اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
دسمبر۲۰۲۲ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
ملاں نے لوگوں کو احمدیوں کا بائیکاٹ کرنےپراکسایا
ضلع بدین، دسمبر ۲۰۲۲ء:کوٹ احمدیہ کے ایک احمدی عرصہ دراز سے قصبہ میں رہائش پذیر ہیںاور ان کو عرصہ دراز سےہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس قصبہ میں اہل حدیث کا ایک مدرسہ ہے۔ ۱۸؍ نومبر ۲۰۲۲ء کو مولوی نے سارا خطبہ جماعت کے خلاف دیا او ردو احمدیوں کا نام لے کر لوگوں کو ان کی مخالفت پر اکسایا۔ اس کے بعد ان کی مخالفت میں شدت آگئی ہے اور اب بہت سارے دکانداروں نے ان کو سامان بیچنے سے انکار کر دیا ہے۔
کچھ قابل مذمت بیانات بطور ریکارڈ
۲۲؍دسمبر ۲۰۲۲ء، اسلام آباد:وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے دفتر میں کرسمس کے حوالے سے ایک خاص تقریب کا انعقاد کیا اور اقلیتوں کے حوالے سے کچھ بیانات دیے جن کو ریکارڈ میں لانا ضروری ہے۔ہم یہاں پر نیشنل ٹیلی ویژن پر چلنے والی کچھ سرخیوں کا ذکر کریں گے۔
٭…مذہب بین الاقوامی بھائی چارے اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں۔
٭…اقلیتوں کو آئین پاکستان میں برابر کے حقوق دیے گئے ہیں۔
٭…پاکستانی حکومت اقلیتوں کے تحفظ کی ضامن ہے۔
٭…حکومت مسیحی برادری کے حقوق کی حفاظت کی پوری ذمہ داری لیتی ہے۔
٭…مسیحی برادری کی پاکستان کے لیےخدمات قابل ستائش ہیں۔
یہ سرخیاں سما ٹی وی نے ۲۲؍دسمبر ۲۰۲۲ء کو چلائیں۔ جبکہ اسی تاریخ کو ہم ٹی وی نے وزیر اعظم کی مسیحی برادری کے متعلق نیک خواہشات کا اظہار دکھایا۔
ہماری رائے:ہم بطور احمدی وزیر اعظم کے مشاہدات اور جذبات کی قدر کرتے ہیں۔اور اپنے دفتر کے اندر ایسے فنکشن کے انعقاد سے ان کی اقلیتوں کے لیے فکر مندی کے احساس کو سراہتے ہیں۔لیکن وزیر اعظم نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کا نہ صرف مسیحیو ں کے لیے بلکہ آئین پاکستان کے مطابق تمام اقلیتوں کے لیےحقیقی اطلاق ہوتا ہوا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
آئین پاکستان احمدیوں کو بھی ایک اقلیت تسلیم کرتا ہے اور احمدیوں نے پاکستان بنانےسے لے کر اب تک پاکستان کے لیے ہر شعبہ زندگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۱۹۷۴ء کے بعد آنے والی تمام حکومتوں نے کھلے عام احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا ہے۔ان حالات کے پیش نظر کیوں وزیر اعظم اپنے دفتر میں احمدیوں کےآئندہ آنے والے تہواروں کے متعلق ایک مجلس کا انعقاد نہیں کرتے، جیسا کہ عید الاضحی۔ اور پھر احمدیوں کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں کہیں کہ تمام اقلیتوں کو آئین میں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔مبادا کوئی پاکستانی حکومت پر منافقت اور اپنے ہی آئین کی پاسداری نہ کرنے کا الزام لگا دے۔
لاہور ہائی کورٹ کا عدالتی نوٹس
لاہور ہائی کورٹ،۸؍دسمبر ۲۰۲۲ء:لاہور ہائی کورٹ کی ایک سماعت کے متعلق ڈیلی ڈان نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جو کہ لاہور کے ایک سخت معاند احمدیت حسن معاویہ کی طرف سے دائر کی گئی ہے اور اس کو جسٹس شجاعت علی خان سن رہے ہیں۔رپور ٹ درج ذیل ہے:
سینٹر، پنجاب نے تحریف شدہ قرآن کی اشاعت کے خلاف کارروائی کی ٹھان لی ہے۔
۸؍ دسمبر ۲۰۲۲ء سٹاف رپورٹر ڈیلی ڈان:لاہور،وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے پرنسپل سیکرٹریز نے قرآن کریم کی غیرمستند اشاعت میں ملوث افراد کے خلاف ۲۰۱۹ء کے فیصلے کے زیر اثر کارروائی کرنے کا تہیہ کیا۔ جسٹس شجاعت علی خان لاہور ہائی کورٹ میں حسن معاویہ کی جانب سے دائر کی گئی ایک درخواست سن رہے ہیں جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ احمدی اور دیگر غیر مسلم عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے قرآن کریم کی تحریف شدہ کاپیاں جن میں عربی الفاظ اور ان کے تراجم میں تحریف کی گئی ہے مسلسل گوگل پلے سٹور اور انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کے پرسنل سیکرٹری توقیر شاہ نے جج کو بتایا کہ عدالتی حکم کا ابتدائی خاکہ تشکیل دیا جا چکا ہے اور اب یہ معاملہ کیبنٹ کے سامنے رکھنے اور ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیاہے۔جسٹس خان نے اس فیصلے کو خوب سراہا۔ اس پر توقیر شاہ نے کہا کہ اگلی سماعت پر وہ مکمل لائحہ عمل عدالت کے سامنےرکھے گا۔
وزیر اعلیٰ کے پرسنل سیکرٹری محمد خان بھٹی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے اس معاملے پر دو میٹنگز کی ہیں۔
جسٹس خان نے کہا کہ عدالت کو فکر اس بات کی نہیں کہ حکومت نے اس معاملے پر کتنی میٹنگز کی ہیں بلکہ اس بات کی ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کتنا ہوا۔بھٹی نے کہا کہ اس پر عمل لفظی اور عملی طور پر ہو گا۔ اس پر جسٹس خان نے محمد خان بھٹی پر برہم ہوتے ہوئے کہا کہ کیا کیس کی سماعت ۲۰۵۰ء تک ملتوی کر دی جائے۔اور دونوں حکومتوں کو اس حکم پر عملدرآمد کی مکمل تفصیل جمع کروانے کا حکم دیا۔
درخواست گزار حسن معاویہ نے دلیل دی کہ بارہا وزارت داخلہ اور پولیس کو کہا گیاہے کہ اس فیصلے کی روشنی میں مشتبہ افراد کے متعلق کارروائی کی جائے۔ لیکن متعلقہ اداروں کا عمل قانون اور عدالتی حکم کے بر خلاف رہا۔۲۰۱۹ء کے فیصلے کے مطابق قرآن کی کسی بھی کاپی کی اشاعت اور انٹر نیٹ پر ڈالنے سے پہلے اس کا قرآن بورڈ سے پاس ہونا ضروری ہے۔
عدالت نے قرآن بورڈ کو حکم دیا کہ وہ قرآن او ر اس کے متعلقہ کسی بھی قسم کے مواد کی طباعت، اشاعت عربی متن اور اس کے ترجمہ پر مکمل نظر رکھے ۔
ہماری رائے:
٭…ہم بطور متعلقہ فریق عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔گو کہ درخواست گزار نے براہ راست اس میں جماعت احمدیہ کا نام نہیں لیا اور نہ ہی عدالت نے یہ مناسب سمجھا کہ وہ جماعت یا جماعت کے وکیل کے ذریعےجماعت کا موقف جاننے کی کوشش کرے۔
٭…درخواست گزار نے عدالت کو غلط تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جماعت احمدیہ قرآن کریم کے تحریف شدہ متن اور غلط ترجمہ شائع کرنے میںملوث ہے۔
٭…بطور مولوی حسن معاویہ کو بخوبی اس بات کا علم ہے کہ تمام مسلمان سکالر اس بات کو مانتے ہیں کہ قرآن کریم کے متن کے کئی گہرے مفہوم ہیں۔ حتیٰ کہ ہر کوئی جانتا ہےکہ بعض اوقات ایک صحیفہ کے الفاظ کے لغوی معانی بھی مختلف سکالرز کے نزدیک مختلف ہو سکتے ہیں۔پاکستان کے اندر قرآن کریم کاایک مطبوعہ نسخہ ایسا بھی ہے جس میں ۸مختلف سکالرز کے تراجم ایک ساتھ شائع کیے گئے ہیں۔اس لحاظ سے تو تحریف شدہ ترجمہ کی نشاندہی بہت ہی مشکل امر ہو گا۔
٭…احمدیوں نے قرآن کریم کا ترجمہ ۷۶ زبانوں میں بہت ہی کوشش، احتیاط اور مالی قربانی کر کے کیا ہے۔جامعہ الازہر مصر نے ایک بار جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کردہ انگریزی ترجمہ قرآن کو اپنے ہم عصر تمام انگریزی تراجم میں بہترین قرار دیا۔ اس لیے جماعت احمدیہ کے ترجمہ کو تحریف شدہ قرار دینا دروغ گوئی ہے۔
٭…مذکورہ بالا رپورٹ بتاتی ہے کہ وزیر اعظم کے پرسنل سیکرٹری توقیر شاہ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم کا ابتدائی خاکہ تشکیل دیا جا چکا ہے اور اب یہ معاملہ کیبنٹ کے سامنے رکھنے اور ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔بطور احمدی ہم اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن کیا ہی بہتر ہو کہ اگر کیبنٹ مولوی حسن معاویہ جیسوں کی جانب سے غیر ضروری مسائل کو حل کرنے کی بجائے متعلقہ اداروں کو سیلاب متاثرین کی بحالی،ابتر معاشی صورتحال،غیر مستحکم سیاسی صورتحال،ابتر تعلیمی معیار،بڑھتی مالی بدعنوانی،تحریک لبیک پاکستان کے دہشت گردی پر مبنی دھمکی آمیز رویے،اور امن وامان کی بگڑتی ملک گیر صورتحال پر قابو پانے پر زور دے۔
٭…یہی مشورہ وزیر اعلیٰ پنجاب کےلیے ہے جنہوں نے اس موضوع پر دو میٹنگز کا انعقاد کیا۔ہم یہاں پران کی توجہ پنجاب میں موجود مسائل کی طرف مبذول نہیں کرواتے کیونکہ وہ ان کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں۔لیکن یہاں یہ ضرور یاد دلائیں گے کہ جس اللہ پروہ اور ہم سب ایمان رکھتے ہیں وہ ہر انسان کے اندرونی محرکات سے بخوبی و اقف ہے۔(اللہ تعالیٰ ہر انسان کو روزقیامت اپنے بنائے قانون کے مطابق ہی جزا سزا دے گا۔ کسی ملاں کے خود ساختہ دعووں کے مطابق نہیں۔)
٭…جسٹس خان نے محمد خان بھٹی پر برہم ہوتے ہوئے کہا کہ کیا کیس کی سماعت ۲۰۵۰ءتک ملتوی کر دی جائے۔ جسٹس صاحب اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ اپنی عدالت میں کسی احمدی کو بلا لیں۔ وہ ضرور آپ کو ساری سچائی سے آگاہ کر دے گا او ر آپ کو فیصلہ کرنے میں بہت آسانی ہو جائے گی۔
٭…سپریم کورٹ کی درج ذیل رائے اس کیس سے تعلق رکھتی ہے۔
ریاستی معاملات میں ریاست کو کسی ایک شخص کی بات کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ (ڈیلی ڈان لاہور،۱۷؍دسمبر ۲۰۲۲ء)
ایئر یونیورسٹی کے نصاب میں رد قادیانیت کا باب
اسلام آباد، دسمبر ۲۰۲۲ء:احمدی پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں مخالفت کا سامنا کرتے ہیں۔گذشتہ چند سالوں میں شعبہ تعلیم میں مخالفت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔اس میں احمدی طلبہ کو سکول سے محض ان کے احمدی ہونےکی وجہ سے نکالنا، سکولوں اور کالجوں کے اندر ختم نبوت کی تعلیم، اور احمدی اساتذہ کے لیے مسائل پیدا کرنا شامل ہے۔ایئر یونیورسٹی کے سال ۲۱-۲۰۲۲ء کا اسلامیات اور اخلاقیات کے نصاب میں ایک باب’’نبیوں کی مہر:قادیانیوں کی آئینی حیثیت‘‘کے نام سے شامل ہے۔یہ باب جماعتی قیادت، جماعت کے خلاف فتاویٰ، اور دیگر جماعت مخالف مواد پر مبنی ہے۔یہ ایک نیم سرکاری یونیورسٹی ہے۔جو ۲۰۲۱-۲۰۲۲ء میں قائم کی گئی تھی۔یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ایئر چیف مارشل ظہیر بابر سندھو ہیںجو پاکستان ایئر فورس کے موجودہ چیف بھی ہیں۔اس کے علاوہ بورڈ میں سینیٹر ڈاکٹر زرقا محمود اور ڈاکٹر مختار احمد سابقہ چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن شامل ہیں۔
غیر مسلم طلبہ کو ’’دوسرے غیر مساوی ‘‘طلبہ شمار کیا جاتا ہے۔لیکن ان کو بھی یکساں طور پر غیر مساوی نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے اس بات کو سمجھنا ہمارے لیے مددگار ثابت ہو گا کہ مذہبی تفریق کرتے ہوئے باریک فرق جو مختلف گرہوں کے درمیان کیے جاتے ہیں، ان میں غیرمسلموں اور دوسری اقلیتوں میں سب سے زیادہ امتیازی سلوک اور سختی کا سامنا صرف احمدیوں کو ہی کرنا پڑتا ہے۔جیسا کہ ایئر یونیورسٹی کے نصاب سے ظاہر ہو رہا ہے۔