خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ ۱۷؍فروری ۲۰۲۳ء
پیشگوئی مصلح موعود کی مناسبت سے سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بعض علمی کارناموں پر غیراز جماعت اہل علم کے تاثرات کا بیان
٭…تفسيرِ صغير کي اشاعت سے اس روح آفرين سعي ميں اضافہ ہوا ہے… قرآن مجيد کو اس خوب صورتي سے طبع کراکے شائع کرنا ايک بہت بڑي خدمتِ اسلام ہے(ہفت روزہ قندیل)
٭…اگر ہم اس کام کو اسلام کے ذوقِ علمِ تحقيق کي عظيم يادگار کہہ کر پيش کريں توکوئي مبالغہ نہ ہوگا(اے آر بري بابت انگریزی تفسیر قرآن)
٭… اگر يہ آواز يورپ اور امريکہ کے انگريزي خوان طبقہ ميں پھيلائي جائے بلکہ خود اہلِ ہندوستان اور اہلِ مشرق کے درميان پھيلائي جائے تو يقيناً اثر دکھلائے گي(مصر کے سکالر عباس محمود بابت ’نظام نو‘)
٭…آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے جو علم و عرفان عطا فرمایا تھا اس کا بڑے سے بڑا عالم بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔آپؓ کا دیا ہوا لٹریچر ایک جماعتی خزانہ ہے۔آپؓ کے خطبات، خطابات وغیرہ جو شائع شدہ ہیں ہمیں انہیں پڑھنا چاہیے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍فروری ۲۰۲۳ء بمطابق ۱۷؍تبلیغ ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۱۷؍فروری ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے کہ ۲۰؍فروری کا دن جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالےسےیاد رکھا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے جماعتوں میں جلسے بھی ہوتے ہیں۔ یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعودؑ کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت کی تھی جوبہت سی خوبیوں کا مالک ہوگا۔
حضورِانور نے پیشگوئی مصلح موعودکے الفاظ پیش فرمائے اور اس کےبعد پیشگوئی کی مدت کے اندر حضرت مصلح موعودؓ کی ولادت اور آپؓ کے اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا مختصر تذکرہ فرمایا۔
حضورِانورنےفرمایا کہ اس وقت مَیں حضرت مصلح موعودؓ کے علمی اور بعض دیگر کارناموں کا ذکر کروں گا۔ لیکن اس سے پہلےیہ بات سامنےرہنی چاہیےکہ حضرت مصلح موعودؓ کا بچپن صحت کے لحاظ سے بہت کمزوری میں گزراتھا۔ دنیاوی لحاظ سے آپؓ کی تعلیم نہ ہونےکےبرابر تھی۔ لیکن چونکہ آپؓ کے علوم ظاہری وباطنی سے پُر ہونے کا خداکا وعدہ تھااس لیے خداتعالیٰ نےآپؓ سےعقل کو دنگ کردینے والے خطبات اور خطابات کروائے۔ ایسے ایسے مضامین آپؓ نے لکھے جو اپنی مثال آپ ہیں اور غیر بھی ان کے معترف ہیں۔آج اس حوالے سےمَیں بعض حوالے پیش کروں گا۔لیکن اس سے پہلے مَیں آپؓ کی تصانیف، خطبات، مضامین،تقاریر، مجالسِ عرفان وغیرہ کی تعداد اور حجم کا ایک جائزہ پیش کرتا ہوں۔
آپؓ کی جوکتب خطابات ،لیکچرز، پیغامات اور مضامین وغیرہ شائع ہوئے یا اب تقریباً مکمل ہیں اور شائع ہونےکےلیے تیار ہیں ، جو انوار العلوم کی شکل میں شائع ہوتےہیں ،ان کی کُل ۳۸؍جلدیں بن جائیں گی اور ان کی تعداد ۱۴۲۴؍ہے۔ کُل صفحات اندازاً ۲۰۳۴۰؍ہوجائیں گے۔ تفسیرِ کبیر، تفسیرِ صغیر اور دیگر تفسیری مواد کےصفحات کی تعداد ۲۸۷۳۵؍ہے۔ ۱۸۰۸؍خطباتِ جمعہ، ۵۱؍خطباتِ عید الفطر، ۴۲؍خطباتِ عید الاضحی ، ۱۵۰؍خطباتِ نکاح، خطاباتِ شوریٰ جلد اوّل اور سوم شائع ہوئی ہےاس کے صفحات ۲۱۳۱؍ہیں۔ اگر تمام صفحات کو اکٹھا کیا جائےتو یہ تقریباً پچھتّر ہزار صفحات بنتے ہیں۔
حضورِانور نے ریسرچ سیل کے حوالےسے ایسے مضامین، تقاریر اور مجالسِ عرفان کا جائزہ بھی پیش فرمایا جو ابھی تک شائع نہیں ہوئے۔فرمایا کہ یہ ایک وسیع علمی ذخیرہ ہے۔اس وقت مَیں پہلے آپؓ کے علمی کارناموں میں سے قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کے کچھ کوائف اور غیروں کے بعض تبصرے پیش کرتا ہوں۔ تفسیرِ کبیر میں آپؓ نے ۵۹؍سورتوں کی تفسیر فرمائی ہے جو دس جلدوں میں شائع شدہ ہے۔آپؓ کے بہت سے تفسیری نوٹس بھی ملے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہےکسی وقت یہ بھی شائع ہوجائیں گے۔ بامحاورہ ترجمہ قرآن کا بہت بڑا کام آپؓ کا تفسیرِ صغیر کی صورت میں ہے۔
علامہ نیاز فتح پوری تفسیرِ کبیر کےمتعلق کہتے ہیں :تفسیرِ کبیر جلد سوم میرے سامنے ہے مَیں اسے بڑی نگاہِ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویۂ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔
سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآبادی کہتے ہیں کہ نواب بہادر یار جنگ اپنی صحبتوں میں تفسیرِ کبیر کااکثر ذکرکیا کرتے تھےاور اس کی عظمت کا ہمیشہ اعتراف کیا کرتے۔
مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے حضرت مصلح موعودؓ کے انتقال پر لکھا کہ قرآن وعلومِ قرآنی کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی اور اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں ان کا صلہ اللہ انہیں عطا فرمائے۔
اخبار امروز لاہور نے تفسیرِ صغیر کے متعلق لکھا کہ اس وقت تفسیرِ صغیر پیشِ نظر ہے۔ یہ تفسیر احمدیہ جماعت کےپیشوا الحاج مرزا بشیرالدین محمود مرحوم کی کاوشِ فکر کا نتیجہ ہے۔ قرآن کے عربی متن کے اردو ترجمے کےساتھ کئی مقامات کی تشریح کےلیےحواشی اور تفسیری نوٹ دیے گئے ہیں۔ترجمے اورحواشی کی زبان نہایت سادہ اور عام فہم ہے۔
ہفت روزہ قِندیل نے ۱۹۶۶ءمیں لکھا کہ تفسیرِ صغیر کی اشاعت سے اس روح آفرین سعی میں اضافہ ہوا ہے۔ ترجمہ اور تفسیر میں یہ التزام بھی ہے کہ جملہ تفاسیر متقدمین آخر تک پیشِ نظر رکھی گئی ہیں۔قرآن مجید کو اس خوب صورتی سے طبع کراکے شائع کرنا ایک بہت بڑی خدمتِ اسلام ہے۔
حضورِانور نےفرمایا کہ پاکستان میں آج کل کے علماءیہ کہتے ہیں کہ تفسیرِ صغیر میں تحریف کی گئی ہے۔اس لیے یہ تفسیر پاکستان میںban ہے،کوئی شخص اسے اپنے گھر میں بھی نہیں رکھ سکتا۔ جبکہ ان کے اپنے پرانے، انصاف پسند لوگ کہتے ہیں کہ اس جیسی کوئی چیز ہی نہیں ہے اور یہ قابلِ تعریف چیز ہے۔اللہ تعالیٰ آج کل کے علماء کوبھی انصاف کی نظر سے دیکھنے کی توفیق دے۔ آمین
پھر انگریزی تفسیرِ قرآن کے دینی اور ادبی محاسن نے یورپ کے چوٹی کے اہلِ علم کومتاثر کیاانہوں نےاس کے شان دار ریویو کیے۔ مثلاً مشہور سکالر اے آر بری کہتے ہیں کہ تفسیر کے شروع میں ایک تفصیلی دیباچہ ہےجو خود مرزا بشیرالدین محمود احمد نے رقم کیا ہے۔ اگر ہم اس کام کو اسلام کے ذوقِ علمِ تحقیق کی عظیم یادگار کہہ کر پیش کریں توکوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس کی تیاری کے ہر مرحلے پر مستند کتب تفسیر و لغت اور تحقیق وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ترجمے کی انگریزی غلطیوں سے پاک اور بڑی باوقار ہے۔ غیرمسلموں کے اعتراضات کا ردّ بھی اس میں ہے۔
حضرت مصلح موعود ؓکا علمی خزانہ جو تقاریر کی شکل میں آپؓ نے ہمارے سامنے رکھا اسے غیروں نے کس طرح دیکھا اس حوالے سے مثلاً آپ کا ایک خطاب بعنوان ’نظامِ نَو‘ ہے۔ اس کے متعلق مصر کے سکالر عباس محمود کہتے ہیں اگر یہ آواز یورپ اور امریکہ کے انگریزی خوان طبقہ میں پھیلائی جائے بلکہ خود اہلِ ہندوستان اور اہلِ مشرق کے درمیان پھیلائی جائے تو یقیناً اثر دکھلائے گی۔
پھر ’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘ آپؓ کا ایک لیکچر ہے۔ایسا عالمانہ اور تاریخ اسلام پر عبوررکھنے والا لیکچر تھا کہ بڑے بڑے تاریخ دان بھی حضورؓ کے سامنے خود کوطفلِ مکتب سمجھنے لگے۔ سیدعبدالقادر صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سےپہلے کبھی نہیں گزرا ہوگا۔
آپؓ کا ایک خطاب اسلام کے اقتصادی نظام سے متعلق بھی تھا۔ یہ تقریر اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے ہزاروں لوگوں نے اسے سنا۔لالہ رام چند مچنداایڈووکیٹ لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ مجھے اس تقریر سے بہت فائدہ ہوا ہے ۔ پہلے تو مَیں سمجھتا تھا اور یہ میری غلطی تھی کہ اسلام اپنے قوانین میں صرف مسلمانوں کا ہی خیال رکھتا ہے ، مگر آج حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے۔
۱۹۲۴ءمیں جب حضورؓ یورپ تشریف لے گئےتو راستےمیں عرب ممالک میں بھی قیام فرمایا۔ اس حوالے سے اخبار ’فتح العرب‘ دمشق نے اپنی ۱۰؍اگست ۱۹۲۴ءکی اشاعت میں لکھا کہ خلیفہ صاحب اپنی عمر کے چالیسویں سال میں ہیں ۔ منہ پر سیاہ کشادہ داڑھی رکھتے ہیں، چہرہ گندم گوں ہے اور جلال و وقار چہرے پر غالب ہے۔دونوں آنکھیں ذکا اور ذہانت اور غیرمعمولی علم و عقل کی خبر دیتی ہیں۔ آپ ان کے چہرے کے خد و خال میں جبکہ وہ اپنی برف کی مانند سفید پگڑی پہنے کھڑے ہوں یہ دماغی قابلیتیں دیکھیں تو آپ کو یقین ہوجائے گا کہ آپ ایک ایسے شخص کے سامنے ہیں کہ جو قبل اس کےکہ آپ اسے سمجھیں وہ آپ کو خوب سمجھتا ہے۔ آپ کے لبوں پر تبسم کھیلتا رہتا ہے جو کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ ہوجاتا ہے۔ اگر آپ اس تبسم کے نیچے جو معنی ہیں اور جو جلال ہوتا ہے اسے دیکھیں تو آپ حیران ہوجائیں گے۔
اس طرح کے بےشمار تاثرات ہیں ۔ مواد بہت سا تھا جو جمع کروایا تھا۔لیکن وقت کی وجہ سے خلاصے کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ جو باتیں پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بتائی تھیں وہ سب کی سب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی شخصیت میں پوری ہوئیں۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے جو علم و عرفان عطا فرمایا تھا اس کا بڑے سے بڑا عالم بھی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ آپؓ کا دیا ہوالٹریچر ایک جماعتی خزانہ ہے۔ آپؓ کے خطبات، خطابات وغیرہ جو شائع شدہ ہیں ہمیں انہیں پڑھنا چاہیے۔ اب ترجمے کا کام بھی ہورہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس علمی خزانے سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین