خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 30؍ستمبر2022ء

’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں …جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تاوہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

آج سے ایک سو بیس سال پہلے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر جس جھوٹے دعوےدار اور دشمنِ اسلام کی ہلاکت کی پیش گوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی آج اس کے شہر میں جس کے بارے میں اس کا اعلان تھا کہ کوئی مسلمان یہاں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ عیسائی نہیں ہو جاتا اللہ تعالیٰ نے جماعت کو مسجد بنانے کی توفیق دی

عظیم ہے مرزا غلام احمد جو مسیح ہے جنہوں نے ڈوئی کے عبرت ناک انجام کی خبر دی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہونے والی فتح کو مستقل تبلیغ اور دعاؤں سے دائمی کرنے کی ضرورت ہے

ہم نے مسلمانوں کو بھی دینِ واحد پر جمع کر کے ان کے اندر سے تمام بدعات کو ختم کرنا ہے اور غیر مسلموں کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آشنا کروا کرانہیں خدائے واحد کی عبادت کرنے والا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا بنانا ہے

پس آج اس مسجد کا افتتاح عظیم تب بنے گا جب ہم اس حقیقت کو پہچان لیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے

ہمارا مقصد مسجدوں کو آباد کرنا اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے آباد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیےآباد کرنا ہے اور ہوناچاہیے

اے مسیح محمدی کے غلامو! ہر فتح کا نشان ہمارے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہونا چاہیے۔پس یہ عہد کریں کہ آج کا دن ہمارے اندر ایک روحانی انقلاب لانے کا دن ہو گا

مسجد فتحِ عظیم صیحون امریکہ کے افتتاح کے موقع پر احبابِ جماعت کو مساجد کے حقوق ادا کرنے نیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 30؍ستمبر2022ءبمطابق 30؍تبوک 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد فتح عظیم، زائن، یوایس اے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج آپ یہاں زائن (Zion)کی مسجد کے افتتاح کے لیے جمع ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ امریکہ کو توفیق دی کہ اس مسجد کی تعمیر کرے اور اس شہر میں کرے جو جماعت کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ دو دن پہلے ایک جرنلسٹ نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ مسجد یہاں کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟ مسجد تو ہمارے لیے ہر ایک اہم ہوتی ہے۔ میں نے اسے یہی کہا تھا۔ تمام مساجد ہی ہمارے لیے اہم ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ صرف اس مسجد کے لیے خاص طور پر میں یہاں آیا ہوں۔ میں نے کہا پہلے بھی میں مساجد کے افتتاح کے لیے جاتا رہتا تھا۔ تو بہرحال اس کو میں نے کہا کہ اس مسجد کی ایک اہمیت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ مسجد اس شہر میں تعمیر ہوئی ہے جو ایک مخالفِ اسلام کا آباد کیا ہوا شہر ہے اور جن لوگوں کو تاریخ سے دلچسپی ہے وہ اس تاریخ کے جاننے کی کوشش کریں گے اور کیونکہ جماعت کے علاوہ تو کوئی اس شہر کی تاریخ کو نہیں جانتا، نہ ڈوئی کو جانتا ہے۔ اس تاریخ کے بتانے کے لیے

ایک نمائش کا اہتمام بھی جماعت نے کیا ہوا ہے

جس سے اس تاریخ پر روشنی پڑتی ہے جو جماعت کے نزدیک اس شہر کی اہمیت ہے اور جن کو دلچسپی ہے وہ اس نمائش سے کچھ حد تک فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ شاید وہ کل اس بارے میں آرٹیکل بھی لکھے گی۔ بہرحال جیساکہ میں نے کہا اس شہر کی تاریخی اہمیت اور ایک نام نہاد دعوےدار اور اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے خلاف غلط زبان استعمال کرنا اور پھر اس کا خاتمہ ہونا اور اس شہر میں جماعت کا قائم ہونا ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والا بناتا ہے اور بنانا چاہیے اور اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہم اس شہر کے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے باوجود اس کے کہ شروع میں کونسل نے مسجد کی تعمیر کی مخالفت کی تھی، بنانے سے انکار کر دیا تھا۔ لوگ ہمارے حق میں کھڑے ہوئے اور کونسل کو مجبور کیا کہ وہ ہمیں مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دے۔

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی یہ ارشاد ہے کہ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکرگزار نہیں ہے۔

(سنن الترمذی ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک حدیث 1954)

پس اس ارشاد کے تحت ہمیں خدا تعالیٰ، اس عظیم خدا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے ہمیں اس مسجد کی تعمیر کی توفیق دی۔ پس اس لحاظ سے

ہم احمدیوں کے لیے ایک صرف خوشی کا دن نہیں ہے بلکہ انتہائی شکرگزاری کا دن بھی ہے۔ اس خدا کی شکر گزاری کا دن جس نے ہمیں مسجد کی تعمیر کے ساتھ زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی سچائی کا بھی زندہ نشان دکھایا۔

تاریخ کے اوراق میں بھی، جو اس زمانے کی تاریخ ہے اس میں سے بھی چند باتیں میں بیان کروں گا جس سے اس اہمیت کا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی سچائی کا اور لوگوں کے اس کو تسلیم کرنے کا پتہ چلتا ہے اور جتنا ہم شکر گزار بنیں گے اتنا ہی خدا تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں سے نوازتا رہے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے نشان ہم پر کھلتے جائیں گے۔

پس یہ ہماری شکرگزاری کی حالت ہے جو ہمیں ان نشانوں کی سچائی کا گواہ بنائے گی۔ بےشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں، جماعت کی ترقی کے بےشمار وعدے ہیں وہ آپ کو جماعت کی ترقیات دکھائے گا۔ دکھائے اور دکھا رہا ہے اور آئندہ دکھائے گا لیکن

ہم ان ترقیات کے دیکھنے اور ان کا حصہ بننے کے حق دار تب ہوں گے جب ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانے والے ہوں گے اور اس کا حق ادا کرنےو الے ہوں گے۔

بےشمار وعدے ہیں جو ہم نے اپنی زندگیوںمیں پورے ہوتے دیکھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر ہر وعدے کے پورا ہونے کے نظارے دکھاتا ہے۔ یہ وعدوں کے پورا ہونے کا نظارہ نہیں تو اَور کیا ہے کہ

آج سے ایک سو بیس سال پہلے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر جس جھوٹے دعویدار اور دشمنِ اسلام کی ہلاکت کی پیش گوئی آپؑ نے فرمائی تھی آج اس کے شہر میں جس کے بارے میں اس کا اعلان تھا کہ کوئی مسلمان یہاں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ عیسائی نہیں ہو جاتا اللہ تعالیٰ نے جماعت کو مسجد بنانے کی توفیق دی۔

پس یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے کام۔ ایک ارب پتی اور دنیاوی جاہ و حشمت رکھنے والے کو اللہ تعالیٰ نے جھوٹا کر دیا، ختم کر دیا اور پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے اپنے فرستادے کا دعویٰ جو اسلام کی نشأة ثانیہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ دنیا کے دو سو بیس ممالک میں گونجنے کے سامان پیدا کر دیے۔لیکن کیا یہاں ہمارا کام ختم ہو جاتا ہے؟ کیا یہی کافی ہے کہ امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر میں ہم نے مسجد بنا لی اور جماعت کو ترقی مل گئی؟ نہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے تواللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کو میدانِ عمل بنایا ہے۔

ہم نے تو چھوٹے شہر،بڑے شہر اور ملکوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لانا ہے۔ ہم اگر اپنے وسائل دیکھیں تو یہ بڑا وسیع کام نظر آتا ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سب کے باوجود ہمارے سپرد یہ کام کیا ہوا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے وعدہ ہے لیکن آپؑ نے فرمایا یہ سب کام جو کیے جا رہے ہیں یہ تو ہماری معمولی کوشش ہے۔ اس کے ساتھ اصل میں تو دعاؤں کی ضرورت ہے،

دعاؤں سے یہ کام ہونے ہیں۔

پس اس اہم بات کو ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ دعاؤں کی طرف توجہ دیں اور مساجد کی تعمیر بھی اس لیے ہوتی ہے کہ اس میں عبادت کے لیے لوگ جمع ہوں۔ پانچ وقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں۔ جمعوں میں باقاعدگی اختیار کریں۔ دنیا کے لہو و لعب اور کاموں میں اپنی عبادتوں کو نہ بھول جائیں۔ اگر ہم اپنی عبادتوں کو بھول گئے تو یہ مسجد بنانا صرف ایک ظاہری ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے۔ دنیا کو ہم بتا رہے ہوں گے کہ یہاں مسلمانوں کی ایک مسجد بن گئی ہے،لیکن ہمارے عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قابل نہیں ہوں گے کہ اس مسجد کی برکات سے فیض پانے والے ہوں یا ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مددگاروں میں سے ہوں۔ آپؑ نے تو فرمایا ہے کہ مسلسل دعاؤں سے میرے مددگار بنو، تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جلد سے جلد پورا ہوتا دیکھیں۔

پس آج ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ مقبول دعاؤں کے لیے اپنی عبادتوں کو زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ اپنے بچوں کو بھی عبادت کی عادت ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کریں۔ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں اور اس سے مزید فتوحات کی بھیک مانگیں۔ کتنے خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جن کو یہ سب کچھ حاصل ہو جائے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برستا دیکھیں۔

اگر ہم اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں گے، دین کو دنیا پر مقدم کریں گےتو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جو وعدے ہیں انہیں اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے دیکھیں گے۔

پس ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ترقی یافتہ ممالک میں آ کر دنیا میں نہ کھوجائیں۔ اب گذشتہ کچھ عرصہ سے نئے اسائلم سیکر بھی یہاں آئے ہیں پس دنیا میں نہ ڈوب جائیں۔ یہاں ہر تعمیر ہونے والی مسجد ایک نیا جوش اور ولولہ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہمارے اندر پیدا کرنے والی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے وعدے پورے فرمانے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ ہمارے عملوں کی وجہ سے ان کے پورا ہونے کا وقت دُور ہو جائے یا وہ کسی اَور کے ذریعہ سے، بعد میں آنے والے لوگوں کے ذریعہ سے پورے ہوں اور ہم محروم رہ جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کا اسلام کی فتح کا وعدہ تھا اور اللہ تعالیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیارا کون نبی ہو سکتا تھا اور ہے لیکن کیا اس کے باوجود جنگِ بدر کے موقع پر آپ کی گریہ و زاری، عجز، خوف، خشیت اور دعا ایک عظیم مقام پر نہیں پہنچی ہوئی تھی؟ اس قدر گریہ و زاری تھی کہ آپؐ کی چادر بار بار کندھے سے اتر جاتی تھی اور پھر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! فتح و نصرت کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے تو پھر آپؐ اس قدر بےچینی کا کیوں اظہار فرما رہے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ فتوحات میں بھی مخفی شرائط ہوتی ہیں اس لیے میرا کام نہایت تضرع سے اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد مانگنا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 11)

اور پھر دشمن کے مختلف مواقع پر بار بار حملوں اور ہر طرح سے نقصان پہنچانے کے باوجود

چند سالوں کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے جو فتح دی اس جیسی فتح عظیم نہ تاریخ نے دیکھی نہ سنی

کہ جان کے دشمن نہ صرف مسلمان ہو گئے بلکہ آپؐ کے عاشق بن گئے، اپنی جانیں آپ پر نچھاور کرنے کی عملی تصویر بن گئے۔ دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ کوئی دشمن ہماری لاشوں پر سے گزرے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچ سکتا اور جن کی قسمت میں ذلت و رسوائی لکھی تھی، انہیں اللہ تعالیٰ نے تباہ و برباد کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تھیں جو یہ انقلاب لائیں۔

(ماخوذ از برکات الدعاء، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 11)

پس آج بھی فانی فی اللہ کے غلامِ صادق کی دعائیں ہی ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہو کر دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے لائیں گی

لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تم جو میری طرف منسوب ہوتے ہو اپنی دعاؤں اور اپنے عمل سے میری مدد کرو۔

آج ہم اس مسجد میں بیٹھے ہیں، اس کا افتتاح کر رہے ہیں، اس کا نام بھی ’فتحِ عظیم‘ مسجد رکھا ہے اور یہ نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے الہام اور پیش گوئی کے حوالے سے رکھا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ڈوئی کی ہلاکت کی پیش گوئی فرمائی تھی اور آپؑ نے فرمایا تھا کہ یہ نشان جس میں فتح عظیم ہو گی عنقریب ظاہر ہو گا۔(ماخوذ از حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 511 حاشیہ)اور دنیا نے دیکھا کہ پندرہ بیس دن کے اندر ہی اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کر دیا اور بڑی ذلت سے ہلاک کر دیا۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس سے کیا سلوک کیا وہ ایک علیحدہ تفصیل ہے۔ بہرحال اس کی ہلاکت کے نشان کو اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر آپؑ نے فتح عظیم قرار دیا اور آج اس کا اگلا قدم ہے جو اس شہر میں ہم مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں۔ آپؑ کے الہام کے ایک حصہ کو ہم نے تقریباً ایک سو پندرہ سال پہلے پورا ہوتے دیکھا اور اس کا اگلا قدم ہم آج پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ایک سو پندرہ بیس سال پہلے اس وقت کے اخباروں نے جو دنیاوی اخبار ہیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کو اپنے اخباروں میں جگہ دی اور پھر اس کی ہلاکت کی بھی خبر دی۔ پس یہ خدا تعالیٰ کا نشان تھا جسے دنیا نے مانا۔ ایک اخبار کے کچھ حصہ کا میں یہاں ذکر کر دیتا ہوں، زیادہ تو نہیں ہو سکتا۔ 23؍جون 1907ء کے The Sunday Herald Boston نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف لکھا۔ پھر آپؑ کا دعویٰ اور چیلنج لکھا۔ پھر ڈوئی کے حوالے سے لکھا ۔ اسی اخبار کے کچھ الفاظ میں پیش کر دیتا ہوں۔ وہ کہتا ہے، اس نے ہیڈنگ یہ جمایا۔

عظیم ہے مرزا غلام احمد جو مسیح ہے جنہوں نے ڈوئی کے عبرت ناک انجام کی خبر دی

اور اب وہ طاعون سیلاب اور زلزلے کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔ یہ کہتا ہے کہ اگست کے تئیس دن گزرے تھے جب قادیان ہندوستان کے مرزا غلام احمد نےالیگزینڈر ڈوئی جو ایلیا ثانی کہلاتا تھا، اس کی موت کی خبر دی جو گذشتہ مارچ میں پوری ہو گئی۔ پھر کہتا ہے کہ یہ انڈین آدمی دنیا کے مشرقی علاقوں میں کئی سالوں سے شہرت رکھتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ آخری زمانے میں جس سچے مسیح نے آنا تھا وہ میں ہوں اور خدا تعالیٰ نے اسے عزت بخشی ہے۔ امریکہ میں پہلی دفعہ اس کا ذکر 1903ء میں ہوا جب ایلیا سوم کے ساتھ اس کا تنازعہ منظرِ عام پر آیا۔ ڈوئی کی وفات کے بعد سے انڈین نبی نے شہرت کی بلندیوں کو چھؤا ہے کیونکہ اس نے ڈوئی کی وفات کا بتایا تھا کہ اس کی یعنی مرزا صاحب کی زندگی میں ہی نہایت دکھ اور تکلیف کے ساتھ اس کی وفات ہو جائے گی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے اس نے لکھا ہے کہ مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور سراہتاً یا اشارةً میرے مقابل پر کھڑا ہو گا، تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا۔

پھر کہتا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے لکھ رہا ہے کہ دیکھو اگر مسٹر ڈوئی اس مقابلے سے بھاگ گیا تو آج مَیں تمام امریکہ اور یورپ کے باشندوں کو اس بات پر گواہ کرتا ہوں کہ یہ طریق اس کا بھی شکست کی صورت سمجھی جائے گی اور نیز اس صورت میں پبلک کو یقین کرنا چاہیے کہ یہ تمام دعویٰ اس کا الیاس بننے کا محض زبان کا مکر اور فریب تھا اور اگرچہ وہ اس طرح موت سے بھاگنا چاہے گا، لیکن درحقیقت ایسے بھاری مقابلے سے گریز کرنا بھی ایک موت ہے۔ پس یقینا ًسمجھو کہ اس کے صیحونپر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ضرور ایک صورت اسے پکڑ لے گی۔ اب میں اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ اے قادر اور کامل خدا! جو ہمیشہ نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے اور ظاہر ہوتا رہے گا، یہ فیصلہ جلد کر کہ پگٹ اور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے کیونکہ اس زمانے میں تیرے عاجز بندے اپنے جیسے انسان کی پرستش میں گرفتار ہو کر تجھ سے بہت دُور جا پڑے ہیں۔

پھر اخبار لکھتا ہے کہ شروع میں ڈوئی نے مشرقِ بعید کی طرف سے اس چیلنج پر کوئی عوامی توجہ نہیں دی لیکن 26؍ستمبر 1903ء کو اس نے اپنے زائن سٹی پبلیکیشن میں کہا کہ لوگ بعض دفعہ مجھ سے کہتے ہیں کہ تم اس طرح کی چیزوں کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ کہتا ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ مجھے ان مکھیوں اور مچھروں کا جواب دینا چاہیے۔ اگر میں اپنے پاؤں ان پر رکھ دوں تو انہیں کچل دوں۔ میں انہیں موقع دیتا ہوں کہ اڑ جائیں ا ور زندہ رہیں۔ صرف ایک دفعہ اس نے کسی بھی طرح سے یہ ظاہر کیا کہ اسے مرزا غلام احمد کے وجود کا علم ہے۔ اس نے مرزا صاحب کا بیوقوف محمدی مسیح کے نام سے ذکر کیا۔ نعوذ باللہ۔ اور 12؍دسمبر 1903ء کو وہ لکھتا ہے اگر میں خدا کا نبی نہیں ہوں تو خدا کی زمین میں اَور کوئی بھی نہیں۔ اس کے بعد آنے والے جنوری میں اس نے لکھا کہ میرا کام یہ ہے کہ لوگوں کو مشرق ،مغرب، شمال اور جنوب سے باہر نکالنا ہے اور انہیں اس اور دوسرے صیحونی شہروں میں آباد کرنا ہے اس وقت تک جب تک مسلمانوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ۔ اللہ ہمیں وہ وقت دکھائے۔ یہ اس ڈوئی نے لکھا جبکہ مرزا صاحب نے اسے سختی سے چیلنج کیا۔

اخبار پھر لکھتا ہے کہ مرزا صاحب نے سختی سے اسے چیلنج کیا کہ اللہ سے دعا کرو کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے ہلاک ہو جائے۔ ڈوئی اس حالت میں مرا کہ اس کے دوست اسے چھوڑ کر جانے لگے اور قسمت خراب ہو گئی۔ وہ فالج اور جنون جیسےامراض میں مبتلا ہو گیا اور اسے عبرت ناک موت ملی۔

اس کے ساتھ صیحونشہر اندرونی اختلافات کے باعث تباہ و برباد ہو گیا۔ مرزا صاحب سامنے آئے ہیں اور انہوں نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ وہ چیلنج یا پیشگوئی جیت گئے ہیں اور وہ ہر سچائی کے طالب کو سچائی قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں جیساکہ انہوں نے اعلان کیا ہے۔ وہ اس آفت کو جو اُن کے امریکہ مخالف پر پڑی خدائی انتقام کے ساتھ ساتھ خدائی انصاف کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جیساکہ ایک پیرو یعنی کوئی احمدی بیان کرتا ہے کہ دشمن کے مرنے پر خوشی نہیں کرنی چاہیے کہ ہم ڈوئی کی زندگی کے بعض مخصوص حالات کی طرف اشارہ کریں۔ اس طرح کی چیزیں ہمارے دماغوں میں بہت دور ہیں۔ ہم ان حقائق کو اپنے مقصد کے لیے اور مزید سچائی کے اظہار کے لیے شائع کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا مقدس مذہب مُردوں کی برائی کرنے کی تعلیم نہیں دیتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ حقائق کو اس وقت چھپا لیا جائے جب ان کا ظاہر کرنا معاشرے کے حق میں اور انسانیت، سچائی اور خدا کی خاطر ہو۔ پھر احمدی کے حوالے سے ہی لکھتا ہے کہ

ڈوئی پر مصائب نازل کر کے اور بالآخر اس کی بے وقت موت کے سبب غم اورعذاب نازل کر کے خدا تعالیٰ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جیساکہ اس نے اپنے رسول کو اس واقعہ کے وقوع ہونے سے تین چار سال قبل بتا دیا تھا۔

(SUNDAY HERALD-BOSTON JUNE 23, 1907-MAGAZINE SECTION)

یہ ایک اخبار کا نمونہ ہے جو میں نے پیش کیا ہے ۔ یقیناً یہ فتح تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی پر دلیل بھی تھی اور ہے لیکن جیساکہ میں نے کہا

آپ علیہ السلام کا مشن تو بہت وسیع ہے۔ یہ تو ایک محاذ کی ایک جگہ کی فتح کا ذکر ہے۔

ہماری حقیقی خوشی تو اس وقت ہو گی، جب ہم دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے لائیں گے۔ اس کے لیے

ہمیں اب اس مسجد کے بننے کے ساتھ تبلیغ کے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔

مسیح محمدی کے دلائل کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔ پہلے سے بڑھ کر اپنی عملی اور روحانی حالت کو بہتر بنانا ہو گا۔ جیساکہ میں نے کہا اصل فتح عظیم تو فتح مکہ تھی۔ کیا فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے یا بعد کے مسلمانوں نے تبلیغ کے کام کو روک دیا تھا؟ کیا اسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش نہیں کی تھی؟ جنگوں سے علاقے فتح نہیں کیے تھے؟ ہاں جنگیں بھی ہوئیں لیکن اس لیے نہیں کہ دین پھیلے بلکہ دل جیتے تھے جس سے قربانی کرنے والے لوگ گروہ در گروہ اسلام میں شامل ہوتے چلے گئے۔ پس

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہونے والی فتح کو مستقل تبلیغ اور دعاؤں سے دائمی کرنے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کا شمار ان آخرین میں ہوتا ہے جو پہلوں سے ملے۔ تو کیا پہلوں نے تبلیغ روک دی تھی؟ اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں میں بہتری روک دی تھی؟ عبادتوں کے معیار کم کر دیے تھے؟ جب تک یہ چیزیں مسلمانوں میں رہیں اسلام ترقی کرتا رہا اور

مسلمانوں پر زوال اس وقت آنا شروع ہوا جب دنیا غالب آنے لگی اورتقویٰ کے معیار گرنے شروع ہو گئے۔ عبادتوں کی طرف توجہ کم ہوتی چلی گئی

لیکن کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تھا کہ قیامت تک اس دین کو قائم رکھنا ہے اور تمکنت عطا فرمانی ہے اس لیے آخری زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود کو بھیجے گا اور پھر مسیح موعود کو بھیجا اور آپؑ نے دنیا کو اپنی بعثت کی خبر دی اور باوجود وسائل نہ ہونے کے یورپ اور امریکہ اور دنیا کے کئی ملکوں میں آپ کا پیغام پہنچا اور ڈوئی کے حوالے سے ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ کس شان سے پہنچا۔ آپ علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو اسلام کی نشأة ثانیہ کا بیج بویا تھا وہ ایک شان سے دنیا میں پھیلتا پھولتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے بےشمار وعدے فرمائے ہیں۔آپ کو الہاماً فرمایا: خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے۔ خدا تجھے غیر معمولی عزت دے گا۔ لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر میں تجھے بچاؤں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 442)

اور اس طرح کے بےشمار وعدے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپؑ سے کیے اور جماعت کی ایک سو تینتیس سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے وعدے پورے فرماتا چلا جا رہا ہے۔ آج جو جماعت دنیا کے 220ممالک میں پھیلی ہوئی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ اس نے اس پیغام کو پہنچانے کے سامان فرمائے ہیں اور دنیا آج مرزا غلام احمد قادیانی ؑکو مسیح موعود اور مہدی معہود کے طور پر جانتی ہے۔ آپؑ نے ہر مخالف کو مقابل پر بلایا اور اسے راہِ فرار اختیار کرنے کے علاوہ چارہ نہ رہا یا اللہ تعالیٰ نے اسے تباہ و برباد کر دیا۔ ہاں

انبیاء کی جماعتوں کی مخالفتیں جاری رہتی ہیں لیکن دشمن جو چاہتا ہے وہ حاصل نہیں کر سکتا۔

یہی جماعت احمدیہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔

کون سا زور ہے جو دشمن نے پورے وسائل اور طاقتوں کے ساتھ جماعت کو ختم کرنے کے لیے نہیں لگایا اور اب بھی لگا رہے ہیں۔ کمزور ایمان اس سے ٹھوکر بھی کھاتے ہیں لیکن ایک جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہزاروں عطا فرماتا ہے۔

پس اگر ہمیں اخلاص کا دعویٰ ہے۔ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ وہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں جن کے آنے کی پیش گوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی،تو پھر ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس مسیح و مہدی کا مددگار بننا ہو گا۔ وہ نمونہ دکھانا ہو گا جو صحابہؓ نے دکھایا۔

ہم نے مسلمانوں کو بھی دینِ واحد پر جمع کر کے ان کے اندر سے تمام بدعات کو ختم کرنا ہے اور غیر مسلموں کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آشنا کروا کر، انہیں خدائے واحد کی عبادت کرنے والا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا بنانا ہے

تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کر سکتے ہیں ورنہ ہمارے بیعت کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ اس کے حصول کے لیے ہمیں اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کرنے ہوں گے ورنہ مسجدیں بنانا تو بے مقصد ہے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ہم اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانیں۔ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کا مقصد خود معین نہیں کر سکتا۔ یہ خدا ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریات:57)یعنی میں نے جن و انس کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کی بےشمار مقامات پر وضاحت فرمائی ہے۔ ایک موقع پر آپؑ اس طرح وضاحت فرماتے ہیں:’’اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے۔ اور اس کی فرمانبرداری کرے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ۔ میں نے جن اور انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیںاور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مدنظر رکھیں وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں۔ وہ دنیا ہی میں منہمک اور فنا ہو جاتے ہیں۔ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے۔ ہاں اس وقت پتہ لگتا ہے جب قابض ارواح آ کر جان نکال لیتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 7 صفحہ 177-178ایڈیشن 1984ء)جب موت کا وقت آ جاتا ہے۔ ہم جو زمانے کے امام کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمارا تو یہ کام نہیں کہ اس طرح زندگی گزاریں۔ ہمیں تو اس زندگی کے مقصد کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے عبادت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ اس خوبصورت مسجد کی طرف لوگوں کی توجہ تبھی پیدا ہو گی، تبھی ہم اسلام کا پیغام حقیقی رنگ میں آگے پہنچا سکیں گے، تبھی ہم مسیح موعودؑ کے مشن کو پورا کر سکیں گے جب ہم اپنی کوششوں کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے والے نہ ہوں۔ پس ہر احمدی اس پر سوچے اور اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرے کہ اس کی عبادت کے حق ادا کرنے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بن سکیں۔

پس آج اس مسجد کا افتتاح عظیم تب بنے گاجب ہم اس حقیقت کو پہچان لیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے

ورنہ دنیا میں بےشمار مسجدیں ہیں جو خوبصورت ہیں۔ بہت اعلیٰ ہیں لیکن وہاں آنے والے اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرنے والے نہیں۔ عبادت صرف اتنی نہیں کہ جلدی جلدی پانچ نمازیں یا چند نمازیں ٹھونگے مار کر پڑھ لیں بلکہ عبادت یہ ہے کہ جو نماز کا حق ہے وہ ادا کیا جائے۔ اسے سنوار کر پڑھا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو تین چار مرتبہ ،بار بار نماز پڑھنے کا اس لیے ارشاد فرمایا کہ آپؐ کے نزدیک وہ نماز کا حق ادا نہیں کر رہا تھا اور جس طرح سنوار کر نماز پڑھنی چاہیے اس طرح نہیں پڑھ رہا تھا۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءۃ للامام … حدیث 757)

پس نمازوں کو بھی اس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کریں تو پھر اللہ تعالیٰ کا قرب بھی ہمیں ملتا ہے اور اسی طرح عبادتوں کی مقبولیت تب ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کے بندوں کا بھی حق ادا کیا جا رہا ہو۔ جو لوگوں کے حق مارنے والے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی نمازیں ان کے لیے ہلاکت کا سامان ہیں وہ ان کے منہ پر ماری جائیں گی۔ پس

ہمارا مقصد مسجدوں کو آباد کرنا اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے آباد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ادا کرنا ہے اور ہوناچاہیے۔

جس شخص کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چیلنج دیا تھا،وہ کیا چاہتا تھا؟ وہ دین کے نام پر دنیا میں اپنی حکومت چاہتا تھا۔ اس کے لیے اس نے مسیح علیہ السلام کا نام استعمال کیا۔ بڑے دعوے کیے کہ وہ مسیح محمدی کے ساتھ یہ کر دے گا وہ کر دے گا جیساکہ میں نے ایک اخبار کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے دعا کا چیلنج دیا تو پھر اس کا انجام ظاہر ہو گیا۔ دنیا نے ہر طرح سے ڈوئی کی ذلت و رسوائی دیکھی۔ اتنا واضح نشان ظاہر ہوا کہ اخباروں نے بھی اعتراف کیا کیونکہ اس کے بغیر چارا نہیں تھا اور مرزا غلام احمد کو عظیم قرار دینے پر مجبور ہو گئے، لیکن کیا اس عظیم فتح کی خوشی میں ہم صرف ایک یادگار مسجد بنا دیں اور خوش ہو جائیں۔ جیساکہ میں نے کہا ہے۔ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے پھل کھائے اور کھا رہے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی انہی قدموں پر چلنے کی تلقین فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنےکے راستے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چیلنج صرف ہلاک کرنے کے لیے نہیں دیا تھا بلکہ اسلام کی عظمت قائم کرنے کے لیے دیا تھا، دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لانے کے لیے دیا تھا۔ اس لیے دیا تھا کہ اب مسیح محمدی کی حکومت دنیا میں قائم ہونی ہے، جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو بلند کرتے ہوئے خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا ہے۔

پس آج یہ ہمارا کام ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسیح موعود ؑکی جماعت میں شامل ہوئے ہیں کہ مسیح محمدی کے پیغام کو ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیں۔ یہ ہمارا کام ہے۔ خدا تعالیٰ کی وحدانیت ان پر ثابت کریں اور یہ کام اس وقت ہو گا جب ہم اپنا بھی خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں گے۔ تقویٰ میں بڑھیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں …جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 10ایڈیشن 1984ء)

پس اپنی اندرونی صفائی بھی بہت ضروری ہے اور جب یہ اندرونی صفائی ہو گی تو تقویٰ پیدا ہو گا تو پھر دنیا دیکھے گی کہ نشانات پر نشانات ظاہر ہوتے چلے جائیں گے اور یہی و ہ مقام ہے جہاں فتوحات کے مزید راستے کھلتے چلے جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ اور یہی وہ حالت ہے کہ فتحِ عظیم کی حقیقت کو بھی ہم دیکھیں گے۔ پس

اے مسیح محمدی کے غلامو! ہر فتح کا نشان ہمارے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہونا چاہیے۔پس یہ عہد کریں کہ آج کا دن ہمارے اندر ایک روحانی انقلاب لانے کا دن ہو گا۔

ہمارے بچوں کے لیے، ہماری نسلوں کے لیے بھی روحانی انقلاب لانے کا دن ہو گا اور ہونا چاہیے ورنہ ڈوئی کی ہلاکت سے یا اس شہر کے لوگوں کی ڈوئی کے نام سے عدم واقفیت سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ ہم نے ان کو متعارف کرا دیا یہ جانتے نہیں تھے۔ فائدہ تو تبھی ہے جب اس فتح عظیم کی پیش گوئی کے پورا ہونے سے ہمارے اندر بھی ایک انقلاب پیدا ہو، ایک انقلاب عظیم پیدا ہو اور ہمارے اہل وطن بھی اور دنیا بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا جوا اپنی گردن پر ڈال لے۔ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی قائل ہو جائے اور اس کے لیے ہر قربانی کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button