واقعہٴ سحر کی حقیقت
….آپؓ (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ )لکھتے ہیں کہ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی حقیقت کیا ہے جو صحیح بخاری تک میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی بیان ہوا ہے۔ سو اگر واقعہ کے سیاق و سباق اور یہودیوں اور منافقوں کے طور طریقوں کو مدّ نظر رکھ کر غور کیا جائے تو اس واقعہ کی حقیقت کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہتا۔ سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہیے کہ اس مزعومہ سحر کا واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا ہے۔ طبقات ابن سعد میں یہ لکھا ہے۔ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رؤیا کی بنا پر عمرہ کی غرض سے مکہ تشریف لے جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں تشریف لے گئے تھے مگر رستہ میں قریش کے روکنے کی وجہ سے بظاہر ناکام لوٹنا پڑا۔ یہ ظاہری ناکامی ایک ایسا بھاری صدمہ تھی کہ کافروں اور منافقوں نے تو مذاق اور طعن و تشنیع سے کام لینا ہی تھا لیکن بعض مخلص مسلمان حتٰی کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے بلند پایہ بزرگ بھی اس ظاہری ناکامی کی وجہ سے وقتی طور پر متزلزل ہو گئے تھے۔ بخاری میں یہ بھی لکھا ہے۔ حضرت عمرؓ کی یہ روایت بخاری کی حدیث ہے۔ اِن حالات کا کمزور طبیعت کے لوگوں کے ابتلا کے خوف کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت پر طبعاً کافی اثر تھا اور آپؐ کچھ عرصے تک بہت فکر مند رہے اور لازماً اس فکر کا اثر آپؐ کی صحت پر بھی پڑا اور آپؐ اس گھبراہٹ میں خدا کے حضور کثرت سے دعائیں بھی فرماتے تھے جیسا کہ حدیث کے الفاظ دَعَا وَ دَعَا وغیرہ میں اشارہ ہے تا کہ صلح حدیبیہ کے واقعہ کی وجہ سے اسلام کی ترقی میں کوئی وقتی روک پیدا نہ ہو۔ یہ اسی قسم کی دعا تھی جیسا کہ آپؐ نے بدر کے میدان میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کامیابی کا وعدہ ہونے کے باوجود دشمن کی ظاہری طاقت کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ اَللّٰھُمَّ اِنْ تَھْلِکَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ لَا تُعْبَدُ فِی الْاَرْضِ۔
ان وجوہات سے آپؐ کے اعصاب اور آپؐ کی قوت حافظہ پر کافی اثر پڑا ہوا تھا اور آپؐ کچھ عرصہ کے لیے مرض نسیان میں مبتلا ہو گئے تھے۔ (کچھ روایتوں میں تو دو چار دن ہی ہیں یا دو دن ہیں یا ایک دن اور ایک رات ہے لیکن بہرحال جو بھی جتنے بھی دن تھے۔ کچھ اثر پڑا جو ایک لازمہ ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کچھ دنوں کے لیے تھا اور یہ اس وجہ سے تھا جو آپؐ کو تفکرات تھے اور مسلمانوں کے ایمان میں کمزوری کی وجہ سے بھی آپؐ کو فکر تھی۔ ) یہ ایک لازمہ بشری ہے جس سے خدا کے نبی تک مستثنیٰ نہیں۔ جب یہودیوں اور منافقوں نے یہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آجکل بیمار ہیں اور ضعفِ اعصاب اور ضعفِ دماغ کی وجہ سے آپؐ کو نسیان کا مرض لاحق ہے تو انہوں نے حسب عادت فتنہ کی غرض سے یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ ہم نے نعوذ باللہ مسلمانوں کے نبی پر جادو کر دیا ہے اور یہ کہ آپؐ کا یہ نسیان وغیرہ (اسی جادو کا نتیجہ ہے) اسی سحر کا نتیجہ ہے۔ اور انہوں نے اپنے قدیم طریق کے مطابق ظاہری علامت کے طور پر ایک کنویں کے اندر کسی کنگھی میں بالوں کی گرہیں وغیرہ باندھ کر اسے بھی دبا دیا۔ جب ان کے اس مزعومہ سحر کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپؐ نے اس فتنہ کے سدّ ِباب کے لیے خدا کے حضور مزید دعا فرمائی (اور جیسا کہ حضرت عائشہؓ نے کہا ہے کہ اس خبر کے پہنچنے کے بعد پھر آپؐ نے ایک دن یا ایک رات بہت شدت سے دعا کی) اور اپنے آسمانی آقا سے استدعا کی کہ وہ اس فتنہ کے بانی مبانی کے نام اور اس کے مزعومہ سحر کے طریق سے آپؐ کو مطلع فرمائے تا آپؐ اس باطل سحر کا تار پود بکھیر سکیں۔ چنانچہ خدا نے آپؐ کی مضطربانہ دعاؤں کو سنا اور رؤیا کے ذریعہ سے آپؐ پر اصل حقیقت کھول دی۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍ مارچ ۲۰۱۹ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲ اور ۲۹؍ مارچ ۲۰۱۹ء)