الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍اکتوبر2013ء میں محترم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم مجدالدین مجد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم چودھری مبارک مصلح الدین صاحب 21؍جون 1934ء کو قادیان میںپیدا ہوئے۔ آپ کے دادا حضرت میاں محمد دین صاحب واصلؓ باقی نویس نے 1895ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی دستی بیعت کی تھی۔ ’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ میں 313؍اصحاب کی فہرست میں ان کا نام تیسرے نمبر پر درج ہے۔ وہ 313 درویشانِ قادیان میں بھی شامل تھے۔ آپ کے والد حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ بھی صحابی تھے، انہوں نے بطور واقف زندگی (ناظراعلیٰ ثانی و ناظرمال خرچ) تادمِ آخر خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کے نانا حضرت ماسٹر الٰہی بخش صاحبؓ سٹیشن ماسٹر تھے۔
محترم چودھری صاحب آٹھ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ دو بھائی اَور بھی پیدا ہوئے جو کم سنی میں وفات پاگئے۔ آپ نہایت ذہین تھے۔ کئی کھیلوں خصوصاً فٹ بال کے اعلیٰ درجہ کے کھلاڑی اور بہت اچھے تیراک تھے۔ اگرچہ آپ کے والدین نے آپ کو پیدائش کے وقت وقف کردیا تھا تاہم آپ نے خود بھی میٹرک کے بعد خود کو وقف کردیا۔ آپ اور چند دیگر احباب کا امتحان حضرت مصلح موعودؓ نے خود لیا تھا۔ آپ بیان کیا کرتے تھے کہ ربوہ کا ابتدائی دَور تھا۔ امتحان 17؍ستمبر 1949ء کو ہوا جس میں سترہ سوال تھے۔ پرچہ بائیس منٹ میں حل کرنا تھا۔ جب سب نے پرچہ حل کرلیا تو حضورؓ نے سب کو ملاقات کے کمرے میں بلالیا جہاں ناظر صاحبان کا اجلاس جاری تھا جو سب ایک دری پر بیٹھے تھے۔ حضورؓ نے باری باری ہر ایک کا پرچہ پڑھا اور بعض کے جوابات سے محظوظ بھی ہوئے۔ پھر سب کے وقف کی منظوری دی اور کالج میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا ارشاد فرمایا۔ محترم چودھری صاحب نے حضورؓ کے ارشاد پر 1954ء میں ڈبل میتھ فزکس کے ساتھ بی ایس سی کیا اور 1956ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے میتھ میں ماسٹر کرکے ربوہ آکر خدمت کا باقاعدہ آغاز کیا جس کا سلسلہ تا وقت وفات 16؍مارچ 2013ء تک جاری رہا۔
قرآن کریم سے آپ کو انتہائی شغف تھا اور آپ نے اپنے شوق سے قرآن کریم حفظ بھی کرلیا تھا۔ آپ قرآن کریم کے مضامین میں ڈوب کر تلاوت کرتے جو سامع پر گہرا اثر چھوڑتی۔مسجد مبارک کے امام الصلوٰۃ بھی رہے۔ آپ کے زیرمطالعہ قرآن کریم کے نسخوں پر جابجا آپ کے نوٹس لکھے ہوتے۔ تفاسیر کا بھی گہرا مطالعہ تھا۔ اپنے سب بچوں اور اُن کے بچوں کو بھی قرآن کریم شروع کرنے پر اپنا دستخط شدہ قرآن کریم کا نسخہ تحفۃً دیتے۔ سب کی تقریب آمین کا بھی اہتمام کرتے اور کوئی تحفہ ضرور دیتے۔
آپ بظاہر ایک سخت گیر افسر نظر آتے تھے لیکن دراصل بہت شفیق اور ہمدرد وجود تھے۔ اس بات کا اظہار آپ کے ساتھ کام کرنے والے کئی کارکنان نے کیا۔
ہر قدم خلیفہ وقت کے مشورے اور دعا سے اٹھاتے۔ 2004ء میں آپ برما کے دورے پر تھے کہ ہرنیا کی تکلیف ہوگئی۔ ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا تو آپ نے اجازت کی غرض سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خط تحریر کیا۔ وہاں سے جواب میں کچھ تاخیر تھی اور معالج فوری آپریشن چاہتا تھا تو اُس نے نمبر لے کر وہاں سے ڈاکٹر مسعودالحسن نوری صاحب کو فون کیا، صورتحال بیان کی اور کہا کہ آپ کا مریض کہتا ہے کہ مَیں اپنے امام سے پوچھے بغیر آپریشن نہ کرواؤں گا۔ حضورانور کا جواب آیا کہ مزید مشورہ کرلیں۔ برما کے احباب کہتے ہیں کہ یہ بھی حضور کی دعا کا معجزہ تھا کہ آپ کی طبیعت بہت جلد سنبھل گئی اور اُسی روز نماز عشاء کی امامت آپ نے کروائی۔ پھر بخیروعافیت ربوہ آگئے بعدازاں یہاں آپ کا ہرنیا کا آپریشن ہوا۔
محترم چودھری صاحب کو خلافت سے بہت محبت تھی۔ آپ کی زندگی میں آپ کی چھ بہنوں اور والدین کی وفات ہوئی تو آپ نے غیرمعمولی صبر کا نمونہ دکھایا تاہم جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی وفات کی خبر آپ کو ملی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہایت محبت سے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر فرمایا بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 20؍جنوری 2014ء میں مکرم قیصر محمود صاحب نے محترم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مجھے وکالت تعلیم میں آپ کے ساتھ پانچ سال کام کرنے کی توفیق ملی ۔
آپ کا خلافت سے بے حد پیار اور اطاعت کا تعلق تھا۔ دفتر کے مربیان اور کارکنان کی خلافت کے ساتھ وابستگی کو بڑھانے کے لیے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی اختلافاتِ سلسلہ کے بارے میں تقریر پڑھواتے اور بتاتے کہ جن لوگوں نے خلافت سے تعلق توڑا ان کا کیا انجام ہوا۔ خلفاء کے ساتھ اپنے ذاتی واقعات بھی اکثر سنایا کرتے تھے۔
آپ دوسروںکو نیکی کی ترغیب دلاتے رہتے تھے۔ نماز اور رمضان کے روزوں کے حوالے سے کارکنان کا جائزہ لیا کرتے۔ اگر کسی کے بارہ میں پتہ چلتا کہ وہ سستی کرتا ہے تواسے توجہ دلاتے۔ مربیان کو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ایک مربی سلسلہ کو تہجد پڑھنا لازم قرار دیتے تھے۔(ماخوذ از انوارالعلوم جلد نمبر5صفحہ 587)
آپ خود بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتے تھے۔ لیکن روزانہ قرآن کریم کی تلاوت اور پھر مسجد مبارک میں نماز تراویح میں قرآن کریم یاد کرتے۔ اسی طرح آنحضورﷺ کی سنت کے مطابق رمضان میں بہت خیرات کیا کرتے تھے۔
آپ کو ہر وقت مزید علم حاصل کرنے کی پیاس تھی۔ اگر کبھی کوئی لفظ ایسا سامنے آتا جس کے متعلق کوئی شبہ ہوتا تو لغات اور ڈکشنری کے ذریعے اس کے معانی کو confirmکرتے۔ روزمرّہ امور کے بارے میں مفید مشورے دیتے۔ تفسیر کبیر سے پڑھ کر بتاتے کہ نماز کا کونسا رُکن کیسے ادا کرنا چاہیے۔ قرآن کریم کا صحیح تلفّظ سکھانے کے لیے کلاس لیتے جس میں قرآن کریم کی تفسیر، احادیث کی تشریح، کلام حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت مصلح موعودؓ کی کتب کے علاوہ عربی اور فارسی کے بنیادی قواعد سکھانے کا بھی اہتمام کرتے۔ مختلف دعائیں بھی زبانی یاد کرواتے۔ ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ کارکنان کا علمی معیار بلند ہو ۔جب میری ٹرانسفر آپ کے دفتر ہوئی تو مَیں نے بی اے کیا ہوا تھا۔ آپ کے ہمّت دلانے پر مَیں نے ایم اے کرلیا۔ بعد میں بھی مجھے تحریک کرتے رہے کہ کسی اَور مضمون میں بھی ایم اے کرلوں۔
آپ نہایت محنتی شخص تھے۔ باوجود اتنی عمر ہونے کے بہت محنت کرتے تھے لیکن اکثر یہی اظہار کرتے تھے کہ اب پہلے کی طرح محنت نہیں ہوتی۔ بتایا کرتے تھے کہ ربوہ کے ابتدائی دنوں میں جب آپ کی رہائش چنیوٹ میں تھی تو آپ صبح سویرے اٹھ کر نہ صرف گھر کے کام کیا کرتے بلکہ سائیکل پر چنیوٹ سے دفتر آتے اور دوپہر کو واپس جاتے۔ پھر شام کو دوبارہ سائیکل پر ربوہ آکر فٹ بال کی گیم کیا کرتے اور رات کو واپس چنیوٹ جاتے۔
آپ مجلس مشاورت کے لئے بہت محنت کرکے تیاری کیا کرتے۔ گزشتہ پانچ سالوںکی تجاویز، سفارشات او رحضور کی منظوریاں نکلواتے اور ان کا مطالعہ کرکے مجلس مشاورت میں شامل ہوتے تھے۔ آپ کے پاس ایک کاپی ہوتی تھی جس میں مجلس مشاورت کی تمام کارروائی نوٹ کیا کرتے تھے ۔
آپ کی لندن میں 1985ء میں اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔ہرنیا کا آپریشن ہوا۔بیرون ملک دورہ جات میں دو مرتبہ شدید بیمار ہوئے ۔ایک حادثے میں آپ کا کولہا فریکچر ہوا لیکن آپ نے ان تمام بیماریوں کا نہایت جوانمردی اور ہمت سے مقابلہ کیا ۔آخر دم تک آپ کے چہر ہ پر کوئی مایوسی نہ تھی۔ وفات سے چند ماہ پہلے کے علاوہ کبھی آپ کو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ بہت ہمت اور حوصلے والے تھے۔
آپ عمدہ اور صاف ستھرا لباس پہنتے تھے۔ کہا کرتے کہ لوگوں کو پتا چلے کہ ایک واقف زندگی پر اللہ تعالیٰ کے کتنے انعامات ہوتے ہیں۔ یہ بھی کہا کرتے کہ کوشش کریں کہ نماز کے لئے صاف ستھرا لباس ہو۔رات کو سونے والے لباس میں فجر کی نماز پر نہیں جانا چاہیے ۔ دوسروں کو تلقین کیا کرتے تھے کہ اپنی ظاہری صفائی اور خوبصورتی کی طرف توجہ دیں، کپڑے استری ہوں، جوتا پالش ہو، داڑھی کا خط بنایا ہو وغیرہ۔
چودھری صاحب کو خدا تعالیٰ نے کمال کا حافظہ دیا تھا۔ کسی ڈرافٹ یا چٹھی میں کسی لفظ کا اضافہ کیا ہوتا تو کافی عرصہ گزر جانے کے بعد بھی انہیں یاد ہوتا تھا۔ خلفاء کے ارشادات من و عن یاد ہوتے۔حافظہ کو تیز کرنے کا یہ نسخہ بھی بتایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا قصید ہ ’’یاعین فیض اللہ والعرفانٖ‘‘ یاد کرنا چاہیے۔ اپنے بچوں کو بھی اس پر عمل کروایا اور ایک چارٹ پر پورا قصیدہ لکھوا کر گھر میں آویزاں کیا ہوا تھا۔
اپنی زندگی کے ایسے واقعات سناتے جن سے پتا چلتا کہ کسی واقف زندگی کے ساتھ خداتعالیٰ کا کیا سلوک ہوتا ہے۔ بتایا کرتے تھے کہ ہمارا اصل ٹائٹل واقف زندگی ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی وہ رؤیا جو حضورؒ نے اپنے ایک خطبہ میں بیان فرمائی تھی ، اُس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے کہ حضورؒ نے یہ نہیں فرمایا کہ وکیل المال ہیں بلکہ واقف زندگی فرمایا۔ کہا کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے تھے کہ اپنے نام کے ساتھ واقف زندگی لکھا کریں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ ایک واقف زندگی پر اللہ تعالیٰ کے کتنے فضل ہیں۔ چنانچہ آپ بھی ایسا ہی کرتے۔
بےشک وہ دفتر کے ڈسپلن کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے لیکن ان کا کارکنان کے ساتھ دوستانہ ماحول ہوتا تھا۔ صبح دفتر میں داخل ہوکر اونچی آواز میں سلام کرتے اور کھڑے ہوکر سارے دفتر کا جائزہ لیتے اور کسی نہ کسی کارکن سے کوئی نہ کوئی ہنسی مذاق بھی کرتے ۔اگر کسی کارکن کی غفلت پر ڈانٹتے تو دفتری ٹائم ختم ہونے سے پہلےکسی نہ کسی بہانے سے اس کی دلجوئی کردیتے۔ آپ کی وفات پر کئی کارکنان اس طرح زارو قطار روئے جیسے ان کا کوئی بہت ہی قریبی وفات پاگیا ہے۔ جب کوئی کارکن آپ کا خواہ چھوٹے سے چھوٹا ذاتی کام ہی کرتا تو شکریہ ضرور ادا کرتے اور دعا دیتے۔ ہر عید پر کارکنان کو عیدی دیتے، سفیدپوش افراد اور پرانے دوستوںکو راشن پیک بنا کر تحفۃً بھجواتے۔ عیدالاضحیہ پر گوشت بھجواتے۔
کسی شخص میں کوئی چھوٹی سی خوبی بھی ہوتی تو اس کا برملا اظہار کرتے۔ خوش مزاج طبیعت کے مالک تھے۔ جب کوئی بات سمجھاتے تو ساتھ کوئی مزاحیہ بات یا لطیفہ سنا دیا کرتے ۔ اس بذلہ سنجی کے ساتھ ساتھ آپ ایک علمی شخصیت تھے۔ دینی کتب کا مطالعہ روزمرہ کاموں میں سرفہرست تھا۔
وفات سے دو دن پہلے ڈاک چیک کی اور کارکنان کے گندم فارم تھے جوساتھ لے گئے کہ یہ گھر جا کر دستخط کرلوں گا۔ چند دن بعد جلسہ یوم مسیح موعودؑ میں آپ کی تقریر بھی تھی۔ جمعہ والے دن کافی محنت سے تقریر تیار کرتے رہے، اسی شام طبیعت خراب ہوگئی اور اگلے روز وفات ہوگئی۔ آپ کے والد حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ کو تادم آخر خدمت کی توفیق ملی تھی اور اپنے لئے بھی یہی دعا کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍ستمبر2015ء میں مکرم میر انجم پرویز صاحب مربی سلسلہ کے قلم سے محترم چودھری صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ مضمون نگار کو چار سال تک آپ کے ساتھ وکالتِ تعلیم میں خدمتِ سلسلہ کی توفیق ملی۔
محترم چودھری صاحب کے والدین نے آپ کو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وقف کر دیا تھا۔ پھر 1944ء میں جب تحریکِ جدید کے دفتر دوم کا آغاز ہوا اور حضرت مصلح موعودؓ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر کو ہدایت فرمائی کہ اساتذہ بھی طلبہ کو وقف کی تحریک کریں،تو آپ نے اپنے زمانۂ طالبعلمی میں ہی وقف کر دیا اور 1949ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ سے میٹرک پاس کر نے کے بعد باقاعدہ معاہدہ وقفِ زندگی پُر کیا۔ جس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر تعلیم جاری رکھی۔ 1956ء میں آپ نے میتھ میں ماسٹرز کرلیا تو حضورؓ نے آپ کو نائب وکیل المال ثانی مقرر فرمایا۔ 1958ء کو آپ کو کراچی بھجوا یا گیا جہاں ایک فلور مل لگانے کے لیے آپ کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ آپ نے زمین خرید کرعمارت بنوائی اور مشینری نصب کرواکے فلور مل کوجاری کیا۔ اکتوبر 1964ء میں آپ دوبارہ نائب وکیل المال ثانی مقرر ہوئے۔ ازاں بعد 2؍نومبر 1971ء کو وکیل المال ثانی اور 4؍اگست 2001ء کو وکیل التعلیم مقرر ہوئے اور تاوفات اسی خدمت پر مامور رہے۔ آپ اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ ’واقفِ زندگی‘ ضرور لکھا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ ہمیں حضرت مصلح موعودؓ نے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ آپ لوگوں کا اصل ٹائٹل یہی ہے، باقی منصب تو بدلتےرہتے ہیں۔
اپنی وفات سے دو روز پہلے آپ نے مجھے کہا کہ میرے والد صاحب جس دن فوت ہوئے تھے اپنے دفتر کا آخری دن کا کام بھی ختم کر کے گئے تھے اور اُس وقت ان کا کوئی کام pending نہیں تھا۔ اُس روز آپ نے باقی کام ختم کیا لیکن ایک دو معاملات تفصیلی غور کے متقاضی تھے، ان کے بارے میں کہنے لگے یہ کل کریں گے۔ چنانچہ دوسرے دن باقی ڈاک کے ساتھ یہ معاملات بھی نپٹا کر تقریبا ًتین بجے گھر گئے۔ جمعہ کو ہسپتال میں داخل ہوئے اور ہفتہ16 مارچ کو آپ کی وفات ہوئی۔ گویا زندگی کے آخری دن تک کام کرتے رہے اور کوئی کام pending نہیں رہنے دیا۔
آپ اپنے مفوضہ کام وقف کی روح کو مدّنظر رکھتے ہوئے پوری محنت اور تندہی سے انجام دیتے تھے۔ بیماری کی حالت میں بھی دفتر آجایا کرتے تھے اورچھٹی کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ آخری دنوں میں، جب سانس کی تکلیف شروع ہوگئی تھی، ٹھیک طرح سے سو نہیں پاتے تھے، آنکھیں بوجھل اورچہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہوتےتھے پھر بھی سارا سارا دن کام کرتے رہتے تھے۔ 14؍مارچ کو آپ نے بتایا کہ گزشتہ تین چار دن سے سانس کی تکلیف ہے اور ہومیوپیتھک دوائی سے کچھ خاص افاقہ نہیں ہوا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ آپ کو ہسپتال سے معائنہ ضرور کروا لینا چاہیے۔ کہنے لگے: مَیں بھی یہی سوچ رہا ہوں لیکن اس میں وقت بہت صرف ہو جاتا ہے۔ پہلے ڈاکٹر سے وقت لو، پھر وہاں جا کرمعائنہ کرواؤ۔ پھر کئی ٹیسٹ بھی کروانے پڑتے ہیں۔ اس میں بہت سا وقت خرچ ہو جاتا ہے اور دفتری کام کا ہرج ہوتا ہے۔
خلافت کا خاص ادب آپ کو ہمیشہ خوف ورجا کے مابین حالت میں رکھتا تھا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں کوئی خط یا کسی دفتری معاملے کے بارے میں لکھنا ہوتاتو اپنی تحریر کو بار بار پڑھتے اور کاٹ کاٹ کر لکھتے کہ مبادہ کوئی ایسی بات رقم ہوجائےجو مناسب نہ ہو۔ یہ بھی خیال رکھتے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دل میں فلاں سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے، اس لیے اس کی وضاحت بھی آجانی چاہیے۔
آپ بیان کیا کرتے کہ جب مَیں ایم اے کر کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی خدمت میں حاضر ہوا تو حضورؓ نے مجھے بہت سی ہدایات دیں اور فرمایا کہ نوجوانوں کو بھی وقف کی تحریک کریں اور الفضل میں مضمون لکھیں۔ حضوؓر نے یہ بھی فرمایا کہ محض خدا کے لیے کام کرنا ہے۔ دوسروں سے تعاون کرتے ہوئے کام کریں لیکن جماعت کا مفاد ہمیشہ مدِّنظر رہے۔ جہاں جماعتی مفاد کا ہرج ہو رہا ہو وہاں کسی کی کوئی پروا نہیں کرنی، خواہ کوئی ہو، پھر خدا کی خاطر Stand لینا ہے۔
آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی شفقت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ آپ کے والد صاحب نے حضورؓ کو دعا کی درخواست کی کہ فلاں تاریخ کو میرے بیٹے مصلح الدین کی شادی ہے۔ آپ کی رہائش اُن دنوں چنیوٹ میں تھی۔ حضورؓ نے اس بات کو یاد رکھا اور اُس دن اپنی گاڑی بھجوائی تاکہ رخصتی کے بعد آپ کو اپنی بیگم کے ساتھ ربوہ سے چنیوٹ پہنچا آئے۔
آپ بہت حاضر دماغ رہتے تھے۔ ایک بار دفتر میں مجھے اچانک بہت زیادہ پسینہ آنے لگا تو آپ نے ایک نیا نفیس چھوٹا تولیہ بطور تحفہ عنایت کیا۔ اسی طرح ایک دن آپ مسجد مبارک میں صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کے ساتھ کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ آپ سنتیں ادا کر کے بیٹھے تھے کہ صاحبزادہ صاحب سجدے میں جا کر اُٹھے تو اُن کے چہرے کے آثار دیکھ کر آپ نے اندازہ کر لیا کہ سجدہ کی جگہ صاف نہیں۔ آپ نے اپنی جیب سے بالکل نیا رومال نکال کر اُن کی سجدے کی جگہ پر بچھا دیا۔ بعد میں انہوں نے شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ آپ نے بالکل صحیح اندازہ کیا تھا، اُس جگہ سے بدبو سی آ رہی تھی۔
آپ بہت صفائی پسند تھے۔ لباس پوشاک، رہن سہن اور کھانے پینے ہر چیز میں نفاست تھی۔ آپ کے پاس ہر سوٹ میں ہمہ وقت2 رومال رہتے تھے۔ ایک منہ وغیرہ صاف کرنے کے لیے اور دوسرا ناک وغیرہ کی صفائی کے لیے۔
محترم چودھری صاحب ایک خوش ذوق انسان تھے۔ عمر کے آخری حصے میں بھی لباس انتخاب کر کے پہنتے تھے۔ جوتے بھی ہمہ وقت صاف رکھتے تھے۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ زمانۂ طالبعلمی میں جب ہمارے وسائل بہت کم تھے تب بھی مَیں اپنے آپ کو نسبتًا خوش لباس ہی رکھتا تھا۔ ایک بہت اچھا سفید سوٹ میرے پاس تھا جس کو میں بعض دفعہ ایک دن پہن کر رات کو دھو لیتا اوردوسرے دن پھر وہی پہن لیتا تھا اور لوگ سمجھتے کہ شاید میرے پاس کئی ایسے قیمتی لباس موجود ہیں، حالانکہ وہ ایک ہی اچھا سوٹ تھا۔ آپ مربیان اور واقفینِ زندگی کو بھی نصيحت کرتے کہ اپنی وضع قطع ایسی نہ بنائیں جسے دیکھ کر دوسرے لوگ ترس کھائیں اور قابلِ رحم سمجھیں، بلکہ تنگدستی کے باوصف اپنے وقار کا خیال رکھنا چاہیے اور عزتِ نفس کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے۔
علمی لحاظ سے بھی آپ ایک مضبوط شخصیت کے مالک تھے۔ قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کا خاص شوق تھا۔ قرآن کریم کا معتد بہ حصہ زبانی یاد تھا اور ایسے تمام مقامات جن کے الفاظ آپس میں ملتے جلتے تھے آپ نے نشان زدہ کیے ہوئے تھے۔ اپنی یادداشت اور غلطی سے بچنے کے لیے ایک جگہ پر دوسری جگہ کا حوالہ لکھا ہوتا تھا۔ اکثر بتایا کرتے تھے کہ یہی الفاظ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ فلاں آیت میں بھی آئے ہیں اور حُفّاظ عمومًا غلطی سے یہاں سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔
آپ کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خلفاء کی تفاسیر اور انگریزی ترجمہ وتفسیر پر بھی خاصا عبور حاصل تھا۔ بیشتر اہم تفسیری نکات ازبر ہوتے تھے۔ عربی زبان سے واقفیت کم ہونےکے باوجود آپ نے قرآن کریم کا اس قدر مطالعہ کیا ہوا تھاکہ براہِ راست قرآن کریم کے عربی متن کو بخوبی سمجھ لیتے تھے اور بنیادی عربی قواعد بھی جانتے تھے۔
آپ کو مسجد مبارک میں امامت کروانے کا شرف بھی حاصل رہا۔ آپ یہ التزام کرتے تھے کہ قرآن کریم کے مختلف حصے نمازوں میں سنائیں تاکہ مقتدی قرآن کریم کے مختلف مضامین کی سیر کرسکیں۔ چنانچہ آپ مضمون کو پیشِ نظر رکھ کر آیات منتخب کیا کرتے تھے اور باقاعدہ تیاری کرکے جایا کرتے تھے۔ یہ بھی کہتے تھے کہ مسجد مبارک مرکزی مسجد ہے اس میں امامت کے لیے تیاری کے ساتھ جانا چاہیے۔ یہی حال آپ کے درسوں کا تھا۔ جو درس دینا ہوتا اسے ایک سے زیادہ بار پڑھنے کے بعد درس دیا کرتے تھے۔
آپ ہر کام کی پیشگی تیاری کرتے تھے، چاہے کوئی میٹنگ ہو یا مجلس ہو۔ ممکنہ سوالات کا جواب پہلے ہی تیار رکھتے تھے۔ مجلس افتاء کے ممبر بھی تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی معروف کتب کے اہم حوالہ جات آپ کو یاد ہوتے۔ نیز غیرمبائعین کے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ اور حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے بھی یاد کیے ہوئے تھے۔ تاریخِ احمدیت پر بھی عبورحاصل تھا۔ قواعد صدرانجمن اور قواعد تحریک جدید میں آپ اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ اکثر یہ بھی یاد ہوتا کہ فلاں قاعدہ میں فلاں وقت حضرت خلیفۃالمسیح کے ارشاد پر یا منظوری سے فلاں تبدیلی ہوئی تھی۔
کارکنان کے ساتھ شفقت کا سلوک کرتے۔ کارکنان آپ سے ڈرتے بھی تھے اور محبت بھی رکھتے تھے۔ آپ کی وفات پر ایک کارکن نے روتےہوئے کہا کہ آج ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ہمارے سر سے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو، آپ ہم سے ناراض بھی ہوتے اور کبھی ہم آپ کی کسی بات پر نالاں بھی ہو جاتے لیکن ایک عجیب سا اپنائیت کا تعلق برقرار رہتا تھا۔ اگر کبھی آپ سختی کرتے تو بعد میں دلداری بھی کردیتے۔
کارکنان کی تعلیم وتربیت کا خیال رکھتے تھے۔ ان کو وکالتِ تعلیم میں منعقد ہونے والی علمی کلاس میں شامل کرتے، قرآن کریم کے بعض حصے اور چہل احادیث وغیرہ یاد کرواتے۔ مکرم مبشر احمد قمر صاحب اکاؤنٹس مینیجر بیان کرتے ہیں کہ مکرم چودھری صاحب کی تحریک پر مجھے چہل احادیث حفظ کرنے کی توفیق ملی، اسی طرح آپ مجھے اکاؤنٹس سے تعلق رکھنے والے اہم نکات بھی سکھاتےتھے۔ مَیںجنوری 1997ء سے اکاؤنٹس کے شعبے سے وابستہ ہوں لیکن 2011ء میں جب مجھے وکالتِ تعلیم میںآپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو ایسے لگتا تھا جیسے مَیں نے اب اکاؤنٹس کا کام سیکھنا شروع کیا ہے۔ آپ ہر کام مہارت پیدا کرلیتے۔ بڑی بڑی رقموں کا حساب سیکنڈز میں کر لیتے۔ یہ ہدایت بھی دی ہوئی تھی کہ چھٹی کے وقت اپنا روز کا حساب مکمل کر کے جایا کریں اور یہ سمجھا کریں کہ ممکن ہے کل یہ کام میرے ذمہ نہ ہو۔
آپ اپنے بیشتر کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ مکرم قیصرمحمود صاحب نائب وکیل التعلیم بیان کرتے ہیں کہ جب بارش ہوتی آپ اپنے کوارٹر کی چھت پر جا کر پرنالے سے درختوں کے پتے صاف کیا کرتے تھے تاکہ پانی رُکنے سے چھت کو نقصان نہ ہو۔ کئی دفعہ کہا کرتے تھے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر مرمت کے لیے درخواست نہیں دینی چاہیے اور یہ کہ مَیں اپنے کوارٹر کا چھوٹا موٹا کام خود ہی کر لیتا ہوں۔
………٭………٭………٭………
مینار پاکستان لاہور
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ جولائی 2013ء میں پاکستان کی قومی یادگار ’’مینار پاکستان‘‘ کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
لاہور میں مینارپاکستان عین اُسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں 23؍مارچ 1940ء کو قائداعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی ’’قرارداد پاکستان‘‘ منظور ہوئی تھی۔ یہ جگہ اُس وقت منٹوپارک کہلاتی تھی۔ اب یہ اقبال پارک کہلاتا ہے۔
1960ء میں صدر محمد ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی منظورشدہ سفارشات اور ڈیزائن پر اس مینار کی تعمیر ہوئی۔ مینار کا ڈیزائن ترک ماہر تعمیرات مرات خان نے تیار کیا۔ مینار کا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس کی سنگ مرمر کی دیواروں پر قرآن کریم کی آیات، قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے اقوال اور مسلمانوں کی تحریک آزادی کی مختصر تاریخ کندہ ہے۔ قرارداد پاکستان کا مکمل متن بھی اردو اور بنگالی زبانوں میں کندہ ہے۔
مینار کی تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23؍ مارچ 1960ء کوشروع کیا اور اکتوبر 1968ء میں 75؍لاکھ روپے کی لاگت سے اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ یہ اٹھارہ ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ مینار کی بلندی 196فٹ ہے اور مینار کے اوپر جانے کے لیے 324 سیڑھیاں بنائی گئی ہیں جبکہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔
مینار پاکستان کے احاطے میں پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا مزار بھی ہے۔
………٭………٭………٭………