خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 17؍جون2022ء
سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ گذشتہ خطبہ میں مَیں نے بیان کیا تھا کہ مرتدین یا منافقین کا قصہ ختم ہواجو یمامہ کے تعلق میں تھا اور مُسَیلِمہکذاب اور اس کے ساتھیوں کا جو قصہ تھا وہ گذشتہ خطبہ میں ختم ہوا تھا۔مرتدین جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں ہتھیار اٹھائے ان کا ابھی ذکر چل رہا ہے۔
سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جیفر بن جلندی اور عبادبن جلندی کو رسول اللہﷺکی طرف سے دعوت اسلام کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:رسول اللہﷺ نے 8؍ہجری میں حضرت ابوزید انصاریؓ کو تبلیغِ اسلام کی غرض سے اور حضرت عمرو بن عاصؓ کو یہاں کے دو رئیس بھائیوں جَیفربن جُلُنْدیاور عَبَّادبن جُلُنْدی کے نام خط دے کر بھیجا۔ رسول اللہ ﷺ کے خط کا مضمون یہ تھا:بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ خط محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے جَیفراور عَبَّادپسران جُلُنْدی کی طرف ہے۔ سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ مَیں تمہیں اسلام لانے کی دعوت دیتا ہوں۔تم اسلام قبول کر لو، محفوظ رہو گے۔ مَیں اللہ کا رسول ہوں اور ساری دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں تاکہ ہر اس شخص کو ڈراؤں جو زندہ ہے اور کافروں پر اتمامِ حجت کروں۔ اگر تم اسلام لے آؤ گے تو مَیں تمہیں بدستور وہاں کا حاکم رہنے دوں گا اور اگر اسلام قبول کرنے سے انکار کرو گے تو تمہاری ریاست تم سے چھن جائے گی۔بعض روایات کے مطابق کافی دن کی بحث کے بعد ان بھائیوں نے اسلام قبول کیا اور ایک روایت کے مطابق عُمان کے حاکم جَیفرنے کہا مجھے اسلام لانے میں تو کوئی عذر نہیں لیکن یہ ڈر ہے کہ اگر مَیں نے یہاں سے زکوٰة اکٹھی کر کے مدینہ بھیجی تو میری قوم مجھ سے بگڑ جائے گی۔ اس پر حضرت عمرو بن عاصؓ نے اس کو پیشکش کی کہ اس علاقے سے زکوٰة کا جو مال وصول ہو گا وہ اسی علاقے کے غرباء پر خرچ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اس نے اسلام قبول کر لیا۔ حضرت عَمروؓ یہاں دو سال تک مقیم رہے اور لوگوں کو تبلیغِ اسلام کرتے رہے۔ آپؓ کی اس کامیاب تبلیغی مساعی سے اس علاقے کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔
سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عمان میں فتنہ ارتداد اورجنگ کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:جب آنحضرت ﷺکی وفات ہوئی اور عرب کے چاروں طرف ارتداد اور بغاوت پھیل گئی تو حضرت ابوبکرؓنے حضرت عَمرو بن عاصؓ کو عُمان سے مدینہ طلب فرما لیا۔ دوسری طرف رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد لَقِیط بن مالک اَزْدیان میں اٹھا جس کا لقب ذوتاج تھا اور یہ دورِ جاہلیت میں شاہ عُمان جُلُنْدی کے ہم پلہ سمجھا جاتا تھا۔جُلُنْدیعُمان کے بادشاہوں کا لقب تھا۔بہرحال اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور عُمان کے جاہلوں نے اس کی پیروی کی، یہ عُمان پر قابض ہو گیا اور جَیفراور اس کے بھائی عَبَّادکو پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی اور جَیفرنے حضرت ابوبکؓرکو اس ساری صورتِ حال سے باخبر کیا اور مدد طلب کی۔ حضرت ابوبکرؓنے ان کے پاس دو امیر بھیجے،ایک حُذَیفہ بن مِحْصَن غَلْفانی حِمْیریکو عُمان کی طرف اور دوسرے عرْفَجہ بن ھَرْثَمَہ بارقی اَزْدیؓکو مَھْرَہ کی طرف اور حکم دیا کہ وہ دونوں ساتھ ساتھ سفر کریں اور جنگ کا آغاز عُمان سے کریں۔اور حکم دیا کہ جب عُمان میں جنگ ہو تو حُذَیفہؓ قائد ہوں گے اور جب مَھْرَہ میں جنگ ہو تو حُذَیفہؓ سپہ سالاری کے فرائض سرانجام دیں گے۔حضرت ابوبکرؓ نے ان دونوں کی مدد کے لیے حضرت ِعکرمہ بن ابوجہل کو روانہ کیا….حضرت ابوبکرؓ کے حکم کے مطابق عکرمہ اپنی فوج کے ساتھ عُمان کی طرف عَرْفَجہؓ اور حُذَیفہؓ کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے اور قبل اس کے کہ وہ دونوں عُمان پہنچتے عکرمہ عُمان کے قریب ایک مقام رجام میں ان دونوں سے جا ملے اور انہوں نے جَیفراور اس کے بھائی عَبَّاد کے پاس اپنا پیغام بھیج دیا۔ تاریخ کی بعض کتب جیسے کامل ابن اثیر میں اس کا نام عِیاذبیان کیا جاتا ہے۔ بہرحال مسلمان لشکر کے سرداروں کے پیغام ملنے کے بعد جَیفراور عَبَّاد اپنی اپنی قیام گاہوں سے نکلے جو پہلے چھپ گئے تھے۔ اس مرتد کے نبی کے اعلان ہونے کے بعد جس نے اپنی فوج بنا لی تھی اس کی طاقت زیادہ ہو گئی تھی تو بہرحال یہ اپنی قیام گاہوں سے نکلے اور انہوں نے صُحار میں آ کر پڑاؤ کیا اور حُذَیفہؓ، عَرْفَجہؓ اور عکرمہؓ کو کہلا بھیجا کہ آپ سب ہمارے پاس آ جائیں۔ چنانچہ مسلمانوں کا لشکر صُحار میں جمع ہو گیا اور متصلہ علاقوں کو مرتدین سے پاک کر دیا۔ادھر لَقِیط بن مالککو اسلامی لشکر کے پہنچنے کی خبر ملی تو وہ اپنی فوج لے کر مقابلے کے لیے نکلا اور دباکے مقام پر فروکش ہوا۔اس نے عورتوں بچوں اور مال و متاع کو اپنے پیچھے رکھا تاکہ اس سے جنگ میں تقویت ملے۔مسلمان امراءنے لَقِیط کے ساتھی سرداروں کو خطوط لکھے اور اس کی ابتدا انہوں نے قبیلہ بنو جُدیدکے رئیس سے کی۔ ان کے جواب میں ان سرداروں نے بھی مسلمان امراءکو خطوط لکھے۔ اس مراسلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ سب سردار لَقِیط سے علیحدہ ہو گئےاور مسلمانوں کے ساتھ آ ملے۔ اسی جگہ یعنی دَبا کے مقام پر لَقِیطکی فوج کے ساتھ پھر گھمسان کی جنگ ہوئی۔ابتدا میں لَقِیط کا پلہ بھاری رہا اور قریب تھا کہ مسلمانوں کو شکست ہو جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے احسان فرمایا اور اس نازک گھڑی میں مدد نازل فرمائی۔ بحرین کے مختلف قبائل اور بنو عبدالقَیس کی طرف سے بھاری کمک پہنچ گئی جس سے ان کی قوت اور طاقت میں اضافہ ہو گیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر لَقِیط کی فوج پر شدید حملہ کر دیا جس سے لَقِیط کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور دس ہزار مقاتلین کو تہ تیغ کیا اور بچوں اور عورتوں کو قید کر لیا۔ مال و بازار پر قبضہ کر لیا اور اس کا خُمُس عَرْفَجہؓ کے ہاتھ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں روانہ کر دیا۔ اس طرح عُمان میں بھی اس فتنہ کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمانوں کی حکومت پائیدار بنیادوں پر قائم ہو گئی۔
سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عکرمہؓ کی مھرہ قبیلہ کی طرف پیش قدمی کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت عِکْرِمہؓ کی مَھْرَہ قبیلہ کی طرف پیش قدمی کے بارہ میں آتا ہے کہ عُمان کے مرتدین کی سرکوبی سے فارغ ہونے کے بعد عکرمہ اپنے لشکر کے ہمراہ نجد کے علاقے مَھْرَہقبیلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ لکھا ہے کہ انہوں نے اہلِ عُمان اور عُمان کے ارد گرد کے لوگوں سے اپنی اس مہم کے لیے مدد طلب کی۔ وہ چلتے رہے یہاں تک کہ مَھْرَہ قبیلے کے علاقے میں پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ مختلف قبائل کے لوگ تھے یہاں تک کہ عکرمہ نے مَھْرَہ قبیلے اور اس کے مضافاتی علاقوں پر چڑھائی کر دی۔ ان کے مقابلہ کے لیے مَھْرَہ کے لوگ دو گروہوں میں تقسیم تھے۔ ایک گروہ بمقام جَیروت میں ایک شخص شِخْرِیت کی سرکردگی میں مورچہ زن تھا۔ دوسرا گروہ نجد میں بنو مُحارب کے ایک شخص مُصَبَّح کی سرکردگی میں تھا۔ دراصل تمام مَھْرَہ اسی لشکر کے سردار کے تابع تھا سوائے شِخْرِیت اور اس کی جمعیت کے۔ یہ دونوں سردار ایک دوسرے کے مخالف تھے اور ایک دوسرے کو اپنی طرف بلاتے تھے اور ان دونوں فوجوں میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ ان کے سردار کو ہی کامیابی حاصل ہو۔ یہی وہ بات تھی جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی اور ان کو ان کے دشمنوں کے خلاف مضبوط کیا اور دشمنوں کو کمزور کر دیا۔ جب عِکْرِمہؓ نے شِخْرِیت کے ہمراہ تھوڑی تعدادمیں لوگ دیکھے تو انہوں نے اسے اسلام کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی۔ یہ پہلے مسلمان تھا۔ اسے کہا کہ دوبارہ مسلمان ہو جاؤ اور اب مسلمانوں سے جنگ نہ کرو۔ چنانچہ اس ابتدائی تحریک پر ہی شِخْرِیت نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا اور اس طرح اللہ نے مُصَبَّحکو کمزور کر دیا۔ پھر عِکْرِمہؓ نے مُصَبَّح کی طرف پیغامبر بھیجا اور اسے اسلام کی طرف واپس آنے اور کفر سے لوٹنے کی دعوت دی مگر اس کے ساتھ لوگوں کی جو کثیر تعداد تھی اس کثرت نے اس کو دھوکا دیا۔ شِخْرِیت کے اسلام لانے کی وجہ سے مُصَبَّح اور شِخْرِیت میں دوری مزید بڑھ گئی۔ بہرحال عِکْرِمہؓ نے اس کی طرف پیش قدمی کی اور شِخْرِیت بھی آپؓ کے ساتھ تھا۔ ان دونوں کا نجد میں مُصَبَّح کے ساتھ مقابلہ ہوا اور انہوں نے یہاں دَبا سے بھی زیادہ شدید جنگ کی۔اللہ نے مرتد باغیوں کے لشکر کو شکست دی اور ان کا سردار مارا گیا۔مسلمانوں نے بھاگنے والوں کا تعاقب کیا اور ان میں سے بہت سی تعداد کو قتل کیا اور بکثرت قیدی بنائے گئے اور مال غنیمت میں دو ہزار کی تعداد میں عمدہ نسل کی اونٹنیاں بھی مسلمانوں کے ہاتھ آئیں….حضرت عکرمہؓ نے وہیں قیام کر کے اس علاقے کے تمام لوگوں کو جمع کیا اور ان سب نے اسلام قبول کر لیا۔ حضرت عکرمہؓ نے اس فتح کی خوشخبری سائب نامی ایک شخص کے ذریعہ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں پہنچائی۔
سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عکرمہؓ کی نعمان بن جون کی بیٹی سے شادی کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:جب حضرت عکرمہؓ نے مرتدین سے مہمات کے بعد مدینہ لَوٹنے کی تیاری شروع کر دی تو ان کے ہمراہ نعمان بن جَوْن کی بیٹی بھی تھی جس سے انہوں نے میدانِ جنگ میں شادی کر لی تھی۔ اگرچہ انہیں علم تھا کہ اس سے پہلے اُمّ تمیم اور مَجَاعہ کی بیٹی سے شادی کر لینے کے باعث حضرت ابوبکر صدیق ؓ حضرت خالد بن ولیدؓ پر سخت ناراض ہوئے تھے، لیکن انہوں نے یعنی حضرت عکرمہؓ نے اس کے باوجود اس سے شادی کر لی۔ اس پر حضرت عکرمہؓ کی فوج کے کئی افراد نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔یہ معاملہ حضرت مہاجرؓ کے سامنے پیش کیا گیا مگر وہ بھی کوئی فیصلہ نہ کر سکے اور یہ تمام حالات حضرت ابوبکر صدیق ؓکی خدمت میں لکھ کر ان سے رائے دریافت کی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے تحریر فرمایا کہ عکرمہ نے شادی کر کے کوئی نامناسب کام نہیں کیا۔ بعض لوگ جو ناراض تھے ان کی بہرحال تسلی ہو گئی۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگ جو حضرت عکرمہؓ سے ناراض ہوئے تھے ان کی ناراضگی کا پس منظر یہ تھا کہ نعمان بن جَوْن نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی تھی کہ آپ ﷺ اس کی بیٹی کو اپنے عقدِ زوجیت میں قبول فرما لیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے انکار فرما دیا اور اس کی بیٹی کو اس کے والد کے ساتھ ہی واپس روانہ کر دیا۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ اس لڑکی کو ردّ کر چکے تھے اس لیے حضرت عکرمہؓ کی فوج کے ایک حصہ کا خیال تھا کہ آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے حضرت عکرمہؓ کو بھی اس لڑکی سے شادی نہیں کر نی چاہیے تھی لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ دلیل تسلیم نہیں کی۔ انہوں نے کہا یہ بالکل غلط ہے اور حضرت عکرمہؓ کی شادی کو جائز قرار دیا۔