پیشگوئی مصلح موعود (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ فروری 2018ء)
آجکل ان دنوں میں جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں پیشگوئی مصلح موعود کی مناسبت سے یوم مصلح موعود کے جلسے منعقد کئے جا رہے ہیں ۔ 20؍فروری کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر ایک بیٹے کی پیدائش کی خبر دی تھی جس کی مختلف خصوصیات بیان کی گئی تھیں ۔ اس بارے میں اشتہار شائع فرمایا تھا۔ یہ اشتہار 20؍فروری 1886ء کو شائع ہوا۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس مناسبت سے جہاں ممکن ہے وہاں 20؍فروری کو یوم مصلح موعود منایا جاتا ہے اور جہاں اس تاریخ کو سہولت میسر نہ ہو وہاں تاریخیں آگے پیچھے کر لی جاتی ہیں ۔ یوم مصلح موعود کا منایا جانا اور اس کے حوالے سے جلسے منعقد کرنا اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک عظیم پیشگوئی کے پورا ہونے کی وجہ سے ہے نہ کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی کی پیدائش کی وجہ سے۔ یہ وضاحت مَیں نے اس لئے کی ہے کہ بعض لوگ اور یہاں کی نئی نسل، نوجوان یا کم علم یہ سوال کرتے ہیں کہ یوم مصلح موعود جب مناتے ہیں تو پھر باقی خلفاء کے یومِ پیدائش کیوں نہیں مناتے۔ ایک تو یہ بات واضح ہو کہ یہ دن حضرت مصلح موعود کی پیدائش کا دن نہیں ہے۔ آپ کی پیدائش تو 1889ء میں 12؍جنوری کو ہوئی تھی۔
پس اس وضاحت کے بعد آج مَیں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے بات کروں گا۔ سب سے پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں اس پیشگوئی کے الفاظ پیش کروں گا اور پھر یہ بھی کہ آپ کی تحریروں سے یہ بات بھی ثابت ہے اور آپ کا یہ خیال تھا کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی تھے۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا بھی یہی خیال تھا۔ بعض دوسرے بزرگان کا بھی یہ خیال تھا کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ہی ہیں ۔ …سب سے پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں اس پیشگوئی کے الفاظ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’پیشگوئی جو خود اس احقر سے متعلق ہے آج 20؍ فروری 1886ء میں جو مطابق پندرہ جمادی الاول ہے برعایت ایجاز و اختصار کلمات الہامیہ نمونہ کے طور پر لکھی جاتی ہے اور مفصّل رسالہ میں درج ہوگی۔‘‘ (یعنی بعد میں ۔) ’’انشا ءاللہ تعالیٰ‘‘۔ فرمایا کہ ’’پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ و اِعلامہٖ عزّوجلّ خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جلّ شانہٗ و عزّاِسْمُہٗ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایاکہ مَیں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تُو نے مجھ سے مانگا۔ سو مَیں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے)تیرے لئے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں ۔ اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔ اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔ اور تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں ۔‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ قادر ہے) ’’اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں ۔ اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کوانکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک (لڑکا) تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تُخم سے تیری ہی ذر یّت و نسل ہوگا‘‘۔ (یعنی آپ کی جسمانی اولاد ہو گی۔ اور آپ کی نہ صرف جسمانی اولاد ہو گی بلکہ آپ ہی کی اولاد ہو گی) فرمایا کہ’’خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے۔ اور وہ رِجس سے پاک ہے۔ وہ نور اللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے۔ کیونکہ خدا کی رحمت و غیّوری نے اسے اپنے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔ …… دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند۔ گرامی ارجمند۔ مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ۔ مَظْہَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَا۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اَسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَ کَانَ اَمْرًا مَقْضِیًّا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 647)تو یہ مصلح موعود کی پیشگوئی کے وہ الفاظ تھے۔
پھر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی کے بارے میں اس پیشگوئی کے حوالے سے آپ فرماتے ہیں کہ
’’ایسا ہی جب میرا پہلا لڑکا فوت ہو گیا تو نادان مولویوں اور ان کے دوستوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں نے اس کے مرنے پر بہت خوشی ظاہر کی اور بار بار ان کو کہا گیا کہ 20؍فروری 1886ء میں یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ بعض لڑکے فوت بھی ہوں گے۔ پس ضرور تھا کہ کوئی لڑکا خورد سالی میں فوت ہو جاتا۔ تب بھی وہ لوگ اعتراض سے باز نہ آئے۔ تب خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے لڑکے کی مجھے بشارت دی۔ چنانچہ میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اس دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے۔ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’وہ اگرچہ اب تک جو یکم ستمبر 1888ء ہے۔‘‘ (اب یہ اعلان آپ ستمبر 1888ء میں فرما رہے ہیں کہ اگرچہ وہ اب تک جو یکم ستمبر 1888ء ہے) ’’پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا۔ زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں ‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی جس کے مطابق جنوری 1889ء میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہے اور سترھویں سال میں ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 373-374)پہلے جو مَیں نے بتایا تھا وہ پہلے کی ایک تحریر ہے۔ پھر بعد میں آگے ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں آپ نے جو لکھا ہے وہ مَیں نے بیان کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس بارے میں اَور بھی حوالے ہیں ۔ لیکن مزید حوالوں کی بجائے اب مَیں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا آپ کے مقام کے بارے میں کیا خیال تھا، اس بارے میں ایک روایت پیش کرتا ہوں ۔ پیر منظور محمد صاحب بیان کرتے ہیں ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات سے چھ ماہ قبل حضرت پیر منظور محمد صاحب مصنف قاعدہ یسرناالقرآن نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے آج حضرت اقدس علیہ السلام کے اشتہارات پڑھ کر پتا مل گیا کہ پسر موعود میاں صاحب ہی ہیں ۔ (یعنی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد۔) اس پر حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا۔ ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کس خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں ‘‘۔ پیر صاحب موصوف نے یہی الفاظ لکھ کر تصدیق کے لئے پیش کئے تو حضرت خلیفہ اوّل نے اس پر تحریر فرمایا۔’’یہ لفظ مَیں نے برادرم پیر منظور محمد سے کہے ہیں ‘‘۔ (اور پھر دستخط فرمائے۔) ‘‘نور الدین 10؍ستمبر 1913ء۔‘‘
آپ فرماتے ہیں کہ 11؍ستمبر 1913ء کی شام کے بعد (اوپر والے واقعہ کے اگلے روز جو بیان کیا گیا ہے) حضرت خلیفۃ المسیح گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے مَیں پاؤں سہلانے لگ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بغیر کسی گفتگو اور تذکرے کے خود بخود فرمایا۔’’ (یعنی حضرت خلیفہ اول نے کہ) ’’ابھی یہ مضمون شائع نہ کرنا۔‘‘ (یعنی یہ بات کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں ۔) ’’جب مخالفت ہو اس وقت شائع کرنا۔‘‘ (پسرموعود صفحہ 27۔ ماہنامہ خالد سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نمبر۔ جون، جولائی 2008ء صفحہ 75-76)ایک بزرگ مکرم غلام حسین صاحب نمبر دار محلہ اراضی یعقوب شہر سیالکوٹ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو آپ کے مصلح موعود ہونے کے اعلان کے بعد لکھا کہ’’میرے پیارے پیشوا، ہادی و رہنما حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز …….۔ اخبار الفضل 30؍ جنوری پڑھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں ۔ الحمدللہ کہ میری رؤیا کو بھی خدا تعالیٰ نے سچا کر دکھایا ہے۔‘‘ لکھتے ہیں کہ ’’حضور کو معلوم ہو گا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی زندگی میں خاکسار نے دفتر الفضل میں بموجودگی شادی خان صاحب مرحوم سیالکوٹی حضور کو مبارکباد دی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو رؤیا میں دکھلایا ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کے بعد آپ خلیفہ ہوں گے اور کامیاب ہوں گے اور آپ پر وحی بھی نازل ہو گی۔ یہ رؤیا میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو بھی سنایا تھا اور حضور نے بہت ہی خوش ہو کر تصدیق کی تھی اور فرمایا تھا کہ اسی لئے اس کی سخت مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ سید حامد شاہ صاحب مرحوم کو بھی یہ رؤیا سنایا تھا۔ الحمد للہ کہ حضور نے خود بھی مصلح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے‘‘۔ (کیونکہ حضرت مصلح موعودنے یہ اعلان 1944ء میں کیا تھا۔) کہتے ہیں کہ ’’ورنہ مجھ کو تو حضرت خلیفۃالمسیح اول کی زندگی میں ہی آپ کے خلیفۃ اللہ اور مصلح موعود ہونے کا حق الیقین ہو گیا تھا۔‘‘ (الفضل قادیان جلد 32نمبر 44مورخہ 20؍ فروری 1944ء صفحہ 19)
اسی طرح ایک اور بزرگ مکرم صوفی مطیع الرحمٰن صاحب بنگالی، حضرت مصلح موعود کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں ۔ (مصلح موعود کا جو اعلان ہوا تھا اس کے بعد یہ انہوں نے لکھا تھا) کہ ’’مَیں اپنا ایک خواب بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں ۔ یہ رؤیا میں نے تئیس یا چوبیس سال پہلے دیکھا تھا۔ ایک دفعہ پہلے بھی حضور پُر نور کی خدمت میں لکھ چکا ہوں ۔ اب حضور اقدس کے مصلح موعود ہونے کا دعویٰ کرنے پر مجھے اس بات پر یقین ہوگیا کہ یہ رؤیا اس پیشگوئی کے متعلق ہے۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ عید کا جلسہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک نہایت ہی بلند مقام پر کھڑے ہو کر سبز چوغہ زیب تن کئے خطبہ فرما رہے ہیں ۔ خطبہ ختم ہونے پر جب میں مصافحہ کے لئے بڑھا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہیں بلکہ حضور انور ہیں ۔‘‘ (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ہیں ۔) ’’یہ خواب مَیں نے اپنے مکرم کپتان ڈاکٹر بدرالدین صاحب اور اپنے بھائی جناب مولوی ظلّ الرحمن صاحب مبلغ بنگال کی خدمت میں بیان کیا۔ مولوی ظلّ الرحمن صاحب نے بتایا کہ تم کو حضرت امیر المؤمنین کے متعلق پیشگوئی کہ ’’حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا‘‘ دکھائی گئی۔‘‘ (الفضل قادیان جلد 32نمبر 199مورخہ 25؍اگست 1944ء صفحہ 2)۔ (پیشگوئی کے الفاظ یہ بھی ہیں کہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا۔ )اسی طرح حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی کا بیان ہے کہ ’’ہم نے بارہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار سنا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ لڑکا جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے وہ میاں محمود ہی ہیں ۔ اور ہم نے آپ سے یہ بھی سنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ’’میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ مَیں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں ۔‘‘(الحکم 28؍دسمبر 1939ء۔ ماہنامہ خالد سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نمبر۔ جون، جولائی 2008ء صفحہ 38)