خوشی، مسرت، محبت، فدائیت کی قوس قزح کا ڈیلس میں ظہور (قسط اول)
(عرفان احمد خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)
تاریخ احمدیت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ جب شملہ یا نخلہ تشریف لے جایا کرتے تو زیادہ تر جماعتی کارکنان طلب کیے جانے یا ضرورت کے تحت جماعتی نمائندگان قصرِ خلافت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوتے۔ نخلہ ایک پسماندہ علاقہ میں شروع ہونے والے پہاڑی سلسلہ کے دامن میں واقع ایک بستی تھی۔ جب میں عقیدت میں اسے دیکھنے کے لیے گیا تو اس کا محض نشان باقی تھا لیکن والد صاحب مرحوم سے اس بستی کا ذکر اتنی بار سن رکھا تھا کہ اس کو دیکھے بغیر ہی نخلہ نام سے عقیدت عمر کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی رہی۔ نخلہ سے میرے والد کی عقیدت کا اندازہ ان کی سوانح عمری سفرِ حیات کو پڑھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ خیبر لاج مری غالباً وہ پہلی جگہ ہے جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قیام کے دوران احباب جماعت انفرادی، اجتماعی وفود اور افرادِ خاندان کے ہمراہ ملاقات اور حصولِ برکت کے لیے حاضر ہوا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے قیام ایبٹ آباد کے دوران راولپنڈی سے جانے والے اطفال الاحمدیہ کے ایک گروپ کے ساتھ جانے کا منظر آج بھی میری آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے۔ البتہ مجھے اس روز ربوہ کا جان کر گروپ سے علیحدہ کر کے مکان کی بیرونی باڑ کی نگرانی پر بٹھا دیا گیا اور ڈیوٹی میرے سپرد یہ تھی کہ اگر کوئی فرد یا کار بار بار یہاں سے گزرے تو میں اندر دفتر میں اطلاع دوں۔ بعد میں حضور اسلام آباد تشریف لے جایا کرتے تو عاشقانِ خلافت کی ایمانی حرارت انہیں جوق در جوق، قافلہ در قافلہ بیت الفضل کی طرف کھینچ لاتی۔ خلافتِ احمدیہ پر دل و جان سے نثار فدائیان سپیشل بسوں میں عازم اسلام آباد ہوا کرتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اخوت و محبت کے باہمی تعلق کا یہ پہلو بھی وسعت پذیر ہوکر برکتوں کو سمیٹنے کا باعث بنتا چلا آ رہا ہے۔ خصوصاً خلافت احمدیہ کے پاکستان سے ہجرت کے بعد جب بھی خلفاء سفر پر نکلے تو خلافت کے پروانوں نے بھی انہی دیسوں کی راہ لی اور سیر وسیاحت سے ہٹ کر خلیفہ وقت کی اقتدا میں نمازوں کی ادائیگی اور مجلسِ عرفان میں شرکت کو اپنے لیے باعث صد افتخار جانا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آج کل ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے پانچویں دورہ پر ہیں۔ تین دوروں میں مجھے بطور راہ گیر باہمی اخوت و محبت کے اس لازوال رشتہ کو مشاہدہ کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ آجکل حضور ریاست ٹیکساس کے اہم شہر Dallas میں قیام پذیر ہیں۔ حضور نے بیت الا کرام کا افتتاح فرمایا جس کی رپورٹ جماعتی جرائد میں شائع ہو چکی ہے۔ حضور شکاگو کے قریب زائن شہر میں مسجد فتح عظیم کے افتتاح کے بعد Dallas تشریف لائے ہیں۔ زائن میں مشن ہاؤس چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہاں آنے جانے کے لیے بعض قواعد طے کیے گئے تھے لیکن Dallas کا مشن ہاؤس پونے پانچ ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے اس لیے تعمیر شدہ حصہ اور ترتیب وار لگے ان گنت سفید براق خیمہ جات پر برقی قمقموں کی روشنی شہر بہاراں کا دلکش منظر پیش کر رہی ہے۔ یہاں سینکڑوں اور ہزاروں میل سے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔یہ جاننے کے باوجود کہ حضور سے ملاقات بہت ہی محدود پیمانہ پر ممکن ہے لوگ محض حضور پُرنور کا دیدار کرنے اور حضور کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے لیے ہزاروں میل سے کھنچے چلے آرہے ہیں۔ آپ مسجد کی صف میں بیٹھیں،کھانے کی میز پر ہوں ، گاڑی پارک کر رہے ہوں، رجسٹریشن آفس میں ہوں یا Covid test کے خیمہ میں، آپ کے دائیں بائیں بیٹھی شخصیات خلافت کی کشتی کے وہ شہسوار ہوں گے جو خصوصی سفر اختیار کر کے دیارِ حبیب تک پہنچے ہیں۔ جس سے تعارف لو کوئی دو دن کار چلا کر یہاں پہنچا ہے تو کوئی تین گھنٹے کی فلائٹ سے اس پر کشش مقام تک آیا ہے۔ Dallas کی پوری جماعت ڈیو ٹیاں دے رہی ہے اور سارے امریکہ سے آنے والے مہمانوں کی خدمت پر کمر بستہ ہے۔
ذیل میں ان چند افراد، خاندانوں کا تعارف پیش ہے جو حضور کی محبت، حضور کے دیدار اور عبادت کا لطف اٹھانے کے لیے Dallas تشریف لائے۔ ان میں کوئی ایک دن کا مہمان تھا اور کوئی دو دن بعد اپنے دوسرے بھائی کے لیے جگہ خالی کرنے پر آمادہ۔ بیت الاکرام کی فضا ایک عجیب روحانی لذت سے روشناس ہو رہی ہے۔ کسی طرف فرطِ جذبات سے آنسو نہیں تھم رہے تو کوئی دوسرا کو نہ برسوں بعد ملنے والے دوستوں کے قہقہوں سے گونج رہا ہے۔ خوشی، محبت، اور مسرت کی قوس قزح ہر طرف بکھری ہوئی ہے۔ ہر ایک کی زبان پر ہے کہ یہ رونقیں،اور پر مسرت لمحات خلافت کے دم سے ہیں۔
محمد سہیل قریشی
یہ 1100 میل دور شہر Tucsonسے مع اہلیہ اور تین بچوں کے بذریعہ ہوائی جہاز تشریف لائے تھے۔ ان کے والد کا نام محمد اسحاق قریشی ہے جو 15 سال جماعت Tucson کے صدر رہے۔ خاندان میں احمدیت کا آغاز ان کے دادا مکرم بابو محمد عمر دہلوی سے ہوا جنہوں نے خلافتِ ثانیہ کے دور میں احمدیت قبول کی۔ انہوں نے اپنے دو روزہ قیام کو یادگار لمحات قرار دیا۔ بچوں کی تربیت اور خلافت سے ان کی وابستگی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا ضروری خیال کیا اور پانچ افراد نے ہوائی سفر اختیار کر کے خلیفۂ وقت کی قربت میں دن گزارنے کو سعادت جانا۔
ڈاکٹر مبشر احمد ممتاز
ان کا تعلق Harrisburg سے ہے جو ڈیلس سے ایک ہزار تین سو اسی میل دور ہے۔ اس شہر میں جماعت امریکہ کا جلسہ سالانہ بھی منعقد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب 1994ء سے امریکہ میں ہیں اور کارڈیالوجسٹ سرجن ہیں۔احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ آپ کے والد لیفٹیننٹ ممتاز انور پاکستان نیوی نے 1962ء میں احمدیت قبول کی جن کی تبلیغ سے دادا بھی احمدی ہو گئے۔والد 1971ء کی جنگ میں شہید ہوئے اور حکومت نے ان کو ستارۂ جرأت کا حقدار ٹھہرایا۔ڈاکٹر صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ حضور کی روانگی تک یہاں قیام کر کے دربارِ خلافت سے روحانی فیض پانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
رحمان عبدالعلیم
یہ ہمارے امریکن بھائی ہیں جو Los Angeles سے تین گھنٹے کی فلائٹ لے کر حضور کی زیارت کے لیے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے 16؍ستمبر 1997ء کو قبول احمدیت کی سعادت پائی۔ انہوں نے بتایا کہ Dallas پہلی بار آیا ہوں اور صرف حضور کی وجہ سے دل نے مجبور کیا کہ ڈیلس جایا جائے۔ حضور کے پاس پہنچ کر خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ احمدیوں سے میل ملاقات کرنا مجھے ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔ میں نے دس سال پہلے حضور سے لندن میں ملاقات کی تھی۔ دو بار لندن اور دو بار لاس اینجلس میں حضور سے ملنے کا شرف حاصل کر چکا ہوں۔ حضور سے بار بار ملنے کو دل کرتا ہے لیکن ملاقات کے لیے جو طریق کار طے کیا گیا ہے اس میں میرا ملاقات کا حق نہیں بنتا اس لیے میں نمازوں میں شامل ہوکر، حضور کی زیارت کر کے اپنی روحانی پیاس کا ازالہ کروں گا۔
افغان احمدی وفد کی آمد
آج کل بیت الاکرام میں 49 افراد پر مشتمل احمدی افغان بھائی بھی موجود ہیں۔ ان میں سے اکثریت طالبان کے دوبارہ قبضہ کے بعد افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوئی اور اب کیلی فورنیا کے شہر Sacramento میں رہائش پذیر ہے جو Dallas سے 1735 میل کے فاصلہ پر ہے۔ اس وفد میں 11 مرد، 17 خواتین اور 21 بچے شامل ہیں۔ سب سے عمر رسیدہ شخص جناب محمد اسماعیل احمدی کی عمر 75 سال اور سب سے کم عمر بچے عزیزم انس احمدی کی عمر دو ماہ اور چودہ دن ہے جو امریکہ میں پیدا ہوا اور وقفِ نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہے۔ ان میں سے چند دوست 26 گھنٹے گاڑی چلا کر ڈیلس پہنچے ہیں جبکہ اکثریت چار گھنٹے کی فلائٹ سے حضور سے ملاقات کی خواہش لے کر بیت الاکرام وارد ہوئے ہیں۔ ان سب کی خلیفۂ وقت سے پہلی ملاقات ہو گی جس کے لیے ان کے چہروں پر موجود خوشی قابل دید تھی۔ ان میں موجود چار بزرگ شخصیات صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا بار بار ذکر کرتیںاور اپنے موبائل میں موجود صاحبزادہ صاحب کے مزار کی نشانی دکھا کر ماحول کو مزید جذباتی بنا رہی تھیں۔ زبان کا فرق حائل نہ ہوتا تو شائد ساری رات وہ عقیدت و محبت کے پھول اسی طرح نچھاور کر کے گزار دیتیں۔ حضور سے ہونے والی ملاقات میں مکرم سید محمد ابراہیم ترجمان کے فرائض سرانجام دیں گے۔
ابو بکر
یہ بھی ہمارے امریکن بھائی ہیں جو 1975ء میں احمدی ہوئے۔ ان کا آبائی تعلق زائن شہر سے ہے لیکن آپ مستقل Wisconsin میں نقل مکانی کر چکے تھے۔ بیس سال پہلے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد امیر جماعت کے توجہ دلانے پر دوبارہ زائن کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس سال جون تک آپ زائن جماعت کے صدر تھے۔ آپ کا عرصہ صدارت 8 سال ہے۔ اس وقت سیکرٹری جائیداد ہیں۔ آپ کی بیگم صاحبہ Mrs. Dhiya Baker نیشنل صدر لجنہ ہیں۔ آپ دونوں میاں بیوی حضور سے عقیدت میں زائن سے ڈیلس آئے ہوئے ہیں اور حضور کی امریکہ سے واپس روانگی تک ساتھ رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر بشیر الدین خلیل
ڈیٹرائٹ سے 1200 میل کا سفر طے کر کے آجکل ڈیلس میں موجود ہیں انہوں نے بتایا کہ ان کے نانا چودھری محمد صادق 1920ء میں احمدی ہوئے تھے۔ ان کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ والد کا نام کرنل ڈاکٹر محمد رمضان ہے۔ اپنی جماعت کے سیکرٹری تعلیم القرآن و وقف عارضی ہیں۔ انہوں نے بتایا بیس سال پہلے ڈیلس آیا تو ایک چھوٹی مسجد تھی اب اللہ نے جماعت کو شاندار مسجد بنانے کی توفیق دی ہے۔ خلیفۂ وقت جہاں بھی جائیں جلسہ سالانہ کا سا ماحول بن جاتا ہے جس کو انجوائے کر رہا ہوں۔ عبادات میں بھی اور میل ملاپ میں بھی۔ جب تک حضور یہاں ہیں میرا بھی اس وقت تک یہاں رہ کر احمدیہ روحانی ماحول سے لطف اندوز ہونے کا ارادہ ہے۔
ربوہ کے تین خدمت گار
یوں تو جماعت ڈیلس کا ہر بچہ بوڑھا احباب و خواتین حضور کے قیام ڈیلس کے دوران خدمت کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں لیکن اپنے خلیفہ کی محبت میں دوردراز شہروں سے آنے والے اپنے آپ کو خدمت کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ ربوہ کے تین نوجوان مکرم محمود احمد گوندل، طاہر رمیز اور محمد مقصود بٹ کا یوں تو مقامی تعلق ورجینیا سے ہے جو ڈیلس سے 1300 میل دور ہے۔ یہ خلیفۂ وقت کی آمد کو جشن کے طور پر منا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے عہد کیا تھا کہ جب تک حضور امریکہ میں ہیں میں ہر نماز میں شامل ہونے کی کوشش کروں گا۔ میں خداوند کا بے حد شکر گزار ہوں کہ مجھے اپنے اس عہد کو نبھانے کی توفیق دے رہا ہے۔ ہم زائن میں بھی موجود تھے۔ اب ڈیلس میں بھی موجود ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں ساتھ ساتھ خدمت کا موقع بھی مل رہا ہے۔ ان کے دو ساتھیوں میں طاہر رمیز صاحب کے والد مکرم داؤد احمد صاحب ربوہ میں اسٹیشن ماسٹر ہوا کرتے تھے۔اور دوسرے ساتھی محمد مقصود بٹ صاحب ڈاکٹر خیرالدین صاحب بٹ میڈیکل سٹور گول بازار کے پوتے ہیں۔ آپ جماعت نارتھ ورجینیا کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ حضور کے دورہ کے دوران ٹرانسپورٹیشن کی ذمہ داری بھی نبھا رہے ہیں۔
جوں جوں جمعۃ المبارک کا دن قریب آ رہا ہے بیت الاکرام میں نمازیوں کی رونق بڑھ رہی ہے۔ ٹیکساس میں رہنے والے احمدی مرد و خواتین Dallas میں احمدیہ مشن ہاؤس کا رخ کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں تعطیل کے ایام نہیں اس لیے بچوں والوں نے خلیفۂ وقت کی امامت میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی خواہش کے پیش نظر لی جانے والی چھٹیوں کو جمعہ کے ساتھ ملا لیا ہے۔ جمعرات کی شام بیت الاکرام کے ماحول میں جلسہ سالانہ کی ایک جھلک موجود تھی۔ ہر ایک کی زبان پر جلسہ سالانہ کے ماحول کا تذکرہ تھا۔ چند احباب جن سے گفتگو کا موقع میسر آ سکا، ان کا تعارف قارئین کی نذر ہے۔
سید ظہیر احمد شاہ
یہ کینیڈا کے شہر سسکاٹون سے تشریف لائے ہوئے ہیں جس کا Dallas سے فاصلہ تین ہزار دو سو کلو میٹر ہے۔ آپ وہاں جماعت نارتھ کے صدر ہیں۔ آپ مکرم سید بشیر احمد شاہ دواخانہ خدمت خلق ربوہ والے کے صاحبزادے ہیں۔ آپ نے بتایا کہ ہماری جماعت کے شیخ خورشید احمد مع بیگم بھی یہاں موجود ہیں۔ شیخ صاحب کا آبائی تعلق فیصل آباد سے ہے۔ ستر کی دھائی میں یہ جرمنی آئے تھے اور جماعت ہمبرگ کی ضیافت ٹیم کا حصہ تھے۔ جماعت جرمنی نے جلسہ سالانہ کا آغاز ہمبرگ سے کیا تھا اور ابتدائی جلسہ ہائے سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی پر شیخ خورشید احمد کو کمر بستہ ان آنکھوں نے دیکھا ہے۔ ان کے علاوہ سسکاٹون سے سید خالد ظفر صاحب بھی حضور کی محبت میں یہاں پہنچے ہیں۔ آپ نے تین ہزار دو سو کلو میٹر کا سفر اپنے ذاتی ٹرک پر طے کیا۔
افتخار احمد خان۔ شکاگو
Dallas سے شکاگو کی مسافت ایک ہزار میل سے زیادہ بتائی جاتی ہے اور وہاں سے کئی دوست تشریف لائے ہوئے ہیں اور ابھی جمعہ کے روز مزید کئی دوست تشریف لا رہے ہیں۔ مکرم افتخار احمد صاحب کا تعلق صوبہ پختون خواہ کے معروف احمدی خاندان سے ہے۔ آپ خان شمس الدین خان صاحب مرحوم سابق امیر ضلع پشاور کے پوتے اور مکرم انوار احمد صاحب کے صاحبزادے ہیں جو 1975ء میں پشاور سے امریکہ نقل مکانی کر گئے تھے۔ عزیزم افتخار احمد کی پیدائش امریکہ کی ہے۔ آپ Dallas میں مہمان ہونے کے باوجود ہمہ وقت خدمت میں مصروف دیکھے گئے۔ ان کے چہرے پر بشاشت اور مسکراہٹ ہر وقت موجود رہتی ہے۔ بقول ان کے خوشی کے دن ہیں۔ حضرت صاحب کبھی کبھی آتے ہیں۔جو وقت بھی ان کی قربت میں گزر جائے ہمارے لیے تاریخی لمحات ہیں اس لیے میں یہاں ہزار میل دور موجود ہوں۔
رضوان احمد
Milwaukee سے یہاں موجود ہیں جو ایک ہزار ایک سو میل کے فاصلہ پر ہے۔ ان کے والد مودود احمد 1970ء کے شروع میں جرمنی آئے تھے اور پھر جلد امریکہ منتقل ہو گئے۔ یہ امریکہ میں پیدا ہوئے۔ خلافت اور سلسلہ کی محبت میں بتاتے ہیں کہ میں نے حضور کے سارے ٹور کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر لیا ہے۔ پہلے زائن کے سیٹ اپ میں پوری مدد کی اب جہاز پر یہاں Dallas آکر خدمت کر کے خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ اس طرح حضور کو روزانہ دیکھنے،حضور کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے کا نادر موقع مل جاتا ہے۔ ایک روحانی سرور حاصل ہوتا ہے۔ رضوان صاحب Milwaukee کی جماعت میں سیکرٹری جائیداد اور مجلس انصاراللہ امریکہ میں نیشنل آڈیٹر کے طور پر خدمت کی توفیق بھی پا رہے ہیں۔