مستورات سے خطاب (قسط نمبر2)
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ(فرمودہ ۲۸؍دسمبر ۱۹۲۹ء بر موقع جلسہ سالانہ)
قرآن مجید علوم کا خزانہ ہے
قرآن کے متعلق ایک موٹی مثال کو لو کہ کس طرح تیرہ سو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے حالات بیان کئے ہیں: فرمایا وَاِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَت(التکویر:5)یعنی اونٹنیوں کی سواریاں بے کار ہو جائیں گی۔ دنیا نے آج ریل نکالی ہے اس سے ثابت ہو گیا کہ قرآن نے سالہا سال پہلے بتا دیا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا یعنی ایسی سواریاں پیدا ہو جائیں گی کہ ان سواریوں کو ضرورت نہ رہے گی۔
وَاِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ(التکویر:6)یعنی ادنیٰ و جاہل قومیں عزت والی بن جائیں گی اور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ بھی بیدار ہو کر اپنا حق مانگیں گی اور دنیا کو ان کے حقوق دینے پڑیں گے۔ اب الیکشن کے سوال کو ہی دیکھو کس زبردست طور پر اس پیشگوئی کی تصدیق کر رہا ہے کہ بڑے بڑے عزت والے برہمن چوہڑوں کے دروازوں پر ووٹ مانگنے کے لیے جاتے ہیں۔
وَاِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ(التکویر:8)یعنی لوگ ملا دئے جائیں گے۔ یعنی ادنیٰ اور اعلیٰ ایک جگہ پر اکٹھے ہوں گے۔ اس کا ایک نمونہ آج کا جلسہ ہی ہے۔تم میں سے کئی ہیں کہ جن کی مائیں اور دادیاں اپنے سے ادنیٰ لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھنے کو اپنی ہتک خیال کرتی ہوں گی مگر تم خدا کی وحی کے مطابق مل کر بیٹھی ہو اور خدا نے سب کو برابر بنا دیا۔
زمانہ بدل چکا اس لیے تم بھی تبدیلی پیدا کرو
آج تمام سرداریاں ختم ہو گئیں۔ پہلے زمانہ میں جو حال تھا اس کا نقشہ اس مثال سے خوب ظاہر ہو جا تا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک چوہدری ایک مراثی کو ساتھ لے کر سفر کو جا رہا تھا راستے میں سرائے میں ٹھہرا جس چار پائی پر وہ بیٹھا اس کے نیچے بارش کی وجہ سے سخت کیچڑ تھا۔ ناچار بیچارہ مراثی چوہدری کے پاس بیٹھ گیا۔ چوہدری نے اسے خوب جوتے لگائے اور کہا کہ تم ہماری برابری کرتے ہو۔ دوسری منزل پر انہیں چار پائی نہ ملی اور چوہدری کو زمین پر بیٹھنا پڑا۔ تب مراثی پھائوڑے سے زمین کھودنے لگا اور قبر کی طرح ایک گڑھا بنانے لگا۔ چوہدری نے کہا یہ کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا برابر کیسے بیٹھوں؟ اب وہ زمانہ نہیں رہا ۔آج کئی ادنیٰ اقوام کے ڈپٹی ہیں۔ اہل غرض سید،پٹھان،مغل سلام کرنے ان کے دروازے پر جاتے ہیں۔ اب وہ معزز اور بڑا ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک مومن اور متقی ہے۔ اس زمانے میں یاد رکھو کہ اب تم بھی گھروں میں بیٹھ کر حکومت نہیں کر سکو گی۔ وہ راج کا زمانہ چلا گیا۔ ساری بڑائیوں کو مٹا کر خدا تعالیٰ اتحاد پیدا کرنا چاہتا ہے۔ فیصلۂ قرآن کے مطابق آج وہ بڑھایا جائے گا جو نیک ہو گا۔ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُم(الحجرت :14)کے مطابق متقی عالم ہوتا ہے۔
قرآن مجید امیوں کو اَعْلَمُ النَّاسبنا دیتا ہے
دنیاوی لحاظ سے دیکھو حضرت صاحب کو کوئی ایسا دینوی علم حاصل نہ تھا گو ہم اعتقادی طور پر آپ کو عالم مانتے ہیں۔ آپ نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ معجزانہ رنگ میں لکھی ہیں مگر ظاہری طور پر آپ عالم نہ تھے اسی لیے مخالف مولوی آپ کو طعن کے طور پر منشی لکھا کرتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے علوم کے دروازے آپ پر کھول دیئے۔ میرا اپنا حال دیکھو زمانہ طالب علمی میں فیل ہی ہوتا رہا۔ ایک جماعت بھی پاس نہ کر سکا۔ اسی بنا پر حضرت صاحب سے لوگوں نے شکایت کی کہ یہ پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے طلب کیا اور ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کو بلایا۔ میں ڈر رہا تھا کہ دیکھئے میرے لیے کیا سزا تجویز ہوتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عبارت لکھ کر مجھے دی کہ اسے نقل کر دو جب میں نے اسی طرح نقل کر دی تو مولوی صاحب کو دکھا کر فرمایا کہ شکایت تو غلط معلوم ہوتی ہے۔ یہ میرا امتحان ہوا۔پھر اس کے بعد حضرت خلیفہ اول نے مجھے پڑھایا۔ ان کے پڑھانے کا یہ طریق تھا کہ آپ ہی ایک ایک سپارہ پڑھتے جاتے۔ سوال کرنے پر فرماتے کہ میاں آپ ہی آ جائے گا۔
علمائے زمانہ کو بالمقابل تفسیر القرآن کا چیلنج
میرے ظاہری علم کو لیا جائے تو میں کسی صورت میں بھی عالم نہیں کہلا سکتا مگر میں نے قرآن کو قرآن سمجھ کر پڑھا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔ اور اب اس قابل ہوا کہ میں تمام مخالف علماء کو چیلنج دیتا ہوں کہ کوئی آیت لے کر مجھ سے تفسیر کلام الٰہی میں مقابلہ کر لیں مَیں انشاء اللہ تعالیٰ تائید الٰہی سے اس کے ایسے معنے بیان کروں گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔ کوئی مضمون ہو بغیر سوچنے کے کھڑا ہوتا ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر علم کے دروازے کھول دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھ پر قرآن کریم کے ایسے ایسے نکات ظاہر کئے ہیں جو رسول کریمﷺاور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مستثنیٰ کر کے اس تیرہ سو سال کے عرصہ میں کسی سے ظاہر نہیں ہوئے۔ پس تمام علوم اخلاص اور تقویٰ سے پیدا ہوتے ہیں ظاہر سے نہیں۔ تم خود اس کو آزمائو۔ اخلاص سے قرآن کو پڑھو خدا خود تمہیں اس کا علم عطا کرے گا۔ بسا اوقات مختلف امور کے ماہر میرے پاس آتے ہیں اور وہ اس کے متعلق مجھ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔ جب میں ان کے سوالوں کا ٹھیک جواب دیتا ہوں تو اس وقت حیران ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس کے متعلق آپ نے کون سی کتاب پڑھی ہے۔ میرے یہ کہنے پر کہ کوئی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جواب سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس علم کی کتابیں پڑھی ہیں۔ میں جواب دیتا ہوں کہ میں نے علوم کی جامع کتاب پڑھی ہے۔ قرآن کے ہر ایک لفظ اور بات پر غور کرو پھر تم پر قرآن کے علوم کا دروازہ کھولا جائے گا۔معمولی لیاقت کی عورت بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ میں نے سالہا سال وعظ کیا لیکن تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ خدا کرے کہ اس دفعہ میں دیکھ لوں کہ میری اس نصیحت سے تم کیا فائدہ حاصل کرتی ہو۔
قرآن کس طرح پڑھنا چاہئے
دینی علوم کے لیے سب سے پہلے قرآن کی ضرورت ہے۔ اس کے پڑھنے میں یہ نیت ہونی چاہئے کہ یہ خدا کی کتاب ہے۔ سارا علم اس میں موجود ہے۔ ہر ہر لفظ پر اعتراض پیدا کرو خدا تعالیٰ خود اس کا حل بتائے گا۔ غور کرو کہ صرف اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہنے سے کوئی نکتہ نہیں معلوم ہو سکتا لیکن اگر تم یہ اعتراض پیدا کرو کہ ہمارے والدین اور ہمارے استاد کیوں قابل تعریف نہیں تو آگے رَبُّ الْعَالَمِیْنَمیں خود اس کا جواب موجود ہے کہ تمہارے احسان کرنے والوں کا رَبّ بھی تو وہی ہے۔ فوراً سمجھ میں آ جاتا ہے کہ کیوں سب تعریفیں خدا ہی کے لیے ہیں۔ اسی طرح پر معارف آپ پر کھلیں گے۔ لیکن اگر نیت صرف یہ ہو کہ قرآن کے الفاظ پڑھ کر برکت حاصل کی جائے تو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔
قرآن کے بعد سنت رسول کا علم حاصل کرو
دوسری چیز جس کا پڑھنا دینی تعلیم کے لیے ضروری ہے وہ سنت رسولﷺکا علم ہے یعنی احادیث نبی کریمﷺ۔ دینی تعلیم اس کے بغیر ناقص ہے۔ اگرچہ قرآن کریم میں سب کچھ ہے مگر اس کا علم حاصل کرنے کے لیے کامل تقویٰ کی ضرورت ہے۔ وہ باتیں جو تقویٰ کے کامل ہونے پر منحصر ہیں ان کو قرآن نے چھپایا ہوا ہے۔ وہ پڑھنے والے پر اس وقت تک نہیں کھلیں گی جب تک وہ درجہ حاصل نہ ہو جائے۔ انتہائی تقویٰ سب کو نہیں مل سکتا۔اس لیے آنحضرتﷺ نے شریعت کے اہم مسائل اور ابتدائی علوم نکال کر لوگوں پر خود ظاہر کر دیئے ہیں۔ جیسے نماز،روزہ،حج،زکوۃ وغیرہ اور چونکہ ایمان کے لیے عمل اور عمل کے لیے ان مسائل کا جاننا ضروری ہے اس لیے آپ لوگ سنت و حدیث کا علم بھی ضرور حاصل کریں۔ ضروری ہے کہ عورتیں قرآن و حدیث سے واقف ہو کر دوسروں کو پڑھائیں۔ اپنے گھروں،شہروں اور محلوں میں اس کی تعلیم کا انتظام کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھو
تیسرے ضروری دینی تعلیم کے لیے وہ چیز جس کا پڑھنا ضروری ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری حالت پر رحم کر کے اس زمانے کے نبی سے اردو کی کتابیں لکھوائیں تا تم انہیں آسانی سے پڑھ کر فائدہ اٹھا سکو۔ اب تمہیں کوئی عذر نہیں ہو سکتا۔ قرآن کا اس زمانے کے متعلق ضروری علم اب آپ کی کتابوں میں موجود ہے۔ اگر تم اس کے پڑھنے یا سننے کی کوشش کرو تو تم میں وہ قابلیتیں پیدا ہو سکتی ہیں کہ باریک در باریک مسئلوں کو حل کر سکتی ہو۔
حضرت صاحب کی کتابوں کا امتحان لوں گا
اس وقت میں حضرت صاحب کی دو کتابیں مقرر کرتا ہوں جن کو ہر ایک عورت پڑھے یا سنے آئندہ سال میں ان کا امتحان لوں گا تا پتہ لگ جائے تم نے میری نصیحت پر عمل کیا ہے یا نہیں۔ میں وعظ کر کر کے تھک گیا ہوں مگر تم پر ابھی کوئی اثر نہ ہوا۔اب میں چاہتا ہوں کہ تم عملی زندگی کی طرف قدم اٹھائو۔ وہ کتابیں کشتی نوح اور شہادت القرآن ہیں۔ ان کو پڑھنے کی کوشش کریں اور جو نہیں پڑھ سکتیں وہ اپنی اپنی انجمن کے سیکرٹری کی معرفت اس کے سننے کا انتظام کریں۔ میں اس طرح سوال کروں گا کہ ان پڑھ عورتیں بھی جواب دے سکیں۔ مثلاً اس طرح سوال کروں گا کہ فلاں کتاب میں فلاں بات ہے یا نہیں؟ تم میں سے ہر ایک کھڑی ہو سکتی اور بیٹھ بھی سکتی ہے۔ تو میں یہ کہوں گا کہ جس کے نزدیک اس سوال کے متعلق اس کتاب میں یہ ہے وہ کھڑی ہو جائے۔ یہ معلوم کر لوں گا کہ آپ لوگوں نے وہ کتاب پڑھی ہے یا نہیں۔ کیونکہ جو بات اس کتاب میں نہ ہو گی جو اس پر کھڑی ہو گی اس کا نہ پڑھنا ظاہر ہو جائے گا۔ جیسے کہتے ہیں کہ ایک آدمی یونہی حاجی بن بیٹھا تھا اور حج کے متعلق سنی سنائی باتیں بیان کیا کرتا تھا حجر اسود ایک پتھر ہے جسے ہاتھ لگانے،چومنے یا اس کی طرف اشارہ کرنے کا طواف کے وقت حکم ہے۔ یہ حاجی اس سے ناواقف تھا۔ ایک دانا آدمی وہاں آ گیا اور اس نے اس سے امتحان کے طور پر چند ایک اہل مکہ کے نام پوچھے وہ کیسے تھے؟ پوچھتے کہا کہ حجر اسود صاحب کا کیا حال ہے؟ جواب دیا اچھے ہیں مگر اب بوڑھے ہو گئے ہیں اور اس سے اس کا جھوٹ کھل گیا اس طرح میں اس بات کا علم حاصل کر لوں گا کہ آپ نے وہ کتابیں پڑھی ہیں یا نہیں۔ مثلاً یہ کہ کشتی نوح میں حضرت مسیح ناصری کا ذکر ہے یا نہیں؟ یا شہادت القرآن میں نماز کا ذکر ہے یا نہیں؟ اتنی بات تو جاہل سے جاہل عورت بھی کر سکتی ہے۔ تمہیں چاہئے کہ ان کتابوں کو اچھی طرح پڑھو تا وقت پر شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ ہماری جماعت کی عورتوں کو دوسری عورتوں سے دینی تعلیم میں زیادہ ہونا چاہئے۔ رسول کریمﷺکے زمانے میں ایک مرد و عورت بھی ان پڑھ نظر نہ آتا تھا۔ یہ بہت بڑے اخلاص کا ثبوت ہے۔ حالانکہ عرب میں تعلیم کا بالکل رواج نہ تھا۔ اس زمانے میں تعلیم کے متعلق بہت سی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔(جاری ہے)