متفرق مضامین

اسلامی پردہ

(دلاور خان ، نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ قادیان)

انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے۔ خدا کو راضی کرے پھر کسی سے نہ خوف کھائے اور نہ کسی کی پرواہ کرے

قرآن مجید کی پاک تعلیم، حدیث شریف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلیفہ وقت کے زریں ارشادات کی روشنی میں پردہ کے اسلامی حکم کی اہمیت اور برکات کے بارےمیںپُر حکمت تعلیم کا کچھ حصہ اختصار سے پیش ہے۔

آج ساری دنیا اخلاقی برائیوں کا شکار ہے اور پہلے گھروں، پھرمعاشرے اورپھیلتے پھیلتے ملکوں اور پھر دنیا کے امن کو بھی اس سےنقصان پہنچ رہا ہے۔ فی زمانہ جو کہ باارشادربانی وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡکا زمانہ ہے پہلے تو ایک مقام کی برائی اور اچھائی وہیں تک محدود رہتی تھی لیکن اب Press & Media نے عالمی حیثیت اختیار کر لی ہے اور ہراچھائی اور برائی ساری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ اسلامی پردے کے بارے میںمعلومات حاصل کیے بغیر صرف اور صرف اسلام سے متعصب قوموں کی طرف سے وقتاً فوقتاً فتنے اٹھ رہے ہیں۔ عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی کا نام لےکر بعض ایسے ایسے نا پاک حملے کر رہے ہیں جو کہ آزادی نہیں بلکہ عورتوں کی بربادی اور بے حیائی کا سامان پیدا کرر ہے ہیں۔

آج کل سوشل میڈ یا کا بے پردگی میں بہت بڑا کردار ہے۔ موبائل فون اور دیگر ذرائع سے بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ انٹرنیٹ وغیرہ میں Facebook اور Skype وغیرہ سے جو chatکرتے ہیں اس سے کئی گھرانے ٹوٹے ہیں۔ خلیفۂ وقت نے اپنے متعدد خطابات میں معاشرہ میں بےحیائی کی بڑھتی ہوئی روش کو انسانی اخلاقیات کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے کیونکہ زینت کے نام سے بے حیائی کی اشتہار بازی ہے۔ اسلام نے تو حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس وقت اکثر دنیا کے ممالک میں پردے کے خلاف جو آگ بھڑک رہی ہے اس میں ایسے نادان مسلمانوں کے اس طرح کے اسلامی پردہ کے خلاف بیانات جلتی پرتیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس بانی جماعت احمد یہ حضرت مرزاغلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کی روشنی میں جو دراصل پاکیزہ اسلامی تعلیمات ہیں، اور جنہیں خلفائے احمدیت نے اپنے خطبات اور خطابات میں پر حکمت طریق پر بیان فرمایا ہے، ان کے ذریعہ سے افراد جماعت نہ صرف اسلامی پردہ پر کیے جانے والے ہر قسم کے معترضین کا دفاع کر رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کے ساتھ بھی مدد مانگتے ہوئے اپنی طرف سے ہر ممکن تدابیر کو بروئے کار لا رہے ہیں اور قدم قدم پر خلیفۂ وقت سے بھی راہنمائی حاصل کر تے ہوئے خدمت اسلام میں مصروف عمل ہیں۔

سب سے ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 4 میں مسلمانوں کو یہ خوشخبری دی ہے کہاَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَاخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ۔ترجمہ: جو لوگ کافر ہیں وہ آج تمہارے دین ( کو نقصان پہنچانے )سے ناامید ہو گئے ہیں۔ اس لئے تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے ( فائدہ کے) لیے تمہارادین مکمل کردیا ہے اور تم پر اپنے احسان کو پورا کر دیا ہے اور تمہارے لیے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اسلامی شریعت کو قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا ہے اور قرآن مجید کی حفاظت کی بھی خوشخبری دےدی:اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡن۔َ( الحجر:10)ترجمہ:اس ذکر (یعنی قرآن) کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم یقیناً اس کی حفاظت کریں گے۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کی خوبیاں قرآن مجید میں بہ کر آ گئی ہیں۔ اس بارےمیں بھی قرآن پاک اعلان کر رہا ہے۔وَہٰذَا ذِکۡرٌ مُّبٰرَکٌ اَنۡزَلۡنٰہُ ؕ اَفَاَنۡتُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ (الانبیاء:51) ترجمہ :اور یہ ( قرآن ) ایک ایسی یاد دہانی کر نے والی کتاب ہے جس میں تمام آسمانی کتابوں کی خوبیاں بہ کر آ گئی ہیں اس کو ہم نے اتارا ہے۔ پس کیا تم ایسی کتاب کے منکر ہو؟ ۔

قرآن مجید کے اس اعلان کے بعد کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسلامی شریعت کے خلاف آواز اٹھائے جبکہ دیگر مذاہب کی اعلیٰ خو بیاں بھی قرآن پاک میں آگئی ہیں تو پھر افسوس کی بات ہے کہ مسلمان بھٹک رہے ہیں اور اس کمزوری کا غیر فائدہ اٹھار ہے ہیں۔ تعلیم بھی مکمل ہے اور حقوق بھی سب کےسامنے ہیں یعنی فائد ہ و نقصان کےبارے میںہر چیز تفصیل سے بتائی جاچکی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ دین اسلام مکمل ہے لیکن اس پر مسلمان عمل پیرا نہیں اور ناسمجھی سے غلط راہیں اختیار کر کے اس حسین اور دلنشیں اسلامی تعلیم سے فائدہ نہیں اٹھار ہے۔ عورتوں کے حقوق، آزادی کا مسئلہ، طلاق کا مسئلہ اور اسلامی پردہ کو قید خانہ کے طور پرپیش کر کے بعض ممالک میں اس کو حکومتیں عورتوں کی عدم آزادی کے نام سے اچھال رہی ہیں۔ ان کے خیال میں عورتوں کے حقوق پامال ہو ر ہے ہیں۔ پردہ کرنا عورتوں کو قید خانہ میں دھکیلنے کے مترادف سمجھا جارہا ہے۔

قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَیَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ۔ وَقُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَیَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَلَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَلۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَلَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَلَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَتُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔ (النور : 31-32)ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ’’مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گا ہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لیےزیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقیناً اللہ، جو وہ کرتے ہیں اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کر یں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لیے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لیے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لیے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لیے جو کوئی ( جنسی ) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لیے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں۔ اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ (لوگوں پر ) وہ ظاہر کر دیا جائے جو (عورتیں عموماً ) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو!تم سب کے سب اللہ کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھکوتاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘

پردہ کے متعلق یہ کتنا اہم فرمان ہے۔ جس کام کو کرنے یا نہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور اس کامل اور مکمل کتاب میں اس بارے میں احکام آ گئے ہیں اور جن اوامرونواہی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتا چکے ہیں اور یہی صحیح اسلامی تعلیم ہے۔

چہرے کا پردہ کیوں ضروری ہے؟

پردے اور خصوصاً چہرے کے پردے کے حوالہ سے ہمارے معاشرہ میں مختلف آراءظاہر کی جاتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ’’چہرے کا پردہ کیوں ضروری ہے‘‘ایک خطبہ جمعہ میں فر ماتے ہیں: ’’ز ینت ظاہر نہ کرو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جیسا کہ عورتوں کو حکم ہے میک اَپ وغیرہ کر کے باہر نہ پھر یں۔ باقی قد کاٹھ، ہاتھ پیر چلنا پھرنا، جب باہر نکلیں گے تو نظر آہی جائے گا۔ یہ زینت کے زمرے میں اس طرح نہیں آتے کیونکہ اسلام نے عورتوں کے لئے اس طرح کی قید نہیں رکھی۔ تو فرمایا کہ جو خود بخود ظاہر ہوتی ہو اس کے علاوہ باقی چہرے کا پردہ ہونا چاہئے اور یہی اسلام کا حکم ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓنے اس کی ایک تشریح یہ فرمائی تھی کہ ماتھے سے لے کرناک تک کا پردہ ہو۔ پھر چادر سامنے گردن سے نیچے آرہی ہو۔ اسی طرح بال بھی نظر نہیں آنے چاہئیں۔ سکارف یا چادر جوبھی چیز عورت اوڑ ھے وہ پیچھے سے بھی اتنی لمبی ہو کہ بال وغیرہ چھپ جاتے ہوں۔ (اِلَّا مَاظَهَرَ مِنْھَا) یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو۔ اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ تفسیر کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ (اِلَّا مَاظَهَرَ مِنْھَا) یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو۔ یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ جو چیز خود بخود ظاہر ہوشریعت نے صرف اس کو جائز رکھا ہے۔ یہ نہیں کہ جس مقام کو کوئی عورت آپ ظاہر کرنا چاہے اس کا ظاہر کرنا اس کے لئے جائز ہو۔ میرے نزدیک آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں دو ہیں یعنی قد اور جسم کی حرکات اور چال لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا مجبوری کے لحاظ سے جو چیز آپ کی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں۔ چنانچہ اسی اجازت کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے کیونکہ بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کر دیا جائے۔ پھر فرمایا کہ اگر کسی گھرانے کے مشاغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں میں یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو ان کے لئے آنکھوں سے لے کر نا ک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا۔ اور پردہ ٹوٹا ہوا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کرسکتیں اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریات معیشت کے لئے کھولنا پڑتا ہے اس کا کھولنا پردے کے حکم میں ہی شامل ہے….لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اس پر اس اجازت کا اطلاق نہ ہوگا۔ غرض اِلَّا مَاظَهَرَ مِنْھَاکے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ ننگا کرنا پڑے ننگا کیا جا سکتا ہے۔( تفسیر کبیرجلد ششم صفحہ 299-298 )تو اس تفصیل سے پردے کی حد کی بھی کافی حد تک وضاحت ہوگئی کہ کیا حد ہے۔ چہرہ چھپانے کا بہر حال حکم ہے۔ اس حد تک چہرہ چھپایا جائے کہ بے شک ناک ننگا ہوا اور آنکھیں ننگی ہوں تا کہ دیکھ بھی سکے اور سانس بھی لے سکے۔

حضور انور ایدہ اللہ نے اس حوالہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور احادیث سے مثالیں دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ ’’اس بارےمیںحضرت مصلح موعودؓ نے احادیث سے یہ دلیل دی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے ایک صحابی کو اس لڑکی کی شکل دیکھنے کے لئے بھیجا جس کا رشتہ آیا تھا۔ اس کی شکل دیکھنے کے لئےبھیجا تا کہ دیکھ کر آئیں۔اگر چہرہ کا پردہ نہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ پھر تو ہر ایک نے شکل دیکھی ہوتی۔پھر دوسری مرتبہ یہ واقعہ حدیث میں بیان ہوتا ہے کہ جب ایک لڑکے کو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ تم نے اس کو دیکھا ہے؟ اگر نہیں دیکھا تو جا کر دیکھے آؤ۔ کیونکہ پردے کا حکم تھا بہر حال دیکھا نہیں ہوگا۔ تو جب وہ اس کے گھر گیا اورلڑ کی کو دیکھنے کی خواہش کی تو اس کے باپ نے کہا کہ نہیں اسلام میں پردے کا حکم ہے اور میں تمہیں لڑکی نہیں دکھا سکتا۔ پھر اس نے آنحضرتﷺ کا حوالہ دیا تب بھی وہ نہ مانا۔ بہر حال ہر ایک کی اپنی ایمان کی حالت ہوتی ہے۔ اسلام کے اس حکم پر اس کی زیادہ سختی تھی بجائے اس کے کہ آنحضرتﷺ کے حکم کو موقع محل کے مطابق تسلیم کرتا اور مانتا۔ تولڑکی جواندر بیٹھی یہ باتیں سن رہی تھی وہ باہر نکل آئی کہ اگرآنحضرتﷺ کا حکم ہے تو پھر ٹھیک ہے میرا چہرہ دیکھ لو۔ تو اگر چہرہ کے پردہ کا حکم نہیں تھا تو حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ پھر آنحضرتﷺنے یہ کیوں فرمایا۔ ہر ایک کو پتہ ہوتا کہ فلاں لڑکی کی یہ شکل ہے اور فلاں کی فلاں شکل۔‘‘(’’پردہ‘‘حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات سے انتخاب مرتبہ لجنہ سیکشن مرکز یہ لندن صفحہ 29تا31)

اسلامی روایات پر پابندی کی کوششیں

اسلام مخالف قوتوں کے مختلف حربوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں احمدیوں کو تلقین کی کہ وہ اسلام کی حقیقی روح کے مطابق اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے چلے جائیں اور خدا تعالیٰ کی خاطر پاکدامنی کی راہ میں آنے والی مشکلات کا مقابلہ کریں۔ حضور انور نے فرمایا:’’اسلام مخالف قوتیں بڑی شدت سے زور لگا رہی ہیں کہ مذہبی تعلیمات اور روایات کو مسلمانوں کے اندر سے ختم کیا جائے۔ یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ مذہب کو آزادئ اظہار اور آزادئ ضمیر کے نام پر ایسے طریقے سے ختم کیا جائے کہ ان پر کوئی الزام نہ آئے کہ دیکھوہم زبر دستی مذہب کوختم کر رہے ہیں اور یہ ہمدرد سمجھے جائیں۔ شیطان کی طرح میٹھے انداز میں مذہب پر حملے ہوں لیکن ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے سپرد ہے اور اس کے لیے ہمیں بھر پور کوشش کرنی پڑے گی اور تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں گی۔ ہم نے لڑائی نہیں کرنی لیکن حکمت سے ان لوگوں سے معاملہ بھی کرنا ہے۔ اگر آج ہم ان کی ایک بات مانیں گے جس کا تعلق ہماری مذہبی تعلیم سے ہے تو پھر آہستہ آہستہ ہماری بہت سی باتوں پر، بہت ساری تعلیمات پر پابندیاں لگتی چلی جائیں گی۔ ہمیں دعاؤں پر بھی زور دینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان شیطانی چالوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور توفیق بھی دے اور ہماری مدد بھی فرمائے۔ اگر ہم سچائی پر قائم ہیں اور یقیناً ہیں تو پھر ایک دن ہماری کامیابی بھی یقینی ہے۔ اسلام کی تعلیمات نے ہی دنیا پر غالب آنا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’سچ میں ایک جرأت اور دلیری ہوتی ہے۔ جھوٹا انسان بزدل ہوتا ہے۔ وہ جس کی زندگی ناپا کی اور گند گناہوں سے ملوث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرأت سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنی پاکدامنی کا ثبوت نہیں دے سکتا۔ دنیوی معاملات میں ہی غور کر کے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذرا سی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اس کے حاسد نہ ہوں۔ ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں۔ یہی حال دینی امور کا ہے۔ شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے۔ خدا کو راضی کرے پھر کسی سے نہ خوف کھائے اور نہ کسی کی پرواہ کرے۔ ایسے معاملات سے پر ہیز کرے جن سے خود ہی مورد عذاب ہو جاوے۔ مگر یہ سب کچھ بھی تائید غیبی اور توفیق الٰہی کے سوا نہیں ہوسکتا۔ صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل بھی شامل حال نہ ہو۔ وَخُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا(النساء:29) انسان ناتواں ہے۔ غلطیوں سے پُر ہے۔ مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 10 صفحہ 252۔ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان (خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍جنوری2017ء)

حیا ایمان کا حصہ ہے

سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ ماریشس کےموقع پر احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے ایک احمدی خاتون کی ذمہ داریوں کے مختلف پہلوؤں کو بیان فرمایا۔ اس ضمن میں اسلامی پردہ کی اہمیت کے حوالہ سے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن کریم کے حکموں میں سے ایک حکم عورت کی حیا اور اس کا پردہ کرنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری زینت نامحرموں پر ظاہر نہ ہو۔ یعنی ایسے لوگ جو تمہارے قریبی رشتہ دار نہیں ہیں ان کے سامنے بے حجاب نہ جاؤ۔ جب باہر نکلو تو تمہارا سر اور چہرہ ڈھکا ہونا چاہئے، تمہارا لباس حیادار ہونا چاہئے اس سے کسی قسم کا ایسا اظہار نہیں ہونا چاہئے جوغیر کے لئے کشش کا باعث ہو۔ بعض لڑکیاں کام کا بہانہ کرتی ہیں کہ کام میں ایسا لباس پہنا پڑتا ہے جو کہ اسلامی لباس نہیں ہے۔ تو ایسے کام ہی نہ کرو جس میں ایسا لباس پہننا پڑے جس سے ننگ ظاہر ہو۔ بلکہ یہاں تک حکم ہے کہ اپنی چال بھی ایسی نہ بناؤ جس سے لوگوں کو تمہاری طرف توجہ پیدا ہو۔پس احمدی عورتوں کو قرآن کریم کے اس حکم پر چلتے ہوئے اپنے لباسوں کی اور اپنے پردے کی بھی حفاظت کرنی ہے اور اب جیسا کہ میں نے کہا باہر سے لوگوں کا یہاں آنا پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ پھر ٹیلی وژن وغیرہ کے ذریعہ سے بعض برائیاں اور ننگ اور بے حیائیاں گھروں کے اندر داخل ہوگئی ہیں۔ ایک احمدی ماں اور ایک احمدی بچی کا پہلے سے زیادہ فرض بنتا ہے کہ اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچائے۔فیشن میں اتنا آگے نہ بڑھیں کہ اپنا مقام بھول جائیں ایسی حالت نہ بنائیں کہ دوسروں کی لالچی نظریں آپ پر پڑ نے لگیں۔ یہاں کیونکہ مختلف مذاہب اور کلچر کے لوگ آباد ہیں اور چھوٹی سی جگہ ہے اس لئے آپس میں گھلنے ملنے کی وجہ سے بعض باتوں کا خیال نہیں رہتا۔ لیکن احمدی خواتین کو اور خاص طور پر احمدی بچیوں کو اور ان بچیوں کو جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ ر ہی ہیں اپنی انفرادیت قائم رکھنی ہے۔ ان میں اور دوسروں میں فرق ہونا چاہئے، ان کے لباس اور حالت ایسی ہونی چاہئے کہ غیر مردوں اور لڑکوں کو ان پر بری نظر ڈالنے کی جرأت نہ ہو۔ روشن خیالی کے نام پر احمدی بچی کی حالت ایسی نہ ہو کہ ایک احمدی اور غیراحمدی میں فرق نظر ہی نہ آئے۔‘‘( خطاب ازمستورات جلسہ سالانہ ماریشس 3؍دسمبر 2005ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29؍مئی 2015ء)

پردہ کے اسلامی حکم میں دلکش حکمت
’’عورت کا وقار قائم کر نا‘‘

اسلام عورت کو باہر پھر نے اور کام کرنے سے نہیں روکتا۔ اس کو اجازت ہےلیکن بعض شرائط کے ساتھ کہ تمہاری زینت ظاہر نہ ہو۔ بے حجابی نہ ہو۔ مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب رہنا چاہیے۔ پردے کے اسلامی حکم یک دلکش حکمت عورت کے وقارکو قائم رکھنا بھی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ حوالہ دیا کہ’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پردے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ عورت کو قید میں ڈال دیا جائے لیکن ان باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہئے جو پردےکی شرائط ہیں۔ تو جس طرح معاشرہ آہستہ آہستہ بہک رہا ہے اور بعض معاملات میںبرے بھلے کی تمیز ہی ختم ہو گئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ احمدی عورتیں اپنے نمونے قائم کر یں۔ اور معاشرے کو بتائیں کہ پردے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارا مقام بلند کرنے کے لئے دیا ہے نہ کہ کسی تنگی میں ڈالنے کے لئے۔ اور پردے کا حکم جہاں عورتوں کو دیا گیا ہے وہاں مردوں کو بھی ہے۔ ان کو بھی نصیحت کی کہ تم بھی اس بات کا خیال رکھو۔ بے وجہ عورتوں کو دیکھتے نہ ر ہو۔‘‘ حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے اسی خطاب میں مردوں اور عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے مزید فرمایا:’’تو مومن کو تویہ حکم ہے کہ نظریں نیچی کرو اور اس طرح عورتوں کو گھور گھور کر نہ دیکھوا ور ویسے بھی بلا وجہ دیکھنے کا جس سے کوئی واسطہ تعلق نہ ہو کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن عموما ًمعاشرے میں عورت کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ اس کی طرف توجہ اس طرح پیدا ہو جو بعد میں دوستیوں تک پہنچ جائے۔ اگرپردہ ہوگا تو وہ اس سلسلے میں کافی مدد گار ہوگا۔‘‘( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے31؍جولائی2004، ٹلفورڈ۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل2015ء)

پردے کا تشد د جائز نہیں

اسلام میں پردے کا حکم نہایت اہمیت رکھتا ہے لیکن اس اسلامی حکم کی تعمیل کرنے اور کروانے کے سلسلہ میں کسی قسم کا تشددجائز نہیں ہے۔ کیونکہ پردے کا مقصد عورت کی غلامی نہیں بلکہ اس کے وقار کو قائم رکھنا ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پردے میں عدم تشدد کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات بار ہا پیش فرمائے ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا:’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’پردے کا اتنا تشدد جائز نہیں ہے…حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتا ہے۔ دین اسلام میں تنگی وحرج نہیں۔ جو شخص خوامخواہ تنگی وحرج کرتا ہے وہ اپنی نئی شریعت بنا تا ہے۔ گورنمنٹ نے بھی پر دہ میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعد بھی بہت آسان بنا دیئے ہیں۔ جو جوتجاویز و اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ انہیں توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت وقت کے مطابق عمل کرتی ہے۔ کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع کیا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 171 پرا نا ایڈیشن صفحہ 239 جدید ایڈیشن )ایک تو یہ فرمایا کہ بعض عورتوں کی پیدائش کے وقت اگر مرد ڈاکٹروں کو بھی دکھانا پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ وہاں جو بعض مردغیرت کھا جاتے ہیں کہ مردوں کو نہیں دکھانا وہ بھی منع ہے۔ ضرورت کے وقت مرد ڈاکٹروں کے سامنے پیش ہونا کوئی ایسی بات نہیں۔ ‘‘ (خطاب ازمستورات جلسہ سالانہ یو کے 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء )دراصل اسلام کسی بھی معاملہ میں افراط اور تفریط دونوں کو مسترد کرتا ہے۔چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ’’یہ بھی دو طرح کے گروپ بن گئے ہیں ایک تو یہ کہتا ہے کہ پردہ اس سختی سے کرو کہ عورت کو گھر سے باہر نہ نکلنے دو اور دوسرا یہ ہے کہ اتنی چھوٹ دے دو کہ سب کچھ ہی غلط ملط ہو جائے۔ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا فرمودہ 3؍جولائی 2004ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍ستمبر2005ء)الغرض اسلام کوئی ایسا مذہب نہیں جو انسان کو غلط قسم کی پابندیوں میں جکڑ دیتا ہے۔ بلکہ حسب ضرورت ان تعلیمات میں نرمی کے پہلو بھی ہیں۔

اسلامی پردہ پر اعتراضات اور اُن کاردّ

پردے کی اسلامی تعلیم پر اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند اقتباسات پیش فرمائے اور ان کی ضروری تشریح بھی فرمائی جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پردہ کی روح کو نہ پہچاننے اور اسلام کے اس حکم پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں اگر چہ نام نہاد آزادی نصیب ہو جاتی ہے لیکن اُس کی وجہ سے ذاتی اور معاشرتی طور پر بے شمار مسائل کا اضافہ بھی ہوتا چلا جا تا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’آج کل پر دہ پر حملے کئے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مرادزندان نہیں۔ ‘‘یعنی قید خانہ نہیں۔’’بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے۔ جب پر دہ ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے۔ ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مردوعورت اکھٹے بلاتامّل اور بے محابہ مل سکیں، سیریں کریں کیونکر جذبات نفس سے اضطراراً ٹھوکر نہ کھائیں گے۔ بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قو میں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہار ہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں۔ یہ گویا تہذیب ہے۔‘‘ انہی بدنتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجا زت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں۔ ایسے موقع پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مردوعورت ہر دو جمع ہوں، تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے۔ اُن نا پاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے۔ ‘‘یعنی کہ اتنی آزادی والی تعلیم سے بھگت رہا ہے۔ جہاں کوئی شرم و حیا ہی نہیں رہی اور’’بعض جگہ بالکل قابل شرم طوا ئفا نہ زندگی بسر کی جارہی ہے۔ یہ انہی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہوگی۔‘‘ اس خوش فہمی میں نہ پڑے رہو کہ معاشرہ ٹھیک ہے ہمیں کوئی دیکھ نہیں رہا، یہاں کے ماحول میں پردے کی ضرورت نہیں کیونکہ لوگوں کو دیکھنے کی عادت نہیں۔ فرمایا کہ اگر یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں یادرکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی۔’’اسلامی تعلیم کیسی پا کیز تعلیم ہے کہ جس نے مردوعورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس سے یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خود کشیاں دیکھیں۔ ‘‘یہ بھی خود کشیوں کا یہاں جوا تناہائی ریٹ (high rate) ہے اس کی بھی ایک یہی وجہ ہے’’بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کودیکھنے کے لئے دی گئی۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 29،30 ایڈیشن 1988ء)تو آج بھی دیکھ لیں کہ جس بات کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نشاند ہی فرمار ہے میں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں اس کی وجہ سے بے اعتمادی پیدا ہوئی اور اس بےاعتمادی کی وجہ سے گھرا جڑتے ہیں اور طلاقیں ہوتی ہیں۔ یہاں جوان مغربی ممالک میں ستر، اسی فیصد طلاقوں کی شرح ہے۔ آزاد معاشرے کی وجہ ہی ہے۔ یہ چیزیں برائیوں کی طرف لے جاتی ہیں اور پھر گھر اجڑ نے شروع ہو جاتے ہیں۔‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 31؍جولائی 2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

لباس کے دو مقاصد

سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآنی ارشاد لباس التقوى کے حوالہ سے نصائح کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۃ الاعراف کی آیت 27 کی تلاوت فرمائی اور اس کے حوالہ سے لباس کے مقاصد بیان کر تے ہوئے ارشاد فرمایا: اس [ آیت 27۔ الاعراف ] میں خدا تعالیٰ نے اس بات کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ انسان کو تقویٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ نے یہاں لباس کی مثال دی ہے کہ لباس کی دو خصوصیات ہیں۔ پہلی یہ کہ لباس تمہاری کمزوریوں کو ڈھانکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ زینت کے طور پر ہے۔ کمزوریوں کے ڈھانکنے میں جسمانی نقائص اور کمزوریاں بھی ہیں بعض لوگوں کے ایسے لباس ہوتے ہیں جس سے ان کے بعض نقص چھپ جاتے ہیں۔ موسموں کی شدت کی وجہ سے جو انسان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ان سے بچاؤ بھی ہے اور پھر خوبصورت لباس اور اچھا لباس انسان کی شخصیت بھی اجاگر کرتا ہے۔ لیکن آج کل ان ملکوں میں خاص طور پر اس ملک میں بھی عموماً تو سارے یورپ میں ہی ہے لباس کے فیشن کو ان لوگوں نے اتنا بیہودہ اور لغو کر دیا ہے خاص طور پر عورتوں کے لباس کو کہ اس کے ذریعہ اپناننگ لوگوں پر ظاہر کرنا زینت سمجھا جا تا ہے اور گرمیوں میں تو یہ لباس بالکل ہی ننگا ہو جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے یہ دو مقاصد میں ان کو پورا کرو۔ اور پھر تقویٰ کے لباس کو بہترین قرار دے کر توجہ دلائی، اس طرف توجہ پھیری کہ ظاہری لباس توان دومقاصد کے لئے ہیں لیکن تقویٰ سے دور چلے جانے کی وجہ سےیہ مقصد بھی تم پورے نہیں کرتے اس لئے دنیاوی لباسوں کو اس لباس سے مشروط ہوناچاہئے جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے اور خدا تعالی کے نزدیک بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍اکتوبر 2008ء،بمقام مسجد مبارک پیرس، فرانس۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍اکتوبر 2008ء)

احمدی عورت کی ذمہ داریاں

احمدی مائیں اپنی بچیوں میں پردہ کا احساس پیدا کریں۔احمدی بچیوں کی تربیت میں ماؤں کے کردار کی اہمیت کے حوالہ سے حضور انور اید واللہ تعالیٰ نے ماؤں کو بچیوں میں چھوٹی عمر سے ہی حیا کا احساس دلانے کی طرف توجہ دلائی ہے تا کہ اس کے نتیجہ میں بڑے ہوکر وہ حیادار لباس کی طرف مائل رہیں۔ چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اس معاشرے میں ہمیں اپنی عورتوں اور لڑکیوں کوحجاب اور پردے اور حیا کا تصور پیدا کروانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حیا دار حجاب کی جھجک اگر کسی بچی میں ہے تو ماؤں کو اسے دور کرنا چاہئے بلکہ اسے خود اپنے آپ بھی دور کرنا چاہئے اگر اس کی عمرایسی ہے۔ مائیں اگر گیارہ بارہ سال کی عمر تک بچیوں کو حیا کا احساس نہیں دلائیں گی تو پھر بڑے ہو کر ان کو کوئی احساس نہیں ہوگا۔پس اس معاشرے میں جہاں ہرننگ اور ہر بیہودہ بات کو اسکول میں پڑھایا جا تا ہے پہلے سے بڑھ کر احمدی ماؤں کو اسلام کی تعلیم کی روشنی میں، قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اپنے بچوں کو بتانا ہو گا۔ حیا کی اہمیت کا احساس شروع سے ہی اپنے بچوں میں پیدا کرنا ہوگا۔ پانچ چھ سات سال کی عمر سے ہی پیدا کرنا شروع کرنا چاہئے۔ پس یہاں تو ان ملکوں میں چوتھی اور پانچویں کلاس میں ہی ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں کہ بچے پریشان ہوتے ہیں جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ اسی عمر میں حیا کا مادہ بچیوں کے دماغوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بعض عورتوں کے اور لڑکیوں کے دل میں شاید خیال آئےکہ اسلام کے اور بھی تو حکم ہیں۔ کیا اسی سے اسلام پر عمل ہو گا اور اسی سے اسلام کی فتح ہونی ہے۔ یادرکھیں کہ کوئی حکم بھی چھوٹانہیں ہوتا۔‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 8؍اکتوبر 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍مارچ 2017ء)

تعلیمی اداروں میں پردہ کا معیار قائم رکھیں

اسکول سیر کے لیےبھجوانے کا پروگرام بنا تا ہے ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ’’اگر اضطراری حالت ہے تو انہیں کہیں کہ بچیوں کے ساتھ parents کو بھی جانے دیں۔ وہ نہ مانیں تو اسکول بدل لیں۔ فرمایا: اصل میں بچیوں کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ انہیں خود کہیں کہ ہم ماں باپ کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارا اپنا ماحول ایسا ہے کہ ہم اس طرح جانا اچھا نہیں سمجھتیں۔ جب بھی جوان ہو جاتی ہے تو پھر اس کا خیال رکھنا ماحول کا کام ہے۔ اسلام کا تو حج کے بارہ میں بھی حکم ہے کہ عورت اکیلی نہ جائے بلکہ اپنے محرم کو ساتھ لے کر جائے…..عموماً پرائیویٹ اسکول زیادہ زور نہیں دیتے لیکن وہ مہنگے ہوتے ہیں۔ بہر حال بچیوں کو realise کرائیں کہ فلاں فلاں باتیں برائیاں ہیں اور ان سے آپ نے بچنا ہے۔‘‘(کلاس طالبات جرمنی 10/جون 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7/جولائی 2006ء)(ماخوز از کتاب’’پردہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کے ارشادات سے انتخاب مرتبہ لجنہ سیکشن مرکز می لندن صفحہ 156)

بعض غیر مسلم بھی اس بات کا اعتراف کرنے لگ گئے ہیں کہ مجالس میں عورت اور مرد کا علیحدہ ہونا بعض جگہوں پرزیادہ بہتر ہے۔اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرنے والے اب خود ہی اس بات کا اقرار کرنے لگ گئے ہیں کہ بعض جگہوں پر عورت اور مرد کی علیحدگی ہی بہتر ہے۔ اب بعض جگہ عورتوں اور مردوں کی علیحدہ تنظیم کی باتیں ہونے لگ گئی ہیں۔ دنیاوی معاشرے میں بھی اس بات کا احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے کہ عورت اور مرد کی علیحدہ شناخت اور علیحدہ رہنا ہی ٹھیک ہے۔ جو ہم پر سیگر یکیشن ( segregation) کا الزام لگاتے تھے، اعتراض کرتے تھے اب خود ہی تسلیم کرنے لگ گئے ہیں کہ بعض جگہوں پر یہ علیحدگی ہونی چاہئے۔‘‘( خطاب ازمستورات جلسہ سالانہ یو کے 29؍جولائی 2017ء بمقام حدیقۃ المہدی )

اللہ کرے کہ اسلامی پردہ کی یہ حکمتیں دنیا کو معلوم ہوں اور انہیں قبول کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں نیک تبدیلی پیدا کرے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button