خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۲۳؍ ستمبر ۲۰۲۲ء
سوال نمبر۱ :حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کے عہدخلافت میں جزیہ کی وصولی کے حوالہ سے کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:اس کی مقدار صرف چار درہم فی کس سالانہ تھی اور یہ صرف بالغ، تندرست اور قابلِ کار افراد سے وصول کیا جاتا تھا۔بوڑھے،اپاہج، نادار، محتاج اور بچے اس سے بری تھے بلکہ معذوروں، محتاجوں کو اسلامی بیت المال سے مدد دی جاتی تھی۔ عراق اور شام کی فتوحات کے دوران میں متعدد قبائل اور آبادیاں جزیہ کی بنیاد پر اسلامی رعایا بن گئے۔ ان سے جو معاہدے ہوئے ان میں اس قسم کی شقیں بھی رکھی گئیں کہ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کیے جائیں گے اور نہ ان کا کوئی ایسا قلعہ گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلے میں قلعہ بند ہوتے ہوں۔ ناقوس بجانے کی ممانعت نہ ہو گی اور نہ تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے سے روکے جائیں گے۔حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں اہلِ حیرہ کے ساتھ حضرت خالد بن ولیدؓ نے جو معاہدہ صلح کیا تھا اس میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی عہد کیا گیا تھا کہ ایسا بوڑھا آدمی جو کام سے معذور ہو جائے یا اس پر کوئی مرض یا مصیبت آن پڑے یا جو پہلے مالدار ہو اور پھر ایسا غریب ہو جائے کہ اس کے ہم مذہب اسے خیرات دینے لگیں تو اس کے سر سے جزیہ ساقط کر دیا جائے گا یعنی ختم کر دیا جائے گا اور جب تک وہ دارالہجرت اور دارالاسلام میں رہے گا، جہاں اسلامی حکومت ہے وہاں رہے گا اس کے اور اس کے اہل و عیال کے مصارف مسلمانوں کے بیت المال سے پورے کیے جائیں گے۔البتہ اگر ایسے لوگ دارالہجرت اور دارالاسلام چھوڑ کر باہر چلے جائیں، دوسرے ملکوں میں چلے جائیں تو ان کے اہل و عیال کی کفالت مسلمانوں کے ذمہ نہیں ہو گی۔ایک روایت کے مطابق اہلِ حیرہ کے ساتھ حضرت خالد بن ولیدؓ کے معاہدہ میں درج تھا کہ محتاجوں، اپاہجوں اور تارک الدنیا راہبوں کو جزیہ معاف ہو گا۔
سوال نمبر۲: امام بغوی نے کتاب شرح السنہ میں جمع قرآن کی احادیث پر کیاحاشیہ تحریرفرمایا؟
جواب: فرمایا:امام بغوی اپنی کتاب شرح السنہ میں جمعِ قرآن کی احادیث پر حاشیہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس قرآن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ پر اتارا تھا اسے صحابہ کرامؓ نے من و عن بغیر کسی کمی بیشی کے مکمل جمع کر دیا تھا اور صحابہ کرام کا قرآن مجید کو جمع کرنے کا سبب حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ پہلے قرآن مجید کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلیٹوں، سلوں اور حفاظِ کرام کے سینوں میں بکھرا ہوا تھا۔ صحابہ کرام کو خدشہ ہوا کہ حفاظِ کرام کی شہادت سے قرآن مجید کا کچھ حصہ ضائع نہ ہو جائے اس لیے وہ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ کام سب صحابہ کرام کے اتفاق سے ہوا لہٰذا انہوں نے قرآن مجید کو بلا تقدیم و تاخیر جس طرح رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا ٹھیک ٹھیک اسی طرح مرتب کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کرام کو قرآن مجید سناتے تھے اور انہیں بالکل اسی ترتیب سے قرآن سکھاتے تھے جس طرح یہ اب ہمارے سامنے مصاحف میں موجود ہے۔ یہ ترتیب جبرئیل نے آپ ﷺ کو سکھائی تھی۔ وہ آپؐ کو ہر آیت کے نزول پر بتاتے تھے کہ اس آیت کو فلاں سورة میں فلاں آیت کے بعد لکھوائیے۔
سوال نمبر۳: حضرت مصلح موعودؓنے جمع قرآن کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعود ؓ جمع قرآن کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’جو بات اس وقت تک نہ ہوئی تھی وہ صرف یہ تھی کہ ایک جلد میں قرآن شریف جمع نہیں ہوا تھا۔ جب یہ پانچ سو قرآن کا حافظ اس لڑائی‘‘یعنی جنگِ یمامہ ’’میں مارا گیا۔ تو حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓکے پاس گئے اور انہیں جا کے کہا کہ ایک لڑائی میں پانچ سو حافظِ قرآن شہید ہوا ہے اور ابھی تو بہت سی لڑائیاں ہمارے سامنے ہیں۔ اگر اَور حفاظ بھی شہید ہو گئے تو لوگوں کو قرآنِ کریم کے متعلق شبہ پیدا ہو جائے گا اس لیے قرآن کو ایک جلد میں جمع کردینا چاہئے۔ حضرت ابوبکرؓنے پہلے تو اس بات سے انکار کیا لیکن آخر آپؓ کی بات مان لی۔حضرت ابوبکرؓنے زید بن ثابتؓ کو اِس کام کے لیے مقرر کیا جو رسول کریمﷺ کی زندگی میں قرآن کریم لکھا کرتے تھے اور کبار صحابہؓ ان کی مدد کے لیے مقرر کیے۔ گو ہزاروں صحابہؓ قرآن شریف کے حافظ تھے لیکن قرآن شریف کے لکھتے وقت ہزاروں صحابہ کو جمع کرنا تو ناممکن تھا اِس لیے حضرت ابوبکرؓنے حکم دے دیا کہ قرآنِ کریم کو تحریری نسخوں سے نقل کیا جائے اور ساتھ ہی یہ احتیاط کی جائے کہ کم سے کم دو حافظ قرآن کے اَور بھی اس کی تصدیق کرنے والے ہوں۔ چنانچہ متفرق چمڑوں اور ہڈیوں پر جو قرآنِ شریف لکھا ہوا تھا وہ ایک جگہ پر جمع کر دیا گیا اور قرآنِ شریف کے حافظوں نے اس کی تصدیق کی۔ اگر قرآنِ شریف کے متعلق کوئی شبہ ہو سکتا ہے تو محض رسول اللہ ﷺ کی وفات اور اس وقت کے درمیانی عرصہ کے متعلق ہو سکتا ہے مگر کیا کوئی عقلمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ جو کتاب روزانہ پڑھی جاتی تھی اور جو کتاب ہر رمضان میں اونچی آواز سے پڑھ کر دوسرے مسلمانوں کو حفاظ سناتے تھے اور جس ساری کی ساری کتاب کو ہزاروں آدمیوں نے شروع سے لے کرآخر تک حفظ کیا ہوا تھا اور جو کتاب گو ایک جلد میں اکٹھی نہیں کی گئی تھی لیکن بیسیوں صحابہؓ اس کو لکھا کرتے تھے اور ٹکڑوں کی صورت میں لکھی ہوئی وہ ساری کی ساری موجود تھی اسے ایک جلد میں جمع کرنے میں کسی کو دِقت محسوس ہو سکتی تھی۔ اور پھر کیاایسے شخص کو دقت ہو سکتی تھی جو خود رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں قرآن کی کتابت پر مقرر تھا اور اس کا حافظ تھا اور جب کہ قرآن روزانہ پڑھا جاتا تھا کیا یہ ہو سکتا تھا کہ اِس جلد میں کوئی غلطی ہو جاتی اور باقی حافظ اس کو پکڑ نہ لیتے۔ اگر اس قسم کی شہادت پر شبہ کیا جائے تو پھر تو دنیا میں کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔ حق یہ ہے کہ دنیا کی کوئی تحریر ایسے تواتر سے دنیا میں قائم نہیں جس تواتر سے قرآن شریف قائم ہے۔‘‘
سوال نمبر۴:اعتراض ’’رسول کریمﷺکے زمانہ میں قرآن پورانہ لکھاگیا‘‘حضرت مصلح موعودؓ نے کیاجواب بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست نہیں ہے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں یقیناً سارا قرآن لکھا گیاتھا۔ یہ جو کہتے ہیں نہیں لکھا گیا یہ غلط ہے۔ لکھا گیا تھا۔’’جیساکہ حضرت عثمانؓ کی روایت ہے کہ جب کوئی حصہ نازل ہوتا تو رسول کریمﷺ لکھنے والوں کو بلاتے اور فرماتے اسے فلاں جگہ داخل کرو۔ جب یہ تاریخی ثبوت موجود ہے تو پھر یہ کہنا کہ قرآن رسول کریم ﷺ کے وقت پورا نہ لکھا گیا تھا بے وقوفی ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر حضرت ابوبکرؓکے زمانہ میں کیوں لکھا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریمﷺ کے زمانہ میں قرآن اس طرح ایک جلد میں نہ تھا جس طرح اب ہے۔ حضرت عمرؓکو یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قرآن محفوظ نہیں۔ اس لیے انہوں نے اس بارے میں حضرت ابوبکرؓسے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ اِنِّی اَرٰی اَنْ تَاْمُرَ جَمْعَ الْقُرْاٰنِ۔ مَیں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کرنے کا حکم دیں۔ یہ نہیں کہا کہ آپ اس کی کتابت کرالیں۔ پھر حضرت ابوبکرؓنے زیدؓ کو بلا کر کہا کہ قرآن جمع کرو چنانچہ فرمایا اِجْمَعْہُ ۔اسے ایک جگہ جمع کر دو یہ نہیں کہا کہ اسے لکھ لو۔ غرض الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اس وقت قرآن کے اوراق کو ایک جلد میں اکٹھا کرنے کا سوال تھا لکھنے کا سوال نہ تھا۔‘‘
سوال نمبر۵: حضرت مسیح موعودؑ نے جمع قرآن کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:’’قرآن بلاشبہ وحی متلو ہے اور پورے کا پورا یہاں تک کہ نقطے اور حروف بھی قطعی متواتر ہیں اور اللہ نے اسے کمال اہتمام کے ساتھ فرشتوں کی حفاظت میں نازل فرمایا ہے۔ پھر اس کے بارے میں تمام قسم کے اہتمام کرنے میں نبی کریمﷺنے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا اور آپؐ نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک ایک آیت جیسے وہ (قرآن) نازل ہوتا رہا لکھنے پر مداومت فرمائی۔یہاں تک کہ آپ نے اسے مکمل طور پر جمع فرمایا اور بنفس نفیس آیات کو ترتیب دیا اور انہیں جمع کیا اور نماز میں اور نماز سے باہر اس کی تلاوت پر مداومت فرمائی۔ یہاں تک کہ آپ دنیا سے رحلت فرما گئے اور اپنے رفیقِ اعلیٰ اور محبوب رب العالمین سے جا ملے۔‘‘حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’پھر اس کے بعد خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس کی تمام سورتوں کو نبی کریم ﷺ سے سنی ہوئی ترتیب کے مطابق جمع کرنے کا اہتمام فرمایا۔ پھر (حضرت) ابوبکر صدیق ؓ کے بعد اللہ نے خلیفۂ ثالث (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) کو توفیق عطا فرمائی تو آپؓ نے لغتِ قریش کے مطابق قرآن کو ایک قراءت پر جمع کیا اور اسے تمام ملکوں میں پھیلا دیا۔‘‘
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صحیفہ صدیقی کی بابت کیابیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا:حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کے ذریعہ جس قرآن کریم کو ایک جلد میں مرتب کروایا اس کوصحیفۂ صدیقی کہا جاتا ہے۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکے پاس آپؓ کی وفات تک رہا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کے پاس آ گیا اور حضرت عمرؓ نے ام المومنین حضرت حفصہؓ کے سپرد کر دیا اور یہ ارشاد فرمایا کہ کسی شخص کو نہ دیاجائے۔ البتہ جس کو نقل کرنا یا اپنا نسخہ صحیح کرنا ہو وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔چنانچہ حضرت عثمانؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں حضرت حفصہؓ سے عاریتاً لے کر چند نسخے نقل کروائے اور وہ نسخہ حضرت حفصہ کو واپس لوٹا دیا۔ جب مروان مدینہ کا حاکم ہوا تو اس نے اس نسخہ کو حضرت حفصہؓ سے لینا چاہا لیکن حضرت حفصہؓ نے انکار کر دیا۔ حضرت حفصہؓ کے انتقال کے بعد مروان نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے لے کر اس کو ضائع کر دیا لیکن حضرت عثمانؓ اس کو پہلے محفوظ کروا چکے تھے۔
سوال نمبر۷:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اوّلیاتِ ابوبکرؓ کے حوالہ سے کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سب سے پہلے جو کام سرانجام دیے یا جو کارنامے سب سے پہلے ان کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں اوّلیاتِ ابوبکرؓ کا نام دیا گیا ہے۔ مختلف باتیں ہیں جو اُن کے کام تھے جو سب سے پہلے انہوں نے انجام دیے۔ آپؓ سب سے پہلے اسلام لائے۔دوسرے یہ کہ مکہ میں آپؓ نے اپنے گھر کے سامنے سب سے پہلے مسجد بنائی۔ پھر تیسرا یہ کہ مکہ میں رسول اکرم ﷺ کی حمایت میں سب سے پہلے قریش مکہ سے قتال کیا۔ چوتھا یہ کہ سب سے پہلے متعدّد غلاموں اور باندیوں کو جو اسلام لانے کی پاداش میں ظلم و ستم کا شکار تھے خرید کر آزاد کیا۔ پانچواں یہ کہ سب سے پہلے قرآن کریم کو ایک جلد میں جمع کیا۔ چھٹایہ کہ سب سے پہلے انہوں نے قرآن کا نام مُصْحَف رکھا۔ساتواں یہ کہ سب سے پہلے خلیفۂ راشد قرار پائے۔ آٹھواں یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سب سے پہلے امیر الحج مقرر ہوئے۔نواں یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سب سے پہلے نماز میں مسلمانوں کی امامت کی۔ دسواں یہ کہ اسلام میں سب سے پہلے بیت المال قائم کیا۔ گیارہ یہ کہ اسلام میں سب سے پہلے خلیفہ ہیں جن کا مسلمانوں نے وظیفہ مقرر کیا۔ بارھواں یہ کہ سب سے پہلے خلیفہ جنہوں نے اپنا جانشین نامزد کیا۔ حضرت عمرؓ کو آپ نے نامزد فرمایا تھا۔ تیرھواں یہ کہ وہ پہلے خلیفہ ہیں جن کی بیعتِ خلافت کے وقت ان کے والد حضرت ابوقحافہ زندہ تھے۔ چودھواں یہ کہ وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہیں اسلام میں کوئی لقب رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا۔ پندرھواں یہ کہ سب سے پہلے شخص جن کی چار پشتوں کو شرفِ صحابیت حاصل ہے۔ ان کے والد صحابی حضرت ابو قحافہؓ، حضرت ابوبکرؓخود صحابی، ان کے بیٹے حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ اور ان کے پوتے حضرت محمد بن عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ یہ سب صحابہ تھے۔
سوال نمبر۸: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت ابوبکرؓ کی رسول اللہﷺکےلیے غیرت کے حوالہ سے کیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ایک دن حضرت عائشہؓ گھر میں آنحضرتﷺ سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا یعنی حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے۔ یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لیے آگے بڑھے کہ تم خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو۔آنحضرتﷺ یہ دیکھتے ہی باپ بیٹی کے درمیان حائل ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ کی متوقع سزا سے حضرت عائشہؓ کو بچا لیا۔ جب حضرت ابوبکرؓچلے گئے تو رسول کریمﷺ نے حضرت عائشہؓ سے ازراہِ مذاق فرمایا۔ دیکھا! آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابوبکرؓ دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت عائشہؓ ہنسی خوشی باتیں کر رہی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے کہ دیکھو تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کر لو۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم نے شریک کیا۔