امریکہ (رپورٹس)خلاصہ خطبہ جمعہدورہ امریکہ ستمبر؍اکتوبر 2022ء

مسجد بیت الاکرام، ڈالاس، کے افتتاح پر مساجد کو آباد کرنے اور ان کے حقوق بجا لانے کی تلقین: خلاصہ خطبہ جمعہ حضورِانور فرمودہ 07؍اکتوبر2022ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭… اس مسجد کو آباد رکھنا، آپس میں پیارو محبت سے رہنا اور رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہماری ذمہ داری ہے

٭…ہمیں مکمل اعتماد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل مانگتے ہوئے اس کے آگے جھکتے ہوئے دنیا کی راہنمائی کا کام کرنا ہوگا کیونکہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والے ہیں جنہیں دنیا کو زندگی دینے کے لیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لیے بھیجا گیا ہے

اميرالمومنين حضرت خليفۃ المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ 07؍ اکتوبر 2022ء کو مسجد بیت الاکرام،ڈالاس، امریکہ ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت حسن شیخ صاحب (جماعت ڈالاس) کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذ، سورة الفاتحہ اور سورة الاعراف کی آیات تیس تا بتیس کی تلاوت کے بعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ

ان آیات کا ترجمہ ہے کہ ’’تُو کہہ دے کہ میرے رب نےانصاف کا حکم دیا ہے۔ نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی توجہات (اللہ کی طرف) سیدھی رکھو۔ اور دین کو اُس کےلیے خالص کرتے ہوئے اُسی کو پکارا کرو۔ جس طرح اس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم (مرنےکے بعد) لَوٹو گے۔ ایک گروہ کو اس نے ہدایت بخشی اور ایک گروہ پر گمراہی لازم ہوگئی۔ یقیناً یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خداکو چھوڑ کر شیطانوں کودوست بنالیااور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ اے ابنائے آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت (یعنی لباسِ تقویٰ) ساتھ لے جایا کرو۔ اور کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

حضورِانور نے فرمایا:آج آپ کو اپنی مسجد کی تعمیر کی توفیق مل رہی ہے گو اس کی تعمیر تو کچھ عرصے پہلے مکمل ہوگئی تھی لیکن اس کا رسمی افتتاح آج ہورہا ہے۔ جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصّہ لیاہے اللہ تعالیٰ اُن سب کو اس مسجد کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ یہ مسجد آپ نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کےلیے بنائی ہو اور اللہ کی رضا انسان تب حاصل کرتا ہے جب اُس کے حکموں پر چلنے والا ہو۔ اس کی عبادت اور حقوق العباد ادا کرنے والا ہو۔

ہمیں ہمیشہ یاد رکھناچاہیے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آنا ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ اس مسجد کو آباد رکھنا، آپس میں پیارو محبت سے رہنا اور رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ جہاں اسلام کا تعارف کرانا مقصود ہو وہاں مسجد بنادو۔ پس اس مسجد سے اس علاقے میں اسلام کارسمی تعارف تو ہوجائے گا، تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے لیکن ہر احمدی کو اسلام کی تعلیم کا نمونہ بھی بننا پڑے گا۔

یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں اِن میں اللہ تعالیٰ نے مساجد کے ساتھ منسلک ہونے والوں کی بعض ذمہ داریاں بیان فرمائی ہیں۔ سب سے پہلے توفرمایا کہ انصاف قائم کرو۔ یعنی مساجد میں آنے والوں کو سب سے پہلےیہ نصیحت فرمائی کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے سامان کرو اور اس میں سب سے پہلے انصاف کا قیام ہے۔ اگر کوئی شخص گھر میں بیوی بچوں کےساتھ حسنِ سلوک سے پیش نہیں آتا تو ایسے شخص کے جماعتی کام اور عبادتیں کسی کام نہیں آئیں گی۔ کسی کو اس بات کا فخرنہیں ہونا چاہیے کہ میں بہت نمازیں پڑھنے والا اور جماعتی کام کرنے والا ہوں آنحضورﷺ نےفرمایا کہ جو بندوں کے حقوق ادا نہیں کرتا وہ اللہ کے حق بھی ادا نہیں کرتا۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نے اللہ کے حکموں پر عمل نہ کیا، دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرتے ہوئے اپنی حالتوں میں تبدیلی کی کوشش نہ کی تو شیطان تم پر غالب آجائے گا۔ آج کل کے اس دنیا داری کے ماحول میں اس طرف توجہ کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ مسلمانوں پر زوال تب ہی آیا جب انصاف کو چھوڑ کر خدا کی عبادتوں کو محض دکھاوا بنالیا گیا۔ مساجد کی ظاہری خوب صورتی پر زور دیا گیا اور عبادت کی روح کو فراموش کردیا گیا۔ آج کل پاکستان میں مساجد کو گِرانے، ان کے مینار اور محرابیں توڑنے کی اسی لیے کوششیں ہورہی ہیں کہ احمدیوں کی مساجد کی شکل ہماری مساجد کی طرح کیوں ہے۔ اسی لیے اُن کی مساجد میں عباد الرحمٰن نظر نہیں آتے۔

حضرت علیؓ سے مروی روایت میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ نام کے سو اسلا م کا کچھ باقی نہ رہے گا، الفاظ کے سواقرآن کا کچھ باقی نہ رہے گا، اس زمانے کے لوگوں کی مساجد بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے، ان ہی میں سے فتنے اٹھیں گے اور ان ہی میں لوٹ جائیں گے۔ آج کل یہی کچھ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ان لوگوں میں فتنوں کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں۔ ان کی یہ حالت ہمیں سبق دیتی ہے کہ ہم نے کس طرح مساجد اور اللہ کے بندوں کے حق ادا کرنے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتےہیں کہ اندرونی طور پر اسلام کی حالت بہت ضعیف ہوگئی ہے اور بیرونی حملہ آور چاہتے ہیں کہ اسلام کو نابود کردیں۔ ان کے نزدیک مسلمان خنزیروں اور کتوں سے بدتر ہیں۔ اب خدا کی کتاب کےبغیر اور اس کی تائید اورروشن نشانوں کے سِوا ان کا مقابلہ ممکن نہیں اور اسی غرض کےلیے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس سلسلے کو قائم کیا ہے۔پس آج مکمل خود اعتمادی کے ساتھ ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے دنیا کی را ہ نمائی کا فریضہ ادا کرناہوگا۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ ہم ہی ہیں جنہوں نے اسلام کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔ دنیا کو بتانا ہے کہ تم جو اسلام اور مسلمانوں کو حقیر سمجھتے ہو، یاد رکھو کہ یہی لوگ ہیں جن کی تعلیم پر عمل سے دنیا کی بقا ہے۔ ہمیں مکمل اعتماد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل مانگتے ہوئے اس کے آگے جھکتے ہوئے دنیا کی راہنمائی کا کام کرنا ہوگا کیونکہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والے ہیں جنہیں دنیا کو زندگی دینے کے لیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اب اس تعلیم پر عمل کرکےہی نجات ہے۔ آخرت میں انسان اگر خالی ہاتھ جائے تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سامنا کرنا ہوگااور پھر وہ کیا سلوک کرتا ہےیہ وہ بہتر جانتاہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیےکہ جب ہم دنیا کو اس تفصیل سے ہوشیار کریں گے تو ہمارا ہر قول و فعل بھی اس تعلیم کے مطابق ہو۔ ہماری عبادتوں اور ہمارے حقوق العبا د کے معیار بلند ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ اس وقت اسلام جس چیزکا نام ہے اس میں فرق آگیا ہے۔اعلیٰ اخلاق کی کوئی حالت نہیں رہی۔خدا سے وفاداری اور محبت کالعدم ہوگئے ہیں۔ اب خدا نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اس کو نئے سرے سے زندہ کرے۔اسلام کی اس حالت کو سنبھالا دینے کے لیے ہم خدا کے بھیجے ہوئےفرستادے کے ساتھ منسلک ہیں۔ غیر مسلموں اور اسلام مخالف لوگوں نے اسلام پر جو حملے کیے اور اس عظیم مذہب کو حقیر سمجھا تو اس میں مسلمانوں کا اپنا ہاتھ بھی تھا۔ اگر مسلمان نہ بگڑتے تو دشمن کبھی اس کی جرأت نہ کرتا۔ آج ہم ہیں جنہوں نے خدا کے ساتھ وفاداری کے معیار قائم کرنے ہیں،اخلاص و وفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کی تکمیل کرنی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ پر کامل توکل ہونا چاہیے کہ ہر کام کا بنانے والا خدا ہے۔اب اسلام ہی دنیا پر غالب آنے والا مذہب ہے۔اس کے لیے ہم نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاناہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا سلطانِ نصیر بننا ہے۔خدا نے جو وعدے مسیح موعودؑسے کیے ہیں وہ پورے ہونے ہیں۔ اگر ہم لوگ اس میں معاون بنیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنیں گے۔اگر ہم آگے نہ بڑھے تو اللہ تعالیٰ کوئی اور لوگ مدد کے لیے بھیج دے گاکیونکہ کام تو یہ ہونا ہے۔ پس ہمیں اپنی حالتوں، کمیوں اور کمزوریوں کو دُور کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اب یہ زمانہ ہے کہ اس میں ریا کاری، تکبر، نخوت،رعونت وغیرہ تو ترقی کرگئے ہیں اور صفاتِ حسنہ آسمان پر اُٹھ گئے ہیں۔ توکل اور تدبیر کالعدم ہوگئے ہیں لیکن اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخم ریزی ہو۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا۔اس نے اب یہ ارادہ کرلیا ہے کہ نیکیاں ترقی کریں اور برائیاں ختم ہوں۔پس ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ کیاہم مسیح موعودؑ کے اس مشن کو پورا کرنے کے لیے، نیکیاں اپنانے اور عبادتوں کےمعیار حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کررہے ہیں ؟ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے لیے بھرپور کوششیں نہیں کررہے جو کہ عبادت سے حاصل ہوتے ہیں تو پھر ہماری کوششیں بیکار ہیں۔پس بہت گہرائی سے جائزے لینے، استغفار کرنے اور اپنے اعمال مسلسل اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بجا لانے کی ضرورت ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے۔یہ اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہوتے ہیں۔پس خوب یاد رکھو کہ جو شخص خدا کا ہوجائے خدا اُس کا ہوجاتا ہے۔ پس یہ گُر اپنانے کی ضرورت ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ یہ شکوہ ہوتا ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔یہ جائزہ لیں کہ کس حد تک ہم نے خدا کے حقوق ادا کیے ہیں۔اللہ تعالیٰ تو مہربان ہے کہ ہماری غلطیوں کے باوجود نوازتا ہے۔یہ جائزہ لیں کہ کس طرح ہم نے خدا کے حق ادا کرنے ہیں اور سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کا حق ادا کریں۔ مسجد بناکر اس کا حق ادا کریں۔ خالص ہوکر اس میں عبادت کے لیے آئیں۔دائمی توجہ کے ساتھ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہوگی اور یہ اُسی وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ سے محبت ہو،ایسی ذاتی محبت جو کسی اور سے نہ ہو۔ ایسی محبت ایک انقلاب لے آتی ہے۔جو لوگ تھوڑی سی دعا کے بعد تھک جاتے ہیں اور جو خدا سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں انہیں ان باتوں پر غور کرنا چاہیے۔پس ضرورت کے وقت خدا سے مانگنے نہ جائیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت پیداکریں پھر اللہ تعالیٰ ایسے انسان سے محبت کرتا ہے۔جب یہ دو محبتیں ملتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی ایسی بارش برستی ہے جو انسان کےخیال سے بھی بالا ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ جو لوگ اپنی اصل اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح کھاناپینا اور سو رہنا ہی زندگی سمجھتے ہیں وہ پھر خدا سے دُور ہوجاتے ہیں۔ ذمہ داری کی زندگی یہ ہے کہ عبادت کو اپنا مقصود و مطلوب بنالے۔موت کا اعتبارنہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ا س بات کو سمجھ لو کہ خدا کی عبادت کرنا تمہارا مقصود ہو۔دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو۔اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ دنیا کے کاروبار چھوڑ دو۔ بیوی بچوں کو چھوڑ دو۔ رہبانیت اسلام کا منشا نہیں۔یہ سب کاروبار جو کرتے ہو اس میں خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ پس بڑے غور اور توجہ کا مقام ہے۔ اپنے مقصد زندگی کو نہ بھولو۔ اگر ہم ان باتوں کو بھول جاتے ہیں تو پھر ہماری بیعت بے فائدہ ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج کل کے اس جدید دور میں پانچ نمازیں ادا نہ کرنے کا جو عذر لوگ پیش کرتے ہیں یہ اسراف ہے اور یہ اسراف اللہ سے دور لے جاتا ہے۔ یوں مسلمان اوراحمدی ہونے کے دعوے ہی صرف زبانی دعوے رہ جائیں گے عمل کوئی نہ ہو گا۔حقیقی مومن دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ اس کے لیے رزق کے دروازے کھول دیتاہے۔جو ایسا نہیں کرتا تو اس کو دنیا کی خواہشات کی آگ لگ جاتی ہے جو بجھتی نہیں اور انسان کو بھسم کر دیتی ہے۔اللہ کی مساجد کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان لاتے ہیں، ایک نماز کے بعد دوسری کی ادائیگی کی فکر اور انتظار میں رہتے ہیں۔یہی طریقہ ہے جو مساجد کو آباد کرتا ہے، اپنی اور نسلوں کی تربیت کرنے کا ذریعہ ہے اور اس دور کی منفی چیزوں سے بچا سکتا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اس مسجد کے افتتاح سے اب مزید راستے کھلیں گے ان کو بھر پور استعمال کر کے اس مسجد کے آباد کرنے کے لیے لوگوں کو اسلام احمدیت کا پیغام دیں۔جیسے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ جہاں مسجد بن گئی وہاں اسلام کی بنیاد بن گئی اس لیے اب مسجد بن گئی ہے تو اس کی آبادی کی طرف توجہ دیں کہ مسجد کی آبادی صرف لوگوں کی حاضری سے ہی نہیں بلکہ اخلاص و وفا سے نماز ادا کرنے والوں سے ہوتی ہے۔

حضورِ انور نے خطبہ جمعہ کے آخر میں فرمایا اللہ کرے کہ اس مسجد کو بنانے والے اس کو حقیقی معنوں میں آباد کرنے والے بنیں اور اس سے اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی ہم سنوارنے والے بنیں آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button