مستورات سے خطاب (قسط نمبر3)
(سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۹ء بر موقع جلسہ سالانہ)
عام اخبارات بھی پڑھا کرو
سب سے آسان ذریعہ کتاب ہے یا تازہ اخبار کا مطالعہ۔ ہفتہ واری یا دوسرے اخبار گو مفید ہوتے ہیں مگر اس سے معلومات روزانہ اخبار کی طرح نہیں ہو سکتے۔ میرے پاس پانچ روزانہ اخبار،پندرہ سولہ رسالے آتے ہیں مگر میں اپنے گھر میں دیکھتا ہوں کہ روزانہ اخبار کے مطالعہ کی طرف بہت کم توجہ ہے۔ رسالے تو پڑھ لیتی ہیں حالانکہ رسالوں سے زیادہ اخباروں میں معلومات ہوتی ہیں۔ علم کی ترقی خبروں سے ہوتی ہے نہ کہ مضمونوں سے۔ رائے پڑھنا بیوقوفی ہے خبریں زیادہ مفید ہوتی ہیں۔ میں نے اخبار والوں کی رائے کو کبھی نہیں پڑھا کیونکہ میں خود رائے رکھتا ہوں۔ چاہئے کہ ہم اپنی رائے رکھیں۔ خبروں کی طرف خاص توجہ ہو۔ دوسروں کے آراء پر کبھی اعتماد نہیں کرنا چاہئے ۔آراء تو مختلف بھی ہوا کرتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ہی الہام سے کوئی کافر ہو جاتا ہے کوئی مومن۔ یعنی کسی کی رائے ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ ہے،کوئی کہتا ہے کہ یہ درست ہے۔ اس پر صداقت کھل جاتی ہے۔ غرض دونوں رائیں اپنی اپنی طرز کی ہوں گی ۔رائے پڑھنے والا رائے سے متأثر ہو گا نہ اصل حقیقت سے۔ میں اس کی مثال کے طور پر غیر مبائعین کے اخبار پیغام صلح کی ایک خبر بتاتا ہوں۔ میری خلافت کے شروع ایام میں اس میں ایک خبر شائع ہوئی جس کے عنوان اس قسم کے تھے کہ ’’حقیقت کھل گئی۔‘‘ ’’راز طشت ازبام ہو گیا۔‘‘ ’’محمود کی سازش ظاہر ہو گئی۔‘‘ لیکن نیچے میری نسبت خبر درج تھی کہ میں رات کو لوگوں کو جگاتا پھرتا تھا کہ اٹھو اور نمازیں پڑھو اور دعائیں کرو تا اللہ تعالیٰ جماعت کو فتنہ سے بچائے۔ اس پر کئی دوستوں کے میرے پاس خط آئے کہ کیا یہ صحیح بات ہے۔ میں نے لکھا کہ گھبراتے کیوں ہو۔کیا دعا کرنا گناہ ہے؟ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ چوری کرو،ڈاکے ڈالو،تو اخباروں کی ہیڈنگ سے ڈرنا نہیں چاہئے۔
الفضل و مصباح کا مطالعہ ضروری ہے
خصوصیات سلسلہ کے لحاظ سے یہاں کے اخباروں میں سے دو اخبار الفضل و مصباح کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس سے نظام سلسلہ کا علم ہو گا۔ بعض لوگ اس وجہ سے ان اخباروں کو نہیں پڑھتے کہ ان کے نزدیک ان میں بڑے مشکل اور اونچے مضامین ہوتے ہیں ان کے سمجھنے کی قابلیت ان کے خیال میں ان میں نہیں ہوتی۔ اور بعض کے نزدیک ان میں ایسے چھوٹے اور معمولی مضامین ہوتے ہیں وہ اسے پڑھنا فضول خیال کرتے ہیں۔ یہ دونوں خیالات غلط ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو کبھی کوئی لائق استاد بھی ملا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ایک بچے سے زیادہ کوئی نہیں ملا۔ اس نے مجھے ایسی نصیحت کی کہ جس کے خیال سے میں اب بھی کانپ جاتا ہوں۔ اس بچے کو بارش اور کیچڑ میں دوڑتے ہوئے دیکھ کر میں نے اسے کہا ۔میاں کہیں پھسل نہ جانا۔ اس نے جواب دیا امام صاحب! میرے پھسلنے کی فکر نہ کریں اگر میں پھسلا تو اس سے صرف میرے کپڑے ہی آلودہ ہوں گے مگر دیکھیں کہ کہیں آپ نہ پھسل جائیں آپ کے پھسلنے سے ساری امت پھسل جائے گی۔ پس تکبر مت کرو اور اپنے علم کی بڑائی میں رسائل اور اخبار کو معمولی نہ سمجھو ۔قوم میں وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک خیال بنانے کے لئے ایک قسم کے رسائل کا پڑھنا ضروری ہے۔
مصباح کو مفید بنانے کی تجویز
اکثر کہا جاتا ہے کہ مصباح میں کوئی علمی مضمون نہیں ہوتا۔ میں اسے دیکھتا ہوں تو بہت مفید پاتا ہوں۔ ہاں مضمونوں کی ایک ترتیب چاہئے۔ سو یہ نقص اخباروں میں عام ہوتا ہے اس میں ترتیب نہیں ہوتی ۔اگر کہیں خدا تعالیٰ کے رزاق ہونے کا بیان ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی کشیدہ کا ذکر آ جاتا ہے اور اس قسم کے مضامین سے ذہنی تربیت نہیں ہو سکتی اس لئے ہمارے اخباروں میں مضامین کی ایک ترتیب ہونی چاہئے ۔اگر تم وعدہ کرو کہ اس کا باقاعدہ مطالعہ کرو گی تو اس ترتیب کا وعدہ میں کرتا ہوں اس کی ابتدا پیدائش عالم سے شروع کی جائے گی اور ترتیب وار مفید اور کارآمد معلومات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہم ان سبقوں کو ایسا آسان کر دیں گے کہ کسی مجلس میں تم شرمندہ نہ ہو گی۔ اگر کسی جگہ ویدانتی اور زرتشتی فرقوں کا ذکر ہو رہا ہو تو ان کے الفاظ تمہارے لئے موجب حیرت نہ ہوں گے کیونکہ سارے علوم کا تذکرہ اس میں موجود ہو گا۔
احمدی خواتین مصباح کو باقاعدہ پڑھنے کا اہتمام کریں
لجنہ والیاں یہ کریں اپنے اپنے جائے قیام میں جا کر ریزولیوشن پاس کرائیں کہ ہم مصباح کو باقاعدہ پڑھیں گی یا سنیں گی اور اس کی اشاعت کریں گی۔ تو دو سو لجنہ یا مقامات کی طرف سے اس ریزولیوشن کے متعلق اطلاع آنے پر میں اس سلسلۂ مضامین کا انتظام کروں گا۔ گزشتہ سے گزشتہ سال کا ذکر ہے کہ میں نے اسی جلسہ میں آپ لوگوں سے کہا تھا کہ اگر بیرونجات کی پندرہ عورتیں یہاں آنے کی کوشش کریں تو میں آسان طریقوں سے تمام سلسلہ کے متعلق ضروری مسائل انہیں پندرہ دن کے اندر سکھا دوں گا مگر سوائے ایک عورت کے کسی نے اس کے متعلق کوئی اطلاع نہ دی۔ اگر اب بھی تمہارا یہی حال ہوا تو پھر تمہاری قسمت۔
تیسری نصیحت یہ ہے کہ لجنہ کا قیام خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو رہا ہے، اس وقت تین لجنائیں نہایت عمدہ کام کر رہی ہیں یعنی قادیان،سیالکوٹ ،امرتسر کی اور ان سے اتر کر لاہور،پشاور وغیرہ کی لجنائیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ دوسری جگہوں کی لجنائیں بھی مفید کام کرنے کی کوشش کریں گی۔ قادیان کی لجنہ کا کام ابھی مرکز تک محدود ہے میں امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ باہر کے انتظامات کو بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گی۔
عورتیں اپنا کام آپ سنبھالیں
عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کام آپ سنبھالیں تبھی وہ ترقی کر سکتی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے؟ عورتوں کی ضروریات کا علم عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے۔ جس طرح ہمیں مردوں کی ضروریات کا علم ہوتا ہے عورتوں کا نہیں ہو سکتا۔ ہم نہیں جانتے تمہارے دلوں میں کیا ہے تم خود اپنے خیالات کا اظہار کرو اور جو تمہارے دلوں میں ہے اس کو بیان کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایمان تین قسم کا ہوتا ہے۔ ایک بوڑھی عورت کا جو اگر کسی پہاڑ کو دیکھتی ہے تو کہتی ہے سُبْحَانَ اللّٰہِ۔اگر کسی ولی کا حال سنتی ہے تب بھی سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتی ہے۔ اگر اس کو کہا جائے کہ فلاں ولی کی بات سے درندے تابع ہو گئے تھے تو وہ اسے بھی مان لے گی۔ اس نے تو ایک بات پکائی ہوئی ہے کہ اللہ میاں کی تو ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں ۔حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ عوام الناس میں مشہور ہے کہ رسول کریم ﷺجب معراج کو گئے تو ایک پہاڑ راستے میں آ جانے کی وجہ سے راستہ نہ ملا۔ آسمان سے آوازوں پر آوازیں آ رہی تھیں کہ جلدی آئو جلدی آئو وہ ادھر ادھر دوڑتے پھرتے مگر راستے کا کچھ پتہ نہ چلتا۔ آخر ایک جگہ دو فقیر بیٹھے ہوئے ملے جو بھنگ گھوٹ رہے تھے۔ ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا ٹھہرو ہمیں بھنگ پینے دو۔ حضرت جبرائیل اور رسول کریم ﷺتو جلدی کر رہے تھے لیکن فقیر آرام سے بھنگ پیتے رہے ۔آخر انہوں نے اسے نچوڑ کر اس کے فضلے کا ایک گولہ بنایا اور یا علی کہہ کر پکار کر پہاڑ کو مارا تو پہاڑ پھٹ گیا اور ان کے گزرنے کے لئے راستہ بن گیا۔ ایسے واقعات کو بھی سن کر عورتیں سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ دیتی ہیں۔ جاہل اور بیوقوف اسے سچ مان لیتے ہیں۔ وہ خیال نہیں کرتے کہ اس میں خدا اور رسول سب کی عزت پر حملہ ہے۔ اور علی پر بھی حملہ ہے۔ علیؓ کو عزت رسول کریم ﷺکی وجہ سے نصیب ہوئی تھی۔ جب ان کی بےعزتی کی گئی تو علیؓ کی عزت کس طرح قائم رہ سکتی ہے۔ ہماری قوم کو دیکھ لو ہم پر کسی نے غلبہ پا کر ہمیں اسلام نہیں سکھایا بلکہ ہمارے آباء نے اسلامی ممالک کو فتح کیا اور اسلام کی خوبیوں سے متأثر ہو کر مسلمان ہو گئے۔ آج ہم کیوں حضرت علیؓ کی عزت کرتے ہیں محض رسول کریم ﷺکی وجہ سے، ہم ان پر ایمان نہ لاتے تو علیؓ محض ایک سردار سے زیادہ ہماری نظروں میں عزت نہ پاتے۔ غرض ایسا جاہلانہ ایمان نہیں رکھنا چاہئے۔ یہ شیر خواروں کا سا ایمان ہے کہ ہر وقت دوسروں کے قبضہ میں ہیں۔
دوسرا ایمان فرماتے تھے کہ فلسفیوں کا ہوتا ہے جو ہر بات میں شک پیدا کرتے ہیں۔ یہ گویا ذرا بڑے لڑکوں کا سا ایمان ہے جو دوڑتے اور گرتے ہیں۔
تیسرا ایمان و لیوں کا ایمان ہے جو گویا بالغ و عاقل کا سا ایمان ہے کہ نہ وہ دوسرے کے ہاتھ میں ہوتے اور نہ حرکت سے معذور اور نہ حرکت کرتے وقت گرتے نہ زخمی ہوتے ہیں بلکہ حرکت بھی کرتے ہیں اور نقصان سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ ہاں تو یاد رکھو کہ عورتیں عورتوں کو اچھی طرح نصیحت کر سکتی ہیں اس لئے لجنہ کا ہونا ضروری ہے۔ انہیں عورتوں کی ضروریات کا علم ہو گا اور اس علم کے ماتحت ان کی باتوں کا ان پر زیادہ گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
لجنہ کے فرائض
لجنہ کے یہ فرائض ہونے چاہئیں۔ اول دیکھیں کہ ان کے حلقہ کی ساری احمدی عورتوں کو کلمہ اور نماز آ گئی ہے یا نہیں۔ اس کے متعلق وہ ہر سال امتحان لیں اور رپورٹ بھیجیں۔ اس کام میں غفلت نہ ہو۔ دوم یہ کہ تبلیغ کریں۔ ہر جگہ جلسہ کر کے عورتوں کو بلائیں۔ لجنہ کو اس کی طرف جلد اور فوراً توجہ کرنی چاہئے۔غیر احمدی عورتوں کو جب تبلیغ کی جائے گی اور ان کی اصلاح ہو جائے گی تو وہ اپنے مردوں کو بھی مجبور کریں گی کہ وہ احمدیت کو قبول کریں۔ تیسرا کام چندے کا انتظام ہے۔ چندہ اس لئے نہیں ہوتا کہ اس سے ضروریات پوری ہوں گی۔ خدا کے کام رکے نہیں رہتے بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے ایمان پختہ ہو۔ دیکھو دنیا میں بہت سے خزانے مدفون ہیں اگر خدا چاہے تو وہ اپنے نیک بندوں کو جہاں ہزارہا غیب کے علم سے مطلع کرتا ہے وہاں انہیں یہ بھی بتا سکتا ہے کہ فلاں جگہ خزانہ مدفون ہے اسے دینی ضروریات پر صرف کرو۔ اللہ تعالیٰ نے بارہا مجھے غیب کی خبریں بتائی ہیں وہ یہ بھی بتا سکتا تھا ۔مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہارے ایمان پختہ ہوں اور تم میں زندگی کی روح پیدا ہو۔ رسول کریم ﷺنے ایک شخص سے زکوٰۃ طلب کی اس نے دینے میں عذر کیا۔ آپﷺنے ممانعت کر دی کہ آئندہ اس سے زکوٰۃ نہ لی جائے۔ اس کے بعد وہ بےشمار اونٹ اور بکریاں لاتا اس سے قبول نہ کئے جاتے اور وہ روتا ہوا واپس جاتا ۔چندے میں زیادہ کی شرط نہیں صرف نیت نیک ہونی چاہئے۔ تم اپنے ایمانوں میں ترقی کرو اور جہاں جہاں اب تک لجنہ قائم نہیں ہوئی وہاں لجنہ قائم کرو۔ اور اپنے حقوق خود حاصل کرو۔ جو حقوق لینے کھڑا ہوتا ہے خدا اس کے حقوق خود دلاتا ہے۔ نیند سے جاگو،دین کی خدمت کرو تا مردوں کی طرح تم پر بھی خدا کی برکات نازل ہوں اور خدا کے حضور ان افضال کی مالک بنو جن کا تمہارے آباءواجداد کو وارث بنایا گیا۔
(مصباح ۱۵؍جنوری۱۹۳۰ء)