہوئی ٹوپیوں میں سے ایک ٹوپی تحفہ کے طور پر اسے بھیج دی۔ قیصر نے غرور میں اسے پہننے سے انکار کر دیا۔ لیکن بعد میں جب اس کا درد بڑھ گیا تو اس کے پاس اپنی تکلیف کو دور کرنے کے لیے اس کوپہننے کےسوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس کا درد وقت کے ساتھ ساتھ لوٹتا رہا، اور طاقتور قیصر اسی پرانی ٹوپی سے اپنے درد میں آرام پاتا رہا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا پر یہ ظاہر کیا کہ تم جس تخت کے مالک ہو، تمہاری دولت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، لیکن خلیفہ کی ایک پرانی بوسیدہ ٹوپی دنیا کی تمام طاقتوں سے زیادہ طاقت رکھتی ہے۔
مقررہ نے کہا کہ ہمارے پاس تاریخ سے سیکھنے کےلیے بہت بڑا سبق ہے کہ جو لوگ خلافت سے محروم ہوئے ان کا کیا حال ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خلافت حقہ اسلامیہ کا خاتمہ ہوا۔ یہی امت آپس میں الجھ پڑی۔ ایک مسلمان، دوسرے مسلمان کے خون کے در پے ہو گیا۔خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی امت مسلمہ واضح طور پر خدائی حمایت سے محروم ہوگئی۔ لیکن ہم اللہ کے اس وعدے کو جانتے ہیں کہ جب تک خلافت آپ کے ساتھ ہے دنیا کی کوئی قوم آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتی۔ خلافت کے سائے تلے آپ زندگی کے ہر میدان میں کامیاب و کامران رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجا لائے پختہ وعدہ کیا ہے کہ وہ تم میں خلافت قائم کرے گا۔
لیکن اس وعدہ کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ومن کفر بعد ذالک فاولئک ھم الفاسقونیعنی اس کے بعد جو ناشکری کریں گے وہی سرکش ہوں گے۔
خلافت راشدہ کا خاتمہ ہونا مقدر تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی کہ جو خلافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کے بعد قائم ہونے والی تھی وہ قیامت تک قائم رہے گی۔ انشاء اللہ۔ اس لیے یہ ہم پر ہے کہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں اس خدائی ادارے سے مضبوطی سے وابستہ رہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحلت کے بعد خدا کی یہ عظیم الشان قدرت مظہر حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کی صورت میں ظاہرہوئی۔ افسوس کہ ہم ہر دور خلافت میں بعض بدقسمت لوگوں کو ناکام مخالفت میں کھڑے پاتے ہیں۔ جنہیں بہت کم معلوم ہے۔لیکن یہ مخالفت مومنوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے کیونکہ وہ خدا کی طاقت کو اپنے خلیفہ کے دفاع میں ظاہر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے وقت مخالفین کی طعنہ زنی کہ اب مرزائیوں کا کچھ نہیں بچا اور سر کٹا ہوا ہے۔ جس شخص کو ان کا امام منتخب کیا گیا ہے وہ مسجد میں قرآن پڑھانے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔
لیکن اللہ کی قدرت کے خلاف کون کھڑا ہو سکتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے خلافت عطا کی، اگرچہ عمر میں بہت بڑے تھے، لیکن وہ اس بیرونی مخالفت اور اندرونی بغاوتوں دونوں کے سامنے بے خوف تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے واضح طور پر اعلان فرمایا کہ یہ سچ ہے کہ اس نے مجھے تمہاری بھلائی کے لیے خلیفہ بنایا ہے۔ تم میں سے کسی میں یہ طاقت نہیں کہ وہ مجھے اس ذمہ داری سے الگ کر دے۔
یہ اندرونی بغاوتیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے انتخاب کے وقت عروج پر پہنچ گئیں۔ جماعت کے اندر وہ ممتاز شخصیات جو خود کو سب سے زیادہ ذہین اور طاقتور سمجھتی تھیں، کھل کر خلافت پر تنقید کرنے لگیں۔ اتفاق سے یہ لوگ جماعت کی مالیات کو بھی کنٹرول کر رہے تھے۔ وہ اور بدقسمتی سے ان کے زیر اثر بہت سے احمدیوں نے جماعت کے خزانے میں جو کچھ تھا وہ لے کر خلیفہ کو خود چھوڑ دیا۔ مسلسل مخالفت کے باوجود حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دور میں جو عظیم پیشرفت ہوئی ہے وہ خدا کی قدرتوں کا شاندار مظاہرہ ہے۔ خلافت کے منکرین کے زوال اور خلافت کے بابرکت نظام کے تحت ہونے والی ترقی کا آج بھی ہم مشاہدہ کر رہے ہیںجواس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ خود خلافت کا نگہبان ہے۔
اللہ کا چھپا ہوا ہاتھ ہمیشہ اس کے خلیفہ کے ساتھ ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے زمانے میں ایک حکومت کا خلیفہ سے تصادم ہوا۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے خلافت احمدیہ کے اغراض و مقاصد کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ لیکن دیکھو کس طرح خدا کی طاقت اس شخص کی حمایت میں ظاہر ہوئی جسے اللہ نے خلافت کی چادر عطا کی تھی۔ بھٹو نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم کو آگے بڑھانے میں کامیابی حاصل کی، لیکن اس کے خوفناک نتائج کو دیکھیں، جسے اپنے ہی منتخب کردہ جنرل، جنرل ضیاء نے پھانسی دے دی۔
جہاں تک ضیاء کا تعلق ہے تو اسے بھی ان لوگوں کے لیے ایک عبرت ناک مثال بننا تھا جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ کا مقابلہ کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ 1984ء میں، جنرل ضیاء نے پاکستان میں رہنے والے احمدیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو قانونی اور ادارہ جاتی بنانے کے لیے آرڈیننس متعارف کرایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بارہا ضیاء کو باز آنے کی تنبیہ کی۔ حضور نے فرمایا کہ ’’خدا کی قسم جب ہمارا مولیٰ ہماری مدد کو آئے گا تو کوئی تمہاری مدد نہیں کرسکے گا۔ خدا کی تقدیرجب تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کرے گی تو تمہارے نام ونشان مٹا دیئے جائیں گے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ14؍دسمبر1984ء)
یہ بیان جلد ہی اللہ کے فرمان کے طور پر ظاہر ہوا۔ اس کے پانچ دن بعد خبر آئی کہ جنرل ضیاء اور ان کے نو جرنیلوں کو لے جانے والا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کیوں۔ کوئی زندہ نہیں بچا تھا۔ خدا کے بندے کے الفاظ
’’خدا اڑا دے گا خاک ان کی‘‘
اللہ تعالیٰ نے لفظی طور پر پورا کیا۔ ’’ضیاء کو آسمان میں اڑا دیا۔‘‘ اخبارات میں سرخیوں میں لکھا گیا۔ اسے دفن کرنے کے لیے جو کچھ ملا وہ اس کے دانت تھے۔
مقررہ موصوفہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ خلافت کے آغاز سے ہی اپنی طاقتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ خلیفہ خدا کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے اور اس کے تقرر میں کسی انسان کا ہاتھ نہیں ہوتا، نہ وہ خود اس کی خواہش کرتا ہے اور نہ وہ کسی تدبیر سے خلیفہ بنتا ہے۔
ماریشس کے امیر صاحب خلیفۃ المسیح کے انتخاب کے لیے لندن جاتے وقت دلجمعی سے دعائیں مانگ رہے تھے اور ان کے ذہن میں کسی اور کو منتخب کرنے کا ارادہ تھا لیکن ان کے لبوں پر ’’مسرور‘‘ کے الفاظ آگئے۔ اس وقت وہ ہمارے پیارے امام کے بارے میں بہت کم جانتے تھے۔ لندن پہنچ کر انہوں نے یہ نام کاغذ کے ایک ٹکرے پر لکھا، اس پر مہر لگا دی اور مسجد میں داخل ہونے سے پہلے اسے محفوظ رکھنے کے لیے صدر خدام الاحمدیہ کو دے دیا۔ انتخاب کے بعد باہر جاتے ہوئے وہ ان کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ وہ لفافہ کھول کر اس میں موجود مواد دیکھیں۔ تاکہ نہ صرف وہ خود بلکہ دوسرا شخص بھی خدا کی قدرت کے اس عظیم مظہر کا گواہ بن جائے۔
اسی وقت لندن میں کبابیر کے امیر صاحب بھی انتخاب کے لیے موجود تھے۔ الیکشن سے پہلے مغرب اور عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہوئے، انہوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جسے وہ نہیں جانتے تھا۔ لیکن ان کی نظر نے اس کے دل میں کرنٹ لگا دیا۔ وہ دل کی گہرائیوں سے اس شخصیت سے متاثر ہوئے۔ انتخابی کارروائی کے دوران انہوںنے ہمارے پیارے امام کی شناخت ایک ہی شخص کے طور پر کی اور ان کے بارے میں علم نہ ہونے کے باوجود انہیں ووٹ دینے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔
میری پیاری بہنو، ہمارے پیارے حضور کے لیے یہ الٰہی حمایت صرف انتخاب کے وقت ہی ظاہر نہیں ہوئی بلکہ اب تک جاری ہے۔ روئے زمین کے کونے کونے میں بیٹھے کتنے ہی لوگوں نے خواب میں پیارے حضور کو دیکھا اور اسلام احمدیت قبول کی۔ الحمدللہ۔
پیارے حضور انور نے حال ہی میں ناروے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے جذبات بیان کیے، جنہوں نے پیارے حضور انورکو خط لکھا کہ ہر سچا احمدی کہتا ہے، ’’ہمارے پیارے حضور ہمارے دلوں میں اور ہماری آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں اور ہم ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔ دنیا میں ہماری فکر صرف یہ ہے کہ انہیں خوش کیا جائے اور ان کے بوجھ کو ہلکا کرنے میں مدد کے طریقے تلاش کیے جائیں۔ آپ نے اپنے خطبات میں فرمایا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تیروں کی ضربیں برداشت کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیا کرتے تھے اور کسی بھی حملے کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے۔ اس طرح کے واقعات کا تصور کرتے ہوئے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں اور میںسوچتی ہوں کہ اگر اسی صورت حال کا مجھے سامنا کرنا پڑا تو میں کیا کروں گی۔ کیا میں بھی ثابت قدم رہوں گی؟ پھر میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خلیفہ وقت اور خلافت کی حفاظت دلوں اور جانوں سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے، جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے مال و جان کی قربانی دی تھی۔ میں کئی سالوں سے اپنی نماز میں یہ دعا کرتی رہی ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرشتے آپ پر اتنی ہی تعداد میں نازل فرمائے جتنی آپ کی پریشانیوں اور آپ کی ذمہ داریوں کی تعداد ہے اور وہ آپ کو گھیرے ہوں۔
ہماری بہن نے ہم سب کے لیے کتنی شاندار بات کی ہے۔ پھر ہمارا کردار کیا ہے، ہم اس خدائی فضل کی دعاؤں اور محبت کے مستحق کیسے بن سکتے ہیں۔
ایک دفعہ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ سے پوچھا گیا کہ چودھری صاحب آپ ساری زندگی بہت کامیاب رہے اور اللہ نے آپ کو بہت نوازا، آپ کی کامیابی کا راز کیا تھا؟ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آپ نے جواب دیا: کیونکہ میں ساری زندگی خلافت کا مطیع رہا۔
یقیناً خلافت کی وفاداری اور کامل اطاعت ہماری کامیابی کی کنجی ہے۔ خلافت وہ پیمانہ ہے جس سے ہم اپنے ایمان کی پیمائش کر سکتے ہیں۔ خلافت کی ہماری اطاعت جتنی زیادہ ہوگی، ہم اپنی روحانیت میں اتنی ہی برتری حاصل کریں گے۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ وہ لوگ جو امام کی سب سے زیادہ اطاعت کرتے ہیں وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے محبوب رہے ہیں۔تاہم، فرمانبرداری ہمیشہ آسان نہیں ہوتی۔ یہ زمین پر پہلے خلیفہ کی تقرری کے بعد سے سب سے بڑا چیلنج رہا ہے۔ جب حضرت آدم علیہ السلام مبعوث ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرر کردہ خلیفہ کے سامنے مکمل سر تسلیم خم کرانا چاہا۔ لیکن ابلیس ایسا نہ کر سکا، اس کے غرور اور تکبر نے اسے روک دیا۔ یہ نافرمانی تھی جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے مسترد اور ملعون ہو گیا۔
ہماری محبت، وفاداری اور خلافت کی اطاعت کو دیکھ کر یقیناً شیطان بہت جلتا ہے۔ وہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔ اس کی سرگوشیوں کا شکار نہ ہونا۔ اللہ کی رسی سے اپنی گرفت ڈھیلی نہ کرو۔ اس رسی کو مضبوطی سے پکڑو، اپنی گرفت کو اتنا مضبوط کرو کہ یہ تمہاری آنے والی نسلوں تک پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کے سچے بہادر سپاہی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم طلحہ کا غیر متزلزل ہاتھ بنیں، ایک متحد ڈھال بن کر اسے تمام حملوں سے محفوظ رکھیں۔
ہم اپنے خلیفہ کی سچی اورکامل اطاعت کے ذریعے اللہ کا شکر ادا کریں، تاکہ ہم خدا کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتے رہیں۔ امام کے ساتھ ہماری وفاداری حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے نقش قدم کہ مطابق ہوجیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے فارسی شعر میں فرمایا ہے:
چہ خوش بودے اگر ہریک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نورِ یقیں بودے
اس تقریر کے بعد اردو نظم پیش کی گئی۔
اس اجلاس کی دوسری تقریر محترمہ ڈاکٹر فریحہ خان صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ برطانیہ کی تھی جنہوں نے ’’خلافت اور ہمارا عہدِ بیعت‘‘ کے عنوان پر اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ انبیاء کے آنے کا مقصد کیا تھا۔رسول اللہ ﷺ کی آمد کا مقصد سورة الجمعة کی آیت 3 میں واضح بیان ہوا ہے۔
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ
یہ آیت کریمہ چند الفاظ میں اس عظیم الشان مقصد کو بیان کرتی ہے جس کو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمدﷺ نے اس شان کےساتھ پورا کیا کہ کہ عرب کی بنجر اور بیابان زمین روحانی اور اخلاقی سر سبزی سے تر ہو گئی۔ دین اسلام آنحضرت ﷺ پر ایک کامل کتاب کی صورت میں اترا۔ جس نے لاکھوں روحوں کو پاک کیا۔ ایسا معجزہ انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔
بھیج درور اس محسن پر تو دن میں سو سو بار
پاک محمد مصطفیٰؐ نبیوں کا سردار
کلام پاک اتنا پر از معارف ہے کہ اگلی ہی آیت میں ایک پیشگوئی بیان ہوئی۔ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ
اس آخری زمانہ کی وضاحت بھی رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمادی کہ وہ کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ آپﷺ پر سورت جمعہ نازل ہوئی۔ جب آپ نےوَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کی تلاوت فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ بعض دوسرے لوگوں میں بھی آنحضرتﷺ کو مبعوث فرمائے گا جن کو آپ پھر کتاب و حکمت سکھائیں گے اور پاک کریں گےاورجن کا زمانہ صحابہ کے بعد ہے۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ اے خدا کے رسولؐ! یہ کون لوگ ہیں جو صحابہ کا درجہ تو رکھتے ہیں لیکن ہمیں ملے نہیں۔ آپ نے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ اس سائل نے دو تین مرتبہ یہ بات پوچھی۔ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں ہمارے درمیان سلمان فارسیؓ موجود تھے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمانؓ پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین سے اٹھ گیا تو ان لوگوں میں ایک شخصیا کچھ اور اسے واپس لائیں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ پیشگوئی کس طرح حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے بابرکت وجود میں پوری ہوئی۔ اور نہ صرف آپ کے وجود میں بلکہ آپ کے خلفاء کے وجود میں بھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہوا۔آپ ایک نئی شریعت نہیں لائےبلکہ اسلام کی نشأة ثانیہ آپ کے ہاتھوں ہوئی۔آپ نے ہر چیز اپنے آقا و مطاع رسول اللہ ﷺ سے سیکھی اور وہی دوسروں کو سکھائی۔ آپ نے اس جماعت کا قیام خدا کے حکم پرکیا اور اس جماعت میں اور آپ کی بیعت میں آنے کے لئے جو شرائط بیان کی ہیں۔وہ کیا ہیں وہ شریعت ہی تو ہیں، وہ اسلام ہی تو ہیں۔ وہ قرآن و حکمت ہی تو ہیں۔ ان پر پورا اتر کر ہی ہم احمدی اپنا تزکیہ نفس کر سکتے ہیں۔ وہ دس شرائط بیعت ہر احمدی کو ہر وقت پڑھنی چاہئیں۔ چھاپ کر کہیں سامنے لگانی چاہئیں۔کیونکہ یہ ایسا مکمل ضابطہ حیات ہیں کہ جس پر عمل کر کےہم کامل مسلمان بن سکتے ہیں۔ اپنے عہد بیعت کو پور اکر سکتے ہیں۔ انہی شرائط پر ہم خلیفہ کی بیعت کرتے ہیں۔
بیعت کیا ہے۔ بیعت کا لفظی مطلب ہے بک جانا۔ اگر اس لفظ کو گوگل سرچ میں ڈالیں تو وہ آپ کو اس کا مطلب بتاتا ہے sold۔تو جو چیز بک جاتی ہے وہ تو خریدنے والے کے اختیار میں آ جاتی ہے۔ بیچنے والے کی مرضی اور اختیار میں نہیں رہتی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی۔ یہ بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں چل کر انجامکار کوئی شخص نقصان اٹھاوے۔ صادق کبھی نقصان نہیں اٹھا سکتا۔ نقصان اسی کا ہے جو کاذب ہے۔ جو دنیا کے لئے بیعت کو اور عہد کو جو اللہ تعالیٰ سے اس نے کیا ہے توڑ رہا ہے۔ وہ شخص جو محض دنیا کے خوف سے ایسے امور کا مرتکب ہو رہا ہے، وہ یاد رکھے بوقت موت کوئی حاکم یا بادشاہ اُسے نہ چھڑا سکے گا۔ اس نے احکم الحاکمین کے پاس جانا ہے جو اُس سے دریافت کرے گا کہ تُو نے میرا پاس کیوں نہیں کیا؟ اس لئے ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ خدا جو مَلِک السمٰوات والارض ہے اس پر ایمان لاوے اور سچی توبہ کرے۔
خلافت کے ساتھ ہمارا عہد بیعت ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے۔واضح رہے کہ جماعت احمدیہ میں پیشگوئی کے مطابق خلافت علی منہاج النبوة قائم ہوئی۔ تم میں جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا نبوت قائم رہے گی، پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا اور پھر جب تک اللہ چاہے گا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم رہے گی۔ پھر وہ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا۔ پھر ایذا رساں بادشاہت جب تک اللہ چاہے گا قائم ہو گی۔ پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی، جب تک اللہ چاہے وہ رہے گی۔ پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا۔ اُس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی، پھر آپ خاموش ہو گئے۔
اس کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں کہ
سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دوجھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔
ہم نے دیکھا کہ الٰہی وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جماعت کو قدرت ثانیہ سے نوازا۔ کیا ہی پیارا خدا ہے ہمارا۔جس نے آنحضرتﷺ اور آپ کے غلام سے کیے ہوئے وعدوں کو کس شان سے پورا کیا اور بار بار خلافت احمدیہ کے ہاتھ سے جماعت احمدیہ کو تمکنت عطا فرمائی۔114 سالہ تاریخ احمدیت اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے خلفاء نے آپ سے وفا کے وہ نمونے قائم کئے جس کی مثال موجودہ زمانے میں اور کوئی نہیں۔ اسلام اور آنحضرت ﷺ کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑا
لاکھوں سعید روحیں اسلام احمدیت کی آغوش میں آئیں۔ ہمارے پیارے خلفاء نے اپنے اپنے وقت میں اپنا رات دن ہماری تعلیم وتربیت اوراسلام کی اشاعت میں گزار دیا۔ یہاں تو اس دریا کو کوزے میں بند کرنے کو بھی وقت نہیں۔ لیکن میں اور آپ اگراپنے اوپر نظر ڈال لیں تو خلفاء کے احسانات کے تلے دبا ہوا پائیں گے۔ یہ وہ ہاتھ ہے کہ جب ہم اپنا ہاتھ اس کی بیعت میں دیتے ہیں تو یہ مٹی کو سونا بنا دیتا ہے۔ یہ تجربہ صرف میرا نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں احمدیوں کا تمام دنیا میں ہے۔ یہ وہ ہاتھ ہے جو خدا سے جوڑتا ہے۔یاد رکھیں کہ اگر ہم خلیفہ وقت سے وفا دکھائیں گے تو خدا ہم سے وفا دکھائے گا۔ اور کون ہے جسے خدا کی دوستی کی ضرورت نہیں۔خلافت کے ساتھ اس عہد بیعت کو باندھنے کی پہلی شرط اطاعت ہے۔ اطاعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو۔ اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے۔ بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی۔
حضرت خلیفة المسیح الاول ؓ کا احسان ہے کہ انہوں نے استحکام خلافت میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھانایا نکاح پڑھا دینا یا پھر بیعت لے لینا ہے۔ یہ کام تو ایک ملاں بھی کر سکتا ہے۔ اس کے لیے خلیفہ کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے لیے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں۔ اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں کہ اس طرح کی بیعت لوں۔ بیعت وہی ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور جس میں خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے۔
لیکن تربیت اور نصائح بھی اسی کو فائدہ دیتے ہیں جو ان سے فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ وہ جنہوں نے خلافت ثانیہ میں خلافت سے انکار کیا وہ عالم، تعلیم یافتہ تھے۔ خدا نے خلافت کو ترقی دی اور وہ خود بکھر گئے۔ وہی ترقیات خلافت ثالثہ اور، رابعہ میں نظر آئیں اور اب خلافت خامسہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔خلیفہ خدا بناتا ہے اور اس کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ خود اس کا ولی ہو جاتا ہے۔اس کی روح القدس سے مدد کرتا ہے۔ اس کے ہر فیصلے میں برکت ڈالتا ہے۔ اس کے الفاظ کو پورا کرتا ہے۔ دعائیں قبول کرتا ہے۔ جس کو اس نعمت کی قدر نہ ہویقیناً بہت ہی بد قسمت ہے۔
ہمارا عہد بیعت ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے اس کی ایک جھلک آیت استخلاف میں نظر آتی ہے۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ (النور:56)
یعنی تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
یعنی خلافت قائم رکھنے کا وعدہ ان لوگوں سے ہے جو مضبوط ایمان والے ہوں اور نیک اعمال کر رہے ہوں۔ جب ایسے معیار مومن قائم کر رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق خلافت کا نظام جاری رکھے گا۔ نبی کی وفات کے بعد خلیفہ اور ہر خلیفہ کی وفات کے بعدآئندہ خلیفہ کے ذریعہ سے یہ خوف کی حالت امن میں بدلتی چلی جائے گی۔ اور یہی ہم گزشتہ 100سال سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہوں اور دنیا کے لہو و لعب ان کو متاثر کرکے شرک میں مبتلا نہ کررہے ہوں۔ اگر انہوں نے ناشکری کی، عبادتوں سے غافل ہو گئے، دنیاداری ان کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے زیادہ محبوب ہو گئی تو پھر اس نافرمانی کی وجہ سے وہ اس انعام سے محروم ہو جائیں گے۔ پس فکر کرنی چاہئے تو ان لوگوں کو جو خلافت کے انعام کی اہمیت نہیں سمجھتے۔ یہ خلیفہ نہیں ہے جو خلافت کے مقام سے گرایا جائے گا بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خلافت کے مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے فاسقوں میں شمار ہوں گے۔ تباہ وہ لوگ ہوں گے جو خلیفہ یا خلافت کے مقام کو نہیں سمجھتے، ہنسی ٹھٹھا کرنے والے ہیں۔ پس یہ وارننگ ہے، تنبیہ ہے ان کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں یا یہ وارننگ ہے ان کمزور احمدیوں کو جو خلافت کے قیام و استحکام کے حق میں دعائیں کرنے کی بجائے اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کہاں سے کوئی اعتراض تلاش کیا جائے۔ (خطبہ جمعہ 27؍ مئی 2005ء)
اسی طرح ایک اور موقع پر فرماتے ہیں:
اِن آیات میں اللہ اور رسول کو ماننے والوں کے لئے اور خلفاء کی بیعت کرنے والوں کے لئے بھی ایک مکمل لائحہ عمل سامنے رکھ دیا ہے۔ اور پہلی بات اور بنیادی بات یہ بیان فرمائی کہ اطاعت کیا چیز ہے اور اس کا حقیقی معیار کیا ہے؟ اطاعت کا معیار یہ نہیں ہے کہ صرف قسمیں کھا لو کہ جب موقع آئے گا تو ہم دشمن کے خلاف ہر طرح لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ صرف قسمیں کام نہیں آتیں۔ جب تک ہر معاملے میں کامل اطاعت نہیں دکھاؤ گے حقیقت میں کوئی فائدہ نہیں۔ کامل اطاعت دکھاؤ گے تو تبھی سمجھا جائے گا کہ یہ دعوے کہ ہم ہر طرح سے مر مٹنے کے لئے تیار ہیں حقیقی دعوے ہیں۔ اگر اُن احکامات کی پابندی نہیں اور اُن احکامات پر عمل کرنے کی کوشش نہیں جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول نے دئیے ہیں تو بسا اوقات بڑے بڑے دعوے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں۔ پس اصل چیز اس پہلو سے کامل اطاعت کا عملی اظہار ہے۔ اگر یہ عملی اظہار نہیں اور بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات جو ہیں اُن میں بھی عملی اظہار نہیں تو پھر دعوے فضول ہیں۔ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَکہہ کر یہ واضح فرما دیا کہ انسانوں کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے، ہر مخفی اور ظاہر عمل اُس کے سامنے ہے، اس لئے اُس کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ پس ہمیشہ یہ سامنے رہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ اور ایک حقیقی مومن کو اس بات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ (خطبہ جمعہ 27؍ مئی 2011ء)
اسلام دین فطرت ہے اور ہر زمانہ کے لیے اترا ہے۔ مغربی ممالک اور اسلام دشمن عناصر اسلامی تعلیم پر دقیانوسی ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ان کے زیر اثر بعض مسلمان بھی ایسی باتیں کرنے لگ گئے ہیں۔ پردے کے حکم کو ہی لے لیں۔کہا جاتا ہے کہ ان مغربی ممالک میں پردے کی ضرورت ہی نہیں۔آپ آج اس مغربی معاشرے کی اخلاقی اور معاشرتی حالت پر نظر ڈالیں تو کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہاں پردے کی ضرورت نہیں۔ اب تو اس معاشرے کی بظاہر آزاد عورت بھی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے۔ ہمیں مرد کے ظلم سے بچاؤ، ہمیں علیحدہ اور بحفاظت جگہ دو۔ اپنے اردگرد نظر ڈالیں جہاں شخصی آزادی کے نام پر تکنیکی ترقی کے نتیجہ میں سب سے بڑھ کر خدا اور مذہب سے دوری نے قیامت برپا کر دی ہے۔ ہر روز ایک دجالی فتنہ، ایک اخلاقی گراوٹ۔
آج خلافتِ احمدیہ ہی ہے جس نے ان تمام غیر اخلاقی طوفانوں سے جماعت کو حصار میں لیا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا ابھی پوری طرح جڑ بھی نہیں پکڑ پایا تھا۔ کہ ہمارے پیارے امام نے ہمیں اس کے بد اثرات سے متنبہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اب وہی نقصانات دنیا نے تجربہ کر کے سیکھ لیے ہیں۔وہی باتیں ان کے دانشور اور ہوشمند لوگ کہہ رہے ہیں۔دہریہ طاقتوں نے مذہب سے دور کرنے کے لیے جو چال کھیلی ہے۔ فیملی کی شکل تبدیل کر دی گئی ہے۔ مرد اور عورت کی تعریف تبدیل کر دی گئی ہے۔ معاشرہ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ اب اتنے بڑے زہر کا اثر ہماری جماعت پر بھی پڑ سکتا ہے اور پڑ رہا ہے۔ اب اس حالت میں کون ہے جو ہمیں محفوظ رہنے کی تلقین کی ہے۔ ہمارے بچوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب دیئے ہیں۔بار بار ہمارری تربیت کی ہے۔ یہ خلیفة وقت ہی ہیں۔ وہ ہماری رہنمائی فرماتے ہیں۔ خؒلیفة وقت کی اطاعت گزاری میں ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہے۔ اور یہ بھی ہمارے عہدی بیعت کی اہم کڑی ہے۔ کہ ہم اپنی اگلی نسل کو خلافت کے ساتھ جوڑیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
خلافت جوبجی پر لئے گئے عہد کا ذکر کتے ہوئے حضور انور فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے جو جو نظام بھی جاری فرمایا اس کو خلافت کے انعام سے باندھا ہے۔ پس ہمیشہ اس کی قدر کرتے رہیں۔ اس خلافت جوبلی کی تقریب سے ہر احمدی میں جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے یہ عارضی تبدیلی نہ ہو، عارضی جوش نہ ہو، بلکہ اس کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جگالی کرتے رہیں اور اس کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ مَیں نے جو عہد لیا تھا اس عہد کا بھی بڑا اثر ہوا ہے۔ ہر ایک پر یہ اثر ظاہر ہو رہا ہے۔ اسے ہمیشہ یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جوعہد کرواسے پورا کروکیونکہ تمہارے عہدوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔(خطبہ جمعہ 30؍ مئی 2008ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولاد کو تنگی اور اسائش میں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اس اجلاس کی اگلی تقریر محترمہ میلیسا احمدی صاحبہ کی تھی جنہوں نے ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف میرا سفر‘‘ کے عنوان پر تقریر کی۔ موصوفہ نے تقریر کے آغازمیں سورۃ الانفال کی آیت 75کی تلاوت کی۔اس کے بعد احمدیت کی طرف اپنے سفر کا آغاز بیان کرتے ہوئے بتایاکہ میری کہانی انگلینڈ کے شمال مغربی شہر مانچسٹر میں شروع ہوتی ہے۔ میری پرورش کسی مذہب پر نہیں ہوئی۔ایمان کی تلاش میری سب سے بڑی بہن جاذبہ سے شروع ہوتی ہے۔ میں 3 بہنوں میں سب سے چھوٹی ہوں اور ہمیں ایک بہت ہی خوشگوار بچپن اور پیار کرنے والے والدین سے میسّر تھے۔جاذبہ ہمیشہ ایک خدا پر یقین رکھتی تھی اور اس نے خود نوعمری میں دنیا کے تمام عقائد کی تحقیق کی تھی۔ جب وہ چھٹی کلاس میں تھیں تو اس کی دوست نے اسے بتایا کہ وہ احمدی مسلمان ہے۔ پھر اس نے اس کا مطالعہ شروع کیا اور اس نے پایا کہ اسلام احمدیت، سب سے زیادہ منطقی اور عقلی ہے۔ جاذبہ نے 19 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ اس وقت میری عمر 7 سال تھی۔ اور شاید یہاں میرے لیے بھی بیج بوئے گئے تھے۔میں جتنی بڑی ہوتی گئی، اتنی ہی متجسس ہوتی گئی۔ میں 10 سال کی تھی جب میں نے اپنی بہن سے فون پر قرآن پاک پڑھنے کا طریقہ سکھانے کو کہا اور میں نے عربی حروف سیکھنے کا عمل شروع کیا۔
زندگی کے فیصلہ کن موڑ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ2009ء کا جلسہ سالانہ میرے لیے اہم موڑ تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے جتنا زیادہ سیکھا، اتنا ہی معمے کے ٹکڑے آہستہ آہستہ مل رہے ہیں۔ میں نے ایک جماعت کو متحد ہوکر امن کے لیے جدوجہد کرتے دیکھا۔ میں نے ایسی خواتین اور لڑکیوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے عقیدے کی خدمت کو اپنے کردار سے بااختیار محسوس کیا۔ میں جانتی تھی کہ جب میں مسجد جاتی تھی تو مجھے کتنا سکون اور آرام ملتا تھا۔
بیعت کے طلسماتی تجربہ سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بتایاجلسہ 2009ء کے اتوار کو، میں اپنی بہن کے ساتھ لجنہ تبلیغ کے خیمہ سے چل کر میدان کے اس پار گئی، اور میں مرکزی جلسہ گاہ میں بیٹھ گئی۔ میں نے اپنی بہن کا ہاتھ اپنے بائیں طرف تھاما، ایک اور لڑکی جو عمر مجھ سے زیادہ نہیں تھی اور اپنی ماں کے ساتھ میرے دائیں طرف بیعت کر رہی تھی۔ جب بیعت کی تقریب شروع ہوئی تو ماحول برقی تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں نے اس سے پہلے یا اس کے بعد کبھی ایسا تجربہ کیا ہے۔یوں محسوس ہوا کہ یہ دنیا کے مرکز میں دھڑکتا دل ہے۔میری خواہش تھی کہ اس لمحے میں، ہر کوئی محسوس کر سکے جو میں محسوس کر سکتی ہوں۔
حجاب کے بارے اپنے جذبات کا اظہا کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے2009ء کے ستمبر میں 13 سال کی عمر میں سر کو اسکارف سے ڈھانپنا شروع کیا۔ میں نے دیکھا کہ کس طرح خدا نے میرے لیے بہت سے دروازے کھولے ہیں۔ خدا کی برکت سے، حجاب پہننا ہمیشہ میرے اور دوسروں کے لیے اپنے عقیدے اور ایمان کے بارے میں بات کرنے کی دعوت رہا ہے۔
انہوں نے حضور انور سے پہلی ملاقات کا ذکر یوں کیاکہ مجھے یاد ہے کہ حضورِ انور سے میری پہلی ملاقات جب میں 14 سال کی تھی تو میں نے اپنی بیعت کے بعد کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد سے میری زندگی میں میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، میں کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا، میری تلاش میں رہے گا۔
اچھی صحبت کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے بتایاحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اچھی صحبت کے اثرات کے بارے میں فرمایا: ’’یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب لوگ ایسی محفلوں میں بیٹھتے ہیں جہاں وہ فضیلتیں سنتے ہیں تو ان کے دلوں پر اثر ہوتا ہے۔ اسے اچھا سمجھو۔‘‘ تاہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’جب وہ ان محفلوں کو چھوڑ کر اپنے دوستوں کے پاس واپس چلے جاتے ہیں تو اپنی پرانی عادتوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور ان نیکیوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو انہوں نے ابھی سنی ہیں۔‘‘
بیعت کی حقیقی روح کے بارے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں پیارے حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلیفہ دوم کی مثال دی جنہوں نے بچپن میں خدا اور اسلام پر ان کے ایمان پر سوال کیا۔ اگر آپ کسی مذہب کو محض اس لیے مانتے ہیں کہ آپ کے والدین اس کی پیروی کرتے ہیں، تو اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ اسلام احمدیت کیا ہے… لہٰذا فطری طور پر ایک پڑھے لکھے ذہن میں سوالات پیدا ہوں گے اور انہیں پیدا ہونا چاہیے۔ تاہم، آپ کو سوالات کے مرحلے پر ضد نہیں کرنا چاہیے، بلکہ آپ کو جوابات تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہیے اور جب تک آپ کو اپنے سوال کا جواب نہ مل جائے تحقیق سے نہ رکیں۔
اسلام عورتوں کے حقوق کا علمبردار ہے،کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام نے میرے لیے یہ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں اور لڑکیوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں وہ تمام دنیاوی مثالوں سے زیادہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود فرمایا کہ اسلام میں ایسا ہے جیسے عورتوں کو تختوں پر بٹھایا گیا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ ایک عورت کی شاہی حیثیت اس حقیقت کے ذریعے ظاہر کی گئی ہے کہ احمدی مسلم خواتین، ہم دنیا کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین میں شامل ہیں اور مردوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں (ویسے) وہ قومیں بھی شامل ہیں جہاں خواتین کی شرح خواندگی بہت کم ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ اصل نعمت ایک ایسی جماعت کا حصہ بننا ہے جس کی ہر کوشش صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے یہ ظاہر کرتی ہے کہ خواتین ہی دنیا کی حقیقی ’’قوم کی معمار ہیں‘‘۔
خلافت کی عظیم نعمت کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں سب سے بڑا تحفہ دیا گیا ہے، زمین پر اللہ کے نمائندے، وقت کے خلیفہ کے ساتھ ذاتی تعلق۔ خلافت کی رسی سب سے مضبوط رشتہ ہے جس کا تجربہ آپ کو اس دنیا میں ہوگا۔ یہ وہ شخص ہے جو سونے سے پہلے ہم سب کے لیے دعا کرتا ہے اور ہم سے ایسا کرنے کی کوئی امید نہیں رکھتے۔ وہ ہمارے درد، ہماری پریشانی اور ہماری خوشی اور اطمینان کو محسوس کرتا ہے۔زندگی کے تمام ہنگاموں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ خلافت کی برکات کے بغیر حقیقی سکون حاصل نہیں ہو سکتا۔
اس بے چین معاشرے میں حقیقی سکون کا ذریعہ بیان کرتے ہوئے بتایاکہ ہر جگہ اس استحکام، اطمینان اور راہنمائی کے لیے جنگ، کرب اور تنازعات کے درمیان تلاش کر رہے ہیں جو زمین کے ہر براعظم کو متاثر کرتی ہے۔ لیکن معاشرے میں حقیقی سکون اور قلبی سکون جو میں نے پایا ہے وہ اللہ کے پاس ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر تم اللہ کو راضی کرو گے تو سورج تم پر کبھی غروب نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کے حصول کے لیے سرشار ہو جائے تو وہ ہر طرح کی مشکلات یا مشکلات پر قابو پا لے گا اور دیکھے گا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر مسلسل برستی رہیں گی۔جب میں مانچسٹر کی مسجد، دارالامان (وہ جگہ جہاں سے میرا سفر شروع ہوا) میں چھت پر یہ لکھا دیکھتی ہوں وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں، اور جن کے دلوں کو سکون ملتا ہے۔اللہ کی یاد. ہاں! اللہ کے ذکر میں ہی دلوں کو سکون ملتا ہے [13:29]جب آپ اندر کی طرف دیکھتے ہیں، تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ خدا کے ساتھ قلبی سکون ہمیشہ آپ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
یہ خواتین کی جانب سے اس اجلاس کی آخری تقریر تھی جس کے کچھ دیر بعد امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ گاہ مستورات میں رونق افروز ہوئے اور جلسہ سالانہ کے مستورات سیشن کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
٭…٭…٭