الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 13؍دسمبر 2013ء میں مکرم ندیم احمد صاحب کے قلم سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے متفرق اخلاق عالیہ بیان کیے گئے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے آپؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بابرکت بیٹے کی خوشخبری دی گئی جو 30؍اپریل 1893ء کو پیدا ہوا۔ حضورؑ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کو اولاد کی بشارت صرف اسی صورت میں دیتا ہے جبکہ ان کا صالح ہونا مقدّر ہو۔‘‘
’’حقیقۃالوحی‘‘ میں آپؑ نے تحریر فرمایا: ’’پینتیسواں نشان یہ ہے کہ پہلا لڑکا محمود احمد پیدا ہونے کے بعد میرے گھر میں ایک اَور لڑکا پیدا ہونے کی خدا نے مجھے بشارت دی اور اس کا اشتہار بھی لوگوں میں شائع کیا گیا چنانچہ دوسرا لڑکا پیدا ہوا اس کا نام بشیر احمد رکھا گیا۔‘‘ (صفحہ227)
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ ایک رمضان المبارک میں محبت الٰہی کے اپنے تعلق کو بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے فرمایا کہ رمضان سے قبل مَیں نے دعا کی تھی کہ میرا جو روزہ مقبول ہوجائے اس کی قبولیت کا نشان یہ ظاہر فرما کہ اس کی افطاری مَیں خود نہ کروں بلکہ باہر سے افطاری کا سامان آئے چنانچہ خدا نے میری دعا قبول فرمائی اور تمام روزے بھی قبول فرمائے اور پورے تیس روزوں کی افطاری باہر سے آئی۔
آپؓ کو رضائے الٰہی کس قدر مطلوب تھی۔ فرماتے ہیں کہ قادیان میں مولوی فخرالدین ملتانی تاجر کتب کو مَیں اپنی کتابیں طباعت کے لیے دیتا تھا تاکہ وہ اخروی ثواب کے ساتھ دنیوی فائدہ بھی حاصل کریں لیکن کبھی کسی تصنیف کے بدلے میں اُن سے کسی رنگ میں کچھ نہیں لیا حتّٰی کہ اپنی تصنیف کردہ کتاب کا نسخہ بھی قیمتاً خریدا کرتا تھا۔ اُن کو اصرار ہوتا کہ ایک نسخہ تو ہدیۃً لے لیا کروں مگر مَیں ہمیشہ یہ کہہ کر انکار کردیتا کہ یہ بھی ایک گونہ معاوضہ ہے اور مَیں اس معاملے میں معاوضے سے اپنے ثواب کو مکدّر نہیں کرنا چاہتا۔
ایک بار کسی دوست کے خیریت پوچھنے پر فرمایا کہ شکر ہے مَیں اپنے خدا پر بالکل راضی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ خدا پر تو ہر شخص راضی ہوتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: بےشک کوئی شخص شرح صدر سے راضی ہوتا ہے اور کوئی اس مجبوری کی وجہ سے راضی ہوتا ہے کہ خدا کی تقدیر کو قبول کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔ لیکن الحمدللہ مَیں اپنے خدا اور اس کی ہر تقدیر پر شرح صدر کے ساتھ راضی ہوں۔
آپؓ نے آنحضورﷺ کی سیرت پر بہت سے مضامین کے علاوہ مستند کتاب ’’سیرۃ خاتم النبیّین ؐ‘‘ بھی تصنیف فرمائی جسے آپؓ شدید خواہش کے باوجود پورانہ کرسکے۔ 1959ء میں ’’محمدؐ ہست برہان محمدؐ‘‘ کے زیرعنوان ایک مضمون میں لکھا: آنحضرتﷺ (فداہٗ نفسی) کی سیرت کے متعلق کچھ لکھنا تو میری روح کی غذا ہے جس کی برکت سے مَیں اپنی بہت سی کمزوریوں کے باوجود جی رہا ہوں۔
ایک بار مکرم مختار احمد ہاشمی صاحب کا ہاتھ پکڑ کر رقّت آمیز لہجے میں فرمایا: آپ اس بات کے گواہ رہیں اور مَیں آپ کے سامنے اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ جب سے مَیں نے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے لے کر اب تک میرے دل میں سب سے زیادہ حضرت سرورکائناتؐ کی محبت جاگزین ہے۔ حدیث میں آتا ہے اَلْمَرْعُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ، اس لحاظ سے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے تحت مجھے وہاں آنحضرتؐ کے قرب سے نواز دے گا۔آپ اس بات کے گواہ رہیں اور مَیں آپ کے سامنے اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر انشراح صدر سے راضی ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ سے آپؓ کی محبت ’’سیرت المہدیؑ‘‘ اور اُن متعدد تقاریر سے ظاہر ہے جو سیرت طیبہ، درّمنثور، درّمکنون اور آئینہ جمال کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔
آپؓ کے فرزند محترم مرزا مظفراحمد صاحب لکھتے ہیں کہ آپؓ کا طریق تھا کہ گھر کی مجالس میں احادیث، نبی کریمﷺ اور حضرت مسیح موعودؑکی زندگی کے حالات اکثر بیان فرماتے رہتے۔ میرے اپنے تجربے میں یہ ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا ہوگا۔ لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک مرتبہ بھی نبی کریمﷺ یا حضرت مسیح موعودؑ کے ذکر سے آپؓ کی آنکھیں آبدیدہ نہ ہوئی ہوں۔ بڑی محبت اور سوز سے یہ باتیں بیان فرماتے تھے اور پھر ان کی روشنی میں کوئی نصیحت کرتے تھے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے انکسار اور اطاعتِ امام کی ایک مثال یوں بیان کی گئی ہے کہ آپؓ کی بڑی صاحبزادی محترمہ امۃالسلام صاحبہ کا نکاح 15؍مئی 1924ء کو پڑھاتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے خطبہ نکاح میں فرمایا: عزیزم میاں بشیر احمد نے میرے ہی سپرد یہ معاملہ کیا ہے، انہوں نے پہلے سے میری رائے پر یہ کام چھوڑا ہوا تھا اور مَیں نے ہی یہ رشتہ پسند کیا ہے۔ اس عہد کے مطابق ان کی طرف سے اب بھی مَیں ہی بولوں گا اورقبول کروں گا۔
خلافت سے محبت کا ایک یہ بھی انداز تھا کہ آپؓ کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کوئی خاص تحقیق فرمارہے ہیں تو آپ حضورؓ کے کام میں آسانی کی غرض سے اپنی رائے اور تحقیق حضورؓ کو بھجوادیتے۔
مکرم شاہد احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت میاں صاحبؓ کو صحابہؓ سے بہت محبت تھی۔ مجلس مشاورت 1963ء کے ایک روز جب کارروائی ختم ہوئی اور لوگ گھروںکو جانے لگے تو حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوریؓ پاپیادہ اپنی رہائشگاہ (واقع فیکٹری ایریا) کو جارہے تھے کہ پیچھے سے آپؓ کی کار آگئی۔ آپؓ نے کار رُکوائی اور حضرت قاضی صاحب کو بٹھاکر اُن کی رہائشگاہ تک پہنچاکر پھر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ کئی بزرگ صحابہ مثلاً حضرت غلام رسول راجیکی صاحبؓ اور حضرت حافظ مختار احمد شاہجہانپوری صاحبؓ کی ملاقات کےلیے خود بھی تشریف لےجایا کرتے۔
مبلغین کے لیے آپؓ کا دل محبت سے بھرا ہوتا تھا۔ مکرم بشارت احمد امروہی صاحب بیان کرتے ہیں کہ محترم مولوی عبدالحق ننگلی صاحب افریقہ میں تبلیغ کرکے جب واپس آئے تو حضرت صاحبزادہ صاحبؓ سے ملنے کی خواہش کی۔ مَیں اُنہیں لے کر آپؓ کے دفتر پہنچا تو آپؓ کسی نہایت ہی ضروری تصنیف میں مصروف تھے۔ مجھے دیکھ کر کچھ کبیدہ خاطر ہوئے لیکن جونہی مَیں نے عرض کی کہ یہ افریقہ میں مبلغ رہے ہیں تو آپؓ کے چہرے پر بشاشت کی لہر دوڑ گئی۔ اُسی وقت قلم ہاتھ سے چھوڑ دیا، اُٹھ کر مولوی صاحب سے بغلگیر ہوگئے اور پھر کافی دیر تک تبلیغی اور تربیتی امور پر گفتگو فرمائی۔
محترم مولوی محمد منور صاحب مبلغ افریقہ بیان کرتے ہیں کہ میرا حضرت میاں صاحبؓ سے کوئی تعارف نہیں تھا۔ جب مَیں نومبر 1952ء میں افریقہ سے واپس آیا تو مسجد مبارک میں آپؓ سے مصافحہ کرکے عرض کیا کہ مَیں چار سال تک تبلیغ کا فریضہ انجام دے کر آیا ہوں۔ اس پر آپؓ نے گلے لگالیا۔ گو آپؓ مجھے نہیں جانتے تھے اور نہ ہی آپؓ کی عادت تھی کہ لوگوں سے ملتے رہیں۔ لیکن صرف یہ سننے پر کہ تبلیغ میں چند سال لگائے ہیں، آپؓ نے للّٰہی محبت کا اظہار فرمایا۔
آپؓ ایک سادہ اور بےتکلّف وجود تھے۔ ستمبر 1924ء میں آپؓ کے پاؤں پر پھنسیاں نکل آئیں کہ جوتا پہننا دشوار ہوگیا۔ تب آپ ننگے پاؤں ہی دفتر میں تشریف لاتے رہے۔
جب بھی آپؓ کسی نئے قلم کا استعمال شروع کرتے تو سب سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم رقم فرماتے۔
آپؓ نے دفتر کو بھی ہدایت دے رکھی تھی کہ سرکاری دفاتر کو لکھے جانے والے خطوط کی ابتدا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہٗ ونصلّی علیٰ رسولہ الکریم سے کی جائے اور مخاطب کو السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ بھی لکھا جائے۔ پاکستان بننے کے بعد آپؓ نے جناب قائداعظم محمدعلی جناحؒ کو بھی توجہ دلائی کہ وہ پاکستان کے سرکاری دفاتر کے لیے ہدایت جاری فرمائیں کہ وہ محکمانہ خط وکتابت میں یہ فقرات استعمال کیا کریں۔
حضرت میاں صاحبؓ کی منکسرالمزاجی کا اظہار آپؓ کے ان الفاظ سے ہوسکتا ہے۔ فرمایا: مَیں جب اپنے نفس میں نگاہ کرتا ہوں تو شرم کی وجہ سے پانی پانی ہوجاتا ہوں کہ خداتعالیٰ ہمارے جیسے کمزور انسان کی پیدائش کو بھی بشارت کے قابل خیال کرتا ہے۔ پھر اس وقت اس کے سوا سارا فلسفہ بھول جاتا ہوں کہ خدا کے فضل کے ہاتھ کو کون روک سکتا ہے۔
ایک اَور موقع پر فرمایا: یہ خاکسار حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں پیدا ہوا اور یہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے شکریہ کے لیے میری زبان میں طاقت نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ میرے دل میں اس شکریہ کے تصوّر کی گنجائش نہیں۔
محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مصلح موعودؓ نے ڈلہوزی جانا تھا۔ احباب ملاقات اور مصافحہ کے انتظار میں کار کے قریب مختلف لائنوں میں کھڑے تھے۔ اتنے میں حضرت میاں صاحبؓ تشریف لائے اور کار کے پاس کھڑے ہوگئے مگر دو منٹ کے بعد آپؓ یہ فرماکر قطار کے آخر میں چلے گئے کہ ’’جب مَیں سب سے آخر میں آیا ہوں تو سب سے آگے کھڑے ہوکر مصافحہ کرنے کا کیا حق ہے۔‘‘
………٭………٭………٭………
ایتھنز (Athens)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 21؍دسمبر 2013ء میں یونان کے دارالحکومت ایتھنز کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون بقلم مکرم امان اللہ امجد صاحب شامل اشاعت ہے۔
یونان کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ایتھنز کا پرانا نام ایتھینائی ہے۔ آبادی 36لاکھ سے زیادہ ہے۔ زمانۂ قدیم کے کئی آثار یہاں پائے جاتے ہیں۔ یہاں کی ابتدائی آبادی تین ہزار سال قبل مسیح میں شروع ہوئی۔ 700قبل مسیح میں یہ متحدہ ایتھنز کا صدرمقام تھا۔ 429قبل مسیح میں یہاں طاعون کی وبا پھیلی جس سے اس کی ایک تہائی آبادی ہلاک ہوگئی۔ 480ء میں ایرانی اس پر قابض ہوئے۔ سکندراعظم کی وفات کے بعد اس کی شہرت کم ہوگئی لیکن 529ء میں یہ بہت بڑا تعلیمی و ثقافتی مرکز تھا۔ 1458ء سے 1833ء تک ترک اس پر قابض رہے۔ 1834ء میں یہ جدید یونان کا دارالحکومت قرار پایا۔ 1837ء میں یہاں یونیورسٹی قائم ہوئی۔
صدیوں تک یہ شہر اہل علم و دانش کا مرکز رہا۔ نامور فلسفی سقراط اور افلاطون کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔ ایتھنز کے قریب ہی سنگ مرمر کا تیار کردہ سٹیڈیم ہے جو 330قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا اور 1896ء میں اولمپک کھیلوں کا یہاں آغاز ہوا۔ 1906ء کی اولمپک کھیلیں بھی یہاں منعقد ہوئیں۔
اس وقت یہاں موجود صنعتوں میں بجلی کے ٹرانسفارمرز، مشینیں، کاغذ، کپڑا، گھڑیال، تاریں اور بیس بال کھیلنے کا سامان تیار کیا جاتا ہے۔
………٭………٭………٭………