سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدسؑ تو اپنے عرصۂ ملازمت کو قریباً سات سال قراردے رہے ہیں اب ملازمت کا یہ عرصہ چھ سال توہوسکتاہے،ساڑھے سات سال توہوسکتاہے لیکن تین یاچارسال نہیں ہوسکتا

1864ء نہیں بلکہ 1860ء !

(گذشتہ سے پیوستہ) جبکہ اس کے بالمقابل کئی شواہد ایسے ہیں جن کی روشنی میں 1864ء کی بجائے اس سے پہلے کاسن زیادہ قرین قیاس ہوسکتاہے۔مثال کے طورپر یہ رائے اگرخاکسار قائم کرناچاہے کہ آپؑ کی ملازمت کا آغاز دراصل 1863ء یا اس سے قبل کاہے تو درج ذیل شواہداس کی تائیدمیں پیش کیے جاسکتے ہیں :

3: اس کے لئے سیالکوٹ کی کچہری کے کاغذات ہیںجن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ 1863ء اگست میں آپؑ سیالکوٹ میں ملازم تھے جیساکہ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں :’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے ضلع سیالکوٹ کے بعض سرکاری کاغذات ملے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام1863ء میں سیالکوٹ میں ملازم تھے اور اس وقت آپ کا عہدہ نائب شیرف کا تھا۔ ان کاغذوں میں جن کی تاریخ اگست اور ستمبر1863ء کی ہے ،یہ ذکر ہے کہ چونکہ مرزا غلام احمد نائب شیرف رخصت پر گئے ہیں اس لئے ان کی جگہ فلاں شخص کو قائمقام مقرر کیا جاتا ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر1270)

اب اس روایت کو نظراندازکرناآسان نہیں ہے کہ حضرت مرزابشیراحمدصاحب ؓجیسے باریک بین محقق نہ صرف یہ روایت بیان کرتے ہیں بلکہ فرماتے ہیں کہ مجھے ضلع سیالکوٹ کے بعض سرکاری کاغذات ملے ہیں، گویاکوئی زبانی روایت یا اندازہ نہیں ہے ،دستاویزی ثبوت ہے اوروہ بھی اسی کچہری کے کہ جہاں آپ ملازم تھے۔

اور اس روایت نے پہلی راہنمائی ہماری یہ کی کہ حضرت اقدسؑ 1863ء میں ملازم تھے ،یوں 1864ء سے ملازمت کے آغاز والاسال محل نظرہوکرکمزورپڑجاتاہے۔یعنی 1864ء ملازمت کاآغازنہ تھا۔

4: اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کے ایک سوانح نگار ہیں A.R.Dardیعنی حضرت مولانا عبدالرحیم دردصاحبؓ ،اپنی کتاب Life of Ahmad کے صفحہ 38 پر لکھتے ہیں:

Mirza Ghulam Murtaza then thought of securing a government post for his son and in 1863 got him appointed as reader in a Sialkot court

ترجمہ:مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے اپنے بیٹے کو سرکاری ملازمت پرمتعین کرنے کاسوچا۔ اور 1863ء میں سیالکوٹ کچہری میں ریڈرکے عہدے پرملازم کروادیا۔

تویوں مصنف لائف آف احمدؑ، کے نزدیک بھی ملازمت کا سال 1864ء نہیں بلکہ 1863ء ہی ہے۔

5: اب اس سے آگے چلتے ہیں اوروہ اسی دستاویزDocuments پر لکھی ہوئی دوسری عبارت اوروہ ہے کہ چونکہ مرزا غلام احمد نائب شیرف رخصت پر گئے ہیں اس لیے ان کی جگہ فلاں شخص کو قائمقام مقرر کیا جاتا ہے، اس فقرے سے یہ تاثربھی مل رہاہے کہ 1863ءہی ضروری نہیں کہ ملازمت کاآغاز ہواہو،اگست 1863ء میں توایک سرکلر/آفس آرڈرکیاجارہاہے اوروہ یہ کہ آپ رخصت پر گئے ہیں،تو1863ء ملازمت کی ابتدا ہی کیوں محمول ہو،کیوں نہ یہ فرض کیاجائے کہ اس سے بھی پہلے سے ملازمت کاآغاز ہوچکاتھا۔کیونکہ بہت حدتک قرین قیاس ہے کہ ملازمت شروع ہوتے ہی تونائب شیرف نہیں ہوگئے ہوں گے۔اور اگراسی پوسٹ پرتقرری ہوبھی گئی ہوتواتنی جلدی رخصت لینا اور اس پرآفس آرڈرکہ ان کاقائمقام مقررکیاجارہاہویہ باتیں اشارہ کرتی ہیں کہ ہونہ ہوملازمت کاعرصہ کچھ سال پہلے کاہی ہوگا جواس وقت کسی لمبی رخصت حاصل کرنے کاجوازفراہم کررہاہے۔

6: منشی سراج الدین صاحب کابیان : مزیدبرآں اس کے علاوہ بھی کچھ قرائن موجودہیں جو اس بات کی طرف راہنمائی کرتے ہیں کہ عرصہ ملازمت 1860ء ہی ہوگا۔اوراس کے لیے ایک قرینہ تویہ ہے کہ آپؑ کے ملازمت کے سن کو بیان کرنے والے جو مختلف لوگ ہیں ان میں سے ایک ایسے صاحب ہیں جوآپؑ کی ملازمت کے وقت سیالکوٹ میں مقیم تھےاورآپؑ کے سیالکوٹ سے واپس چلے آنے کے بعد ایک بار قادیان بھی ملاقات کے لیے تشریف لائے۔یہ بزرگ تھے منشی سراج الدین صاحب اخبارزمیندارکے بانی ایڈیٹراور مولوی ظفرعلی خان صاحب کے والد…انہوں نے 1908ء میں آپؑ کی وفات پر آپؑ کے متعلق لکھاکہ’’مرزاغلام احمدصاحب 1860ء یا 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محررتھے…‘‘(تاریخ احمدیت جلد2صفحہ 564)

آپؑ کی ملازمت کایہ ذکر بہت ابتدائی زمانے میں ہونے والا ذکرہے کہ جب یہ راوی اپنی عمرکے اس حصہ میں تھے کہ جبکہ حافظوں میں قوت خوب تھی،بہرحال انہوں نے ملازمت کا سال 1860ء یا61ء بیان کیاہے۔

یہ سن خاکسار کے اس قیاس کو مزیدتقویت پہنچاتاہے کہ آغاز ملازمت 1864ء نہیں بلکہ 63ء یا اس سے بھی پہلے 1860ء یا 1861ء ہی ہے۔[سیدمیرحسن صاحب کاپہلاتفصیلی خط جوحیات احمدؑ میں شائع ہواجس میں 1864ء کاذکرہے وہ 1915ء یااس سے پہلے کالکھاہواہے کیونکہ حیات احمدؑ کی یہ جلد1915ء ستمبرمیں شائع ہوئی ہے۔اوردوسراتفصیلی خط نومبر1922ء کاہے جس میں وہ خود یہ تحریرفرماتے ہیں: چونکہ عرصہ درازگزرچکاہے اوراس وقت یہ باتیں چنداں قابل توجہ اور التفات نہیں خیال کی جاتی تھیںاس واسطے اکثر فراموش ہوگئیں۔جویادکرنے میں بھی یادنہیں آتیں۔ روایت نمبر279،واضح رہے کہ میرحسن 1844ء میں پیداہوئے اور 1929ء میں وفات ہوئی۔ اور یہ تحریرگویا 78سال کی عمرمیں وہ لکھ رہے تھے۔]

7: ایک حتمی اوریقینی دلیل: اب خاکسارایک آخری دلیل جو کہ ان سب دلائل کی گویا جان ہے وہ بیان کرتاہے کہ جس سے ثابت ہوتاہے کہ آپؑ کی ملازمت کا سال 1864ء نہیں تھا۔

لیکن اس کے بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم پہلے یہ دیکھیں کہ آپؑ کی ملازمت کا اختتام کب ہواہے۔یایوں کہناچاہیے کہ اس دلیل کواچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ آپؑ کی ملازمت کا اختتام کب ہوا۔اس کے لیے ہم دیکھتے ہیں کہ عموماًحضرت اقدسؑ کی مدت ملازمت کا اختتام 1868ء بیان کیا جاتارہاہے۔

اور اس ملازمت کے ختم ہونے کاپس منظر اور فوری سبب حضرت اقدسؑ کی والدہ ماجدہ ؒکی بیماری اور وفات کو قراردیاجاتاہے۔اورلکھاہے کہ ان کی شدیدبیماری پر آپؑ کو واپس بلالیاگیااور ابھی آپؑ قادیان پہنچے بھی نہ تھے کہ آپؑ کی والدہ ماجدہ ؒکا انتقال ہوچکاتھا۔اور ان کی وفات کاسال 1868ء بیان کیاجاتارہاہے۔لیکن ابھی تھوڑاعرصہ ہی ہواہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے آبائی خاندان کے کچھ ایسے کاغذات ملے ہیں جو گھریلواورخاندانی حساب وکتاب اور روزنامچہ وغیرہ کی کاپیوں یا ڈائریوں وغیرہ سے الگ ہوئے کچھ صفحات معلوم ہوتے ہیں۔اس کی فوٹوکاپی 22؍مارچ 2011ء کو خاکسار نے حاصل کی ہے اوران صفحات کامطالعہ کیاہے۔اس کے کچھ کاغذات پرحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ؒکے ہاتھ سے لکھے ہوئے حساب کتاب اورنسخہ جات معلوم ہوتے ہیں،کچھ پر حضرت مرزاغلام قادرصاحب کی تحریر اور کچھ پر معلوم ہوتاہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمد صاحب کی تحریرہے اور ایک کاغذپر کسی بچے نے الف ب لکھی ہوئی ہے اورغالب قیاس ہے کہ وہ معصوم بچہ حضرت صاحبزادہ مرزاعزیزاحمدصاحبؓ ہی ہوں گے۔بہرحال اس میں [غالباً]حضرت صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب کے قلم سے حضرت والدہ ماجدہ صاحبہؒ کی تاریخ وفات 12؍ذوالحجہ 1283ء لکھی ہوئی ہے جو کہ 18؍اپریل 1867ء بنتی ہے۔اب اگر آپؑ کی والدہ ماجدہ ؒ کی وفات کے ساتھ ملازمت کاعہدختم ہوناضروری ہے تواس سے مدت ملازمت کا اختتام 1867ء میں تسلیم کرنا پڑے گا۔تواس طرح سے حساب یہ بنے گاکہ 1864ء میں ملازمت شروع ہوئی اور 1867ء میں ختم ہوگئی گویاکل تین سال کا عرصۂ ملازمت ہوا۔یعنی اگر عام طورپر کتب میں بیان ہونے والے سنین کو دیکھاجائے۔توآپؑ کی ملازت کاعرصہ تین سال کارہ گیا۔لیکن خاکسار کے نزدیک یہ عرصہ ٔملازمت تین سال نہیں سات سال ہوناچاہیے۔

اوروہ اس لیے کہ ایک جگہ حضرت اقدس ؑنے خوداس عرصہ کو بیان فرمایاہے۔ جب حضرت اقدسؑ 1904ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تووہاں آپؑ نے ایک لیکچر تصنیف فرمایا اور آپؑ کی موجودگی میں ہی ایک مجمع کثیراورمعززین شہرکے سامنے یہ لیکچر پڑھاگیا ،جواسلام یا لیکچر سیالکوٹ کے نام سے روحانی خزائن جلد20میں موجودہے۔اس میں آپؑ بیان فرماتے ہیں :’’میں وہی شخص ہوں جوبراہین احمدیہ کے زمانہ سے تخمیناً سات آٹھ سال پہلے اسی شہرمیں قریباً سات برس رہ چکاتھا۔‘‘پھرچندسطروں بعدفرماتے ہیں:’’جیساکہ میں نے بیان کیابراہین کی تالیف کے زمانہ کے قریب اسی شہرمیں قریباً سات سال رہ چکا۔‘‘(لیکچرسیالکوٹ،روحانی خزائن جلد20صفحہ 242-243)

آپ نے لیکچر سیالکوٹ میں موجودیہ فقرات ملاحظہ فرمائے۔اوریہ زبانی روایت نہیں ہے جوکسی نے حضورعلیہ السلام سے سن کربیان کی ہو،یہ ایک لیکچر ہے جوتحریری شکل میں تھااورحضرت اقدسؑ نے خوداپنے دست مبارک سے اس کولکھا۔اورسیالکوٹ میں قیام فرماتھے جب لکھا۔اورلکھنے کے بعد اسی روزیہ طبع ہوکرشائع ہوا۔سیالکوٹ کے یہ تمام قدیم صحابہ اور دیگر افراد موجودتھے۔حضرت میرحسام الدین صاحب ؓکے توگھرمیں حضورؑ اس وقت قیام فرما تھے۔اور حضرت میرحسام الدین صاحب ؓان کاموں کے مہتمم تھے یہ ا س لیکچر کوطبع کرواتے ہیں اورسیالکوٹ شہر میں یہ تقسیم ہوتاہے۔حضور علیہ السلام کی موجودگی میں یہ اگلے روز ایک وسیع جلسہ گاہ میں پڑھا جاتا ہے۔ہزاروں مخالفین بھی ہیں اور ایک ایک بات اور ایک لفظ پروہ گرفت اورتنقید کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ جنا ب ہم ابھی زندہ ہیں!! کوئی کہے گاکہ میں میرحسن ہوں ہم دیرتک علم وفلسفہ کے موضوع پر باتیں کرتےتھے، حکیم منصب علی کی بیٹھک میں علمی اورمنطقی بحثیں ہوتی تھیں، حکیم منصب علی صاحب بھی اس وقت ممکن ہے کہ ہوں اورکہیں کہ جناب میری بیٹھک میں تو آپ تشریف فرماہواکرتے تھے اور کچھ دیرکرائے پربھی یہ بیٹھک میں نے اٹھارکھی تھی۔کئی اور دوست ہوں گے۔ لالہ بھیم سین صاحب ہیں خودحضرت میرحسام الدین صاحب ہیں سیدمیرحامدشاہ صاحب ہیں یہ یاددلاسکتے ہیں کہ یاحضرتؑ کچھ بھول ہورہی ہے۔ آپؑ تو سیالکوٹ میں صرف تین یا حد چار سال تک رہے تھے۔سات سال تونہیں رہے۔اس لیے اس فقرے کوکاٹ دیں۔قلم زدفرمادیں۔ خواہ مخواہ لوگ اعتراض کریں گےلیکن ایساکچھ نہیں ہوا۔ اوراس لیکچر کوایک وسیع میدان میں سن کر، یا لکھاہوادیکھ کر،پڑھ کرکسی نے کچھ نہیں کہا۔گویاہراپنے اورمخالف نے تسلیم کیا کہ یہی عرصہ جو بیان ہواہے وہ درست ہی ہے۔

اب حضرت اقدسؑ تو اپنے عرصۂ ملازمت کو قریباً سات سال قراردے رہے ہیں۔اب ملازمت کا یہ عرصہ چھ سال توہوسکتاہے،ساڑھے سات سال توہوسکتاہے لیکن تین یاچارسال نہیں ہوسکتا۔اس لیے جب اس عرصہ ٔملازمت کی تعیین کرنے کے لیے ایک محقق کوتخمینوں اوراندازوں کی اس بھولی بسری گلیوں میں سے گزرناپڑے تو اس کویہ نہیں بھولناچاہیے کہ جو بھی عرصۂ ملازمت ہو وہ ’’قریباً سات سال‘‘سے زیادہ فاصلہ پرنہیں ہوناچاہیے۔

اب خاکسار دوبارہ پلٹتاہے منشی سراج الدین صاحب کی اس روایت کی طرف کہ جس میں انہوں نے آپؑ کی ملازمت کاعرصہ 1860ء یا1861ء قراردیاہے۔اب یہ سال اگرملازمت کے آغازکے شمارکیے جائیں تو 1867ء آپؑ کی والدہ ماجدہؒ کی وفات کے سال تک ٹھیک قریباً سات سال ہی بنتے ہیں۔ اوریوں یہ قیاس بھی درست ہوگا کہ اپنی والدہ ماجدہ ؓکی وفات پر آپؑ نے ملازمت کو خیربادکہہ دیاہوگا۔کیونکہ بعدکے واقعات بھی یہی تقاضاکرتے ہیں کہ 1868ء کے بعد حضرت اقدسؑ قادیان میں ہی قیام فرمارہے ہوں گے۔اور یوں یہ کہاجاسکتاہے کہ آپؑ کا عرصۂ ملازمت 1860ء یازیادہ سے زیادہ 1861ء سے 1867ء تک کاہوگا۔واللہ اعلم بالصواب

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک حتمی دستاویزی ثبوت فراہم نہیں ہوجاتے تب تک تحقیق وتجسس کی یہ نگاہ کھوج میں مصروف ہی رہے گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button