کونگو کنشاسا کے صوبہ Mai-Ndombeمیں نسلی فسادات اور جماعت احمدیہ کی خدمت انسانیت
کونگو کنشاسا کے صوبہ Mai-Ndombeکے علاقہ Kwamouthمیں ماہ جولائی 2022ء میں دو قبائل Tekeاور Yaka کے درمیان نسلی فسادات شروع ہوگئے۔ ان دونوں قبائل کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ مکئی کی فصل کی کٹائی پر Yakaقبیلہ کے لوگ Tekeقبیلہ کو ایک تھیلا مکئی کا دیں گے لیکن جب کٹائی کا وقت آیا تو Tekeقبیلہ جو تعداد اور طاقت میں زیادہ ہیں نے ایک کی بجائے پانچ تھیلوں کا مطالبہ کر دیا جس پر Yakaقبیلہ نے انکار کر دیا اور فسادات شروع ہو گئے۔ Yakaقبیلہ والوں کے گھر جلا دیے گئے ان کی دکانیں لوٹ لی گئیں اور جہاں پر موقع ملا وہاں Tekeقبیلہ کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔ پولیس اور قیام امن کے ضامن حکومتی ادارے کوئی روک تھام نہیں کر سکے۔ صوبہ کا دارالحکومت شہر Inongoہے جو متاثرہ علاقہ سے تین سو کلومیٹر ہے۔ زمینی راستہ محدود ہونے کی وجہ سے زیادہ تر دریائی راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے بروقت کوئی کارروائی نہیں کی جا سکی۔ دریا کے پار بالکل ساتھ والا شہر Bandunduہے جو صوبہ Kwiluکا صدر مقام ہے۔ وہاں کے حکومتی اداروں نے یہ کہہ کر کوئی کارروائی نہیں کی کہ یہ علاقہ ہماری حدود سے باہر ہے۔
ہماری جماعتیں اکثر باندوندو کنشاسا روڈ پر ہیں۔ Masiambio، Bisiala، caccampbanku.تین معلم سنٹر ہیں بیس کے قریب جماعتیں ہیں۔ اس سیزن میں اکثر لوگ اپنی فرم پر کھیتی باڑی کر رہے ہوتے ہیں۔ گاؤں میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ ان علاقوں کے احمدی احباب اکثر نقل مکانی کرگئے۔ Bisila کے لوگ جنگل میں بھاگ گئے نیز کچھ دریا کراس کر کے کوویلو اور کوانگو کے دیہاتوں کی طرف چلے گئے۔ Camp Bankuکے اکثر لوگ ابھی ادھر موجود تھے جب کے کچھ لوگ باندوندو شہر آگئے۔
اس کے علاوہ جو احمدی Yaka قبائل سے تعلق رکھتے تھے وہ ان بڑے گاؤں میں پناہ گزین ہوگئے جہاں ان لوگوں کی اکثریت ہے اور Tekeقبائل سے تعلق رکھنے والے احمدیوں کا بھی یہی حال رہا۔
ان فسادات کی وجہ سے بڑی تعداد میں پناہ گزین باندوندو شہر میں داخل ہوئے جن کو صوبائی حکومت نے باندوندو شہر کی سب سے بڑی مارکیٹ maleboکے علاقے میں جگہ دی ان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد عورتوں اور بچوں پر مشتمل تھی۔حکومت بڑے پیمانے پر ان کی امداد کی اپیل کر تی رہی۔
الحمد للہ جماعت احمدیہ باندوندو ریجن کو مورخہ 17 ستمبر کو 500 سے زائد افراد کو اشیائے خور و نوش اور دیگر ضروری اشیاء تقسیم کرنے کی توفیق ملی۔ اگرچہ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد اور پیش آمدہ نقصان کے سامنے یہ امداد بہت کم تھی لیکن کسی بھی مذہبی تنظیم کی طرف سے کی جانے والی واحد کوشش یہی تھی جس کی وجہ سے مقامی اور غیر ملکی میڈیا یہاں تک کہ حکومتی عہدیداران نے بھی اس کاوش کو سراہا۔
خدام اور لجنہ اماء اللہ کی ایک ٹیم نے نمازِ فجر کے فوراً بعد کھانے کی تیاری شروع کی جس میں گائے کا گوشت اور فوفو شامل تھا تقریباً دوپہر تین بجے کھانا تیار ہوا پھر تیار شدہ کھانے کو تقسیم کی جگہ پر لے جایا گیا اورخدام نے تقریباً دو گھنٹے سے زائد وقت میں ان پناہ گزینوں میں تقسیم کیا۔ اس موقع پر منتظمین نے جماعت کا شکریہ ادا کیا اور اس کاوش کو سراہا۔
مقامی اور ملکی میڈیا نے اس کو خصوصی کوریج دی۔ اقوام متحدہ کے امن مشن کے ریڈیو Okapi نے فرنچ زبان کے علاوہ مقامی زبانوں Lingala اور Kikongo میں خبریں نشر کیں نیز اپنے Twitter اکاؤنٹ جس کے ایک ملین سے زائدFollowers ہیں پر اس خبر کو ٹویٹ کیا نیز اپنے فیس بک پیج جس کے Followers بارہ لاکھ سے زائد ہیں پر اس خبر کی پوسٹ لگائی نیز ابھی تک 20سے زائد اخبارات کی ویب سائٹس یہ خبر لگا چکے ہیں۔
کونگو کی نیوز ایجنسی Acpنے اس خبر کو شائع کیانیز ٹی وی چینل RTNC ,RTBd,Tele 50 نے اس خبر کو اپنے خبرنامہ میں جگہ دی۔اس کے علاوہ 5 سے زائد ریڈیو زنے اس پروگرام کی خبریں نشر کیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دو ملین سے زائد افراد تک پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیاکے ذریعہ جماعت کا تعارف پہنچا۔
اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً متاثرین پناہ گزینوں میں جماعت احمدیہ Bandundu ریجن اشیائے خور و نوش تقسیم کرتی رہی۔ان فسادات میں اب تک 180؍اموات ہو چکی ہیں اور تیس ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور مالی نقصان کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔
(رپورٹ: شاہد محمود خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)