طلوعِ براہینِ احمدیہ کے وقت مطلعِ عالم
حضرت مسیح موعودؑ نے اس کتاب کی تالیف کے ذریعے وہ خدمت سرانجام دی جو مذہب کی ٹمٹماتی شمع کی حفاظت کا کام کرگئی
ظہورِ اسلام اور ظہورِ مسیح و مہدی کا درمیانی وقفہ ہمیشہ غیر معین رہا۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ نے ظہورِ مسیح و مہدی کو قیامت کی نشانی قرار دیا مگر قیامت کا معین وقت دریافت کیے جانے پر ہمیشہ لاعلمی کا اظہار فرمایا کہ اس ساعت کا علم صرف خدا کی ذات کو ہے۔
ایک کشف میں تو بعض انبیاء علیہم السلام سے خود آنحضورﷺ نے بھی دریافت فرمایا اور انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ ہاں وہاں سے بھی ظہورِ مسیح ومہدی ہی کو بطور نشانی پایا اور اسے بیان فرمادیا۔
اصحابِ رسول کی بہت سی روایات کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الساعۃ کے ظہور کے وقت کی تعیین ہمیشہ ایک مرغوب فکری بحث رہی مگر اسے مستقبل قریب کی توقعات میں رکھا گیا۔ مگر توقعات کا یہ سلسلہ سالوں اور دہائیوں پر پھیلتا ہوا صدیوں پر محیط ہوتا چلا گیا اور قیامت نہ آئی۔ مگر یہ کون کہتا ہے کہ قیامت نہ آئی۔ زیادہ درست تو یہ کہنا ہوگاکہ امتِ مسلمہ پر کون سی قیامت تھی جو نہ آئی۔
خود آنحضورﷺ تو قیامت کو صدیوں کے فاصلے پر ہی دیکھتے تھے ورنہ ہر صدی کے سر پر مجدد کے آنے کی خبر کا جواز نہ رہتا۔ اور پھر امت کے بگاڑ کا جو نقشہ پیش فرمایا وہ بھی صدیوں ہی میں آیا کرتا ہے۔ امت نے یہود کی طرح ستّر سے زائد فرقوں میں تقسیم بھی تو ایک دو برس یا ایک دو دہائیوں میں نہ ہونا تھا۔ اس کے لیے بھی تو صدیاں درکار تھیں۔
اور اس تفرقہ کے ظہورپذیر ہونے میں جو عوامل کارفرما ہونے تھے، وہ علمیت کی منتہا ہی سے جنم لیا کرتے ہیں۔ اس عرصہ میں احادیث کی تدوین کا عظیم الشان کام ہوا۔ انہی روایات سے سیرت النبی ﷺ ترتیب پائی۔ یوں قرآن اور حدیث اور سنت سے مکاتبِ فقہ وضع ہوئے۔ ان کے باہمی مباحث نے علمِ تفسیر کو جنم دیا۔
یونانی فلسفہ کا رجحان بڑھا تو قرآن اور حدیث اور سنت اور ان سے جنم لینے والے تمام علوم تشکیک کی زد میں آئے۔تشکیک نے فلسفیانہ اور منطقی مباحث کو جنم دیا۔اور یوں امتِ مسلمہ نے وہ زمانہ بھی دیکھا جسے اسلامی تاریخ کا زریں عہد کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ اسی زریں عہد میں سائنس مسلمانوں کے گھر کی لونڈی بنی۔ ریاضی بھی مسلمانوں ہی کے آنگن میں پروان چڑھا۔
کہیں دینی علوم تشکیک اور سائنس کی زد میں آئے، کہیں انہوں نے سائنس کو مسترد کیا۔ اس جھگڑے سے اکتا کر علوم و فنون کی دیوی اہلِ یورپ پر مہربان ہوگئی۔ وہی یورپ جو مسلمانوں کے عہدِ زریں میں اندھیروں میں ڈوبا رہا، ادبدا کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس دور میں داخل ہوگیا جسے آج اہلِ مغرب renaissance یعنی احیائے نو کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
یورپیrenaissance کی بنیادیں تشکیک پر اٹھائی گئی تھیں۔ یورپی بادشاہوں نے خود کو خداکا چنیدہ قراردیا اور خدا کے نام پر استحصال کی انتہاؤ ں کو چھو لیا۔ یہاں تک کہ مزدور اور عامۃ الناس نے جب بادشاہوں کے روحانی منصب کو مسترد کیا تو ساتھ ہی خدا کو بھی مسترد کردیا کہ اسی کے نام پر استحصال کا یہ کارخانہ چلتا اور پنپتا رہا تھا۔یوں مذہب سے بیزاری کی فضا نے یورپی ذہن کو اپنے شکنجے میں لے لیا اور بہت سی فکری تحریکوں نے جنم لیا۔ یوںrenaissance اپنے ارتقا سے گزرتا ہوا Enlightenment کے دور میں داخل ہوا۔ یورپ کی فکری تاریخ میں اس دور کا یہ نام، جس کا قریب ترین ترجمہ ’’معرفت‘‘ ہوسکتا ہے، اس لیے اس نام سے موسوم ہوا کہ اس دور میں یورپی ذہن نے مذہب سے مکمل بیزاری اختیار کی اور وہ الحاد جو تشکیک کے لبادے میں پنپتا تھا، کھل کر سامنے آیا اور مذہب سے لاتعلقی کے رجحان کو فروغ دیا۔
یہاں تک کہ وہ وقت آپہنچا جب مذہب کو ایک لاشے محض قرار دے دیا گیا۔ بلکہ لاشے سے بڑھ کر ایک مضر شے قرار دے دیا گیا۔ 1843ء میں کارل مارکس (1818 ءتا 1883ء)نے مذہب کو عوام کے لیے افیون قراردیا یعنی ایک حربہ جس کے ذریعے ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کو سرد کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ مذہب سے بیزاری اور کراہت کی یہ لہر اس قدر زور سے پھیلی کہ 1882ء تک پہنچتے پہنچتے جرمن فلسفی نطشے(1844ء تا 1900ء) نے یہ نعرہ لگا دیا کہ خدا مرچکا ہے۔
یہاں یہ یاد رکھ لیں کہ یہ فکری لہر پوری قوت سےحضرت مسیح موعودؑ کی پیدائش کے وقت کے قریب اٹھی اور اس لہر کا قہر آپؑ کے دعوے کے قریب اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا۔
مگر ابھی تاریخ کا کچھ مزید تجزیہ ضروری ہے۔یاد رہے کہ ان فکری تحریکوں کی جڑیں سیاسیات اور اس سے جڑی معاشیات میں پیوست تھیں۔ جہاں یورپی بادشاہتوں کے ہاتھوں معاشی استحصال نے انسان کو خدا سے بددل کردیا تھا، وہاں انسان اپنی معاشرتی بدحالی کو دور کرنے اور خوش حالی کے حصول کے لیے بھی کوشاں تھا۔
حاکمِ وقت کے خلاف بغاوت کرنا رواج بن چکا تھا۔ صنعتی انقلاب نے مرد و زن کو معاشی کارخانے کا ایک پرزہ بنا دیا تھا۔ خوشحالی کی تلاش نے آشوبِ معاش کے ستائے ہوئے انسان کو کسی قدر کشائش تو دے دی، مگر اس کے دل و دماغ سے سکون کو ناپید کردیا۔ زندگی کی تیز رفتاری نے اسے یہ سوچنے ہی نہ دیا کہ یہ سکون وہ اس طویل سفر میں کہاں کھو آیاہے۔ خیال اس مذہب کی عدم موجودگی کی طرف کیسے جاتا کیونکہ اسے تو سخت کراہت کے ساتھ ترک کردیا گیا تھا۔ لہذا اس سکون کی تلاش میں یورپ کی سوسائٹی نے عیش و طرب کی وہ نہج اپنا لی جو آج یورپ کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔
یہاں صنعت و حرفت کے پجاری جدید انسان نے اپنی ذات کی تلاش کا سفر شروع کیا اور individualism کی لہر سے جالپٹا۔میں میں ہوں اور میں اپنے ذاتی وقت میں جو چاہے کر سکتا ہوں۔ جو چاہوں پہنوں، نہ چاہوں نہ پہنوں۔ جو چاہوں کروں، جو چاہوں نہ کروں۔یہ انسانی ذہن میں ابھرنے والے existential question (وجودیاتی سوال) کا جوابی ردِ عمل تھا جس نے انسان کو ہر چیز، ہر فکری تحریک، ہر مذہبی پابندی، ہر روحانی تقاضے کے خلاف اکسایا اور یہ ’آزادی‘ جدید انسان کا طرہ امتیاز ٹھہری۔ یہاں سے وجودیت (existentialism) کی فکری تحریکوں نے زور پکڑا اور بیسویں صدی کے اختتام پر انسان modernism (جدیدیت) کی حدیں پار کرکے post-modernism (مابعد الجدیدیت) کے لق ودق صحرا میں آپہنچا۔یہاں کسی بھی مذہبی عقیدے، فکری رجحان، سیاسی نظریے کی گنجائش ختم ہوگئی اور ہر چیز اسی تشکیک کی آگ کی زد میں آگئی جو کبھی مذہب کو نگل چکی تھی۔
تاریخی لحاظ سے یہ قیامِ جماعت احمدیہ کا زمانہ بنتا ہے۔مگر مذہب کے تاریخی مدوجزر پر ایک نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔
جہاں فلسفیانہ تحریکات اپنا زور دکھا رہی تھیں اور دنیا کو مذہب سے بددل کرنے میں منہ زور طاقت کا مظاہرہ کررہی تھیں، وہاں مذاہب کا ان تند و تیز آندھیوں سے مقابلہ بھی جاری تھا۔ آغاز میں یورپی کلیساؤں نے بھی مذہب کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے کوشش کی۔ (1643ءتا1727ء) Isaac Newton سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک راسخ العقیدہ عیسائی بھی تھا۔Renaissance کے دور کا فلسفی (1596ء تا 1650ء) Descartes بھی عیسائی تھا۔ انہوں نے اور ان کی طرح دیگر سائنسدانوں اور فلسفیوں نے مذہب کو ساتھ ساتھ زندہ رکھنے کی کوشش بھی کی۔ Oxford اور Cambridge کی یونیورسٹیز، جو آج دنیا کی عظیم دانشگاہیں خیال کی جاتی ہیں اور جہاں دہریت پنپتی ہے، اپنے آغاز میں مذہبی درسگاہوں کے طور پر ہی وجود میں آئی تھیں۔ ان سے الحاق رکھنے والے تعلیمی اداروں کے نام Jesus College, Trinity College, Magdalen College, Christ Church انہی زمانوں کی یادگار ہیں۔
اس دوران یورپی طاقتیں نوآبادیات قائم کرنے میں سرگرم ہوچکی تھیں۔ دنیا کے ہر خطے میں کسی نہ کسی یورپی طاقت کی عملداری تھی۔ مسیحی کلیساؤں (mission societies) نے یورپ کی مذہبی بیزاری سے اکتا کر نوآبادیات کا رخ کیا کہ وہاں کی مقامی آبادی کو مسیحیت کی آغوش میں لایا جائے۔
مسیحی مناد انجمنیں اس قدر منظم تھیں کہ ان کے مقابلے پر اس وقت دنیا کا کوئی بھی مذہب منظم نہ تھا۔ ان مسیحی تبلیغی انجمنوں کے آپس کے اختلاف اپنی جگہ، لیکن کوئی انجمن اگر Roman Catholic ہے، تو اس کی مضبوط تنظیمی بنیادیں اسے Vatican سے حاصل ہوتیں۔ اگر Protestant ہے تو کلیسائے انگلشیہ یعنی Church of England کی زبردست پشت پناہی اسے منظم کیے رکھتی۔ ایسی ٹھوس تنظیم کے لیے جو مالی استحکام درکار ہوتا ہے، وہ بھی انہی بڑی طاقتوں سے اخذ کیا جاتا۔ یہ مشن سوسائٹیز دنیا کے جس خطے میں بھی پہنچتیں، وہاں صرف مشن ہی قائم نہ کرتیں بلکہ تعلیمی ادارےاور ہسپتال بھی قائم کرتیں۔ ہندوستان میں تعلیمِ نسواں کے رجحان کا پیدا ہونا بھی بنیادی طور پر مشن زنانہ سکولوں کا ہی مرہونِ منت ہے۔
جب معالج مسیحی ہو، معلم مسیحی ہو، خوراک مہیا کرنے والا مسیحی ہو، ایسے میں تبلیغ کا کام تو آدھے سے بھی زیادہ ہوچکا۔رہی سہی کسر ان مذاہب کے بگڑے ہوئے عقائد پوری کردیتے۔ مثلاً ہندوؤں کے لیے چھوت چھات سےنجات کی لالچ کافی تھی۔ مسلمانوں کے لیے ایک وفات یافتہ نبی کے مقابلے پر آسمانوں پر بیٹھا ایک زندہ نبی زیادہ پرکشش تھا۔ مردہ نبی؍زندہ نبی کے تبلیغی حربہ کا سہرا عیسائی منادوں کی تاریخ پادری (1803ء تا 1865ء) Carl Pfanderکے سر باندھتی ہے۔اس نے اپنی کتاب ’’میزان الحق‘‘ میں دیگر دلائل کے ساتھ اس دلیل کو بھی بڑے فخر سے پیش کیا اور یہ دلیل بہت سے مسلمانوں کے ایمان کو لوٹنے میں کارگر ہوئی۔
ہندومت کے بعض مکاتب نے عیسائی منادوں کا مقابلہ یوں کیا کہ تبلیغ نہ کرنے کی روایت کو توڑا اور آریہ سماج جیسے فرقوں نے جنم لیا۔برہمو سماج والے تبلیغ کرنے کے تو حامی نہ ہوئے تاہم غیر مذہب سے ہندومت میں شامل ہونے کو روا قراردیا اور اپنے عقائد میں بنیادی تبدیلیاں واقع کرلیں۔جن میں کثیرالالٰہ عقیدے کو چھوڑکر ایک خدا کو ماننے کا عقیدہ عام کرنے کی کوشش کی۔
یہ اُس دور کی بات ہے جب حضرت مسیح موعودؑ سیالکوٹ میں بسلسلہ ملازمت مقیم اور عیسائی منادوں سے مباحثوں میں مشغول تھے۔یعنی ہندوستان میں 1860ء کی دہائی الحاد اور ارتداد کی موج کے عروج کا زمانہ تھا۔ یعنی 1857ء کے غدر کے فوری بعد کا زمانہ۔
غدر کے اردگرد کے زمانے میں ہندوستان کے مذہبی حلقوں بالخصوص مسلمان حلقوں میں ایک نئی دینی؍سیاسی بحث اپنے عروج پر پہنچی۔ غیر ملکی حکمران کے خلاف جذبات تو پائے ہی جاتے تھے، غیر مسلم حکمران کے زیر تسلط رہنے میں اس سیاسی صورتحال کو ایک دینی نہج دے دی۔ یعنی ہندوستان دارالاسلام ہے یا دارالحرب؟ یعنی انگریز ؍عیسائی حکمران کے خلاف جہاد کا سوال۔
اس سوال اور ایسے ہی اور سوالات کے نتیجے میں قرآن و حدیث کی وہ تفاسیر کی گئیں جو پہلے سے ہی منتشر مسلمانوں میں مزید انتشار اور تفرقہ پر منتج ہوئیں۔ قرآن کریم فکری مباحث کی زد میں آیا اور آیاتِ قرآنی کے ناسخ و منسوخ ہونے کی بحث کو اجاگر کیا گیا، تو مسلمانوں کے لیے تشکیک کے نئے دروازے کھلے۔ ہر مفسر اپنے فکری رجحان کے مطابق بعض آیات کو ناسخ اور بعض کو منسوخ قراردینے لگا۔ اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ(1703ء تا 1762ء) تو پانچ آیاتِ قرآنی کو منسوخ قراردے چکے تھے۔ یہ تمام کوششیں جس بھی نیت اور ارادے سے کی گئیں، اصل بنیاد قرآن کو عصرِ جدید میں قابلِ عمل ثابت کرنا اور اسلام کو ہر دور کے لیے بہترین اور آخری مذہب قراردینا تھا یا مغربی فکرکے زورآور حملوں کا جواب تراشنے کے لیے یا پھر اسلام کو مغربی فکر سے ہم آہنگ کرنے کی خاطر۔ مثلاً سر سید احمد خان (1817ء تا 1898ء)کی مسلمانوں کی بیداری کی تحریک کے بھلے نتائج سے انکار کرنا ناانصافی ہے مگر اس کے پیچھے یہی مغرب پرستی کارفرما تھی۔
پس ایسے الجھاؤ میں کیا اسلامی ہے، کیا غیر اسلامی، کیا درست ہے اور کیا غیر درست، یہ سب مسائل علماء اور مفکرین کی آرا پر آکر ٹھہر چکے تھے۔ سبھی اپنی دانست میں درست تھے اور دوسرے کے تئیں غیر درست۔ ایسے میں کسی ایسے فیصلے کی ضرورت تھی جو آرا سے بالاتر ہو اور حتمیت کے ساتھ اسلامی؍غیر اسلامی اور درست؍غیردرست کا محاکمہ کرسکے۔
ایسا فیصلہ صرف وحیٔ الٰہی کے ذریعہ سے ہی ہوتاآیا تھا۔ اور اب وقت تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے دین کے معاملات میں خود راہنمائی فرمائے۔ مگر یہی وہ وقت تھا جب وحی و الہام کے دروازے بند خیال کیے جاتے تھے۔ اور یہی وہ وقت تھا جب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ نے ’’براہین احمدیہ‘‘ تصنیف فرمائی۔
وحی و الہام کا دروازہ کھلنا
جیسا کہ اوپر ذکر گزرچکا ہے، یہ زمانہ مغربی فکری تحریکوں کی سخت زد میں تھا۔ اس دور میں علم اور اس کی صداقت (epistemology) کا سارا مدار حسیات اور عقل پر تھا۔ جو شے اس امتحان پر پورا اترتی، وہ شے، اور جو نہ اترتی وہ لاشے ٹھہرتی۔ حضرت مرزا صاحبؑ مغربی تحریکات سے جس قدر واقف تھے، وہ آپؑ کے قاری کو حیرت میں مبتلا کردیتا ہے۔ یہاں لفظ قاری دانستہ استعمال کیا ہے تاکہ یہ فضا برقرار رہ سکے کہ ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں۔
پس حضرت مرزا صاحب ؑ کو جدید فکری تحریکات سے بخوبی واقفیت تھی۔ براہینِ احمدیہ کے ابتدائی صفحات ہی اس علم کا پتا دینے کو کافی ہیں مگر آپؑ کی بعد کی تحریرات، اشتہارات اور ملفوظات اس امر پر مہرِتصدیق ثبت کرتے چلے جاتے ہیں۔
حضورؑ نے عقل اور حسیات کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کا انکار نہ کیا بلکہ یہ ثابت فرمایا کہ ’’اگر حکم عقل کا دنیا کے محسوسات اور مشہودات سے متعلق ہو جو ہر روز دیکھے جاتے یا سنے جاتے یا سونگھے جاتے یا ٹٹولے جاتے ہیں تو اس وقت رفیق اس کا جو اس کے حکم کو یقین کامل تک پہنچاوے مشاہدہ صحیحہ ہے کہ جس کا نام تجربہ ہے۔ اور اگر حکم عقل کا ان حوادث اور واقعات سے متعلق ہو جو مختلف ازمنہ اور امکنہ میں صدور پاتے رہے ہیں یا صدور پاتے ہیں تو اس وقت اس کا ایک اور رفیق بنتا ہے کہ جس کا نام تواریخ اور اخبار اور خطوط اور مراسلات ہے اور وہ بھی تجربہ کی طرح عقل کی دودآمیزروشنی کو ایسا مصفا کردیتا ہے کہ پھر اس میں شک کرنا ایک حمق اور جنون اور سودا ہوتا ہے اور اگر حکم عقل کا ان واقعات سے متعلق ہو جو ماوراء المحسوسات ہیں جن کو ہم نہ آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ کان سے سن سکتے ہیں اور نہ ہاتھ سے ٹٹول سکتے ہیں اور نہ اس دنیا کی تواریخ سے دریافت کرسکتے ہیں تو اُس وقت اُس کا ایک تیسرا رفیق بنتا ہے کہ جس کا نام الہام اور وحی ہے…‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ79-80، بقیہ حاشیہ نمبر 4)
عقلی دلائل سے حاصل ہونے والے علم کے بارے میں حضورؑ نے بتصریح فرمایا کہ ’’ایمان اُن کا جو صرف دلائل عقلیہ پر مبنی ہے ہونا چاہیے کے مرتبے تک محدود ہے اور مرتبہ کاملہ ہے کا انہیں نصیب نہیں۔ سو اِس تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہے کہ کھلا ہوا اور واضح راستہ معرفتِ الہی کا صرف بذریعہ کلامِ الہی ملتا ہے۔اور کوئی ذریعہ اس کے وصول و حصول کا نہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ215، بقیہ حاشیہ نمبر11)
جہاں مسلم علماء دیگر مذاہب کے اسلام پر اعتراضات کے جواب دینے میں اپنے عقلی دلائل پر تکیہ کیے ہوئے تھے، اور غیروں کے حملوں سے ہراساں مسلمانوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات پر اپنی ہی رائے پر انحصار کیے بیٹھے تھے، جہاں تمام مذاہب دلیل کی بنیاد پرآپس میں نبردآزما ہورہے تھے۔ جہاں عقل پرست مفکرین عقل کی بنیاد پر مذہب کو ایک غیر ضروری اور ناقابل عمل شے قرار دے چکے تھے۔ وہاں وحی و الہام کا دروازہ کھول کر حضرت مرزا صاحبؑ نے علمیات یعنی epistemology کو ایک نئی نہج عطا کی اوریوں دنیائے مذہب اور مکاتبِ فکر کے لیے ایک نئے میدان کی راہیں کھول دیں۔
یہ حقیقت براہینِ احمدیہ کو صرف مذہب ہی نہیں بلکہ دنیائے فلسفہ میں بھی ایک ممتاز مقام دیتی ہے۔
تمام مذاہب کو انعامی چیلنج
براہینِ احمدیہ پر بات کرتے وقت ایک بات کبھی فراموش نہیں ہونی چاہیے کہ اس کتاب کا مکمل نام ’’البراہین الاحمدیہ علی حقیت کتاب اللہ القرآن و النبوۃ المحمدیہ‘‘ رکھا گیا تھا۔
اس کتاب کی تصنیف کے پیچھے صرف دیگر مذاہب کو گمراہ شدہ اور گمراہ کُن ثابت کرنا ہی نہیں تھا، بلکہ دراصل مغربیت کا سدِ باب کرنا تھا جس کے آگے اسلام ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب گھٹنے ٹیکے بیٹھے تھے۔ آپ حصہ اوّل کے آغاز میں اس خطرے کا اظہار فرماتے ہیں کہ ’’تھوڑی ہی مدت میں اِس قدر شعار اسلام کا ناپدید ہوجائے کہ بجائے سلام مسنون کے گڈبائی اور گڈ مارننگ کی آواز سنی جائے‘‘۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ8)
حضرت مسیح موعودؑنے آغاز ہی میں اس کتاب کی ضرورت اور اہمیت خود یوں بیان فرمائی کہ اگرچہ بہت سی کتب دفاعِ اسلام میں لکھی گئیں مگر وہ مخصوص مذاہب اور ان کے مخصوص فرقوں کو مخاطب کرکے لکھی گئیں اور ’’اُن سے وہی خاص قوم فائدہ اٹھا سکتی ہے کہ جن کے مقابلہ پر وہ تالیف پائی ہیں۔ لیکن یہ کتاب تمام فرقوں کے مقابلہ پر حقیقتِ اسلام اور سچائی عقائدِ اسلام کی ثابت کرتی ہے اور عام تحقیقات سے حقانیت فرقان مجید کی بپایہ ثبوت پہنچاتی ہے…‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن، جلد اول صفحہ 8)
نیز فرمایا: ’’پس بہرحال ایسی کتاب کی اشد ضرورت تھی کہ جو ہر ایک فرقہ کے مقابلہ پر سچائی اور حقیتِ اسلام کی دلائل عقلیہ سے ثابت کرے کہ جن کے ماننے سے کسی انسان کو چارہ نہیں‘‘۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ9)
تحقیق کی دنیا میں محققین جسے gap area کہتے ہیں اور اسے پُر کرنے کے لیے نئے مضامین اور موضوعات پر تحقیق کرتے ہیں، دنیائے مذہب میں بھی ایسے خلا پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں خدا تعالیٰ انبیاء اور مرسلین اور مجددین کے ذریعہ پُر کرتا ہے۔
پس دنیائے مذہب میں ایک ایسا خلا پیدا ہوجانے پر یہ اپنی نوعیت کی انوکھی تصنیف تھی۔ جیسا کہ ہم اوپر دیکھ آئے ہیں کہ اس وقت صرف اسلام ہی خطرے میں نہ تھا، بلکہ مذہب من کل الوجوہ خطرات کی آندھیوں میں گھرا ہوا تھا۔ ایسے میں اس کتاب کا ظہور مذہب کے لیے تریاق بن کر آیا اور چونکہ براہین احمدیہ کا اصل مقصد قرآن کریم اور اسلام کی حقیت کو ثابت کرنا تھا، لہذا یہی ایک حربہ مذہب کے لیے تریاق ثابت ہوا کیونکہ دیگر مذاہب بھی اپنی اصل میں تو اسلام ہی کی ارتقائی منازل تھے۔
اس قدر بڑے دعوے کے ساتھ یہ چیلنج بھی دے دیا، یعنی ’’ایک اشتہار تعدادی دس ہزار روپیہ کا اسی غرض سے اُس میں داخل کیا گیا‘‘ (صفحہ 10) جو تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے تھا۔ حضورؑ نے یہ چیلنج پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کوئی اس کتاب میں شامل قرآن کریم اور اسلام کی حقانیت کے دلائل کو اپنی کتاب سے توڑ دے، تو ’’میں مُشتہر ایسے مُجیب کو بلا عُذرے و حیلتے اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دونگا۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن، جلد اول صفحہ 28)
ایک اعتراض کو بھی یہاں دیکھتے چلیں۔ حضرت مرزا صاحبؑ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ براہین احمدیہ حصہ اوّل کے صفحہ 24 سے اس حصہ کے اختتام یعنی صفحہ 52 تک کی تحریر نہایت جلی حروف میں لکھی گئی ہے۔ اس قدر جلی حروف میں کہ ایک ایک صفحہ پر بمشکل سات سطریں آئی ہیں۔
ہمارے اس مضمون کی غرض اعتراضات کا جواب دینا نہیں۔ تاہم اس قدر کہہ دینا ضروری ہے کہ اس دور میں جو علما ئےکرام دفاعِ اسلام کی کوششوں میں مصروف تھے، کیا ان میں سے کسی نے بھی اس نوعیت کا چیلنج مخالفین اسلام کو دیا؟ کیا کوئی بھی عقلی دلائل سے اوپر اٹھ کر اس سطح تک گیا کہ اپنی جائیداد کا بڑا حصہ (یا چھوٹا حصہ ہی سہی) اسلام کی خاطر دینے کو تیار ہو گیا ہو؟
پس براہین احمدیہ اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے جو اس ضرورت کے وقت میں تالیف ہوئی، جس میں تمام مذاہب اور لامذہبوں کے دلائل کو قرآن کریم سے رد کرکے اسلام کی حقانیت ثابت کی گئی۔
اس پر مستزاد ایک ایسا بڑا چیلنج دے دیا کہ ’’جس سے سبک دوشی حاصل کرنا قیامت تک اُن کو نصیب نہیں ہوسکتا‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن،جلد اول صفحہ 10)
قارئین اتفاق کریں گے کہ ایسا چیلنج جلی ہی نہیں ،زریں حروف سے لکھے جانے کے لائق تھا۔ کہ دنیائے اسلام میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی کہ تمام ادیان کو مخاطب کرتی اور ان کے دلائل کو توڑتی تھی،اور پہلی مرتبہ ایک چیلنج دے دیا گیا تھا جو قیامت تک کھلا تھا۔ ہمارے علم میں نہیں کہ کسی نے آج تک اس چیلنج کومعین کردہ اصولوں کے مطابق قبول کیا ہو۔
عقل پرستی اور عقائد فاسدہ میں غیر معمولی اضافہ
جب حضرت مرزا صاحبؑ نے براہین احمدیہ تصنیف فرمانی شروع کی تو بہت سوں نے اعتراض کیا کہ آخر اس کتاب کی ضرورت کیاہے جب کہ دفاعِ اسلام میں بڑی بڑی کتب موجود ہیں۔
اس کا جواب حضورؑ نے براہین احمدیہ کے حصہ دوم میں دیا اور فرمایا کہ ’’جن انواع و اقسام کے مفاسد نے آج کل دامن پھیلا رکھا ہے، ان کی صورت پہلے فسادوں کی صورت سے بالکل مختلف ہے۔ وہ زمانہ جو کچھ عرصہ پہلے اس سے گزرگیا ہے وہ جاہلانہ تقلید کا زمانہ تھا۔ اور یہ زمانہ کہ جس کی ہم زیارت کررہے ہیں، یہ عقل کی بداستعمالی کا زمانہ ہے۔ پہلے اس سے اکثر لوگوں کو نامعقول تقلیدنے خراب کررکھا تھا اور اب فکر اور نظر کی غلطی نے بہتوں کی مٹی پلید کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن دلائل عمیقہ اور براہین قاطعہ لکھنے کی ہم کو ضرورتیں پیش آئیں وہ اُن نیک اور بزرگ عالموں کو کہ جنہوں نے صرف جاہلانہ تقلید کا غلبہ دیکھ کر کتابیں لکھی تھیں پیش نہیں آئی تھیں۔ ہمارے زمانہ کی نئی روشنی (کہ خاک بر فرق ایں روشنی) نوآموزوں کی روحانی قوتوں کو افسردہ کررہی ہے۔ اِن کے دلوں میں بجائے خدا کی تعظیم کے اپنی تعظیم سماگئی ہے اور بجائے خدا کی ہدایت کے آپ ہی ہادی بن بیٹھے ہیں۔ اگرچہ آج کل تقریباً تمام نوآموزوں کاقدرتی میلان وجوہات عقلیہ کی طرف ہوگیا ہے، لیکن افسوس کہ یہی میلان بباعث عقلِ ناتمام اور علم ِخام کے بجائے رہبر ہونے کے رہزن ہوتا جاتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ66)
پس اس کتاب کی ایک خصوصیت حضورؑ نے یہاں خودبیان فرمادی۔ یعنی عقل پرستی، جس کا خمیر مغربی فکری تحریکوں سے اٹھا تھا، ہر طرف اپنےپَر پھیلا رہی تھی اور اپنے پنجوں میں مذہب کو بھی دبوچنے میں کافی حد تک کامیاب ہوچکی تھی۔
جیسا کہ ابتدائیہ کی طویل بحث سے ثابت کیا جا چکا ہے، ایسا دور جس میں مذہب سے کلیۃً بیزاری ظاہر کردی گئی ہو، کبھی پہلے ظہور میں نہ آیا تھا۔ اور اس بیزاری کو منظم طریق پر عام کرنے کی روش بھی تاریخ میں کہیں موجود نہیں۔
پھر یہی نہیں کہ مغربی مفکرین صرف چائے خانوں میں بیٹھ کر مذہب سے بیزاری کا اظہار کر کے خوش ہوجاتے ہوں۔ مذہب کے خلاف یہ مہم ہر سطح پر زور پکڑچکی تھی، اگرچہ فلسفہ اور سائنس اس مہم کے پیش امام ٹھہرے تھے۔
پس اگر براہین احمدیہ کوہستی باری تعالیٰ پر ایمان کو برقرار رکھنے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھا جائے، تو یہ اپنے دور کی ایک بے مثال کتاب ٹھہرے گی۔ بلکہ یوں کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اگر یہ کتاب یہ کام بھی نہ کرسکتی، تو یقیناً یہ بھی باقی کتابوں کے ساتھ طاق پر رکھ چھوڑنے کے لائق ٹھہرتی۔
لامذہبیت کے پروں میں تازہ ہوا بھرنے والا ایک سائنسی نظریہ تھا جو Darwinian Evolution کا نظریہ کہلاتا ہے۔ چارلس ڈاروِن(1809ء تا 1882ء)نے یہ نظریہ اپنی تحقیق Origin of Species میں پیش کیا تھا جو 1859ءمیں شائع ہو کر منظر عام پر آئی تھی۔ جہاں انسان ارتقا کی منازل سے گزرتا ہوا بندر سے اپنی موجودہ حالت کو پہنچا ہو، وہاں تخلیق آدم کی Biblicalکہانی، جس کی تصدیق قرآن کریم بھی کرتا ہے، کا کوئی جواز باقی نہ بچتا تھا۔
یوں ڈاروِ ن کے نظریہ ارتقا کے ذریعے مذہب پر ایک اور کاری ضرب لگی اور کلیسا کی بلند وبالاعمارت لرز کر رہ گئی۔ اور عیسائیت کیا، یہی حربہ اسلام اور دیگر تمام مذاہب کے خلاف استعمال ہوسکتا تھا، اور ہوا۔
یہ نظریہ قرآن کریم میں بیان فرمودہ تخلیق آدم کی کہانی پر ہی کاری ضرب نہ تھا، بلکہ قرآنی علمیات یعنی Quranic Epistemology پر بھی ایک سوالیہ نشان تھا۔اگر انسان بندر سے ترقی کرتا کئی صدیوں کے سفر میں انسان بنا تھا، تو وَعَلَّمَ اٰدَمَ الاَسْماءَ کُلَّھَا کی بنیاد ہی ٹوٹ جاتی تھی۔
اس بنیاد کے ٹوٹ جانے سے Quranic Creationism یعنی قرآنی نظریہ تخلیق درہم برہم ہوجاتا اور یوں ہستی باری تعالیٰ کی اسلامی بنیاد کو گزند پہنچتا۔ یوں انسانی بولی(زبان ) کی ابتدا کے ساتھ لسانیات کی ایک اہم بحث جڑی ہوئی ہے جو ہستی باری تعالیٰ کی بحث میں جا نکلتی ہے۔
لسانیات کی بحثوں نے ڈاروِن کے نظریہ ارتقا سے ہی جنم لیا۔ عصرِ حاضرمیں لسانیات کے میدان کا مردِ میدان Noam Chomsky(1928ء تا حال) کو خیال کیا جاتا ہے۔ چومسکی خود ڈاروِن کے نظریۂ ارتقاکا حامی ہے مگر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ انسانی بولی ایک بے مثال مظہرِ قدرت ہے اور اس صلاحیت کی ہم پلہ کوئی صلاحیت جانوروں کی دنیا میں موجود نہیں۔ نیز یہ کہ یہ کہنا کہ انسانوں اور جانوروں کے درمیان حائل یہ خلیج کبھی طے ہوسکے گی ناممکنات میں سے ہے۔(Language and Mind از Noam Chomsky)
اسی طرح عصرِ جدید ہی میں صفِ اوّل کے دہریہ اور evolutionist انسانی بولی کے آغاز کو سمجھنے سے قاصر رہ جانے کا اقرار کرتے ہیں۔
(مثلاً Richard Dawkins اپنی کتاب Unweaving the Rainbow اور Terence Deacon اپنی کتاب The Symbolic Species میں)
حضورؑ اس معاملہ پر قطعیت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ ’’بعض لوگ اس دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں کہ بولی انسان کی ایجاد ہے(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ344)
’’اگر کوئی یہ وہم پیش کرے کہ جس طرح طبعی طور پر خدا تعالیٰ بولیوں میں ہمیشہ تغیر تبدل کرتا رہتا ہے، کیوں جائز نہیں کہ ابتدا میں بھی اسی طور پر بولیاں ایجاد ہوگئی ہوں۔ اور کوئی خاص الہام نہ ہوا ہو۔ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ابتدا زمانہ کے لیے عام قانون قدرت یہی ہے کہ خدا نے ہر یک چیز کو اپنی قدرتِ محض سے پیدا کیا تھا۔ آسمان اور زمین اور سورج اور چاند اور خود انسان کی فطرت پر نظر کرنے سے معلوم ہوگا کہ وہ ابتدائی زمانہ محض قدرت نمائی کا زمانہ تھا جس میں اسبابِ معتادہ کی ذرہ آمیزش نہ تھی۔ او ر اُس زمانہ میں جو کچھ خدا نے پیدا کیا۔ وہ ایسی اعلیٰ قدرت سے کیا جس میں عقلِ انسان حیران ہے۔ زمین آسمان اور سورج و چاند وغیرہ اجرام پر نظر ڈال کر دیکھو کہ کیونکر اتنا بڑا کام بغیر مدد اسباب اور معماروں اور مزدوروں کے محض ارادہ سے بہ مجرد حکم کے انجام دے دیا۔ پھر جس حالت میں اُس ابتدائی زمانہ میں خدا کا سارا کام قدرتی پایا جاتا ہے کہ جو آمیزش طبیعت اور سبب سے بہ کلی پاک اور خالص ربانی ارادہ سے نکلا ہوا ہے تو پھر کیونکر بے ایمانوں کی طرح بولیوں کے بارہ میں خدا کو اس بات سے عاجز سمجھا جائے کہ جس طرح اُس نے تمام چیزوں کو محض قدرت سے پیدا کیا تھا، وہ بولیوں کے پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتاتھا۔جس نے خود انسان کو بغیر باپ اور ماں کے پیدا کر کے اپنی قدرت تامہ کا ثبوت دے دیا ہے، پھر بولیوں کے بارہ میں کیوں اس کی قدرت کو ناقص خیال کیا جائے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 379تا 394)
حضرت مسیح موعودؑنے لسانیات اور اس کی جدید شاخ sociolinguistics (معاشرتی لسانیات ) کے ممکنہ مسائل کو بھی یوں حل فرمایا کہ یہ بحث خود ہستی باری تعالیٰ کی دلیل بن گئی۔
’’اور اگر کسی کے دل میں یہ وہم گزرے کہ اب جنگلی آدمیوں کو جو بے زبانی کی حالت میں محض اشارات سے گزارہ کرتے ہیں کیوں بذریعہ الہام کے کسی بولی سے مطلع نہیں کیا جاتا…تو یہ خدا کی صفات کی ایک غلط فہمی ہے۔ کیونکہ القا اور الہام ایسا امر نہیں ہے کہ جو ہر جگہ بے جا بلا لحاظ مادۂ قابلہ کے ہو جایا کرے۔ بلکہ القا اور الہام کے لیے مادۂ قابلہ کا ہونا نہایت ضروری شرط ہے اور دوسری شرط یہ بھی ہے کہ اُس الہام کے لیے ضرورتِ حقہ بھی پائی جائے۔
ابتدا میں جب خدا نے انسان کو پیدا کیا، اُس وقت بذریعہ الہام بولیوں کی تعلیم کرنا ایسا امر تھا کہ جس میں دونوں طور کی شرائط موجود تھی۔ اوّل ذاتی قابلیت پہلے انسان میں جیسا کہ چاہیے الہام پانے کے لیے موجود تھی۔ دوسری ضرورت حقہ بھی الہام کی مقتضی تھی۔ کیونکہ اس وقت بجز خدائے تعالیٰ کے اور کوئی حضرتِ آدم کے لیے رفیق شفیق نہ تھا کہ جو اُن کو بولنا سکھاتا…آدم کے لیے بجزایک خدا کے اور کوئی نہ تھا جو اس کو بولی سکھاتا اور ادبِ انسانیت سے ادب آموز کرتا۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 427تا 438)
یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنے کے لائق ہے کہ sociolinguistics کا علم براہین احمدیہ کے بہت بعد میں متعارف ہوا۔(تفصیل : Sociolinguistics in India از Thomas Callan Hodson ، مطبوعہ بار اوّل 1939)۔
حضرت مرزا صاحبؑ نے لسانیات کی اس اہم بحث پر محاکمہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’تعلیم زبان کی خدا کی طرف سے ہے۔ پس حروف اور الفاظِ مفردہ بھی خدا ہی نے انسانوں کو سکھلائے ہیں۔ انسان نے اُن کو اپنی عقل سے ایجاد نہیں کیا۔ جس بات کو انسان ایجاد کرتاہے وہ صرف ترکیبِ کلمات ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن،جلد اول صفحہ150، حاشیہ نمبر 11)
ترکیبِ کلمات کو لسانیات میں syntax کی اصطلاح سے موسوم کیا جاتا ہے۔ سائنسدان اس بات پر بھی متفق ہوچکے ہیں کہ انسان کے سوا کسی جاندار میں ، یہاں تک کہ اس کے مبینہ جدِ امجد بندروں یا بن مانسوں کے قبیل زبان سکھانے یا syntax پیدا کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔(Babel’s Cornerstone از Derek Bickerton )
پس ترکیبِ کلمات کو انسانی شرف قرار دے کر بھی ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت مہیا فرمایا جسے آج کے سائنسدان بھی قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ صلاحیت بھی انسان کے سوا کسی جاندار میں نہیں۔یوں لسانیات کی حدود پر پھیل کر حضرت مسیح موعودؑ کی بیان فرمودہ یہ بحث Creationist-Evolutionist مباحث کے لیے بھی ٹھوس علمی بنیاد فراہم کرتی ہے۔
جس دَور میں براہین احمدیہ منظر عام پر آئی، اس دو ر میں کسی اور مسلمان عالم یا مفکر نے الحاد و دہریت کی نبض کو یوں ٹٹولا اور سمجھا ہو، تو قارئین ضرور مطلع فرمائیں ورنہ تب تک اس کتاب کو اپنی نوعیت کی واحد کتاب تسلیم کریں۔
نفسیات کے جدید مباحث کے لیے راہنما اصول
کہتے ہیں کہ مغربی فکر نے دنیا میں تین بڑے انقلاب برپا کیے:
ایک کوپرنیکس(1473ء تا 1543ء) کے Heliocentricنظریہ کائنات نے ، دوسرےڈاروِن کے نظریۂ ارتقا نے اور تیسرے سگمنڈ فرائڈ(1856ء تا 1939ء)کے نظریہ تحلیل نفسی (Psychoanalysis) نے۔
موخرالذکر نظریہ یعنی سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی نے علمِ نفسیات کا رخ مکمل طور پر موڑ دیا جب اس نے انسان کی شخصیت پر شعورکی بالادستی کو غلط ثابت کرتے ہوئے لاشعور کی بالادستی ثابت کی۔ اس کے نزدیک ہمارے لاشعور میں ہماری شخصیت کے اسرار و رموز پوشیدہ ہیں اور ان تک رسائی نفسیاتی الجھنوں کو سمجھنے اور حل کرنے میں ممد ہوسکتی ہے۔
فرائڈ کا لاشعور کی بالادستی کا نظریہ 1900ء سے 1905ء کے درمیان تشکیل پایا جس میں اس نے انسانی ذہن کو ایک iceberg سے تشبہہ دے کر سمجھایا کہ انسانی شخصیت میں اس کا شعوری ذہن تو ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو سطح پر نظر آتا ہے یعنی انسان کے اقوال و افعال کے ذریعہ سے۔ نیچے کا تودا لاشعور ذہن ہے جو ظاہری ؍شعوری ذہن سے کہیں بڑا اور وسیع تر ہے اور انسانی شخصیت کے اصل اسرار و رموز وہیں پوشیدہ ہیں۔
آگے چلنے سے پہلے یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ لفظ psychology میں psyche کا مطلب روح ہے۔ مکمل اصطلاح کا مطلب ہوا :روح کوسمجھنے کا علم۔ تعجب کی بات ہے کہ سائنس کو خدا تعالیٰ کے انکار کرنے کے عمل میں روح کے تصور کو بھی تیاگنا پڑا۔ جبکہ اس دور میں ایک کثیر رقم psychology سے متعلق تحقیقات پر خرچ کی جاتی ہے۔ موجودہ دور میں جس قدر اس کی اہمیت سامنے آئی ہے اور لوگ نئی سے نئی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں، اس سے پہلے کبھی بھی نہ ہوئے تھے۔ پس ہم فرائڈ کے اس انقلاب آفرین نظریہ سے قریب دو دہائیاں پیچھے چلتے ہیں اور مولف براہین احمدیہ ، حضرت مرزا صاحبؑ کے نظریات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
حضورؑ نے انسانی جسم کے نظام کے مساوی جاری و ساری ایک اور نظام کا ذکر فرمایا جو آبِ گُم کی طرح جسم کی سطح سے پوشیدہ مگر ساتھ ساتھ چلتا ہے: ’’یہ بات بتوجہ تمام یاد رکھنی چاہیے کہ جیسے خدا نے امراض بدنی کے لیے بعض ادویہ پیدا کی ہیں اور عمدہ عمدہ چیزیں جیسے تریاق وغیرہ انواع اقسام کے آلام اسقام کے لیے دنیا میں موجود کی ہیں…اسی طرح خداوندِ کریم نے نفوسِ طیبہ ان مقربین میں بھی روزِ ازل سے یہ خاصیت ڈال رکھی ہے کہ ان کی توجہ اور دعا اور صحبت اور عقدِ ہمت بشرطِ قابلیت امراض روحانی کی دوا ہے…جس طرح اس جائے اسباب میں قانونِ قدرت حضرت ِاحدیت کا یہی ہے کہ جو شخص پانی پیتا ہے وہی پیاس کی درد سے نجات پاتا ہے اور جو شخص روٹی کھاتا ہے وہی بھوک کے دُکھ سے خلاصی حاصل کرتا ہے ، اسی طرح عادتِ الٰہیہ جاری ہے کہ امراض روحانی دور کرنے کے لیے انبیاء اور ان کے کامل تابعین کو ذریعہ اور وسیلہ ٹھہرا رکھا ہے انہیں کی صحبت میں دل تسلی پکڑتے ہیں اور بشریت کی آلائشیں رو بکمیہوتی ہیں اور نفسانی ظلمتیں اٹھتی ہیں…‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول، صفحہ 354تا 356، حاشیہ 2)
Mind-body relationship فلسفہ اور علم نفسیات کا ایک مرغوب موضوع رہا ہے۔ مذہب کی زبان میں (بلکہ psychology کی زبان میں بھی) اسے روح اور بدن کے رشتہ کے طور پر پرکھا جاتا ہے۔ Behaviouristمکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ ذہن اور روح کی بحث میں جانا عبث ہے اور جو کچھ جسمانی مظاہر ہوں ان کے مطابق نفسیاتی الجھنوں کا علاج کرنا چاہیے۔ تاہم اس معاملے میں Dualist مکتبِ فکر ذہن ؍روح اور جسم کو دو الگ اکائیاں خیال کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تاہم یہ بحثیں براہینِ احمدیہ کے بہت بعد اٹھیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے دو نوں کو الگ اکائیوں کے طور پر سمجھا اور سمجھایا اور روح کی اہمیت کو اجاگر فرمایا: ’’دوردراز کی باتیں تو یک طرف رہیں ، اوّل قدم میں ہی عقل کو حیرانی ہے کہ روح کیا چیز ہے اور کیونکر داخل ہوتی اور کیوں کر نکلتی ہے۔ ظاہراً تو کچھ نکلتا نظر نہیں آتا اور نہ داخل ہوتا نظر آتا ہے اور اگر کسی جاندار کو وقت نزع جان کے کسی شیشہ میں بھی بند کرو، تب بھی کوئی چیز نکلتی نظر نہیں آتی اور اگر بند شیشہ کے اندر کسی مادہ میں کیڑے پڑ جائیں تو ان روحوں کے داخل ہونے کا بھی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ337تا 338۔ بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر2)
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حضورؑ کوئی نفسیات کی کتاب تحریر نہیں فرمارہے تھے۔نہ ہی براہینِ احمدیہ کوئی سائنس کی نصابی کتاب تھی۔ آپؑ اسلام کی حقانیت ثابت فرمارہے تھےاور جدید مباحث سے واقف ہونے کے باعث معاصر جدید علوم اور تحقیقات بھی آپؑ کے پیش نظر تھیں۔ جن جدید مباحث نے ہستی باری تعالیٰ کا انکارکیا تھا، آپ انہی مباحث میں سے ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت مہیا فرما رہے تھے۔ مذکورہ بالا بحث کو جاری رکھتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں: ’’انڈے میں اس سے بھی زیادہ تعجب ہے کہ کس راہ سے روح پرواز کر کے آتی ہے اور اگر بچہ اندر ہی مرجائے تو کس راہ سے نکل جاتی ہے۔ کیا کوئی عاقل اس معمہ کو صرف اپنی ہی عقل کے زور سے کھول سکتا ہے۔ وہم جتنے چاہو دوڑاؤ مگر مجرد عقل کے ذریعہ سے کوئی واقعی اور یقینی بات تو معلوم نہیں ہوتی۔ پھر جبکہ پہلے ہی قدم میں یہ حال ہے تو پھر یہ ناقص عقل امورِ معاد میں قطعی طورپر کیا دریافت کر لے گی؟‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ337تا 338۔بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر2)
پھر جیسے واضح نظر آرہا ہو کہ آئندہ آنے والے زمانے میں نفسیاتی الجھنیں انسان کے بڑے مسائل میں سے ایک بن جائیں گی، فرمایا: ’’افسوس کیوں آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ روح کی ہریک بے قراری کا چارہ اور نفس امارہ کی ہر یک مرض کا علاج صرف اپنے ہی تخیلات اور تصورات سے ممکن نہیں۔ یہ ایک قدرتی قاعدہ ہے کہ جب انسان کسی جذبہ نفسانی یا آفتِ روحانی میں مبتلاء ہو مثلاً قوتِ غضبیہ اشتعال میں ہو اور قوتِ شہویہ شعلہ زن ہو یا کسی مصیبت اور ماتم اور ہمّ اور غم میں گرفتار ہو یا کسی اور تغیر نفسانی یا روحانی سے مقہور ہو تو وہ ان امراض اور اغراض کو کہ جو اس کے نفس اور روح پر غلبہ کررہی ہیں صرف اپنی وعظ اور نصیحت سے دور نہیں کرسکتا بلکہ ان جذبات کے فرو کرنے کے لیے ایک ایسے واعظ کا محتاج ہوتا ہے کہ جو سامع کی نظر میں بارعب اور بزرگ اور اپنی بات میں سچا اور اپنے علم میں کامل اور اپنے عہدوں میں وفادار ہو اور با ایں ہمہ ان امور کے پورا کرنے پر قادر بھی ہو جن سے سامع کے دل میں خوف یا امید یا تسلی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ338تا 339،بقیہ حاشیہ نمبر11)
پھر جب یہ واضح فرمادیا کہ عصرِ جدید اپنی تیز رفتار ی اور تہ و بالا ہوتے روزوشب کے باعث انسان کے جسم کے لئےتو شاید آرام کا باعث ہو، مگر اس کے ذہن؍ روح کو مجروح کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، ماہرینِ نفسیات کی راہنمائی یہ کہہ کر فرمائی کہ ’’ان تمام امور پر نظر ڈالنے سے دانا انسان اس نتیجہ تک پہونچ سکتا ہے کہ خدا نے جو اس کی فطرت کو ایسا بنایا ہے یہی وضع فرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس حکیم مطلق نے انسان ضعیف البنیان کو اپنی ہی رائے اور قیاس پر چھوڑنا نہیں چاہا بلکہ جس طور کے واعظوں اور متکلموں سے اس کی تسلی اور تشفی ہوسکتی ہے اور اس کے جذباتِ نفسانی دب سکتے ہیں اور اس کی روحانی بے قراریاں دور ہوسکتی ہیں وہ سب متکلم اس کے لیے پیدا کیے ہیں اور جس کلام سے اس کی امراض و اعراض دور ہوسکتی ہیں وہ کلام اس کے لیے مہیا کیا ہے یہ ثبوت ضرورت الہام کا کسی اور طرز سے نہیں بلکہ خدا کا ہی قانونِ قدرت اسے ثابت کرتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 340،بقیہ حاشیہ نمبر11)
پس براہینِ احمدیہ کا ایک یگانہ کمال یہ بھی ہے کہ اس میں نہ صرف نفسیات کی عمیق گہرائیوں سے پردہ اٹھایا گیا، بلکہ جہاں ماہرین اس بات پرجا کر رک گئے کہ انسانی ذہن ؍روح کے لاشعور میں اس کی نفسیاتی الجھنوں کے راز ہیں، وہاں انہیں ان سربستہ رازوں کی حقیقت تک پہنچنے اور الجھنوں کو حل کرنے کی راہ بھی دکھا دی۔
حضورؑ نے یہ فرما کر کہ ’’انسان…کی عجیب الخلقت روح خدا کی معرفت کے لیے بنائی گئی ہے‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ231، حاشیہ)
اور یہ کہ ’’انسان سلیم الفطرت کی روح خدا کی معرفت کی بھوکی اور پیاسی ہے‘‘ (ایضاً)، یہ اشارہ دے دیا کہ جدید انسان کی دنیاداری کی دوڑ دھوپ اسے روحانیت سے دور کرنے کا سبب ہے اور اسی سبب سے روحانی؍نفسیاتی الجھنیں اور نفسانفسی کا دور دورہ ہے ، مگر اس کا علاج وہاں نہیں جہاں سائنس تلاش کرتی ہے، بلکہ اس غذا میں ہے جو خدا تعالیٰ نے انسانی روح کے لیے نازل فرمائی، یعنی قرآن کریم۔
انسانی نفسیات کو جو مسائل درپیش تھے اور کہیں زیادہ بڑھ کر درپیش ہونے والے تھے، اس دور میں کسی اور نے اس قدر باریکی سے انہیں سمجھا ہو تو قارئین ضرور مطلع کریں۔ تب تک براہینِ احمدیہ کا مضمون ہر دوسری مذہبی کوشش پر بالا رہا۔
اختتامیہ
براہینِ احمدیہ کی تالیف کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہوا جب اسلام ہی نہیں الٰہیات بالعموم مغربیت کے طوفان کی زد میں تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس کتاب کی تالیف کے ذریعے وہ خدمت سرانجام دی جو مذہب کی ٹمٹماتی شمع کی حفاظت کا کام کرگئی۔ اس تصنیف کے شمائل پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اسی شمارے میں آپ کے سامنے اس عظیم تصنیف کے عظیم پہلو بیان ہوئے ہیں۔ کچھ امور کا ذکر اس مضمون میں کیا گیا۔ مگر اس تصنیف لطیف کی اتھاہ گہرائیوں سے بہت سے موتی ہیں جو وقت کے ساتھ سامنے آتے رہیں گے۔ اس کتاب اور اس کے مؤلف کی جماعت کی عظمت کا اعتراف Wilfred Cantwell Smith نے یہ کہہ کر کیا کہ
“It arose as a protest against Christianity and the success of Christian proselytization; a protest also against Sir Sayyid’s rationalism and Westernization, and at the same time as a protest against the decadence of the prevailing Islam.”(Islam in Modern History, p 324)
اس معرکہ آرا تصنیف میں حضرت مسیح موعودؑ نے مسلمانوں کا قبلہ درست کرنے کا زبردست کام کیا۔ مثلاً انفاق فی سبیل اللہ کے فلسفہ کو نئی جہت عطا فرمائی۔ اس وقت تک خدا کی راہ میں خرچ کرنا صرف مساجد بنانے اور غریب کو کھانا کھلا دینے تک محدود خیال کیا جاتاتھا۔ حضورؑ نے مسلمانوں کو بتایا کہ اس وقت دین پر حملہ دلائل و براہین کے ذریعہ سے ہورہا ہے۔ چھاپہ خانہ کی مدد سے یہ حملےگویا گھر گھر پر ہورہے ہیں۔ ضرورت اس بات ہے کہ اسلام کے دفاع میں دلائل و براہین یکجا کیے جائیں اور انہیں طبع کرواکر عام کیا جائے تا مسلمانوں کا ڈگمگاتا ایمان تسلی پکڑے اور مستحکم ہو۔
معترضین کے لیے یہ اعتراض کرلینا بڑا آسان ہے کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے براہینِ احمدیہ کے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ پھر پانچ جلدوں پر ہی کیوں رک گئے۔ اس اعتراض کا جواب بھی اس کتاب کے عنوان میں مضمر ہے۔ یعنی حضورؑ نے جو عمر بھر محنتِ شاقہ سے 80 سے زائد کتب تحریر فرمائیں، وہ سب حقیت کتاب اللہ القرآن و النبوۃ المحمدیہ ہی کے کام کی توسیع تھیں۔
٭…٭…٭