تاریخ احمدیت

Howard Arnold Walter MA, Secretary (جنوری 1916ء) (قسط 23)

(عمانوایل حارث)

میں نے ۱۹۱۶ء میں قادیان جا کر …ایک ایسی جماعت دیکھی جس میں مذہب کے لئے وہ سچا اور زبردست جوش موجزن تھا جو ہندوستان کے عام مسلمانوں میں آج کل مفقود ہے

جنوری1916ء کے پہلے ہفتہ میں مسٹر والٹر (سیکرٹری کرسچن ینگ مین ایسوسی ایشن لاہور) سلسلہ احمدیہ کی تحقیق کے لیے قادیان آئے۔ مسٹر ہیوم (ایجوکیشنل سیکرٹری۔ کرسچن ینگ مین ایسوسی ایشن لاہور) اور مسٹر لیوکس (وائس پرنسپل فورمین کرسچن کالج لاہور) بھی ان کے ہمراہ تھے۔

چونکہ ان تینوں معزز یورپین مہمانوں کی قادیان آمد بطریق سیر و سیاحت و تحقیقات علمی تھی۔اس لیےاکرام ضیف کے طور پر ان کو قادیان شہر سے باہر کی جدید عمارات میں سے مکرم اخترعلی صاحب کے عمدہ اور آرام دہ مکان پر ٹھہرایاگیااور اچھی طرح خیال رکھا گیا۔ ان مہمانوں کے قیام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات کا انتظام ،حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی کے سپرد تھا۔

ان سب صاحبوں نے 2 بار حضورؓ سے ملاقات کرکے بعض مذہبی امور دریافت کیےاور حضورؓ نے بڑی تفصیل سے ان کے جواب دیے۔ان کے سوالات زیادہ تر سلسلہ حقہ کے حالات، قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے اور قابل اعتبار ہونے کے لحاظ سے تھے۔

اپنے قیام کے دوران یہ مہمان 2؍جنوری کو شام کے وقت مسجد اقصیٰ میں درس کے وقت بھی تشریف لائے۔ اور تھوڑی دیر تک مجلس درس کو دیکھتے رہے، پھر اس کا فوٹو بنا کر چلے گئے۔

اخبار الفضل قادیان کے 4؍جنوری 1916ء کے صفحہ اول پر نامہ نگار نے ان مہمانوں کے ذکر میں لکھا کہ ’’سنا گیاہے کہ مدینۃ المسیح کی بعض اور عمارتوں (مینارہ۔ کالج۔ بورڈنگ)کے بھی فوٹو لئے ہیں اور قادیان کے حالات پر کوئی کتاب لکھیں گے۔‘‘

ملتا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے مل کر اور آپ کے جوابات سن کران معزز مہمانوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ گفتگو میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور قاضی عبدالحق صاحب ترجمان تھے۔ان مہمانوں کی حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے ساتھ ہونے والی مفصل گفتگوالفضل کے مورخہ 15؍جنوری 1916ء کے صفحہ 3-6پر محفوظ ہے۔ اس کے بعض حصے پیش ہیں:’’خلیفہ ثانی: آپ کے یہاں تشریف لانے کی ہمیں بڑی خوشی ہوئی ہے۔ آپ کو رستہ میں تکلیف تو نہیں ہوئی؟

مسٹر والٹر: آپ کے دیکھنے سے ہمیں بہت مسرت ہوئی ہے۔ رستہ کےخراب ہونے کی وجہ سے تکلیف تو ہوئی تھی۔ لیکن جو آرام ہم نے یہاں آکر پایا ہے۔ اس کے لئے ہم آپ کے مشکور ہیں…

…میں نے جناب مرزاصاحب کی چند کتابیں پڑھی ہیں۔ اُن سے مجھے آپ کے حالات دریافت کرنے کے متعلق بہت دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ میں نے پڑھا ہے کہ آپ اوائل عمر میں الگ رہا کرتے تھے۔ اور ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ انہی حالات کو اچھی طرح دریافت کرنے کے لئے میں یہاں آیا ہوں۔ چونکہ آپ ان کے فرزند ہیں۔ اس لئے میں نے خیال کیا ہے کہ آپ کو ایسے حالات بہت اچھی طرح معلوم ہوں گے۔ آپ مجھے ان سے آگاہ فرمادیں۔

خلیفہ ثانی: میری پیدائش اس وقت کی ہے۔ جبکہ حضرت مرزا صاحب اپنی پہلی کتاب براہین احمدیہ شائع فرماچکے تھے۔ اس لئے میں ذاتی طور پر آپ کے ان ابتدائی حالات سے اس طرح واقف نہیں۔ ہاں ہماری جماعت کے اور بہت سے لوگ ہیں جو آپ کی صحبت میں شروع سے رہے ہیں ایسے آدمی ہماری جماعت میں اِس وقت بھی موجود ہیں۔ اور یہ اُن حالات کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ اس لئے اگر مجھے بھی کبھی ایسی ضرورت پیش آئے تو میں ایسے لوگوں سے پوچھ لیتا ہوں…اگر آپ حضرت مرزا صاحب کے عقیدہ اور مذہب اور سلسلہ کے متعلق مجھ سے پوچھیں تو میں بڑی وضاحت سے بتانے کےلئے تیار ہوں۔

مسٹر والٹر: وہ کون لوگ ہیں جو حضرت مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی میں آپ کی صحبت میں رہے؟

خلیفہ ثانی: منشی اروڑے خان صاحب۔ شیخ حامد علی صاحب تو یہاں موجود ہیں۔ اور بھی بہت سے لوگ ہیں (شیخ یعقوب علی صاحب کی طرف اشارہ فرماکر)اِن کو بہت سے حالات معلوم ہیں اور یہ حضرت مرزا صاحب کی سوانح عمری لکھ رہے ہیں۔

مسٹر والٹر: (شیخ یعقوب علی صاحب کی طرف مخاطب ہوکر) آپ کے پاس مرزا صاحب کے سوانح لکھنے کے کیا ذرائع ہیں جن کی بنا پر آپ ان کی ابتدائی زندگی کے حالات قلمبند کررہے ہیں؟

شیخ صاحب: حضرت مرزا صاحب کی پرانی تحریریں اور آپ کے پرانے خطوط۔ اور حضرت صاحب کے بیٹے مرزا سلطان احمد صاحب اور آپ کے پرانے دوست لالہ بھیم سین صاحب کےلڑکے کنورسین صاحب (جو آج کل لاء کالج لاہور کے پرنسپل ہیں) سے بھی حالات معلوم کئے ہیں۔ چونکہ میں یہاں قریباً بیس سال سے رہنے والا ہوں۔ اس لئے اس قسم کی سب تحریروں کو جمع کرتا رہا ہوں اور زبانی بتانے والوں سے پوچھ کر لکھتا رہا ہوں۔ حضرت صاحب کی ایک دائی تھیں ان سے بھی کچھ حالات دریافت کرکے لکھے ہیں۔ ‘‘

اس کے بعد یہ سلسلہ کلام جاری رہا۔ ذیل میں سائل مسٹر والٹر کے حضرت مصلح موعود ؓسے پوچھے گئے سوالات درج کیے جاتے ہیں۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مرزا صاحب نےکس طرح معلوم کرلیا تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر کشمیر میں ہے۔ اور یہیں انہوں نے وفات پائی؟

آپ انجیل کو کسی بات میں کس طرح سند پکڑ سکتے ہیں۔ کیا آپ اس کو درست مانتے ہیں؟

اگر آپ بائبل کو مانیں گے تو آپ کو ایسے واقعات کو چھوڑنا پڑے گا جو قرآن کے خلاف ہیں۔ کیونکہ بائبل ان کے متعلق کچھ اور کہتی ہے۔

آپ قرآن کو دوسری کتابوں مثلًا شیکسپیئر کی تصانیف کی طرح ہائر کرٹی سیزم (اعلیٰ تنقید) کے ماتحت پرکھ کر مانتے ہیں یا کسی اور طرح؟

کیا آپ کے نزدیک موجودہ قرآن ہوبہووہی ہے جو محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اترا تھا یا نہیں؟

ڈاکٹر منگانا نے جو قرآن نکالا ہے اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ اوراس کے اعتراضات کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟

ہمارا اعتقاد ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر مر گئے ہیں اورہم اس بات کو ثابت کرنے کے لئے تیار ہیں کیا آپ اس بات کو قبول کرلیں گے۔ اور لوگوں کی پرواہ نہیں کریں گے؟

اگر آپ کا کوئی آدمی لاہو رآئے تو میں اس کو بتاؤں گاکیونکہ میری تحقیقات کا ذخیرہ لاہور میں ہے۔

میرے نزدیک اس وقت تک مسیح کی قبر اوراس کی وفات کے متعلق جو تحقیق آپ لوگوں کی طرف سے شائع ہوئی ہے وہ ہر گز اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں جو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اوراس کے لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی بات پر توجہ کریں تو آپ کو زیادہ فکر اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔

(ملتا ہے کہ اس کے بعد مسٹر والٹر حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات اور قبر والی بات کے سلسلہ کو یہیں چھوڑ کر اور مختلف سوالات کی طرف متوجہ ہوگئے )

کیا آپ لوگ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں اوران میں اور آپ میں جو اختلاف ہے اس کو مٹا کر ملنا چاہتے ہیں یا نہیں ؟

آخری دن اور قیامت سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟

کیا آپ کے خیال میں کسی وقت تمام دنیا کا مذہب اسلام ہوجائےگا؟

وہ لوگ جو مرزا صاحب کو قبول کرنے کے بغیر مر جاتے ہیں۔ ان کی پوزیشن آپ کے نزدیک کیا ہوگی؟

غیر احمدی مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں میں آپ کے نزدیک کیا فرق ہے؟

کیا غیر احمدی مسلمان بھی نجات پائیں گے یا نہیں؟

کیا بہشت اور دوزخ کے درمیان بھی کوئی مقام ہے ؟

کیا آخر میں جہنم سے سب لوگ نکل جائیں گے؟

جنت اور دوزخ میں یہ کس طرح دائرہ کھنچا ہوا ہوگا کہ یہ فلاں کے لئے ہے یہ فلاں کے لئے؟

جنت کن لوگوں کے لئے ہے اور دوزخ کن کے لئے۔ کیا وہ لوگ جنہوں نے آپ کی بیعت نہیں کی۔ وہ بھی بخشے جائیں گے؟

(الفضل کے نامہ نگار نے آخر ی سوال اور اس کا جواب یہ درج کیا ہے)

’’مسٹر والٹر: کیا سوائے احمدیوں کے سب لوگ دوزخ میں جائیں گے؟ احمدی تو بہت تھوڑے ہیں۔

خلیفہ ثانی: آپ کے نزدیک حضرت مسیح ؑ جب آئے تھے تو اُس وقت صرف تیرہ آدمی نجات یافتہ نکلے تھے۔ اگر اُن کے وقت سوائے 13 کے اور کوئی نجات نہیں پاسکتا تو اِس وقت کئی لاکھ کے سوااگر اور نجات نہیں پائینگے تو کیا ہرج ہے۔

اس گفتگو کے بعد مسٹر والٹر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا بہت بہت شکریہ اور خوشی کا اظہار کرکے چلے آئے۔‘‘

روایت ہے کہ اسی سفر قادیان کے دوران میں مسٹر والٹر حضرت منشی اروڑے خاں صاحبؓ تحصیلدار کپورتھلہ سے بھی ملے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدیم صحابی اور معمر بزرگ تھے۔ انہوں نے حضرت منشی صاحب سے چند رسمی باتوں کے بعد دریافت کیا کہ آپ پر مرزا صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا۔ حضرت منشی صاحب نے جواب میں فرمایا کہ میں زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہیں اور زیادہ علمی دلیلیں نہیں جانتا۔ مگر مجھ پر جس بات نے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانتدار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ باقی میں تو ان کے منہ کا بھوکا ہوں مجھے زیادہ دلیلوں کا علم نہیں۔ یہ فرما کر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یاد میں اس قدر بے چین ہو گئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ اور ان کے چہرہ کا رنگ ایک دھلے ہوئے کپڑے کی طرح سفید ہو گیا۔(اصحاب احمد۔ جلد چہارم۔ صفحہ 64-65)

مسٹر والٹر نے بعد میں ’’احمدیہ موومنٹ‘‘کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں اپنے تاثرات ان الفاظ میں لکھے کہ’’میں نے بعض پرانے احمدیوں سے ان کے احمدی ہونے کی وجہ دریافت کی تو اکثر نے سب سے بڑی وجہ مرزا صاحب کے ذاتی اثر اور جذب اور مقناطیسی شخصیت کو پیش کیا۔ میں نے ۱۹۱۶ء میں قادیان جا کر (حالانکہ اس وقت مرزا صاحب کو فوت ہوئے آٹھ سال گزر چکے تھے) ایک ایسی جماعت دیکھی جس میں مذہب کے لئے وہ سچا اور زبردست جوش موجزن تھا جو ہندوستان کے عام مسلمانوں میں آج کل مفقود ہے۔ قادیان میں جا کر انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایک مسلمان کو محبت اور ایمان کی وہ روح جسے وہ عام مسلمانوں میں بے سود تلاش کرتا ہے احمد کی جماعت میں بافراط ملے گی‘‘(احمدیہ موومنٹ۔ از مسٹر والٹر صفحہ139)

اسی طرح اس سفر میں شریک، قادیان دارالامان کا بغور مشاہدہ و مطالعہ کرنے والے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے کلمات طیبہ سے مستفید ہونے والے مسٹر لیوکس نے سیلون میں جا کر تقریر کی تو کہا کہ ’’عیسائیت اور اسلام کے درمیان جو جنگ جاری ہے اس کا فیصلہ کسی بڑے شہر میں نہیں ہو گا۔ بلکہ ایک چھوٹے سے گائوں میں ہو گا جس کا نام قادیان ہے۔‘‘(تفسیر کبیر سورۃ الکوثر صفحہ 476)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button