خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 12؍اگست 2022ء
اللہ تعالیٰ نے تمام تحفظات اور خوفوں کو امن میں بدل دیا
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کے ایمان و ایقان میں ترقی دے اور جلسہ کے اثرات دائمی ہوں اور وقتی نہ ہوں
مَیں تمام کارکنان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے جلسہ کی تیاری سے لے کر وائنڈ اَپ تک بے لوث ہو کر کام کیا
ایک وحدت تھی جس کا نظارہ ہم نے ایم ٹی اے کے کیمرے کی آنکھ کے ذریعہ کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔ ایم ٹی اے کے کارکنان اس بات پر شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کی اکائی کو ایم ٹی اے کے ذریعہ تمام دنیا کو دکھا کر مخالفین کے منہ بند کیے
یوں گمان ہوتا ہے کہ یہ محبت خود خدا تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں ڈالی ہے کیونکہ اس میں بناوٹ کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔(ایک غیر احمدی عالمِ دین)
آج حقیقی اسلام احمدیت ہی ہے اور وہ دن دُور نہیں جب لوگ اس حقیقت کو پہچان لیں گے اور اس میں داخل ہو جائیں گے۔ (ایک غیر از جماعت دوست)
میں اس بات کو کہتے ہوئے قطعاً نہیں شرماؤں گا کہ اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں وہ عیسائیت نے نہیں دیے۔ (ایک عیسائی پادری)
جس طرح جماعت احمدیہ نے اسلام کی اس حقیقی تعلیم کو پیش کیا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی تھی، میرے نزدیک یہ جماعت کا ہی طرۂ امتیاز ہے۔(ایک حنبلی امام)
اس جلسہ سے میرا اس الٰہی جماعت پر ایمان بڑھا ہے۔ (انڈونیشین نومبائعہ )
یہ عالمی جلسہ سالانہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جماعت میں اتحاد ہے ساری دنیا کے احمدی ایک خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر جمع ہیں۔(البانین نو احمدی)
میں نے آج تک کبھی ایسا پروگرام نہیں دیکھا جس میں لوگ اپنے لیڈر کو اتنے پیار اور احترام سے سنتے ہوں۔ (ایک غیر از جماعت دوست)
اس وقت اگر امت مسلمہ کو کوئی بچا سکتا ہے تو خلافت احمدیہ ہی ہے۔ اور آج میں احمدیت میں شامل ہونے کا اعلان کرتی ہوں۔(دورانِ جلسہ احمدیت قبول کرنے والی خاتون)
خلیفة المسیح کا خطاب قرآن مجید کی آیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور عقلی دلائل سے لیس ہے۔ (البانین زیرِ تبلیغ دوست)
جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء کے موقع پر دنیا بھر سے جلسہ میں شامل ہونے والے احمدی اور غیر از جماعت مہمانوں کے تاثرات
تین مرحومین محترمہ نصرت قدرت سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم قدرت اللہ عدنان صاحب آف کینیڈا، چودھری لطیف احمد جھمٹ صاحب (واقفِ زندگی) اور
مکرم مشتاق احمد عالم صاحب کا ذکرِ خیر اورنمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 12؍اگست 2022ء بمطابق 12؍ظہور 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
الحمد للہ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں گذشتہ ہفتہ
برطانیہ کا جلسہ سالانہ
منعقد کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے بےشمار فضل ہم نے ان تین دنوں میں دیکھے۔ اس سال بھی پہلے یہی خیال تھا کہ کووِڈ (covid)کی جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ سے گذشتہ سال کی طرح چھوٹے پیمانے پر جلسہ کیا جائے لیکن پھر آخری مہینے میں یہ فیصلہ ہوا کہ برطانیہ کے تمام احمدیوں کو جلسہ میں شمولیت کی اجازت دی جائے۔ اس فیصلہ پر شروع میں تو انتظامیہ کچھ پریشان تھی لیکن بہرحال پھر انہوں نے تیاری شروع کی اور جیساکہ میں نے کہا کہ
ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو برستے دیکھا۔
جلسہ کا بڑا انتظار ہوتا ہے، سارا سال انتظار رہتا ہے۔ بڑی تیاریاں بھی انتظامیہ کو کرنی پڑتی ہیں لیکن پھر جب جلسہ شروع ہوتا ہے تو پتا ہی نہیں چلتا کہ یہ تین دن کس طرح پلک جھپکنے میں گزر گئے۔ اس سال لوگوں کو بھی مختلف حوالوں سے بعض تحفظات تھے۔ مجھے بھی بعض نے خط لکھے اور فکر کا اظہار کیا۔ لوگ خود بھی بہت دعائیں کر رہے تھے۔
مَیں بھی دعائیں کر رہا تھا۔ جماعت کے افراد بھی دعائیں کر رہے تھے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے تمام تحفظات اور خوفوں کو امن میں بدل دیا۔
کووڈ کی جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس کی بھی ایک وجہ تھی۔ بہرحال اس کا کچھ اثر تو شاید بعض شاملین پر ہو لیکن عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کا بہت فضل ہے۔
بہرحال اب جلسہ کے حوالے سے میں بعض باتیں کرنا چاہتا ہوں۔جلسہ کے اگلے خطبہ میں عموماً کارکنان کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں اور شامل ہونے والے مہمانوں کے تاثرات کا بھی ذکر کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے جلسے کے حوالے سے فضلوں کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ پہلے تو
مَیں تمام کارکنان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے جلسہ کی تیاری سے لے کر وائنڈ اپ تک بے لوث ہو کر کام کیا
اور اب تک وائنڈ اپ کا کام کر رہے ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ پھر
جلسہ کے دوران مختلف شعبہ جات میں کارکنان اور کارکنات نےعموماً اپنی صلاحیتوں کے مطابق اچھا کام کیا جس کے لیے تمام شاملین کو شکرگزار ہونا چاہیے۔
یہی اسلامی اخلاق ہے کہ جس سے تمہیں کسی رنگ میں بھی فائدہ ہو، تمہارے کوئی کام آئے تو اس کا شکریہ ادا کرو اور بندوں کی شکرگزاری ہی اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کی طرف لے کر جاتی ہے۔ بچوں، بڑوں، عورتوں، لڑکیوں نے خدمت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ بعض خامیاں اور کمزوریاں بھی سامنے آئی ہیں لیکن اتنے بڑے انتظام میں یہ کمزوریاں ہو جاتی ہیں لیکن انتظامیہ کا یہ کام ہے کہ ان کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرے۔ مثلاً لجنہ کے کھانا کھلانے کے شعبہ کی بعض شکایات ہیں یا بعض اَور باتیں ہیں۔ اس بارے میں لوگوں کے جو خطوط آئے ہیں وہ میں ساتھ ساتھ انتظامیہ کو بھجوا رہا ہوں۔ اس کے مطابق جائزہ لے کر انہیں
اپنی لال کتاب میں یہ کمیاں درج کر کےاگلے سال بہتر انتظام کرنے کی ہر شعبہ میں کوشش کرنی چاہیے۔
لیکن بہرحال عمومی طور پر کارکنان نے بہت کام کیا ہے، اچھا کام کیا ہے۔ بچوں نے بھی اپنی ڈیوٹیوں کا حق ادا کیاہے۔ بہرحال
ان سب کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایم ٹی اے نے بھی بہت اچھی کوریج دی ہے۔
اس دفعہ انہوں نے سٹوڈیو بھی تمام کا تمام خود تیار کیا ہے اور اس سے کئی ہزار پاؤنڈ کی بچت بھی ہوئی۔ اس سال یہ بھی تھا کہ بہت سے ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ملکوں کو جلسہ کی کارروائی کے دوران ملا دیا جس سے یہاں بیٹھے ہوئے لوگ بھی دوسرے ملکوں میں بسنے والے اپنے بھائیوں کو دیکھ رہے تھے۔
ایک وحدت تھی جس کا نظارہ ہم نے ایم ٹی اے کے کیمرے کی آنکھ کے ذریعہ کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔ ایم ٹی اے کے کارکنان اس بات پر شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کی اکائی کو ایم ٹی اے کے ذریعہ تمام دنیا کو دکھا کر مخالفین کے منہ بند کیے۔
بہرحال اب میں
بعض غیروں اور اپنوں کے تاثرات
پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کرتا ہوں۔ جلسہ کے ذریعہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیامیں اسلام کا پیغام پہنچایا اس کا ذکر کرتا ہوں۔
نائیجر کے ایک صاحب ابوبکر سِیْنی صاحب، غیر از جماعت ہیں اور ایک غیر احمدی عالم ہیں۔ نیامے شہر میں ایک مسجد کے امام بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ جس بات نے متاثر کیا وہ لوگوں کا خلیفۂ وقت سے پیار اور محبت کا تعلق ہے اور کس طرح لوگ خلیفۂ وقت کے ایک اشارے پر کامل اطاعت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ تقریروں کے دوران مکمل خاموشی اور سکوت طاری تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ
یوں گمان ہوتا ہے کہ یہ محبت خود خدا تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں ڈالی ہے کیونکہ اس میں بناوٹ کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔
پھر برکینا فاسو کے ایک اَور غیر از جماعت دوست اسحاق صاحب کہتے ہیں کہ آپ کا جلسہ سالانہ بہت شاندار تھا۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اتنے لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا کسی معجزے سے کم نہیں اور ایک امام کی پیروی۔ یہ جلسہ اپنی مثال آپ ہے۔ کہنے لگے کوئی مانے یا نہ مانے
آج حقیقی اسلام احمدیت ہی ہے اور وہ دن دُور نہیں جب لوگ اس حقیقت کو پہچان لیں گے اور اس میں داخل ہو جائیں گے۔
یہ غیروں کے تبصرے ہیں جو مسلمان بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس طرف ان کے رخ پھیر رہا ہے۔
پھر فرنچ گیانا میں ایک سیرین غیر از جماعت ہیں۔ پہلی دفعہ انہوں نے جلسہ دیکھا ہے۔ عربی بولنے والوں کے لیے مسجد میں ایم ٹی اے العربیہ کے ذریعہ کارروائی دیکھنے کا انتظام بھی تھا۔ یہ کہتے ہیں کہ میں پہلی بار جماعت کا پیغام سن رہا ہوں اور پہلی بار میں نے آپ کے خلیفہ کی تقریر سنی ہے۔ میں بہت متاثر ہوا ہوں کہ مسلمانوں میں ایک ایسی تنظیم ہے جو اس طرح اسلام کا حقیقی پیغام دنیا میں پہنچا رہی ہے اور ایک خلیفہ کی بیعت میں ساری دنیا میں کام کر رہی ہے۔ میں ان شاء اللہ اب ضرور آپ کی جماعت کے بارے میں مطالعہ کروں گا اور مزید تحقیق کروں گا۔
پھر فرنچ گیانا کے ہی ایک غیر از جماعت مسلمان ہیں۔ کارروائی سننے کے لیے آئے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ یوکے کی کارروائی میں نے پہلی بار سنی ہے اور میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ کی جماعت عالمگیر ہے۔ کہتے ہیں کہ میرا اصل تعلق گنی کناکری سے ہے۔ جلسہ کی کارروائی کے دوران دیکھ رہا تھا کہ بہت سے ممالک لائیو سٹریم کے ذریعہ اس جلسہ میں شامل ہیں لیکن گنی کناکری نظر نہیں آیا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسی وقت سکرین پر گنی کناکری کی جماعت کی ویڈیو آ گئی اور مجھے بہت خوشی ہوئی کہ وہاں بھی آپ کی جماعت قائم ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ
آپ کے خلیفہ نے جو عورتوں کے حقوق بیان کیے ہیں اس پر مجھےاپنے آپ کے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔
لائبیریا سے ایک غیر مسلم مہمان بوب ایم ڈَوْلَو (Bob M. Dolo) صاحب ہیں۔ یہ ایک بجلی کے محکمے میں مینیجر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں احمدیہ خلیفہ کے خطاب کو سن کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ اس سے قبل میں یہی سمجھتا تھا کہ اسلام میں عورتوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں لیکن آج یہ خطاب سن کرمجھے اس بات کا علم ہوا کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیںجو کسی اَور مذہب میں ہمیں نہیں ملتے۔ اس سے پہلے میں نے یہ سن رکھا تھا کہ احمدیہ جماعت بڑی منظم جماعت ہے۔ آج اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا ہے کہ کس طرح احمدیہ جماعت ایک لیڈر کے ہاتھ پر متحد ہے اور دنیا میں امن کی کوششوں میں مصروف ہے۔
زیمبیا کے ایک صاحب کاٹے بولے (Katebule) صاحب ہیں۔پیشہ کے لحاظ سے یہ پاسٹر (Pastor)ہیں۔ یہ کہتے ہیں جلسہ سالانہ کے آخری روز آپ کے خلیفہ کا اختتامی خطاب سنا، بہت متاثر ہوا۔ کہنے لگے کہ آپ کے خلیفہ کا خطاب بہت حیرت انگیز تھا۔
اسلام جس خوبصورتی سے عورت کے حقوق بیان کرتا ہے مجھے قطعا ًاس بات کا اندازہ نہیں تھا۔
میں یہی سمجھتا تھا کہ اسلام نے عورت کے حقوق ضبط کیے ہیں اور عورت کو کسی قسم کی آزادی نہیں دی۔ میرے نزدیک اسلام نے عورت کو گھر کے اندر بند کر کے رکھ دیا تھا مگر آج یہ خطاب سن کر میرا نظریہ بدل گیا ہے۔
میں اس بات کو کہتے ہوئے قطعاً نہیں شرماؤں گا کہ اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں وہ عیسائیت نے نہیں دیے۔
یہ عیسائی پادری ہیں اور کہتے ہیں کہ جو حقوق اسلام نے دیے ہیں وہ عیسائیت نے نہیں دیے۔ ہم اپنی عورتوں پر بلا وجہ زیادتی کرتے ہیں اور عورتوں کو اپنی غلام سمجھتے ہیں۔ آپ کے خلیفہ نے بالکل صحیح کہا کہ مرد کسی نہ کسی طرح طاقت کے زور پر اپنے حقوق ادا کروا ہی لیتا ہے۔ آج مجھے محسوس ہوا کہ اسلام متشدد تعلیم کا روادار نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم بہت خوبصورت ہے۔
پھر آئیوری کوسٹ کے ایک زیرِ تبلیغ دوست ہیں۔ کہنے لگے کہ جماعت کا تعارف مختلف ذرائع سے ہوتا رہا ہے لیکن جلسہ سالانہ یوکے نے ایک منفرد انداز سے اپنا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے پہلی بار کوئی جلسہ ٹی وی کے ذریعہ براہ راست دیکھا ہے۔ جلسہ کے انتظامات دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ کہتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد کا ایک منظم اور ایک باسلیقہ طریقے پر ایک پروگرام میں شرکت کرنا بتاتا ہے کہ خلافت کی تربیت کا ان پر ایک گہرا اثر ہے۔ کہنے لگے کہ انہیں معلوم تو نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر لوگ کیسے بیعت کرتے ہیں لیکن آج خلیفہ کے ہاتھ پر لوگوںکو بیعت کرتا دیکھ کر جو گہرا اثر دل پر ہوا ہے اور جو کیفیت ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب باقاعدہ آپ کے خلیفہ کا خطبہ سنا کروں گا۔
کونگو کنشاسا، یہاں امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے نمائندہ آئے۔ جلسہ میں شامل ہوئے اور وہاں انہوں نے لوگوں میں میرا خطاب سنا ۔کہنے لگے اس خطاب نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اب تک احمدی کیوں نہیں ہیں اور اس بات کا وعدہ کر کے گئے ہیں کہ آئندہ مشن ہاؤس آتے رہیں گے اور جماعت کے بارے میں مزید تحقیق کریں گے۔
ایم ٹی اے کے ذریعہ سے لوگوں کی تربیت بھی ہوتی ہے۔
مراؤ (Maroua)جماعت کے مشن ہاؤس میں بھی جلسہ یوکے دیکھنے کا انتظام تھا۔ کیمرون میں ایک جماعت مراؤ کی ہے۔ یہاں جو لوگ جلسہ دیکھ رہے تھے ان میں قریبی گاؤں سے ایک خاتون جن کا نام اُمل (Ummul) تھا شامل تھیں۔ تینوں دن پروگرام سے استفادہ کیا۔ جلسہ سالانہ ختم ہونے پر انہوں نے وہاں پر موجود سب لوگوں کو کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس ایم ٹی اے ہے۔ ایم ٹی اے ایک ٹی وی چینل نہیں بلکہ ایک سکول اور یونیورسٹی ہے جہاں انسان روزانہ علم سیکھتا ہے۔ ہم نے بھی ان تین دنوں میں بہت علم پایا ہے۔ ہمارے پاس کیبل پر ایم ٹی اے میسر ہے۔(وہاں کیبل پر بھی ایم ٹی اے میسر ہے۔) اس لیے ہر ایک کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے وہاں نصیحت کی کہ باقاعدگی سے گھروں میں ایم ٹی اے دیکھنا چاہیے اور بچوں کو بھی دکھانا چاہیے، کہ سب کا اسلامی علم بڑھے۔ خاص طور پر خلیفۂ وقت کے خطابات اور خطبات ضرور سنیں تا کہ ہمارا ایمان بڑھے۔
کونگو کنشاسا سے ہی ایک اور تاثر ہے۔ الیبو (Ilebo) جماعت میں جلسہ کی کارروائی دیکھنے کے لیے حنبلی مسلمانوں کے امام کو مدعو کیا گیا۔ جلسہ کے اختتام پر وہ کہنے لگے کہ
جس طرح جماعت احمدیہ نے اسلام کی اس حقیقی تعلیم کو پیش کیا ہےجو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی تھی، میرے نزدیک یہ جماعت کا ہی طرۂ امتیاز ہے۔
میں اب یہ چاہتا ہوں کہ کچھ بھی کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لوں۔ اللہ مجھے اس کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ کرے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے۔
ایک البانین زیرِ تبلیغ مسلمان لڑکی وِلما (Vilma) ہیں۔ کہنے لگیں کہ جلسہ سالانہ یوکے ایک عظیم الشان جلسہ تھا جس میں شاملین کی تعداد غیرمعمولی تھی۔ میں ابھی تک جماعت میں شامل تو نہیں ہوئی لیکن اس جلسہ سے مجھے تحریک ہوئی ہے کہ میں اس جماعت کی اہمیت اور سچائی کے متعلق سنجیدگی سے غور کروں اور خلیفۂ وقت کا خطاب سن کر مجھے محسوس ہوا کہ میں ان کی باتوں سے متفق ہوں۔ جس طرح انہوں نے مضامین بیان کیے ہیں ان سے میرے ایمان میں بہت اضافہ ہوا۔ میری خواہش ہے کہ اس طرح کے جلسوں میں آئندہ بھی مَیں ذاتی طور پر شامل ہو سکوں۔
فرنچ گیانا میں ایک افغان خاتون ہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ اختتامی خطاب سننے آئی تھیں۔ کہتی ہیں کہ آپ کی جماعت کے بارے میں ہمیں پہلے سے تھوڑا بہت معلوم تھا لیکن جلسہ یوکے میں آپ کے خلیفہ کی تقریر سن کر ایک عجیب سی کیفیت ہو گئی تھی۔ اسلام میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں سن کر کہ ہمارا مذہب عورتوں کے حقوق کا کتنا خیال رکھتا ہے بہت سکون مل رہا تھا۔ کہتی ہیں شاید اس لیے بھی زیادہ محسوس ہو رہا تھا کیونکہ
افغانستان میں طالبان جو اسلام قائم کرنا چاہتے ہیں اس میں تو عورت کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے جبکہ حقیقت میں اسلام تو عورتوں کے حقوق کا کامل ضامن ہے۔
لائبیریا میں ایک غیر مسلم مہمان اموس وُونْسِے (Amos Wonseah) صاحب تھے۔ پولیس میں سی آئی ڈی کمانڈر ہیں۔ پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ دعوت پر جلسہ میں شامل ہوئے۔ کہنے لگے جب دوسرے روز کا انہوں نے میرا خطاب سنا تو کافی متاثر ہوئے۔ دوسرے روز کی ان کو دعوت تھی۔ تیسرے دن وہ خود ہی دوبارہ آگئے اور خطاب کے بعد اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام کے بارے میں میرے خیالات بہت منفی تھے اور اس کی کچھ وجہ بعض مسلمانوں کا رویہ بھی تھا لیکن
جلسہ کے پروگرام دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ اسلام ایک پُرامن مذہب ہے اور احمدیہ جماعت ہر لحاظ سے خدمتِ انسانیت میں مصروف ہے۔ اس لیے آج سے اسلام کے بارے میں میرے خیالات بدل گئے ہیں اور جو تحفظات تھے دور ہو گئے ہیں۔
نیز یہ بھی کہا کہ اگر اس علاقے میں احمدیہ جماعت پہلے پہنچی ہوتی تو اب تک بہت سے لوگ جماعت کے ذریعہ اسلام میں داخل ہو چکے ہوتے۔
فرنچ گیانا، وہاں بھی جماعتی طور پہ جلسہ سننے کا انتظام تھا۔ چھوٹی سی جماعت ہے اور تھوڑے سے لوگ وہاں آئے تھے۔ وہاں ملک ہیٹی سے تعلق رکھنے والے دو عیسائی جو زیرِ تبلیغ ہیں وہ اختتامی خطاب سننے کے لیے آئے۔ دونوں دوست تھے۔ کہنے لگے کہ ہم حیران ہیں کہ آپ کے خلیفہ نے جو موضوع اپنی تقریر کاچنا یعنی عورتوں کے حقوق یہ وہی موضوع ہے جس پر ہم دونوں پچھلے دو دنوں سے بات کر رہے تھے کہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اسلام عورتوں کے حقوق کے بارے میں اتنی کامل اور جامع تعلیم دیتا ہے۔
اگر آج ہم نے آپ کے خلیفہ کی تقریر نہ سنی ہوتی تو ہمیںشاید اس خوبصورت اور کامل تعلیم کا پتا ہی نہ چلتا۔
آج کے زمانے میں عورت کے حقوق پر بات تو بہت ہوتی ہے لیکن مرد اور عورت دونوں کی جو ذمہ داریاں ہیں انہیں حقیقی رنگ میں اسلام ہی پیش کرتا ہے۔ آج کل یہ لوگ Life of Muhammadبھی پڑھ رہے ہیں اور پھر انہوں نے مزید لٹریچر بھی مانگا ہے۔
ماریشس کی رپورٹ ہے۔ وہاں نشریات جو ہو رہی تھیںتو لوگ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے۔ ممبر آف پارلیمنٹ تانیہ دیولے (Tania Diolle) صاحبہ ہیں۔ وہ آئی تھیں۔ یہ پارلیمنٹری پرائیویٹ سیکرٹری بھی ہیں۔ کہتی ہیں کہ شاندار نظارہ ہے۔ جماعت احمدیہ کی تقریبات اور جماعت احمدیہ کے کلچر کا مشاہدہ کرنے کا بہت اچھا تجربہ ہے۔ بہت متاثر کن بات ہے کہ آپ لوگ لندن جیسے شہر میں اتنی بڑی مذہبی تقریب کا انعقاد کر رہے ہیں۔ کہتی ہیں یہ بات بھی درست ہے کہ آج کل کی معاشی اور معاشرتی صورتحال کے پیش نظر مذہب بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا اپنا محاسبہ کرنے کے لیے اور ایک روحانی مقصد کے لیے جمع ہونا بڑی بات ہے۔ خاص کر جبکہ ہم سارے ایک مشکل دور میں سے گزر رہے ہیں جس میں دنیا بہت سے بحرانوں کا شکار ہے۔
میرے نزدیک اس قسم کی چیزیں معاشرے کو صحیح راستے پر گامزن اور اعلیٰ اقدار کو برقرار رکھنے میں بہت ممد ہیں۔
میرے لیے یہ تجربہ بہت خوشگوار ہے۔ میں نے بہت سی باتیں یہاں سیکھی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ لمحات میرے لیے قابل فکر بھی ہیں۔
نومبائعین نے بھی اپنے تاثرات بھیجے ہیں۔
برکینا فاسو کی ایک نومبائعہ خاتون حوا صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ خلیفۂ وقت کے کھلے اور صاف الفاظ ہمیں بتا رہے ہیں کہ
ہم نے احمدیت کو حقیقی اسلام سمجھ کر صرف اس لیے بیعت نہیں کی کہ ہم دوسروں کو بھی احمدی بنائیں بلکہ اس لیے بھی کہ ہم نے کس طرح معاشرے میں خود بھی ایک مثالی احمدی بن کے رہنا ہے اور اپنے قول و فعل کو ایک کر کے اپنے ایمان کو بھی مضبوط کرنا ہے اور یقین میں بڑھنا ہے۔
اب لوگ کہتے ہیں کہ جی افریقہ کے لوگ اَن پڑھ ہیں۔ اب یہ خاتون ہیں، انہوں نے کہا صرف ہم نے ایسی تبدیلی پیدا کرنی ہے کہ ہمارے قول اور فعل برابر ہو جائیں۔ اور یہ ہر پڑھے لکھے احمدی کے لیے اور اپنے آپ کو پڑھا لکھا سمجھنے والے احمدی کے لیے، یورپ میں رہنے والوں کے لیے، ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والوں کے لیے یہ جو بات ہے سوچنے والی ہے اور ان کو غور کرنا چاہیے کہ اپنے قول و فعل کو ہر جگہ ایک بنائیں۔
انڈونیشیا میں ایک نومبائعہ خاتون ہیں ۔کہتی ہیں کہ جلسہ سالانہ یوکے ایک غیر معمولی چیز ہے۔ کہتی ہیں میں ایک نومبائعہ ہوں۔ یہ میرے لیے اس الٰہی جماعت میں اپنی روحانیت کو بڑھانے کا لمحہ ہے۔ میں نے دیکھا کہ لوگ جوق در جوق اس مبارک جلسہ میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔ اگرچہ میںنے یہ جلسہ صرف ٹی وی پر دیکھا ہے لیکن میرا دل و دماغ جلسہ یوکے میںموجود تھا۔
اس جلسہ سے میرا اس الٰہی جماعت پر ایمان بڑھا ہے
اور میں مستقبل میں مزید بہتر ہو جاؤں گی۔
کونگو برازاویل کی ایک رپورٹ ہے کہ مستورات کی طرف جو میرا خطاب ہوا اسے سن کر لوکل
لجنہ نے عہد کیا کہ ہم بھی اسلام احمدیت کو پھیلانے کے لیے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار کریں گی۔
پھر ایک نو مبائعہ کہتی ہیں کہ روحانی ماحول میں تین دن گزرے ہیں۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہر دن اس طرح گزرے اور ہم روحانی ماحول سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔
انڈونیشیا سے ایک نو مبائع ایری ہیماوان (Erry Himawan) صاحب کہتے ہیںمیں ایک نو مبائع ہوں۔ جلسہ سالانہ یوکے کو لائیو سٹریم کے ذریعہ دیکھنے کے بعد میری طرف سے صرف ایک لفظ ہے: حیرت انگیز۔ میں حیران ہوں دنیا بھر میں صرف ایک اسلامی تنظیم ایسی ہے جس کے ارکان پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک ٹی وی سٹیشن ہے جو چوبیس گھنٹے چلتا ہے۔ میں اپنے آپ سے پوچھتا تھا کیا کوئی اسلامی تنظیم ہے جیسے یہووازوِٹنس (Jehovah’s Witnesses)اور مورمنز (Mormons)اور ایڈونٹسٹ ایس ڈی اے (Adventist-SDA)والے۔ یہ سبھی عیسائی تنظیمیں ہیں جن کے لاکھوں پیروکار ہیں اور سینکڑوں ممالک میں کام کر رہے ہیں لیکن مجھے اس کا جواب مل گیا کہ
ایک اسلامی تنظیم احمدیہ جماعت ہے جو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور میں اس تنظیم کا ممبر ہونے پر خوش ہوں۔
یہی اسلامی تنظیم میرے کردار اور شخصیت کے مطابق ہے۔ اب میں احمدی ہو کر ایک کارآمد شخص بن سکتا ہوں اور جسمانی اور روحانی ترقی حاصل کر سکتا ہوں۔
قزاخستان سے بُگوُبَایَوس دَاؤرِیْن صاحب کہتے ہیں۔ جلسہ نے میرے دل پر ایک خاص اثر کیا ہے۔ میں نے جلسہ سالانہ کی کارروائی اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک روحانی ماحول میں دیکھی۔ خلیفۂ وقت کے خطاب نے دل پر ایک خاص اثر کیا جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح دیگر مقررین کی تقاریر بھی بہت اچھی تھیں۔ تمام دنیا کے احمدیوں کو بذریعہ ایم ٹی اے جلسہ کی کارروائی دیکھنے کی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ تمام کارکنان اور انتظامیہ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اپنے لیے بھی دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ یہ روحانی احساس اور کیفیت اگلے سال کے جلسہ تک قائم رکھے اور ہمیشہ قائم رکھے۔
زیمبیا کے ایک نومبائع نے جب میرا خطاب سنا تو جذبات پہ قابو نہیں پا سکے۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ساتھ بیٹھے ہوئے دوست نے پوچھنا چاہا تو جواب نہ دے سکے اور ہال سے چند منٹ کے لیے باہر چلے گئے۔ آنسوپونچھ کر دوبارہ واپس آئے اور پوچھنے پر بتایا کہ
زندگی میں پہلی مرتبہ خلیفۂ وقت کو دیکھا ہے اور آواز سنی ہےاس لیے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
کہتے ہیں میری عمر اسّی سال ہے۔ میں نے اپنی ساری زندگی بھیڑیوں کے درمیان میں گزار دی یعنی ظالم لوگوں کے درمیان اور احمدیت میں آ کے مجھے پتہ چلا کہ اسلام کی اصل تعلیم تو محبت پھیلانا ہے نہ کہ لوگوں میں نفرت پھیلانا۔ پھر ایک دن نمازِ فجر کے درس کے بعد اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور تمام احباب کومخاطب کرکے کہا کہ اس مسجد کو لوگوں سے بھرنا صرف مربی کا کام نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں سب کو تبلیغ کرنی چاہیے۔
آسٹریلیا کے ایک نومبائع عیسیٰ گَیْبری (Esaw Gebre) صاحب ہیں جنہوں نے پہلے بیعت تو کر لی تھی لیکن غیر احمدیوں کے اعتراضات سے کچھ متاثر بھی ہو جاتے تھے اور خاص طور پر یہ اعتراض کہ جلسہ جو ہے بدعت ہے۔ انہوں نے وہاں آسٹریلیا میں مسجد بیت المسرور میں عالمی بیعت میں شرکت کر کے کہا کہ میرے تمام شکوک و شبہات دور ہو گئے ہیں کیونکہ مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ جلسہ لِلّٰہ منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ میرے لیے اپنے ایمان کی تجدید کرنے کا موقع تھا۔ بیعت کے دوران خلیفۂ وقت کے ساتھ دعا میں شریک ہو کر مجھے کامل یقین ہو گیا ہے کہ میری دعائیں ضرور قبول ہوں گی۔
لوگوں میں ایمان میں مضبوطی
بھی جلسہ کی کارروائیاں دیکھ کے پیدا ہوتی ہے۔ آسٹریلیا سے ایک نومبائع مکیاس گبری (Mikias Gebre) صاحب کہتے ہیں کہ عالمی بیعت میرے لیے ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔ اس وقت میں جس روحانی کیفیت سے گزرا اس سے قبل میں نے وہ کیفیت کبھی نہیں محسوس کی۔ ایک ایسا روحانی ماحول تھا جس نے مجھے اطمینانِ قلب اور روحانی سرور عطا کیا۔
لیسوتھو سے ایک نومبائع یوسف لابِیْسَا صاحب کہتے ہیں: یہ میرا پہلا جلسہ ہے اور میں نے پہلی دفعہ خلیفۂ وقت کو دیکھا ہے۔
جس طرح انہوں نے معاشرے کی کمزوریوں اور برائیوں کی طرف اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کے ذریعہ اصلاح کے طریقے بتائے ہیں وہ آج تک میں نے کہیں نہیں سنے۔ نہ ہی عیسائیت میں مَیں نے سیکھے۔
جب میں احمدیت کے بارے میں تحقیق کر رہا تھا اور جب میں نے پہلی بار خلیفۂ وقت کی تصویر دیکھی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے خواب میں کہا کہ یہ سچا مذہب ہے۔ احمدیت کی طرف میرا آنا اور حقیقی اسلام کو پانا اصل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہدایت ہے جو مجھے خلیفۂ وقت کو دیکھنے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح جلسہ کو زندگی میں پہلی بار دیکھنا اور بیعت کے روح پرور مناظر کو دیکھنا اس سے میں اس میں شامل ہونے کے بعد اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کر رہا ہوں جیسے ایک نئی زندگی حاصل ہو گئی ہو۔
البانیا کے پَلُّومْب بےیَا (Pellumb Beja) صاحب جرمنی میں ہسٹری کے ٹیچر ہیں۔ انہوں نے تین چار سال پہلے بیعت کی تھی۔ کہتے ہیں کہ اس سال جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت ورچوئلی (virtually)تھی لیکن مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ گویا میں بذاتِ خود اس میں شامل تھا۔ جلسہ کا ماحول اور خلیفۂ وقت کے خطاب کا اثر اتنا زبردست تھا کہ مجھے لگا کہ میں بھی جسمانی طور پر جلسہ میں شامل ہوں۔
یہ عالمی جلسہ سالانہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جماعت میں اتحاد ہے۔ ساری دنیا کے احمدی ایک خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر جمع ہیں۔
تمام احمدی احباب اپنے فرائض کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ اور کہتے ہیں تمام لوگ خلیفۂ وقت کی ہدایات سننے کے منتظر ہیں اور ان پر عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اپنے اختتامی خطاب میں نہایت سادہ الفاظ میں ہمیں نہایت واضح ہدایات دی ہیں اور یہ الفاظ جو ہیں ایسے تھے جو سوسائٹی کا ہر طبقہ بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ یہ خطاب ہمیں اپنی ذمہ داریوں کے سامنے کھڑا کر دیتا ہے۔ بالخصوص ہمیں، جو البانین سوسائٹی میں رہتے ہیں، جہاں پر عورتوں کے حقوق کے معاملے میں بہت سے مسائل ہیں۔
پھر نائیجر کے ریجن گُڈاں رُوْمْجی (Guidan Roumji)کی ایک خاتون کہتی ہیں کہ آج لجنہ کا خطاب سن کر مجھے عورتوں کے حقوق اور عورتوں کی ذمہ داریوں کا حقیقی ادراک ہوا ہے اور کہتی ہیں کہ جب آپ نے حضرت اماں جانؓ کا بتایا کہ کس طرح وہ اپنے بچوں کا خیال رکھتی تھیں اور ان کی مثالی تربیت کرتی تھیں تو میں نے اسی وقت عہد کیا کہ
آج سے میں بھی اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دوںگی تا کہ وہ مثالی خادم دین بن سکیں۔
دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے۔
عاطف زاہد صاحب مربی سلسلہ ایڈیلیڈ ہیں۔ یہ لکھتے ہیں کہ ایڈیلیڈ کے وقت کا لندن سے ساڑھے آٹھ گھنٹے کا فرق ہے۔ جلسہ کے تمام پروگرام رات دیر سے یہاں نشر ہونے تھے۔ فکر تھی کہ لوگ نہیں آئیں گے، حاضری اچھی نہیں ہو گی لیکن لوگوں کی طرف سے غیر معمولی اخلاص کا مظاہرہ ہوا اور جمعہ کو working dayہونے کے باوجود مسجد میں لوگ تشریف لائے، خطاب سنا، عالمی بیعت کے وقت بھی لوگ موجود تھے۔ رات تین بجے تک جاگ کر انہوں نے اختتامی خطاب سنا اور سب کی خلافت سے جو محبت تھی وہ دیدنی تھی اور اس بات پہ ایم ٹی اے کے بھی شکر گزار ہیں۔
قزاخستان سے گُلْیَان آئی مَکِیْنَا صاحبہ کہتی ہیں کہ جلسہ سالانہ خدا کے فضل سے کامیابی سے اختتام پذیر ہوا۔
مختلف موضوعات پر خلیفۂ وقت اور دیگر مقررین کی تقاریر بہت ہی مفید اور دلچسپ تھیں۔ ان تقاریر نے میرے دل پر ایک خاص اثر کیا اور میں نے تبلیغ کرنے کے طریقے بھی سیکھے۔
مجھے یقین ہے کہ اس طرح دیگر سامعین کو بھی اپنے سوالات کے جوابات مل گئے ہوں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے تجدیدِ بیعت کی توفیق عطا کی۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دل اور آنکھیں کھولے اور وہ ہدایت کو قبول کرنے والے بنیں۔
یمن سے شیما قاسم صاحبہ کہتی ہیں۔ ہم نے جلسہ کی کارروائی دیکھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم جنت میں ہیں۔ اسلام کا سورج ہم پر دوبارہ طلوع ہوا ہے اور ہمارے دلوں اور روح کو تازگی بخشی ہے۔ ہم میں حقیقی ایمان اور محبت اور وحدت اور اخلاق کی روح پھونکی گئی ہے۔ ہم آپ سے دور تھے لیکن ہمارے دل آپ کے ساتھ تھے۔ ہم ایک ہی گھر میں موجود تھے۔ ایک احمدی کے سوا کوئی اَور اس تعلق کو محسوس نہیں کر سکتا۔ ہمارے ملک میں موسلا دھار بارشوں کے باوجود جلسہ کے تینوں دن موسم ٹھیک رہا اور اللہ کے فضل سے ہم نے جلسہ کی ساری کارروائی دیکھی۔
مولیٰ کریم خلافت کو دوام بخشے۔ اس کے بغیر نہ ہمارا کوئی وجود ہے نہ کوئی مقصد۔
پھر کبابیر سے ایک اَور عرب خاتون دعا صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ آپ کے خطاب کے نوٹس لکھنے کی کوشش کرتی رہی۔ اختتامی خطاب میں جو خواتین کے حقوق کی طرف توجہ دلائی تھی اس کی وجہ سے بہت ممنون ہوں۔
میں اس مذہب کی پیرو ہوں جو میرے حقوق اور احساسات کی حفاظت کرتا ہے۔ مجھے ان تمام باتوں کو اپنی غیر مسلم سہیلیوں کے سامنے دہرانے میں فخر محسوس ہوتا ہے۔
پھر عورت کے نکتہ نگاہ سے بھی آپ نے مردوںکے حقوق کے بارے میں ہمیں بتایا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ کیا میں اپنے والد صاحب، بھائیوں اور شوہر کے حقوق اچھی طرح ادا کرتی ہوں یا نہیں۔ بیعت کے وقت مجھے احساس تھا کہ ہم حقیقت میں خلیفۂ وقت کے ساتھ ہیں اور ہمارے درمیان نہ کوئی ملک اور نہ کوئی سمندر ہے۔ میں اس قدر خوشی محسوس کر رہی تھی کہ مجھے لگ رہا تھا کہ میرا دل پھٹ جائے گا۔
اردن سے ایک خاتون امة الشافی صاحبہ لکھتی ہیں کہ میں نے آپ کا جلسہ سالانہ کا پہلے روز کا خطاب سنا۔ میرا جسم اپنی ذمہ داری کا احساس کر کے کانپ کے رہ گیا۔ دوسرے روز کے پروگرام میں وَغَاندا نامی بستی کے احمدیوں کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفۂ وقت سے محبت کو دیکھا۔ اگرچہ یہ بستی نہایت پسماندہ ہے اور اس کے باسی ابھی تک زندگی کی ابتدائی ضروریات سے بھی محروم ہیں، پھر بھی اس بستی کے ایک سرکردہ کی بات سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور مسیح موعودؑ سے محبت کرتا ہے۔ یہ بظاہر بہت سادہ سے الفاظ تھے لیکن اس کا میرے دل پر بہت اثر ہوا۔
پھر مصر کی مروہ عبداللہ صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں: امیر المومنین! آپ نے ہمارے دلوں کو اپنی تقریروں اور دیگر مقررین کی تقاریر سے روحانی دولت سے مالا مال کر دیا ہے۔ میں اس دوران آسمانِ روحانیت پر اڑنے لگی اور اپنے رب کی ملاقات کے لیے بے چین ہو گئی۔ میری تمنا ہے کہ اس روحِ مطمئنہ کے درجہ تک پہنچوں جس کا آپ نے ذکر کیا۔ دل چاہتا ہے کہ میں خدا کی محبت اور اس کے وصل کے شوق میں ایسی گم ہو جاؤں کہ آس پاس کی خبر نہ رہے۔ میرا جسم تو بےشک لوگوں کے سامنے موجود ہو لیکن میری روح خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت کے آسمان میں محو پرواز ہو۔
عربوں میں ایک خاص ملکہ ہے۔ الفاظ بڑے اچھے استعمال کرتے ہیں اور ان کو اخلاص و وفا کا بڑا اظہار کرنا آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کےایمان و ایقان میں ترقی دے۔
پھر ملائیشیا کے ایک نومبائع دوست نزلان ازگان (Nazlan Azgan) صاحب ہیں۔ بڑے سادہ سے انسان ہیں۔ بڑی سادہ زندگی گزارنے والے ہیں اور مالی حالات بھی اچھے نہیں۔ ان کے پاس کچھ بھی رقم انٹرنیٹ پر جلسہ دیکھنے کے لیے نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے گھر کے سامنے ایک درخت سے آم توڑے اور آموں کو بیچا اور پھر کہتے ہیں کہ وہاں جاکے بیچ کر جو رقم آئی اس سے انہوں نے انٹرنیٹ کا ڈیٹا (data)خریدا اور پھر جلسہ کی کارروائی سنی۔
گنی بساؤ کے ایک غیر احمدی دوست آسینی بالڈے صاحب نے جلسہ کی کارروائی سنی۔ وہ کہتے ہیں
میں نے آج تک کبھی ایسا پروگرام نہیں دیکھا جس میں لوگ اپنے لیڈر کو اتنے پیار اور احترام سے سنتے ہوں۔
اور عالمی بیعت کے مناظر بہت خوبصورت تھے، انہوں نے صرف عالمی بیعت کا نظارہ دیکھا تھا، جس میں پوری جماعت ایک ہاتھ پر اکٹھی تھی۔ مجھے یہ مناظر دیکھ کر یقین ہو گیا ہے کہ احمدیہ جماعت اپنے خلیفہ کی مکمل اطاعت کرتی ہے اور یہی ان کی ترقی کا راز ہے اور حقیقت میں احمدیہ جماعت ایک سچی جماعت ہے اور آپ لوگ سچے رستے پر ہیں۔
میکسیکو سے ثریّا گومیز (Gomez) صاحبہ کہتی ہیں کہ جلسہ سالانہ یوکے کے خطابات سننے کا موقع ملا۔ اختتامی خطاب سب سے دلچسپ لگا جس میں عورتوں کے حقوق کا ذکر کیا گیا تھا اور کس طرح گھر کے ماحول کو بہتر بنایاجا سکتا ہے۔ یہ ایسی اسلامی تعلیمات ہیں جن پر میں خود اپنی زندگی میں عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔ اس کے علاوہ بیعت کی تقریب سے بہت جذباتی ہو گئی تھی۔ ایک ایسی کیفیت تھی جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی مگر میں بڑی خوشی اور سکینت محسوس کر رہی تھی۔
گنی بساؤ کی ایک نومبائعہ خاتون ہیں۔ وہ اپنی ایک غیر از جماعت خاتون زیب النساء کو جلسہ کے لیے لے کر آئیں اور کہتی ہیں کہ جلسہ کے تینوں دنوں کے تمام پروگراموں میں خاص طور پر آپ کے تمام خطابات سنے اور آخری دن مسجد میں اس خاتون نے جو غیر از جماعت تھی اعلان کیا کہ میرے جماعت احمدیہ کے بارے میں بہت سے اعتراضات تھے مگر آپ کے خلیفہ کے خطابات سن کر تمام اعتراضات ختم ہو گئے ہیں اور میں احمدیت میں شامل ہونے کا اعلان کرتی ہوں اور میں اپنے بیٹے کو بھی جماعت احمدیہ کے لیے وقف کرتی ہوں۔
گنی بساؤکے ایک گاؤں کی رہنے والی خاتون کمبا کیٹا صاحبہ ہیں۔ جلسہ یوکے کے پروگرام میں شامل ہوئیں۔ عالمی بیعت کے بارے میں سنا تو معلم سے اس کی تفصیل پوچھی۔ معلم صاحب نے دس شرائطِ بیعت کے بارے میں بتایا۔ چنانچہ یہ خاتون بیعت کی تقریب میں شامل ہوئیں۔ بیعت کے تمام الفاظ دہرائے اور اختتامی خطاب بھی سنا۔ آخر پر کہنے لگیں کہ میں نے احمدیت تو اسی وقت قبول کر لی تھی جب عالمی بیعت ہوئی تھی مگر اب اس خطاب کے بعد اعلان کرنا چاہتی ہوں کہ
اس وقت اگر امت مسلمہ کو کوئی بچا سکتا ہے تو خلافت احمدیہ ہی ہے اور آج میں احمدیت میں شامل ہونے کا اعلان کرتی ہوں۔
اور اپنے بچوں کو بھی احمدیت قبول کرنے کی نصیحت کروں گی کیونکہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔
پھر کونگو برازاویل میں مختلف جماعتوں کے مشنری لکھتے ہیں کہ اجتماعی طور پر جلسہ کی تمام نشریات بذریعہ ایم ٹی اے افریقہ لائیو دیکھنے کی توفیق ملی اور جو خطابات تھے اس سے بہت لوگ متاثر ہوئے اور اللہ کے فضل سے ان خطابات کو سننے کی وجہ سے جلسہ کی کارروائی کو سننے کی وجہ سے 23 افراد کو ان دنوں میں بیعت کرنے کی توفیق ملی۔
کونگو برازاویل سے مسٹر مَبُورَابِن جِیْلی(Mboura Ben Jeli) صاحب کوجن کا تعلق عیسائیت سے ہے جلسہ میں مدعو کیا گیا تھا۔ دو دن انہوں نے جلسہ کی کارروائی سنی۔ کہتے ہیں کہ میں یہاں پر دو دن سے حقوق اللہ، حقوق العباد، تقویٰ اور استغفار کے بارے میں باتیں سن رہا ہوں جو میرے دل میں گھر کر رہی ہیں اور اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کر رہا ہوں جبکہ چرچ میں سوائے جادو ٹونے یا بدروحوں کو نکالنے کے اَور انہیں کچھ بھی نہیں بتایا جاتا۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں آپ کی جماعت میں شامل ہو جاؤں کیونکہ یہاں ہی مجھے روحانی سکون میسر آیا ہے۔ چنانچہ وہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔
برکینا فاسو سے نو مسلم دوست نِیْسے بِیْسَا(Gnisse Bessa) صاحب کہتے ہیں کہ خلیفة المسیح کو براہ راست دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے۔ میں اسلام میں نیا داخل ہوا ہوں اور میرے ذہن میں ہمیشہ یہ سوال آتا تھا کہ دنیا کو لازمی طور پر ایک لیڈر کے ہاتھ پر متحد ہونا چاہیے۔ اب یہاں جماعت احمدیہ کے لوگوں کو دیکھا تو وہ اتحاد نظر آتا ہے اس لیے میں نے ان کے ساتھ احمدیہ مسجد میں نمازیں پڑھنی شروع کر دیں اور آج میں جلسہ سالانہ یوکے اور عالمی بیعت میں شامل ہوا ہوں جس میں تمام احمدی ایم ٹی اے کے ذریعہ سے شامل تھے۔ جب میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو میں مطمئن ہو گیا اور وہ بات جو میں ہر وقت سوچتا تھا کہ سب ایک ہاتھ پر متحد ہوں وہ بھی میں نے دیکھ لی اور میرے اس سوال کا جواب مل گیا۔ اس لیے آج سے میں احمدیت قبول کرنے کا اعلان کرتا ہوں اور میں اپنے خاندان کو بھی خلافت کے پیچھے چلنے کا کہوں گا۔
سری لنکا کے صدر جماعت قبولیت احمدیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مقامی جماعتوں میں اجتماعی طور پر جلسہ سننے کا انتظام کیا گیا تھا۔ کولمبو میں جماعتی سینٹر میں ملکی حالات کے پیش نظر آمد و رفت کی شدید مشکلات کے باوجود پچاسی احمدی اور غیر احمدی افراد جلسہ اور عالمی بیعت کے پروگرام میں شامل ہوئے۔ اس موقع پر دو احباب بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔ اسی طرح لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ نوگمبو، پَسْیَالَہ اور پَولَونَرْوَا میں احباب جماعت اجتماعی طور پر جلسہ میںشامل ہوئے اور سارے پروگراموں کا تامل زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا۔ ان پروگراموں کے نتیجہ میں چار احباب کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔
البانیہ کے بارے میں رپورٹ ہے کہ وہاں لائیو ترجمہ یوٹیوب پر نشر ہو رہا تھا جو البانیہ، کوسووو، مقدونیہ، جرمنی وغیرہ میں البانین لوگ سن رہے تھے۔ ایک زیرِ تبلیغ البانین مسلمان دوست البرٹ (Albert) صاحب پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ یوکے کے اختتامی سیشن میں شامل ہوئے۔ جلسہ ختم ہونے کے بعد کہنے لگے کہ
خلیفة المسیح کا خطاب قرآن مجید کی آیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور عقلی دلائل سے لیس ہے
لیکن نہایت ہی سادہ زبان میں تھا۔ جو لوگ عورتوںکے حقوق کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں ان کے تمام سوالات کے جوابات بھی آج انہوں نے اپنے خطاب میں بیان کر دیے۔ واپس جانے کے تھوڑی ہی دیر کے بعد دوبارہ ان کا فون آیا اور جماعت احمدیہ اور جلسہ کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ کہنے لگے کہ جماعت احمدیہ ہی حقیقی اسلام ہے۔ جب شرائطِ بیعت کا ذکر ہوا تو جماعت کی ایک البانین کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں دس شرائط بیعت درج ہیں اور میں نے پڑھ لی ہیں اور اب میں بیعت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ چنانچہ وہ جماعت میں شامل ہو گئے۔
کونگو برازا ویل کے معلم نے لکھا ہے کہ ایک خاتون بی یُوکُوسِٹِیْوِی(Biyoko Stevie) کا خاوند پہلے ہی احمدیت قبول کر چکا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ بیوی بھی اسلام قبول کر لے۔ تبلیغ بھی کررہا تھا۔ دعا بھی کرتا تھا لیکن بیوی چرچ کو چھوڑنے کو تیار نہیں تھی۔ جلسہ سالانہ دیکھنے کے لیے دعوت دی گئی۔ تینوں دن جلسہ کی کارروائی انہوں نے دیکھی اور جلسہ کے آخری دن اس خاتون نے کہا کہ میں تین دن سے اپنے پادری اور آپ کے خلیفہ کی باتوں کو compareکر رہی تھی۔ میں اس نظریے پر پہنچی ہوں کہ
خلیفہ کی باتوں میں بہت وزن ہے اور ہر بات دل میں اتر رہی تھی جبکہ پادری کی باتیں ہم روزانہ سنتے ہیں لیکن کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ اس کی باتوں نے ہمارے دل پر اثر کیا ہو۔
چنانچہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئی۔
یہ لوگوں کے چند واقعات تھے جو مَیں نے بتائے ہیں۔ جلسہ کے موقع پر جیسا کہ آپ لوگوں نے جلسہ کی کارروائی کے دوران دیکھا تھا کہ نمایاں شخصیات کی طرف سے بہت سارے پیغامات ملے۔ 126پیغامات دنیا بھر کے مختلف سیاستدانوں اور لیڈروںکی طرف سے ملے۔ 101ان میں سے ویڈیو تھے اور 25تحریری پیغام تھے۔ وزراء اور ایم پیز کے پیغام تھے۔ یوکے کے علاوہ دوسرے ملکوں سے جن لوگوں نے پیغام بھجوائے ان میں امریکہ، کینیڈا، سیرالیون ، یوگنڈا ،لائبیریا، نیوزی لینڈ، سپین اور ہالینڈشامل تھے۔ لائیو سٹریمنگ کا جو انتظام تھا وہ 53ممالک میں تھا اس کے ذریعہ ترپن ممالک کے لوگ یوکے جلسہ میں شامل ہوئے اور یورپ میں بھی، افریقہ میں بھی، ایشیا میں بھی اور ان ترپن ملکوں میں اسّی مقامات تھے جہاں کے لوگ شامل ہوئے۔
پریس اور میڈیا کی جو کوریج ہے
اس سال کووڈکی وجہ سے عام طور پر دعوت نہیں دی گئی تھی لیکن دو میڈیا آؤٹ لٹس نے خا ص طور پر درخواست کر کے آنے کی اجازت لی۔ چنانچہ ان کو اجازت دی گئی اور پریس سیکشن کا خیال تھا کہ اس دفعہ بڑا چیلنجنگ ہےکہ کس طرح ہم جلسہ سالانہ کے بارے میں دنیا کو بتائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس طرح انتظام کیا کہ خود ہی کوریج کے سامان پیدا کر دیے۔ اور دو میڈیا والے، بی بی سی والے اور ایک اَور چینل والے تو آئے بھی تھے۔ اس کے علاوہ بی بی سی، آئی ٹی وی، میٹرو، ایل بی سی، بی بی سی ریڈیو سرے، بی بی سی ساؤتھ ٹوڈے ، بی بی سی نیوز ویب سائٹ وغیرہ نے بڑی کوریج دی اور اسی کو لے کر پھر دوسرے میڈیا نے بھی دیا۔ اس طرح ریجنل سطح پر بھی آٹھ میڈیا آؤٹ لٹس نے جلسہ کو کور کیا۔ اس کے علاوہ اٹھائیس ویب سائٹس نے جلسہ کے حوالے سے خبریں یا آرٹیکل شائع کیے۔ ان ویب سائٹس کی پہنچ بیس ملین سے زائد لوگوں تک ہے۔ پرنٹ میڈیا میں دیکھا جائے تو اخبارات میں جلسہ کے حوالے سے چودہ آرٹیکل شائع ہوئے اور ان اخبارات کو پڑھنے والوں کی تعداد 1.2 ملین ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر بتیس پروگراموں میں جلسہ سالانہ کو کور کیا گیا۔ ان ٹی وی چینلز کو دیکھنے والوں کی تعداد بارہ ملین سے زائد ہے۔ ریڈیو سٹیشنز پر تینتیس پروگراموں میں جلسہ سالانہ یوکے کا ذکر ہوا۔ ان ریڈیو سٹیشنز کو سننے والوں کی تعداد ایک ملین سے زائد ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ سے بعض میڈیا آؤٹ لٹس، صحافی حضرات اور پبلک فگرز نے جلسہ کے حوالے سے میسج وغیرہ دیے جن کی پہنچ بارہ ملین سے زائد افراد تک ہے۔ پریس اینڈ میڈیا کی ٹیم نے ویڈیو بنا کر بھی سوشل میڈیا پر ڈالیں جن کی پہنچ دو لاکھ چونتیس ہزار افراد سے زائد تھی۔ ان تمام کو ملا کر
57.5ملین سے زائد افراد تک جلسہ کی کوریج ہوئی۔
جرنلسٹس کو آنے کی کیونکہ اجازت نہیں تھی اور پریس میڈیا کی ٹیم نے یوکے جماعت کے تبلیغی ڈیپارٹمنٹ کی معاونت سے 32جرنلسٹس کو لنگر کا کھانا بھجوایااور اس کا بھی انہوں نے بڑا مثبت جواب دیا، بڑا appreciateکیا۔ بی بی سی ساؤتھ کے نمائندہ جرنلسٹ ایڈورڈ سالٹ (Edward Sault) نے کہا کہ میں نے جلسہ میں بہت اچھا وقت گزارا۔ مہمان نوازی بہت عمدہ تھی۔ مختلف تقاریر سن کر بھی بہت اچھا لگا۔ آئندہ بھی آپ لوگوں کے ساتھ کام کروں گا۔ ایک جرنلسٹ Tevy Nitha نے کہا آپ کی جماعت کی فراخ دلی دیکھ کر میں ششدر رہ گئی۔ ایک صحافی نتاشا دیون (Natasha Devon) نے کہا اصل میں تو تمام مذاہب یکساں ہیں۔ اچھے لوگ مذہب کو لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اور غربا کی مدد کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ برے لوگ مذہب کو برے کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جلسہ سالانہ یقینا ًاچھے لوگوں کی مثال ہے۔
ایم ٹی اے کی جانب سے جلسہ سالانہ کے حوالے سے 1885پوسٹس، تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی گئیں۔
اس کے ذریعہ چار ملین افراد تک یہ خبر پہنچی۔ دولاکھ تیرہ ہزار افراد نے ان پوسٹس کو لائک کیا۔ سوشل میڈیا پر ان پر تبصرے ہوئے۔ 1236ویڈیوز اَپ لوڈ کی گئیں جن کو دو لاکھ اکتیس ہزار افراد نے دیکھا اور ان دیکھنے والوں کے کل وقت کا حساب لگایا جائے تو چار لاکھ ستر ہزار گھنٹے بنتے ہیں۔ ایم ٹی اے کی ویب سائٹ کو چوبیس ہزار لوگوں نے بانوے ہزار مرتبہ دیکھا۔
ایم ٹی اے افریقہ کی رپورٹ
یہ ہے کہ بیس ٹی وی چینلز پر جلسہ سالانہ کی نشریات براہِ راست دکھائی گئیں۔ ان میں سے بعض حکومتی چینلز اور بعض نجی چینلز تھے۔ بعض چینلز ایسے تھے جو پورے ملک میں دیکھے جاتے ہیں۔ ان چینلز میں گیمبیا نیشنل ٹی وی، سیرالیون نیشنل ٹی وی، لائبیریا نیشنل ٹی وی اور متعدد پرائیویٹ چینلز شامل ہیں۔ عالمی بیعت کی تقریبات بھی ان میں دکھائی گئیں۔ بیس ٹی وی چینلز کے ذریعہ میرے جو خطابات تھے ان کو دکھایا گیا اور پینتیس ملین افراد تک یہ پہنچے۔
جلسہ کی لائیو کوریج کے علاوہ جلسہ کے حوالے سے نیوز آئٹم تیار کر کے افریقہ بھر میں بھجوائے گئے تھے۔ چنانچہ جلسہ کے تینوں دن میں پندرہ چینلز نے جلسہ سالانہ کے حوالے سے نیوز چلائیں جن کی پہنچ پندرہ ملین افراد تک ہے۔
ریویو آف ریلیجنز
کے ذریعہ سے بھی کافی کوریج ہوئی۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ سے اور یوٹیوب کے ذریعہ سے ان کی کوریج ہوئی ہے۔ جلسہ کے حوالے سے چالیس آرٹیکل لکھے گئے۔ 12ویڈیوز بنائی گئیں۔ 110سے زائد پوسٹس ڈالی گئیں۔ تین لاکھ افراد تک جلسہ کی کوریج پہنچی۔
پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کے بےشمار پھل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے۔
آئے ہوئے واقعات جو ہیں اور جو تاثرات ہیں جیساکہ میں نے کہا ان میں سے چندمثالیں میں نے پیش کی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کے ایمان و ایقان میں ترقی دے اور جلسہ کے اثرات دائمی ہوں اور وقتی نہ ہوں۔
نماز کے بعد میں کچھ جنازے بھی پڑھاؤں گا
مرحومین کا ذکر
کر دوں۔ پہلا ذکر ہے
مکرمہ نصرت قدرت سلطانہ صاحبہ
کا جو مکرم قدرت اللہ عدنان صاحب کینیڈا کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات پچپن سال کی عمر میں ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مرحومہ نمازوں کی پابند، تہجد گزار، ایک نیک مخلص اور فرشتہ صفت خاتون تھیں۔ ہسپتال میں تھیں تو کوئی ایسا ڈاکٹر نہیں چھوڑا جس کو تبلیغ نہ کی ہو۔ ایک مسلمان عرب ڈاکٹر بھی تھی جو نصرت صاحبہ سے قرآن سننے کے لیے آتی تھیںاور آپ انہیں سورۂ یٰسین پڑھ کر سناتی تھیں۔ ہر بات میں خلافت کا ذکر کرتیں۔ خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا۔ بہت سارے رشتہ دار ان کے غیر احمدی سُنّی ہیں۔ ان سب کو پیغام بھیجا، تبلیغ کی کہ آپ لوگ بھی امام وقت کی بیعت کر لیں۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ تین بچے ہیں۔ ان کا ایک بیٹا رضی اللہ نعمان جو ہے وہ جامعہ احمدیہ کینیڈا کے طالبعلم ہیں اور ایک اس کا بھائی ہے اور ایک بہن ہے۔
ان کے میاں کہتے ہیں کہ میری اہلیہ نے ایک واقف زندگی کی طرح زندگی گزاری۔ تربیت اولاد پر اپنی ساری طاقت اور کوشش صرف کی۔ خلافت سے بہت زیادہ محبت اور عقیدت تھی۔ تبلیغ کا تو بڑا شو ق تھا جیساکہ میں نے کہا اپنے بچوں میں بھی یہ شوق پیدا کیا ہے اور مَیں نے ان میں دیکھا ہے کہ سب بچے ہی تبلیغ کا شوق رکھتے ہیں اور غیر معمولی شوق رکھتے ہیں،معمولی شوق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی بچوں کو ایک خاص تربیت ہے اور ان کو پڑھنے کا بھی شوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ملکہ دیا۔ ان کے ذریعہ سے بیعتیں بھی ہوتی ہیں۔ ایک لڑکا رضی اللہ نعمان جیسا کہ میں نے کہا جامعہ میں بھی ہے، بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو آئندہ بھی اور باقی بچوں کو بھی بے نفس ہو کر دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور ان سب بچوں کو اپنی ماں کی دعاؤں کا وارث بنائے۔
ان کے بیٹے جری اللہ عدنان کہتے ہیں کہ والدہ بہت نیک، پرہیزگار، متقی اور مثالی احمدی خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا خاص تعلق تھا۔ بچوں کی تربیت کی بہت فکر رہتی تھی اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی طرف ان کی نظر رہتی تھی۔ یتیموں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ بچپن سے ہی خدا تعالیٰ پر پختہ ایمان تھا۔ ان کو کینسر کی بیماری تھی۔ جب اس کی تشخیص ہوئی تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی تھیں بلکہ ہمیں کہتی تھیں کہ تم لوگوں کو مضبوط ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ پر تمہارا ایمان زیادہ مضبوط ہونا چاہیے۔ اپنے ڈاکٹر کو بھی کہتیںکہ زندگی اور موت تو کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اس طرح گزارے کہ ہر کوئی اس سے خوش ہو اور وہ خود بھی اپنے اعمال سے مطمئن ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
دوسرا جنازہ
جس کا ذکر کروں گا، وہ
محترم چودھری لطیف احمد جھمٹ صاحب کا ہے
گذشتہ دنوں میں ان کی اناسی79 سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا حضرت چودھری محمد دین صاحبؓ واصل باقی نویس کے ذریعہ ہوا جن کا نام انجامِ آتھم روحانی خزائن جلد گیارہ صفحہ 325میں تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست میں تیسرے نمبر پر میاں محمد دین پٹواری بلانی ضلع گجرات لکھا ہے۔ چودھری لطیف جھمٹ صاحب نے 66ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم ایس سی ریاضی کی ڈگری حاصل کی۔ شعبہ تعلیم سے منسلک ہو گئے۔ 1966ء سے 68ء تک تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں بطور لیکچرر خدمت کی توفیق پائی۔ اسی طرح 68ء سے 94ء تک کم و بیش چھبیس سال تک آپ نے سیرالیون میں تدریس کے شعبہ میں بطور استاداور پرنسپل نہایت خوش اسلوبی سے فرائض سرانجام دیے۔ واقفِ زندگی تھے۔ افریقہ سے واپسی پر آپ نے تقریباً پانچ سال بطور نائب وکیل المال ثانی اور سات سال بطور نائب وکیل المال ثالث خدمت کی توفیق پائی۔ سیرالیون میں جماعتی سکول میں تدریس کے فرائض انجام دیے جیسا کہ میں نے کہا۔ اور 1971ء میں انہوں نے باقاعدہ طور پر زندگی وقف کی تھی۔ یکم جنوری 2007ء کو ان کا تقرر بطور وکیل المال ثالث ہوا۔ اس طرح کل عرصۂ خدمت ان کا نصف صدی سے زائد بنتا ہے۔
ان کی اہلیہ رشیدہ لطیف صاحبہ کہتی ہیں کہ میرے خاوند سیرالیون میں تھے اور میں شادی ہو کر وہاں گئی تو وہاں جاتے ہی انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ ایک واقفِ زندگی کے لیے یہاں ایشیائی چیزیں خرید کر کھانا مشکل ہے۔ واقف زندگی اور اس کی اہلیہ کو مقامی کھانے کھانے چاہئیں۔ اس لیے تم مقامی کھانے بنانے سیکھ لو جس کی وجہ سے ہمیں بعد میں بہت آسانی رہی۔ بہت سادہ مزاج تھے۔ بہت خیال رکھنے والے تھے۔ ان کے اپنے ساتھ کام کرنے والے جو تھے وہ بھی ان کے حسنِ سلوک کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ ہر ایک ان کی تعریف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، درجات بلند کرے، ان کے لواحقین کو صبر دے۔ ایک بچہ تو ان کا بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں۔ ان کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تیسرا ذکر
مشتاق احمد عالم صاحب
ابن مکرم محمد عالم صاحب مرحوم میرا بھڑکا میر پور آزاد کشمیر کا ہے۔ 19؍جولائی 2022ء کو ساٹھ سال کی عمر میں یہ وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ عظمت بی بی کے علاوہ چھ بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ تین بیٹے، ایک داماد حافظِ قرآن ہیں۔ تین بیٹے مربیان ہیں۔ ان میں سے ایک حافظ مصور احمد مزمل مغربی افریقہ سینیگال میں ہیں اور دوسرے بیٹے حافظ اخلاق احمد ہیں۔ تیسرے بیٹے عبدالخالق صاحب ہیں جو آرکیالوجی میں تخصص کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور مرحوم سے رحم کا سلوک فرمائے۔ جیساکہ میں نے کہا نماز کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب ادا کروں گا۔