خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍نومبر۲۰۲۲ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭… حضرت ابوبکرؓ قریش کےممتاز اور بہترین لوگوں میں شمار ہوتے تھےلوگوں کو جوبھی مشکلات پیش آتی تھیں لوگ اُن سے مدد لیا کرتے تھے

٭… حضرت ابوبکرؓ غریبوں اور مسکینوں پر بےحد مہربان تھے۔خلیفہ بننے کے چھ ماہ بعدمدینہ منتقل ہونے تک ایک لاوارث کنبے کی خدمت کرتے رہے

٭… حضرت ابوبکر ؓ شجاعت اور بہادری کا مجسمہ تھےبڑے بڑے خطرے کو اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےعشق کی بدولت خاطر میں نہ لاتے تھے

٭… صلح حدیبیہ کے موقع پرحضرت ابوبکرؓ کا ایمانی جرأت و استقلال و اطاعت و عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ حضرت عمر ؓکبھی نہیں بھولے

٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری وفات کے بعد خدا تعالیٰ اور اُس کے مومن بندے ابوبکرؓ کے سِوا کسی اور کو خلیفہ نہیں بنائیں گے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍نومبر۲۰۲۲ء بمطابق ۲۵؍نبوت۱۴۰۱ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۲۵؍نومبر۲۰۲۲ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کا ذکر ہورہا تھا۔ اس ضمن میں اُن کی خدمت خلق اور محتاجوں کو کھانا کھلانے کے بارے میں ملتاہے کہ اسلام قبول کرنے سے قبل بھی حضرت ابوبکرؓ قریش کے بہترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ لوگوں کو جوبھی مشکلات پیش آتی تھیں لوگ اُن سے مدد لیا کرتے تھے۔ مکہ میں بڑی بڑی دعوتیں اور مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ دَور جاہلیت میں قریش کے ممتاز اور افضل ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ لوگ اپنے مسائل اورمعاملات میں اُن سے رجو ع کیا کرتے تھے۔حضرت ابوبکرؓ غریبوں اور مسکینوں پر بےحد مہربان تھے۔ سردیوں میں کمبل خرید کر محتاجوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔

ایک روایت ہے کہ خلافت کے منصب پر متمکن ہونے سے پہلے آپؓ ایک لاوارث کنبے کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھےاور خلیفہ بننے کے بعد بھی چھ ماہ تک حسب سابق یہ خدمت انجام دیتے رہے جب تک کہ آپؓ نے مدینہ میں رہائش اختیار نہ کرلی۔ حضرت عمر ؓمدینہ کے کنارے رہنے والی ایک بوڑھی اور نابینا عورت کا خیال رکھا کرتے تھے۔آپؓ اُس کے لیے پانی لاتے اور اُس کے کام کاج کرتے۔ایک مرتبہ جب آپؓ اُس کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ کوئی شخص آپؓ سے پہلے ہی اُس کے کام کرگیا ہے۔ اگلی دفعہ آپؓ اُس کے گھر جلدی گئے اور چھپ کر بیٹھ گئے تو دیکھا کہ یہ حضرت ابوبکرؓ ہیں جو اُس بڑھیا کے گھر آتے تھے اور اُس وقت حضرت ابوبکرؓ خلیفہ تھے۔اس پر حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ اللہ کی قسم!یہ آپؓ ہی ہوسکتے تھےیعنی اس نیکی میں مجھ سے بڑھنے والے آپؓ ہی ہوسکتے تھے۔

ایک روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓنے بتایا کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس دو لوگوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو لےجائے اور جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں کو لےجائے۔حضرت ابوبکرؓ تین آدمیوں کو لے آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس کو لے گئے۔حضرت ابوبکر ؓنے مہمانوں کو جو کھانا پیش کیاوہ مہمانوں کے کھاناکھانے کے بعد بھی اتنا بچ رہاکہ پہلے سے بھی تین گنا زیادہ لگتا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓوہ کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر لے گئے اور وہاں بھی قابل ذکر لوگوں کی تعداد نے وہ کھانا کھایا۔یہ برکت اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر ؓکے کھانے میں ڈالی۔

حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓکے بیٹے عبدالرحمٰن ؓبھی خلافت کے لائق تھے۔لوگوں نے کہا کہ اُن کی طبیعت حضرت عمر ؓسے نرم ہے اور لیاقت بھی اُن سے کم نہیں۔ان کو آپؓ کے بعد خلیفہ بننا چاہیے۔لیکن حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو ہی خلافت کے لیے منتخب کیاباوجوداس کے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓکی طبائع میں اختلاف تھا۔پس حضرت ابوبکر ؓنے خلافت سے کوئی ذاتی فائدہ حاصل نہیں کیابلکہ آپؓ خدمت خلق میں ہی بڑائی خیال کیا کرتے تھے۔صوفیاءکی ایک روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ایک غلام سے پوچھا کہ کون کون سے کام تیرا آقا کیا کرتا تھاتاکہ میں بھی وہ کام کروں۔ غلام نے بتایا کہ حضرت ابوبکرؓ روزانہ روٹی لےکر فلاں طرف جایا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت عمر ؓاس غلام کے ہمراہ اُس طرف کھانا لےکر چلے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک غار میں ایک اپاہج اندھا جس کے ہاتھ پاؤں نہ تھے بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اُس کے منہ میں ایک لقمہ ڈالا تو وہ رو پڑا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکر ؓپر رحم فرمائے وہ بھی کیا آدمی تھے۔ حضرت عمر ؓنے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا چلا کہ ابوبکرؓ فوت ہوگئے ہیں؟اُس نے کہا کہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں اس لیے ابوبکرؓ لقمہ چبا کر میرے منہ میں ڈالا کرتے تھے۔ آج لقمہ سخت ہے اس لیے میں نے خیال کیا کہ میرے منہ میں لقمہ ڈالنے والا کوئی اور شخص ہےاور ابوبکرؓ کبھی ناغہ نہیں کیا کرتے تھے اب جو ناغہ ہوا تو یقیناً ابوبکرؓ اس دنیامیں نہیں ہے۔پس وہ کونسی شئے ہے جو بادشاہت سےحضرت ابوبکرؓ نے حاصل کی ہے؟ایک امتیاز تھا جو اُنہیں خدمت سے ملا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حق اللہ اور حق العباد دو ٹکڑے شریعت کے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھو کہ کس قدر عمرخدمات میں گزارا۔حضرت علیؓ کی حالت کو دیکھوکہ اتنے پیوند لگائے کہ جگہ نہ رہی۔ حضرت ابوبکر ؓنے ایک بڑھیا کو حلوہ کھلانا وطیرہ کررکھا تھا۔غور کرو کہ یہ کس قدر التزام تھا۔جب حضرت ابوبکرؓ فوت ہوگئے تو اُس بڑھیا نے کہا کہ آج ابوبکر ؓفوت ہوگئے۔پڑوسیوں نے پوچھا کہ تجھے الہام ہوا ہے۔اُس نے کہا نہیں بلکہ آج ابوبکر ؓحلوہ لےکر نہیں آیا اس واسطے معلوم ہوا کہ وہ فوت ہوگیا۔یعنی زندگی میں ممکن نہ تھا کہ کسی حالت میں بھی حلوہ نہ پہنچے۔دیکھو کس قدر خدمت تھی ایسا ہی سب کو چاہیے کہ خدمت خلق کرے۔

حضرت ابوبکرؓ شجاعت اور بہادری کا مجسمہ تھے۔بڑے بڑے خطرے کو اسلام کی خاطر یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےعشق کی بدولت خاطر میں نہ لاتے تھے۔مکی زندگی میں جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لیے تکلیف یا خطرہ کاکوئی موقع دیکھا تو آپؐ کی حفاظت کے لیے دیوار بن کر سامنے کھڑے ہوجاتے۔ شعب ابی طالب میں تین سال تک اسیری کا زمانہ آیا تو ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ وہیں موجود رہے۔ہجرت کے دوران بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و معیت کا اعزاز ملاحالانکہ جان کا خطرہ تھا۔ جتنی بھی جنگیں ہوئیں نہ صرف ا ٓپؓ اُن میں شامل ہوئے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے فرائض بھی سرانجام دیتے۔حضرت علی ؓنے ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے تو لوگوں نے کہا آپؓ ہیں لیکن حضرت علی ؓنے فرمایا کہ سب سے بہادرابوبکرؓ ہیں کیونکہ جنگ بدر میں ابوبکر ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تلوار سونتے کھڑے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مشرک پہنچنے سے پہلے آپؓ سے مقابلہ کرے گا۔ صلح حدیبیہ میں بھی جب معاہدہ لکھا گیا تو جس ایمانی جرأت و استقلال و فراست و اطاعت و عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ حضرت ابوبکر ؓنے پیش کیا حضرت عمر ؓاپنی بعد کی زندگی میں اس کو نہیں بھولے۔

حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں پٹکہ ڈال کر زور سے کھینچنا شروع کیا۔ حضرت ابوبکر ؓکو اس بات کا علم ہوا تو دوڑے ہوئے آئے اور کفار کو ہٹا کر فرمایا کہ اے لوگو! تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا کہ تم ایک شخص کو محض اس لیے مارتے پیٹتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ میرا ربّ ہے۔وہ تم سے کوئی جائیداد نہیں مانگتا تو پھر کیوں اُسے مارتے ہو۔صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم اپنے زمانے میں سب سے بہادر حضرت ابوبکرؓ کو سمجھتے تھے کیونکہ دشمن جانتا تھا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مارلیا تو اسلام ختم ہوجائے گا اور ہم نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر ؓہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوتے تھےتاکہ جو کوئی آپؐ پر حملہ کرے تو اُس کے سامنے اپنا سینہ کردیں۔

حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ جس طرح جبرئیل بیت المقدس کے سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اسی طرح ہجرت میں ابوبکرؓ آپؐ کے ساتھ تھےجو گویا اسی طرح آپؐ کے تابع تھے جس طرح جبرئیل خدا تعالیٰ کے تابع کام کرتا ہے۔جبرئیل کے معنی خدا تعالیٰ کے پہلوان کے ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓبھی اللہ تعالیٰ کے خاص بندے تھے اور دین کے لیے ایک نڈر پہلوان کی حیثیت رکھتے تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل حضرت عائشہ ؓسے فرمایا کہ میرے دل میں بار بار یہ خواہش اُٹھتی ہے کہ میں لوگوں سے کہہ دوں کہ وہ میرے بعد ابوبکرؓ کو خلیفہ بنادیں لیکن پھر رُک جاتا ہوں کیونکہ میرا دل جانتا ہے کہ میری وفات کے بعد خدا تعالیٰ اور اُس کے مومن بندے ابوبکرؓ کے سِوا کسی اور کو خلیفہ نہیں بنائیں گےچنانچہ ایسا ہی ہوا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ صحابہ کی حالت دیکھو کہ جب امتحان کا وقت آیا تو جو کچھ کسی کے پاس تھا اللہ تعالیٰ کی راہ میں دےدیا۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کمبل پہن کر آگئے یعنی صرف ایک کمبل پہن لیا اور سب کچھ خدا کی راہ میں دےدیاپھر اللہ تعالیٰ نے اُس کی جزا بھی دےدی۔غرض یہ ہےاصلی خوبی کہ خیر اور روحانی لذت سے بہرہ ور ہونے کے لیے وہی مال کام آسکتا ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے۔

حضور انور نے آخر میں فرمایا کہ باقی ذکر انشاءاللہ آئندہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button