ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بابت حقوق نسواں
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’عورتوں کو ہمارے ملک میں کوئی تعلیم نہیں دیتا۔ مناظر قدرت میں ان کو جانے کی اجازت نہیں۔ میرے نزدیک یہ گندا طریق ہے۔ انسان اگر غور سے دیکھے اس قدر موقع تعلیم کا اس کو حاصل ہے ، عورتوں کو کہاں ہے۔ مگر بعض نادان چاہتے ہیں کہ ہمارے ہی جیسی عادات و عقل رکھنے والی عورتیں ہوں۔ بھلا بلا تعلیم کے کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ وہ اعضاء میں بہت نازک ہوتی ہیں۔ دماغ ان کا بہت چھوٹا ہوتا ہے اس لئے جو بہت نازک چیز ہوتی ہے اس کے محفوظ رکھنے کے لئے بھی رحمت کے علم اور دعا و احتیاط کی نہایت ضرورت ہے۔‘‘(خطبات نور صفحہ ۵۳۱)
’’وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (النساء:۲۰) تم عورتوں کے ساتھ مہربانی اور محبت کا برتاؤ کرو۔ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ (النساء:۲۰) اور اگر تمہیں ان کی کوئی بات ناپسند ہو تو تم ہماری سفارش کو مان لو اور یاد رکھو کہ ہم ہر ایک امر پر قادر ہیں۔ ہم تمہیں بہتر سے بہتربدلہ دیں گے۔ ‘‘ (حقائق الفرقان جلد۲صفحہ۱۳)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ جیسا کہ لباس میں سکون ، آرام ، گرمی سردی سے بچاؤ ، زینت ، قسما قسمی کے دکھ سے بچاؤ ہے ایسا ہی اس جوڑے میں ہے۔ جیسا کہ لباس میں پردہ پوشی ، ایسا ہی مردوں اور عورتوں کو چاہئے کہ اپنے جوڑے کی پردہ پوشی کیا کریں۔ اس کے حالات کو دوسروں پر ظاہر نہ کریں۔ اس کا نتیجہ رضائے الٰہی اور نیک اولاد ہے۔ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک چاہئے اور ان کے حقوق کو ادا کرنا چاہئے۔
اس زمانہ میں ایک بڑا عیب ہے کہ عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ مجھےایک شخص کے خط سے نہایت دکھ پہنچا۔ جس نے کہا کہ ’’ پنجاب، ہندوستان کے مرد توبڑے بے غیرت ہیں۔ عورت کی اصلاح کیا مشکل ہے۔ اگر موافق طبیعت نہ ہوئی تو گلا دبا دیا۔ میں تو آپ کا مرید ہوں۔ جو آپ فرماویں گے وہی کروں گا۔ مگر طریق اصلاح یہی ہے۔‘‘ یہ حال مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔ خدا رحم کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ تو عورتوں کو جنگوں میں بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اور اب لوگوں کا یہ حال ہے کہ عورتوں کو ساتھ نہیں رکھتے اور ایسے نکمے عذر کر دیتے ہیں کہ ہماری آمدنی کم ہے مگر جھوٹے ہیں۔ دراصل احکام الٰہی کی عزت اور منزلت ان کے دلوں میں نہیں۔ قرآن شریف کو نہیں پڑھا جاتا ہے۔ ایک دیوار کسی کی ٹوٹتی ہو تو ہزار فکر کرتا ہے۔ مگر قیامت کا پہاڑ جو ٹوٹنے والا ہے اس کا فکر کسی کو نہیں۔ قیامت میں نبی کریم ؐ کا بھی اظہار ہو گا کہ اس قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے اور نیکیوں کی توفیق دیوے۔ آمین ( بدر جلد ۸نمبر۳۳-۳۴۔۱۷؍ جون ۱۹۰۹ء صفحہ ۲، خطبات نور صفحہ۴۰۰)
’’ انسان کا نکاح اصل میں ایک نیا رشتہ ہوتا ہے۔ ایک اجنبی عورت سے تعلقات شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض ملکوں میں تو عورت کو مرد کا یا مرد کو عورت کا پتہ تک بھی نہیں ہوتا اور ان کاآپس میں نکاح شروع کر دیتے ہیں۔ عورتیں حقیقت میں فطرتاً ناقص العقل اور ناقص الدین ہوتی ہیں اور پھر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں تو عورتیں کچھ پڑھی لکھی بھی کم ہوتی ہیں۔ لوگوں کی غفلت ،سستی اور کاہلی کے سبب سے بہت ہی کم عورتیں تعلیم یافتہ ملیں گی۔ اور پھر بے پرواہی اور غفلت کے سبب سےعورتوں کی تعلیم میں بہت کم توجہ کی جاتی ہے اور ایسے ضروری کام میں بہت بے توجہی سے کام لیا جاتا ہے۔ مرد فطرتاً چاہتا ہے کہ میری بیوی میرے رنگ میں رنگین ہو جاوے اور ہر طرح سے میرے مذاق کے مطابق بن جاوے۔ اس لئے بعض وقت خفا ہو کر اور غصہ میں آکر طعن اور تشنیع دیتاہے۔ اتنا نہیں سوچتا کہ مجھے تو دنیا کے سرد و گرم کی واقفیت بڑے بڑے تجربہ کاروں کی صحبت کے اثر اور عمدہ عمدہ مجلسوں کی اعلیٰ اعلیٰ باتوں کے باعث ہے اور اس بیچاری کو اتنی خبر ہی کہاں ہے اور ایسا موقع ہی کب میسر آسکتا ہے۔ اور پھر عورت مرد کے تعلق کی آپس میں ایسی خطرناک ذمہ داری ہوتی ہے کہ بعض اوقات معمولی معمولی باتوں پر حسن و جمال کا خیال بھی نہیں رہتا اور عورتیں کسی نہ کسی نہج میں نا پسند ہو جاتی ہیں اور ان کے کسی فعل سے کراہت پیدا ہوتے ہوتے کچھ اور کا اور ہی بن جاتا ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّیَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا (النساء:20)
پس عزیزو ! تم دیکھو اگر تم کو اپنی بیوی کی کوئی بات ناپسند ہو تو تم اس کے ساتھ پھر بھی عمدہ سلوک ہی کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم اس میں عمدگی اور خوبی ڈال دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک بات حقیقت میں عمدہ ہو اور تم کو بری معلوم ہوتی ہو۔ ‘‘( خطبات نور صفحہ۲۵۵)