احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
ایک عجیب وغریب اعتراض
کہتے ہیں کہ ’’ دشمن بات کرے انہونی‘‘اور مامورین کی مخالفت کرنے والے سب سے زیادہ انہونی باتیں اور اعتراض کرنے والے ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس کی مخالفت میں اتنے اندھے ہوچکے ہوتے ہیں کہ علم وانصاف اور دیانت و تقویٰ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔منارہ سے چندسال قبل جب حضورعلیہ السلام نے جلسہ سالانہ کی بنیادرکھتے ہوئے مقررہ تاریخ پراحباب کواکٹھا ہونے کاارشاد فرمایاتو علمائےدین کہلانے والوں کی طرف سے ایسے اجتماع کوبدعت اور خلاف شریعت اسلام قراردیاگیا۔اب جب پوری طرح وضاحت کے ساتھ قرآن وحدیث کی روشنی میں منارہ کی تعمیرکی اہمیت کوبیان کیاگیاتواس پریہ اعتراض کردیاگیا کہ ایسی تعمیرتو اسراف اور فضول خرچی کے زمرے میں آتی ہے۔حالانکہ اس میں اصل تو نبی اکرمﷺ کے دہن مبارک سے نکلنے والے ان الفاظ کو پورا کرنا مقصدتھااور اس پیشگوئی کوپوراکرنے کے لیے تاریخ اسلام میں پہلے دومرتبہ کوشش کرتے ہوئے مینارتعمیربھی کیے گئے۔لیکن چونکہ وہ خدائی مشیت اور حکم الٰہی کے بغیر تعمیرہوئے تھے اس لیے جل کرخاک و راکھ ہوگئے۔ لیکن کم ازکم اس سے یہ تو ثابت ہواکہ اس پیشگوئی کے مطابق میناربنائے جانے کی ضرورت اور اہمیت امت مسلمہ میں مسلّم رہی ہے۔ بہرکیف یہ اعتراض چونکہ اسی وقت ہواتھالہٰذا اسی اشتہارمیں جوگذشتہ چند قسطوں میں درج کیاگیاہے حضورؑ نے اس کاکافی ووافی جواب دیتے ہوئے فرمایا:’’ اس ملک کے بعض نادان مولویوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ منارہ پر روپیہ خرچ کرنا اسراف ہے۔ اور پھر اس پر گھنٹہ رکھنا اور بھی اسراف۔لیکن ہمیں تعجب ہے کہ ایسی گستاخی کی باتیں زبان پر لانے والے پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا پیغمبرخدا ﷺ کی پیشگوئی پوری ہو جائے۔ اسی غرض کے لئے پہلے دو دفعہ منارہ دمشق کی شرقی طرف بنایا گیا تھا جو جل گیا۔ یہ اسی قسم کی غرض ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی کو کسریٰ کے مال غنیمت میں سے سونے کے کڑے پہنائے تھے تا ایک پیشگوئی پوری ہو جائے اور نمازیوں کی تائید اور وقت شناسی کے لئے منارہ پر گھنٹہ رکھنا ثواب کی بات ہے نہ گناہ۔اصل بات یہ ہے کہ یہ مولوی نہیں چاہتے کہ آنحضرت ﷺ کی کوئی پیشگوئی پوری ہو۔ اگر قادیاں کے منارہ پر راضی نہیں تو چاہیئے کہ دمشق میں جا کر منارہ بناویں۔ سنن ابن ماجہ کے صفحہ ۳۰۶ پر جو حافظ ابن کثیر کا حاشیہ منارة المسیح کے بارے میں ہے اس کو غور سے پڑھیں اور جہالتوں ضلالتوں سے توبہ کریں۔ ‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ ۳۱۶،حاشیہ)
حضرت اقدس علیہ السلام نے مندرجہ بالا اقتباس میں سنن ابن ماجہ کے جس حاشیہ کاذکرفرمایاہے وہ یہ ہے :
سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی بن مریم ویاجوج ماجوج کے تحت ایک طویل حدیث میں ہے :فَبَيْنَاهُمْ كَذٰلِكَ إِذْ بَعَثَ اللّٰهُ عِيسٰى ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَنْزِلُ عِنْدَ المَنَارَةِ الْبَيْضَاء، شَرْقِيَّ دِمَشْقَ، بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ، وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ اس کے حاشیہ میں لکھاہواہے:’’قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ كَثِيرٍ هَذَا هُوَ الْأَشْهَرُ فِي مَوْضِعِ نُزُولِهِ وَقَدْ جددت مَنَارَةٌ فِي زَمَانِنَا فِي سَنَةِ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ وَسَبْعِمِائَةٍ مِنْ حِجَارَةٍ بِيضٍ، وَلَعَلَّ هَذَا يَكُونُ مِنْ دَلائل النُّبُوَّةِ الظَّاهِرَةِ قلت: هُوَ مِنَ الدَّلَائِلِ النبوۃ بِلَا شک فانہ صلعم۔ أُوحِيَ إِلَيْهِ بِجَمِيعِ مَا يَحْدُثُ بَعْدَهُ مما لَمْ يَكُنْ فِي زَمَانه وَقَدْ رَوَيْتُ مَرَّةً ھذا الْحَدِيثَ الصَّحِيحَ وَهُوَ قَوْلُهُ: صلعم ’’إِنَّ اللّٰهَ تَعَالَى يَبْعَثُ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ أَمْرَ دِينِهَا‘‘ فَبَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ مَنْ لَا عِلْمَ عِنْدَهُ أَنَّهُ اسْتَنْكَرَ ذَلِكَ، وَقَالَ مَا كَانَ التَّارِيخُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ – (ﷺ )- حَتَّى علم جمیع ما یحدث بعدہ ولم یعلم انہ صلعم علق أُمُورًا كَثِيرَةً عَلَى مَا عَلِمَ أَنَّهُ يَحْدُثُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَوْجُودًا فِي زمنہ …… – ثم قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ كَثِيرٍ وَقَدْ وَرَدَ فِي بَعْضِ الْأَحَادِيثِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَنْزِلُ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَفِي رِوَايَةٍ بالاردن و فی روایۃ بِمُعَسْكَرِ الْمُسْلِمِينَ فاللّٰهُ أَعْلَمُ قلت: حَدِيثُ نُزُولِہ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ عِنْدَ الْمُصَنِّفِ وَهُوَ عندی أَرْجَحُ وَلَا يُنَافِي سَائِرُ الرِّوَايَاتِ؛ لِأَنَّ بَيْتَ الْمَقْدِسِ هُوَ شَرْقِيّ دِمَشْقَ وَهُوَ مُعَسْكَرُ الْمُسْلِمِينَ إِذْ ذَاكَ وَالْأُرْدُنُّ اسْمُ الْكُورَةِ كَمَا فِي الصِّحَاحِ وَبَيْتُ الْمَقْدِسِ دَاخِلٌ فِيهِ فَاتَّفَقَتِ الرِّوَايَاتُ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ الْآنَ مَنَارَةٌ بَيْضَاءُ فَلَا بُدَّ أَنْ تَحْدُثَ قَبْلَ نُزُولِهِ۔‘‘(سنن ابن ماجہ صفحہ۲۹۷شائع کردہ قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی)
الغرض نقشہ وغیرہ تیارہوا،جوکہ سیدعبدالرشیدصاحب نے تیارکیااوراینٹوں کے لیے زمین حضرت میاں امام الدین صاحب عرف ماٹا چنے فروش نے دی۔(الحکم ۱۴۲۱ جنوری ۱۹۴۰ء جلد ۴۳ نمبر ۱و۲صفحہ۱۴ کالم ۱)۱۹۰۱ء کے آخرتک اینٹیں وغیرہ بھی مناسب مقدارمیں تیار ہو چکی تھیں لیکن ملک میں طاعون وغیرہ کی شدت کی وجہ سے یہ کام معطل رہا۔(تاریخ احمدیت جلد۲ صفحہ ۱۱۷)
اور۱۹۰۳ء کی فروری کاکوئی دن ہوگا کہ حضرت میرناصرنواب صاحب ؓ کی نگرانی میں اس کی بنیادوں کے لیے کھدائی کاکام شروع ہوا۔ جیساکہ اخبارالبدرکی اس خبرسے معلوم ہوتاہے :’’الحمد للہ کہ مینارۃ المسیح الموعود کی تعمیر کی طیاری شروع ہو گئی ہے میر ناصر نواب صاحب کی زیر نگرانی اس کی عمارت کا انتظام ہو رہا ہے۔مسجد اقصیٰ میں کنویں کے مشرقی جانب جو میدان تھا وہاں اس کی بنیاد کھودی جارہی ہے۔‘‘(البدر ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء جلد ۲نمبر ۵صفحہ ۳۸کالم۳)
اور۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء جمعہ کے مبارک دن اس کاسنگ بنیادرکھاگیا۔الحکم میں اس مبارک واقعہ کی خبراس طرح دی گئی :
اخبارمیں منارۃ المسیح کے سکیچ (Sketch) کے ساتھ ایک شعر لکھاگیا؎
نظرآئے گی دنیاکوترے اسلام کی رفعت
مسیحا کا بنے گا جب یہاں مینار یااللہ
اورخبرکاعنوان تھا: منارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ رکھی گئی
’’اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آخرمنارۃ المسیح کابنیادی پتھر۱۳؍ذی الحجہ ۱۳۲۰ھ مطابق ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء بروز جمعہ رکھاگیا۔ بعدنمازجمعہ حضرت حجۃ اللہ المسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضورہمارے مکرم دوست حکیم فضل الٰہی صاحب لاہوری۔ مرزاخدابخش صاحب۔شیخ مولابخش صاحب۔ قاضی ضیاء الدین صاحب وغیرہ احباب نے عرض کی کہ حضورمنارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ حضورکے دست مبارک سے رکھی جاوے تو بہت ہی مناسب ہے۔فرمایاکہ ہمیں تو ابھی تک معلوم بھی نہیں کہ آج اس کی بنیادرکھی جاوے گی۔اب آپ ایک اینٹ لے آئیں میں اس پردعاکروں گا۔اور پھر جہاں میں کہوں وہاں آپ جاکررکھ دیں۔چنانچہ حکیم فضل الٰہی صاحب اینٹ لے آئے اعلیٰ حضرت نے اس کوران مبارک پررکھ لیا۔اور بڑی دیرتک آپ نے لمبی دعا کی۔معلوم نہیں کہ آپ نے کیسی کیسی اورکس کس جوش سے دعائیں اسلام کی عظمت و جلال کے اظہاراوراس کی روشنی کے کل اقطاع واقطار عالم میں پھیل جانے کی کی ہوں گی۔وہ وقت قبولیت کاوقت معلوم ہوتاتھا۔جمعہ کامبارک دن اور حضرت مسیح موعودؑ منارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ رکھنے سے پہلے اس کے لئے دلی جوش کے ساتھ دعائیں مانگ رہے ہیں۔یعنی دعاکے بعد آپ نے اس اینٹ پردم کیااورحکیم فضل الٰہی صاحب کودی کہ آپ اس کومنارۃ المسیح کے مغربی حصہ میں رکھ دیں۔حکیم صاحب موصوف اور دوسرے احباب اس مبارک اینٹ کولے کرجب مسجدکوچلےتوراستہ میں مولانامولوی عبدالکریم صاحب نمازجمعہ پڑھا کرواپس آرہے تھے۔مولوی صاحب کامعمول ہے کہ نمازجمعہ سے فارغ ہوکردیرتک مسجداقصیٰ میں بیٹھا کرتے ہیں کیونکہ بیرونجات کے احباب آپ کے گردجمع ہوجاتے اور ہفتہ کے حالات سناکرتے ہیں۔یابعض مسائل دریافت کرتے ہیں۔آج بھی اس معمول کے موافق آپ دیرسےآرہے تھے۔راستہ میں جب یہ حال آپ کومعلوم ہواتورقت سے آپ کادل بھرآیااوراس اینٹ کولے کراپنے سینہ سے لگایااوربڑی دیرتک انہوں نے دعاکی اور کہاکہ یہ آرزوہے کہ یہ فعل ملائکہ میں شہادت کے طورپررہے۔آخروہ اینٹ فضل الدین صاحب معماراحمدی کے ہاتھ سے منارۃ المسیح کی بنیادکے مغربی حصہ میں لگائی گئی…غرض اس عظیم الشان مینارکی بنیاد خداکے برگزیدہ ماموراورمسیح ومہدی علیہ السلام کے ہاتھ سے ۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء کورکھ دی گئی۔فی الحقیقت وہ لوگ بڑے ہی خوش قسمت اورمبارک ہوں گے جن کاروپیہ اس مبارک کام میں خرچ ہوگا۔‘‘(الحکم ۱۷؍مارچ ۱۹۰۳ء نمبر۱۰جلد۷ صفحہ۵،۴ کالم۳،۱)
ذرا ایک لمحہ
منارۃ المسیح کی تعمیروسنگ بنیادکی تفصیلات پرمبنی تاریخ اور خبروں کوغورسے پڑھا جائے تو اس میں ایک فقرے پرنظررک سی جاتی ہےاور دل ودماغ حیرت واستعجاب کی وادی میں کھو ساجاتاہے۔کہ اس فقرے کاکیامطلب ہوسکتاہے؟ ایساکیوں ہوااور کیاہوا؟ اوروہ فقرہ یہ ہے کہ جب۱۳؍مارچ کو بزرگان کا ایک وفد حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضرہواکہ آج مینارکاسنگ بنیادرکھاجارہاہے تواس پرجوحضورؑ نے فرمایا وہ بہت سارے سوال بھی پیداکرتاہے۔ابھی اوپر سنگ بنیادکے بارہ میں دی جانے والی خبرکا یہ حصہ ہم دوبارہ پڑھتے ہیں : ’’……بعدنمازجمعہ حضرت حجۃ اللہ المسیح الموعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضورہمارے مکرم دوست حکیم فضل الٰہی صاحب لاہوری۔مرزاخدابخش صاحب۔شیخ مولابخش صاحب۔قاضی ضیاء الدین صاحب وغیرہ احباب نے عرض کی کہ حضورمنارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ حضورکے دست مبارک سے رکھی جاوے تو بہت ہی مناسب ہے۔فرمایاکہ ہمیں تو ابھی تک معلوم بھی نہیں کہ آج اس کی بنیادرکھی جاوے گی۔اب آپ ایک اینٹ لے آئیں میں اس پردعاکروں گا۔‘‘
اب نہ جانے یہ انتظامیہ کاتساہل تھا،لاپروائی تھی کوئی بھول چوک تھی لیکن تھی عجیب سی بات ………
بہرحال منارہ کاسنگ بنیادرکھاگیا۔ بنیادکافی گہری اورلمبی بنیادکنکریٹ سے مضبوط کی گئی۔اور تعمیرشروع ہوئی اور ساڑھے چارہزارروپے کی لاگت سے کوئی چھ سات فٹ تک تعمیرہوئی ہوگی کہ ایک اور روک پیداہوگئی۔
(باقی آئندہ)