اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
دسمبر2022ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
وائس آف امریکہ کی رپورٹ
ایمنسٹی انٹرنیشنل لمز چیپٹر نے چھ دسمبر کو ’’مذہبی رواداری‘‘پر ایک مباحثے کا اہتمام کیا تھا جس میں ہندو، سکھ، عیسائی، شیعہ کمیونٹی اور احمدی کمیونٹی کے نمائندوں کو دعوت دی گئی تھی۔ احمدی کمیونٹی کی نمائندگی کے لیے ایک احمدی ڈاکٹر کو مدعو کیا گیا، لیکن تقریب سے چند گھنٹے قبل ان سے معذرت کر لی گئی۔
ڈاکٹر صاحب پیشے کے اعتبار سے چائلڈ سپیشلسٹ ہیں۔ تا ہم وہ تاریخ اور آئینِ پاکستان کی تشریح اور بعد میں ہونے والی ترامیم پر کتابیں لکھ چکے ہیں۔
ایمنسٹی لمز چیپٹر نے چھ دسمبر کو ایک ٹوئٹ کیا جس میں بتایا گیا کہ چھ دسمبر کو ایمنسٹی لمز چیپٹر نے مذہبی رواداری سے متعلق ایک مباحثے کا اہتمام کرنا چاہا۔تاہم بدقسمتی سے ہمیں یہ کہا گیا کہ احمدی سکالر کا نام خارج کر دیں جنہیں ہم نے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے بلایا تھا۔
وائس آف امریکہ نے ایمنسٹی لمز کی صدر ماہین شفیق سے متعدد بار رابطہ کر کے اس معاملے پر بات کرنا چاہی، لیکن اُنہوں نے اس پر بات کرنے سے گریز کیا۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے ردِعمل کے لیے بھیجے گئے پیغام کے جواب میں ماہین کا کہنا تھا کہ لمز کی جانب سے ایک دو روز میں اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بیان جاری کیا جائے گا۔
واضح رہے لمز کا شمار پاکستان کے صفِ اول کے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ جہاں ادب، قانون، تاریخ، سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، بزنس ایڈمنسٹریشن سمیت دیگر مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے اداروں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
’’لگتا ہے اب لمز جیسے اداروں میں بھی ایسے موضوع پر بات نہیں ہو سکے گی۔‘‘ڈاکٹر صاحب واقعہ کے فوراً بعد ملک سے باہر چلے گئے۔ بذریعہ ٹیلیفون اُن سے رابطہ کرنے پر اُنہوں نے بتایا کہ رواں برس نومبر میں لمز کی جانب سے اُنہیں اِس مذاکرے میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ جس کا موضوع “پاکستان میں برداشت” تھا۔
اُن کے بقول پہلے اس مذاکرے کی تاریخ تبدیل کی گئی اور پھر ان کا نام مقررین کی فہرست سے نکال دیا گیا ۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق جب اُنہوں نے مہمانوں کی فہرست سے اپنا نام نکلنے کی وجہ پوچھی تو لمز انتظامیہ نے اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔
اُن کے بقول جامعات ایسی جگہیں ہوتی ہیں، جہاں ایسے موضوعات پر کھل کر گفتگو کی جا سکتی ہے تاکہ طلبہ کے سامنے تصویر کا ہر رُخ آ سکے۔ لیکن اب لمز جیسی یونیورسٹی میں لگتا ہے ایسے موضوعات پر بات نہیں ہو سکے گی۔
پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تمام اقلیتوں اور خاص طور پر احمدیوں کے خلاف ملک بھر میں ایک نفرت انگیز مہم چلائی جاتی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
بی بی سی اردو کی رپورٹ
(بی بی سی سے کاپی) جس رواداری پر ہم بات کرنا چاہتے تھے اس کا یہ عالم ہے کہ لمز جیسے ادارے بھی پریشر میں آ کر ہمیں بات کرنے سے بھی روک دیتے ہیں۔
یہ احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر صاحب کے الفاظ ہیں جن کو گذشتہ دنوں لاہور کی لمز یونیورسٹی میں مذہبی رواداری کی تقریب میں بطور سپیکر مدعو کیا گیا لیکن پھر اچانک ان کو بتایا گیا کہ وہ اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکتے۔
بی بی سی نے اس واقعے سے جڑے تمام کرداروں سے اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے تاہم لمز یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔
اس معاملے پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے احمد یہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ مجھے کئی دن پہلے اس تقریب کی دعوت دی گئی تھی جسے میں نے قبول کیا۔لیکن ایک رات پہلے مجھے ایک میسج کر دیا گیا کہ ’’آپ اس تقریب کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے منتظمین کی جانب سے کیے گئے میسج کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جن طلبہ نے مجھے مدعو کیا تھا انہوں نے یہ میسیج کیا کہ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور میں آپ سے بہت معذرت خواہ ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، احمدی کمیونٹی کے ساتھ پاکستان میں ایسا سلوک ایک عام سی بات ہے۔‘‘
’’جس روادای پر ہم بات کرنا چاہتے تھے اس کا یہ عالم ہے کہ لمز جیسے ادارے بھی پریشر میں آ کر ہمیں بات کرنے سے بھی روک دیتے ہیں۔‘‘
’’میں پانچ کتابوں کا مصنف ہوں اور کئی سو تحریریں احمدیوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر لکھ چکا ہوں۔ مجھ سے بہتر اس بارے میں کون بات کر سکتا تھا۔‘‘
اس واقعے پر مزيد بات کرتے ہوئے اس تقریب کے موڈریٹر تیمور رحمان کا کہنا تھا کہ ’’میں شہر سے باہر تھا، جب میں اس تقریب کے لیے لاہور آیا تو ایمنسٹی لمز کی صدر نے بتایا کہ ہمیں انتظامیہ کی جانب سے بلایا گیا اور کہا گیا کہ آپ کو نہیں بلائیں گے۔
انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کال موصول ہوئی ہے اور انہیں نہ بلانے کے لیے ہم پر دباؤ ہے۔
لیکن جس مقصد کے لیے یہ تقریب رکھی گئی تھی اس کو ہی پورا نہیں ہونے دیا گیا۔ پینل میں شریک سکالر جاويد احمد غامدی صاحب نے بھی اس واقعے کی مذمت کی۔
’’یہ تو حقیقت ہے کہ پاکستان میں احمدی کمیونٹی محفوظ نہیں ہے۔ اگر ہم انہیں بطور پاکستانی اقلیت نہیں سمجھتے تو پھر وہ ہیں کیا؟‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’تعلیم کے حق سے محروم کرنا، ان کی جان غیر محفوظ ہونا، ان کے ساتھ کاروبار نہ کرنا، کسی حکومتی یا بڑے عہدے پر انہیں قبول نہ کرنا…یہ سب ہوتا آ رہا ہےاور اب تک ہو رہا ہے بلکہ گزرتے دنوں کے ساتھ یہ رویے بڑھتے جا رہے ہیں۔
اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ہمیں یہ بھی برداشت نہیں ہے کہ وہ کہیں جا کر اپنے بارے میں بات بھی کر سکیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ لمز جیسے ادارے کی جانب سے ایسا رویہ سامنے آنا افسوسناک ہے کیونکہ لمز کو ایک ایسا ادارہ سمجھا جاتا ہےجہاں ہر قسم کی بات کرنے کی آزادی ہے۔‘‘اگر احمدیوں کے لیے ایسے پلیٹ فارم بھی بند کر دیے گئے ہیں تو وہ کہاں جائیں گے۔
’’یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مذہب سے پہلے وہ انسان ہیں اور وہ پاکستانی بھی ہیں۔ جبکہ احمدی کمیونٹی کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جو ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔‘‘
احمدیہ مسجد کی مزید بے حرمتی
باغبانپورہ، ضلع گوجرانوالہ،8؍دسمبر 2022ء: احمدیت مخالف سرگرمیوں میں ملوث چند لوگو ں نے چھ ماہ قبل پولیس کو کہا کہ باغبانپورہ کی احمدیہ مسجد کے صدر دروازے پر نصب مینار کو شہید کیا جائے۔ اس پر پولیس نے احمدیوں سے کہا کہ اس مینار کو لوہے کی چادر سے ڈھانپ دیں اور احمدیوں نے اس بات پر عمل کیا۔تاہم مخالفین مسلسل اس بات پر زور دیتے رہے کہ اس مینار کو شہیدہی کیا جائے۔
مخالفین نے ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کو اس بات پر عمل درآمد کی درخواست دی۔3؍دسمبر 2022ء کو جماعت کا ایک وفد سٹی پولیس آفیسر،ڈسٹرکٹ سیکیورٹی آفیسر اور سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو ملا اور اپنا موقف ان کے سامنے رکھا۔اس پر پولیس نے کہ کہا مخالفین کا کہنا ہے کہ گجو چوک میں احمدی اپنی مسجد میں جمعہ کی نماز کا وقت تبدیل کریں۔نیز احمدی بچے جو قرآن کریم کی اونچی آواز میں تلاوت کرتےہیں۔ وہ نہ کریں۔ اس کے علاوہ احمدیوں کے گھروںسے قرآن کریم قبضہ میں لیا جائے اور ان پر قرآن رکھنے کے جرم میں مقدمات درج کیے جائیں۔اس پر احمدیہ وفد نے ان سے کہا کہ اگر وہ مخالفین کی ان ناجائز باتوں کو بھی مان لیں گے تو وہ احمدیوں کومزید پریشان کرتے جائیں گے۔ اور ان کے مطالبات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔اس پر پولیس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ انٹیلیجنس کمیٹی نے کہا ہے کہ مسجد کے مینار کو شہید کرنا ہی بہتر ہے۔
7؍دسمبر2022ءکو جماعتی وفد ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل گوجرانوالہ کو ملا۔ لیکن اس نے جماعتی وفد کو صبر کرنے کی تلقین کی اور بتایا کہ سرکاری پالیسی یہی ہے اس لیے آپ کو برداشت کرنا پڑے گا۔ 7 اور 8؍دسمبر کی شب، رات دو بجے پولیس بھاری مشینری کے ساتھ آئی۔ مسجد کے راستے کو بند کر دیا گیا اور قریبی لائٹ بند کر دی گئی۔پولیس نے مینار کو شہید کر دیا اور ملبہ اپنے ساتھ لے گئی۔ اس دوران سیکیورٹی کیمرا اور مسجد کی دیوار کو بھی نقصان پہنچا۔
تھر پارکر میں جماعت احمدیہ کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں
ایک احمدی کوہارہ میں جماعتی سکول میں بطور استاد اور صدر جماعت کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔وہ احمدی ہونے سے قبل ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔حال ہی میں ان کے چند رشتہ دار شراب کے نشے میں دھت ہو کر ان کے گھر کے باہر جمع ہو گئے او ر شور مچانا شروع کر دیا۔ جب انہوں نے اس پر احتجاج کیا تو بات بڑھ گئی اور پولیس کو اس معاملے میں دخل اندازی کرنی پڑی۔
اس پر ضلعی احمدیہ قیادت کو پولیس کے پاس جا کر سارے حالات، پس منظر،حقائق اورمخالفین کو میسر سیاسی پشت پناہی کے متعلق آگاہ کیا۔نیز ایک با اثر شخصیت کو بھی اس معاملے میں شامل کیا گیا تا کہ امن وامان کی صورت حال برقرار رہے۔ لہٰذا اب وہاں پر صورت حال قابو میں ہے۔
مولوی لوگوں کو جماعت کے خلاف بھڑکا رہے ہیں
13؍نومبر 2022ء،رتوچ، ضلع چکوال:اس گاؤں میں اہلسنت کی ایک مسجد میں ایک جلسہ ہوا جس میں گوجر خان سے آئے ہوئے ایک مولوی نے دوران تقریر جماعت احمدیہ کو سخت برا بھلا کہا اور غیر احمدیوں کو احمدیوں سے تعلقات ختم کرنے اور تجارت نہ کرنے کا کہا۔اس کے بعد جلسہ کےمنتظمین میں سے ایک شخص نے ایک دوسرے شخص کو( جس کا ایک رشتہ دار احمدی تھا)،بتایا کہ جن احمدیوں کی تدفین اجتماعی قبرستان میں ہوئی ہے ان کو قبروں سے نکال کر باہر پھینک دیں گے۔
ایک سابق احمدی نے پولیس کے پاس اس معاملےکی شکایت درج کروائی کہ غیر احمدی اس قبیح فعل کا ارادہ رکھتے ہیں تو پولیس نے فریقین کو اپنے پاس بلایا۔ جب اس بات کا علم مقامی مولوی کو ہوا تو اس نے اپنے ساتھ بہت سے لوگ اکٹھے کر کے جماعت کے خلاف جلوس نکالا۔جب پولیس کو اس جلوس کے متعلق آگاہ کیا گیا تو وہ اس مولوی سے آکر ملے۔ مولوی نے جمعہ کے خطبہ کے دوران لوگوں کو کہا کہ کسی نے پولیس کو ہماری شکایت کی ہے لہٰذا جو کوئی بھی ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ پولیس سٹیشن پہنچے۔ اس پر رپورٹ کنندہ نےکہا کہ میں نے پولیس کو شکایت کی ہے اور یہ مولوی گاؤں کے اندر برائیاں پھیلا رہا اور میں چیلنج دیتا ہوں کہ کوئی قبرستان میں ایسا قبیح فعل کر کے دکھائے۔ اس پر کچھ اور معزز لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔
اس پر مخالف فریق نے تحریری طور پر معذرت کی اور اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے۔ اس پر SHO تھانہ نے ان کو جانے دیا۔
٭…٭…٭