احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
ریورنڈ بٹلرایم اے جوسیالکوٹ کے مشن میں کام کرتے تھے اورجن سے حضرت مرزا صاحبؑ کے بہت سے مباحثات ہوتے رہتے تھے۔جب ولایت واپس جانے لگے توخودکچہری میں آپ کے پاس ملنے کے لئے چلے آئے
پادری بٹلریا ٹیلر
(گذشتہ سے پیوست)اس کے بعد ایک اور کتاب، ’’سیرت حضرت مسیح موعودؑ‘‘ ہے جس میں ان پادری صاحب کانام موجودہے۔نومبر1916ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے اس نام سے80صفحات پر مشتمل ایک چھوٹاساکتابچہ تحریر فرمایا۔ (انوارالعلوم کی جلد3کے صفحات331تا380پربھی یہ موجود ہے) اس میں بھی اس پادری کانام بٹلر کے طورپرموجودہے چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:’’….پادریوں میں سے جولوگ حق پسندتھے وہ باوجوداختلاف مذہبی کے آپ کی بہت عزت کرتے چنانچہ آپ کاسوانح نگارلکھتاہے کہ ریورنڈبٹلرایم اے جوسیالکوٹ کے مشن میں کام کرتے تھے اورجن سے حضرت مرزا صاحبؑ کے بہت سے مباحثات ہوتے رہتے تھے۔جب ولایت واپس جانے لگے توخودکچہری میں آپ کے پاس ملنے کے لئے چلے آئے اورجب ڈپٹی کمشنر صاحب نے پوچھاکہ کس طرح تشریف لائے ہیں توریورنڈ مذکورنے کہاکہ صرف مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے۔اورجہاں آپ بیٹھے تھے وہیں سیدھے چلے گئے اورکچھ دیربیٹھ کرواپس چلے گئے ……اس وقت مسیحیوں اورمسلمانوں کے تعلقات نہایت کشیدہ تھے اورپادریوں کے اخلاق ان دنوں میں صرف انہی لوگوں تک محدودہوتے تھے جوان کی باتوں کی تصدیق کریں۔ اور جو آگے سے جواب دے بیٹھیں ان کے خلاف ان کاجوش بڑھ جاتاتھا۔لیکن باوجوداس کے کہ حضرت مرزا صاحبؑ دین میں غیورتھے اورمذہبی مباحثات میں کسی سے نہ دبتے تھے۔ریورنڈبٹلرآپ کی نیک نیتی اوراخلاص اورتقویٰ کودیکھ کرمتأثرتھے اورباوجوداس بات کو محسوس کرنے کے کہ یہ شخص میراشکارنہیں ہاں ممکن ہے کہ میں اس کا شکارہوجاؤں اورباوجوداس طبعی نفرت کے جو ایک صیدکوصیادسے ہوتی ہے وہ دوسرے مذہبی مناظرین کی نسبت مرزاصاحب سے مختلف سلوک کرنے پرمجبورہوئے اورجاتے وقت کچہری میں ہی آپ سے ملنے کے لئے آگئے اور آپ سے ملے بغیرجاناپسندنہ کیا۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ مطبوعہ قادیان صفحہ 17-18) اس کے بعد ایک اوراہم کتاب ہےجس کانام سیرت المہدی ہے۔حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحب ایم اے نے جب یہ کتاب تصنیف فرمائی تواس میں بھی یہ روایت درج فرمائی۔ سیرت المہدی تین جلدوں میں شائع ہوئی۔(اب توچندسال ہوئے کہ اس کی چوتھی اور پانچویں جلدبھی شائع ہوچکی ہے۔اورپہلے جوتین جلدیں الگ الگ تھیں نئی طباعت میں اب ایک جلدمیں جلداوّل کی شکل میں اورچوتھی اورپانچویں جلد سیرت المہدی جلددوم کی شکل میں منظرعام پرآچکی ہے۔) سیرت المہدی کی جلداوّل 21؍دسمبر1923ء کوشائع ہوئی۔اس ایڈیشن کےصفحہ141پریہ روایت درج ہے۔اورروایت کانمبر147ہےجو نئے ایڈیشن کے صفحات 140تا 145پردرج ہے اور روایت نمبر 150 ہے۔لیکن یہاں یہ وضاحت کرناضروری ہوگاکہ یہ بھی اصل میں وہی روایت ہے جواس سے قبل حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اپنی تصنیف’’حیات النبی‘‘ میں درج فرماچکے تھے۔ البتہ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحب ؓ ایم اےجوکہ ایک باریک بین محقق تھے۔ روایت و درایت کے سنہری اصولوں پرکاربندتھے اوراپنے خدادادوسیع علم و فراست کے ساتھ ساتھ تقویٰ اوردیانتداری کے بھی نمایاں ترین مقام پرفائزتھے۔ انہوں نے اپنی کتاب سیرت المہدی میں اس روایت کودرج کرنے سے پہلے علامہ میرحسن صاحب سے بھی اس کی اجازت لینا ضروری سمجھا اوران کی تحریری اجازت ملنے پرآپؓ نے یہ روایت درج فرمائی۔علامہ سیدمیرحسن صاحب نے یہ تحریر نومبر 1922ء میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی خدمت میں لکھی تھی۔آپ ’’سیرت المہدی‘‘ جلداوّل صفحہ140 پرفرماتے ہیں:’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے اپنی کتاب حیاۃ النبی میں حضرت مسیح موعودؑکے زمانہ ملازمت سیالکوٹ کے متعلق مولوی سید میر حسن صاحب سیالکوٹی کی ایک تحریر نقل کی ہے جو میں مولوی صاحب موصوف سے براہ راست تحریری روایت لے کر درج ذیل کرتا ہوں…وہ لکھتے ہیں :’’حضرت مرزا صاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا۔چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے۔اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثرتضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے۔آپ پسند نہیں فرماتے تھے۔…..پادری بٹلر صاحب ایم۔اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے۔مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا۔ یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے تھے۔ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ سر تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے۔اور آدم کی شرکت سے جوگنہگار تھا بری رہے۔مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے۔اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی۔ جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگار ہوا۔پس چاہیے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے۔اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے۔پادری بٹلر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔اور بڑے ادب سے ان سے گفتگو کیا کرتے تھے۔پادری صاحب کو مرزا صاحب سے بہت محبت تھی۔چنانچہ جب پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرز اصاحب کی ملاقات کے لیے کچہری تشریف لائے۔ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا۔تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزا صاحب سے ملاقات کر نے کو آیا تھا۔چونکہ میں وطن جانےوالا ہوں اس واسطے ان سے آخری ملاقات کرونگا۔چنانچہ جہاں مرزا صاحب بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے اور ملاقات کر کے چلے گئے۔….(سیرت المہدی جلد اول روایت 150)البتہ سیرت المہدیؑ حصہ اول کی روایت نمبر275 (ایڈیشن 1923ءمطبوعہ قادیان) کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحب ایم اے ؓنے جب اپنی کتاب میں اس کودرج کرنے کی اجازت لینے کالکھاتوساتھ حیات النبی کی مذکورہ جلدکاحوالہ دیا جس میں یہ روایت شائع ہوچکی تھی۔گویاجوروایت پہلے حضرت شیخ صاحب نے درج کی من وعن وہی روایت سیرت المہدی میں شامل ہوئی۔نیزحضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحب ایم اےؓ کی درخواست پر انہوں نے مزیدحالات بھی لکھ کربھیجے جوآپؓ نےبعدوالی روایت،روایت نمبر280(سیرت المہدی مطبوعہ ربوہ2008ء) میں درج فرمائے۔ چنانچہ آپؓ لکھتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعودؑکے عالم شباب کے زمانہ قیام سیالکوٹ کے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی کی تصنیف حیات النبی سے مولوی میرحسن صاحب سیالکوٹی کی روایت دوسری جگہ (یعنی نمبر 150پر)درج کی جاچکی ہے۔اس روایت کے متعلق میں نے مولوی صاحب موصوف کوسیالکوٹ خط لکھاتھا۔مولوی صاحب نے اس کی تصدیق کی۔ اورمجھے اپنی طرف سے اس کی روایت کی اجازت دی۔اس کے علاوہ میری درخواست پرمولوی صاحب موصوف نے انہی ایام کے بعض مزیدحالات بھی لکھ کرمجھے ارسال کئے ہیں۔جومیں درج ذیل کرتاہوں۔مولوی صاحب لکھتے ہیں :
’’….بعدازسلام مسنون عرض خدمت والایہ ہے کہ چنددرچندعوائق وموانع کے باعث آپ کے ارشادکی تعمیل میں دیرواقع ہوئی۔امیدہے آپ معاف فرمائیں گے۔چونکہ عرصہ دراز گزر چکا ہے اوراس وقت یہ باتیں چنداں قابل توجہ اورالتفات نہیں خیال کی جاتی تھیں اس واسطے اکثرفراموش ہوگئیں جویادکرنے میں بھی یادنہیں آتیں۔خلاصہ یہ ہے کہ ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت اپنے ہرقول وفعل میں دوسروں سے ممتازہیں۔فقط راقم جناب کا ادنیٰ نیازمند۔میرحسن۔ 26نومبر1922ء(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 280) الحکم7؍اپریل1934ء کے صفحہ3 پر ’’سیرت المہدی کاایک ورق۔دشمنوں کی قلم اورزبان سے‘‘ اس میں بھی ذکرہے کہ ’’پادری بٹلرصاحب جوسکاچ مشن سیالکوٹ سے تعلق رکھتے تھے۔حضرت اقدسؑ کوان سے بڑی ارادت تھی۔(حضرت اقدسؑ کے قیام سیالکوٹ کا واقعہ ہے)وہ حضرت اقدسؑ کے پاس رخصت کے وقت دفترمیں آپ کولینے آجاتااورآپ کے معمولی مکان میں گھنٹوں بے تکلف بیٹھارہتا….۔ (الحکم مورخہ 7اپریل 1934ء صفحہ 3 جلد 37نمبر12) محترم ڈاکٹربشارت احمدصاحب (غیرمبائع)نے حضرت مسیح موعودؑ کی سوانح عمری ’’مجدداعظم ‘‘کے نام سے دسمبر1939ء میں شائع کی اس کی جلداوّل صفحہ42-47پرحضرت عرفانی صاحبؓ کے حوالے سے اسی روایت کو من وعن نقل کیاہے۔یعنی اس میں بھی پادری موصوف کانام بٹلرہی لکھاہواموجودہے۔مجدداعظم تصنیف میں اس پہلو سے تحقیق وتفحص کی کمی نظرآتی ہے کہ اس میں بہت سی روایات سلسلہ کے لٹریچرمیں پہلے سے موجودکتب واخبارات سے لے کرشامل کی گئی ہیں۔اور کوئی خاص تنقیدوتبصرہ بھی نہیں کیاگیا۔سوائے عقائدومسائل کی بحث میں کہ جہاں مصنف کے قلم نے خوب پیادے اورسواردوڑائے ہیں۔VII: حضرت مولاناعبدالرحیم دردصاحبؓ نے 1945ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی سوانح کا پہلاحصہ Life of Ahmadکے نام سے تصنیف کیا۔جوکہ 1948ء میں لاہورسے شائع ہوا۔اس میں بھی حضورؑ کے قیام سیالکوٹ کاذکرکرتے ہوئے اس کتاب کے صفحہ 39 پر Rev.Mr.Butler, M.A کے نام سے اس کاذکرموجودہے۔VIII: تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحات 95.- 98پریہی تفصیلی روایت درج ہے اورمؤرخ احمدیت محترم مولانادوست محمدصاحب شاہدنے یہ روایت درج کرتے ہوئے کسی نئی تحقیق وتفحص کا حوالہ یا ذکرنہیں فرمایابلکہ سیرت المہدی اورحیات النبی کے حوالہ سے ہی من وعن اس روایت کو درج کیاہے۔جیساکہ اس کے صفحہ 107کے حواشی نمبر54 سے واضح ہوتاہے۔یہ مذکورہ بالا کتب ہیں جواس پادری کے نام کےحوالہ سے مستنداورابتدائی ماخذکے طورپرسمجھی جاسکتی ہیں۔اوران تمام مذکورہ بالاکتب کی عبارتوں کاجائزہ لیاجائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ :الف: زمانی اعتبارسے سب سے قدیم حوالہ جوابھی تک دستیاب ہواہے وہ براہین احمدیہ کاوہ ایڈیشن ہے جو 1906ء میں شائع ہوا۔اس میں سیالکوٹ کے سکاچ مشن کے ایک پادری کا ذکر ہے لیکن یہ ذکرنہیں کہ ان تفصیلات کاماخذیاراوی کون ہے یا حوالہ کیا ہے۔ ب: حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ کی کتاب وہ پہلی کتاب ہے جس میں یہ نام بھی مذکورہے اور راوی بھی مذکورہے۔یعنی اس ساری تفصیل کاراوی۔محترم سیدمیرحسن صاحب کانام بھی مذکور ہے۔ اور دوسرے نمبرپر ’’سیرت المہدی‘‘ تصنیف ہے جس میں یہ روایت دوبارہ درج ہوئی اورمحترم میرحسن صاحب نے کچھ مزیدتفصیل بھی لکھ کربھیجی۔ ج:اسی طرح حضرت مولاناعبدالرحیم دردصاحب ؓنے اپنی کتاب میں بٹلرکاذکرتوکیاہے لیکن انہوں نے ماخذیاحوالہ کوئی نہیں دیا۔اوراگرلائف آف احمد(Life of Ahmad)کاتفصیلی مطالعہ کیاجائے تویہ رائے قائم کرنے میں دیرنہیں لگتی کہ اس کتاب میں حضرت عرفانی صاحب ؓ کی تحریر کردہ سیرت و سوانح اورسیرت المہدی ؑ کا بیشتر مواد لیا گیا ہے۔ گو کتاب میں ہرجگہ حوالہ مذکور نہیں۔
٭…٭…٭